دنیا کی مختلف تہذیبوں میں ہاتھی کو ہمیشہ طاقت اور غلبے کی علامت سمجھا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کا قد و قامت اور جنگی قوت ہے۔ بائبل میں بھی ہاتھیوں کا ذکر ملتا ہے، خاص طور پر سلوکی سلطنت کی افواج کے ضمن میں جہاں وہ جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اسلامی تاریخ میں ہاتھیوں کا سب سے نمایاں ذکر سورۃ الفیل میں ملتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے نیست و نابود کر دیا۔ یمن کا حکمران ابرہہ خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے لیے ایک بڑے لشکر اور ہاتھیوں کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھا۔ قرآن نے بتایا کہ اللہ نے پرندوں کے جھنڈ بھیجے جو کنکریاں برساتے اور اس بڑے لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کر دیا۔ امام ابن کثیرؒ، امام طبریؒ اور دیگر مفسرین نے اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے اور اسے اللہ کی قدرت کی روشن دلیل قرار دیا ہے۔
آج کے دور میں اسرائیل کو بھی ایک بدمست ہاتھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ریاست اپنی عسکری طاقت، ٹیکنالوجی اور پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔ جدید دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم اور امریکی حمایت یافتہ ٹیکنالوجی کے باوجود عسکری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہر دفاعی نظام کی ایک حد ہوتی ہے اور زیادہ دیر تک مسلسل دباؤ کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ اسرائیل کا یہ پروپیگنڈہ کہ وہ خطے میں ناقابل شکست ہے، حقیقت میں ایک فریب ہے جسے وقت اور حالات بے نقاب کر رہے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جیسے قدیم دور میں ابابیلوں نے ہاتھیوں کو شکست دی تھی، آج کے دور میں پاکستان کا تیار کردہ "ابابیل میزائل" اسرائیل جیسے ہاتھی کے لیے جدید جواب کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ یہ میزائل بیک وقت کئی وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دشمن کے دفاعی نظام کو ناکام بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اگر یہ میزائل سعودی عرب میں نصب ہوتا ہے تو خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے اور اسرائیل کی برتری کا بھرم ٹوٹ سکتا ہے۔
جغرافیائی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کبھی قریب اور کبھی دور ہوتے رہے ہیں، لیکن خطے کے عوامی دباؤ اور بدلتے حالات یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ عرب دنیا اسرائیل کے ساتھ کھلے اتحاد کی طرف تیزی سے نہیں بڑھے گی۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کی عسکری ٹیکنالوجی خطے میں ایک نئے توازن کو جنم دے سکتی ہے۔ اسرائیل جس غرور اور تکبر کے ساتھ اپنی عسکری طاقت پر نازاں ہے، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس کا انجام بھی ان قوتوں کی طرح ہوگا جو اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتی تھیں لیکن اللہ کے فیصلے کے آگے ڈھیر ہو گئیں۔
یہ واقعات ہمیں سبق دیتے ہیں کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ ہے۔ جو طاقت اس حقیقت کو بھول کر ظلم اور غرور میں ڈوب جائے، وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ ابرہہ کا لشکر فنا ہوا، فرعون اور نمرود مٹ گئے اور آج اسرائیل بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس تاریخی تسلسل کو یاد رکھیں اور اللہ پر توکل کریں۔
اے اللہ! ہمیں اپنی تاریخ سے سبق لینے کی توفیق عطا فرما، ہمیں تکبر اور غرور سے محفوظ رکھ، امت مسلمہ کو اتحاد اور ہمت دے اور ہمیں یقین عطا فرما کہ مدد صرف تیری طرف سے ہے اور فتح قریب ہے۔ آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں