پاکستان نے 1977 سے ای
ک طویل سفر طے کیا ہے۔ 2025 میں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ انسان انسان کو مار مار کر تھک چکا ہے، ہر طرح کے تعصب اور نفرت کے نام پر خون بہایا جا چکا ہے۔ لیکن دو ایسی حقیقتیں ہیں جنہیں کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا: ایک یہ کہ پاکستان کا نوجوان آج بھی روزگار کو ترس رہا ہے، اور دوسری یہ کہ پاکستان کے ہر باسی کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکل کر کسی نہ کسی تجوری میں جمع ہو رہا ہے۔
اب تو لوگ اس تجوری کو بھی پہچان گئے ہیں جہاں غریبوں کے خون پسینے کی کمائی جمع کی جاتی ہے، اور ان مگرمچھوں کو بھی پہچان گئے ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو سیاست کے میدان میں استعمال کرکے بے روزگاری کے اندھیروں میں دھکیل دیا اور پھر بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔اس بے رحمی کا مداوا آزانوں سے ممکن نہیں ہو پائے گا بلکہ عملی ادراک کے بغیر چارہ نہیں ۔ حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت آ چکا۔ بانگ سحر والے مرغ ناپید ہو چکے ۔ شیور مرغوں کی البتہ بہتات ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں