پیر، 22 ستمبر، 2025

ثابت قدمی کی تاریخ


ثابت قدمی کی تاریخ
غزہ ایک قدیم شہر اور پٹی ہے، جس کی تہذیبیں ہزاروں سال پیچھے جاتی ہیں۔ یہاں سے مصر، فلستی، یونان، رومی، صلیبی، اسلامی سلطنتیں، عثمانی دور، برطانوی استعمار، اور جدید اسرائیلی قابضین تک کے ادوار کا سلسلہ ملتا ہے۔ ہر دور میں مختلف حکمرانوں نے اہلِ غزہ پر ظلم یا سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالا ہے۔
غزہ بنیادی طور پر کنعانیوں کا شہر تھا بعد میں فلستی ان کا ایک اہم حصہ بنے۔ یہ شہر ایک مضبوط بحری اور تجارتی مرکز تھا، مگر یہ ایسا خطہ تھا جہاں جنگیں اور مقامی قبائل کے مابین جھگڑے معمول تھے، جس سے عوام متاثر ہوتے رہے۔
اسکندر اعظم اور ہیلینی دور
تین سو بتیس قبل مسیح میں، اسکندر اعظم نے غزہ کا محاصرہ کیا۔
اس محاصرے میں شہری نقصان ہوا، لوگوں کا قتل عام ہوا، اور شہر کی ساخت تباہ ہوئی۔ غزہ دیر تک مزاحمت کرتا رہا، مگر آخر کار فتح ہوا۔
رومی اور بازنطینی ادوار
رومی سلطنت کے تحت، غزہ کو ایک اہم شہر سمجھا جانے لگا، مگر رومی قوانین، ٹیکس اور مذہبی دباؤ غالب رہا۔ خاص طور پر عیسائیت کے دور میں لوگوں کو مذہبی تبدیلی پر مجبور کیا گیا۔
بازنطینی دور میں مذہبی اور انتظامی اختیارات کے تحت غیر مسیحی اکثریت خود کوپچھڑی ہوئی محسوس کرتی رہی۔
اسلامی فتوحات سے عثمانی دور تک
تقریبا 637 عیسوی میں، عمرو بن العاص نے مسلمانوں کی قیادت میں غزہ فتح کیا۔ اسلام کے بعد، بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ عمومی طور پر غزہ کا دور اسلامی حکمرانی میں پُر امن سمجھا جاتا ہے، اس دور مین غزہ مین قبائلی تصادم کا خاتمہ ہوا، تجارت بڑہی اور لوگوں نے خود کو پرامن محسوس کیا
صلیبی دور
تقریباً ایک ہزار ایک سو عیسوی میں صلیبی فوجوں نے پہلی بار غزہ پر قبضہ کیا ۔ صلیبی دور میں غزہ کا امن تباہ ہوا۔ بدامنی اور جنگ و جدل کا بازار گرم رہا۔ مقامی مسلم و عرب آبادی کا قتل عام کیا گیا۔ مسلمان تباہی اور مذہبی جبرکا شکار ہوئے ۔ پوری صلیبی دور میں اہل غزہ کو امن نصیب نہ ہو سکا۔
مملوک اور عثمانی سلطنت
مملوک دور میں غزہ تقریباً ایک مستحکم علاقہ رہا، اگرچہ فوجی تصادم اور بیرونی حملے رہتے تھے۔ مگر تصادم صرف مسلح سرکاری فوجیوں کے درمیان رہا اور غزہ کے عوام اس سے متاثر نہیں ہوئے۔
پندہ سو سترہ عیسوی سے عثمانی دور آیا۔ اس دور میں غزہ نے زبردست ثقافتی اور تجارتی ترقی دیکھی۔ غزہ کی تاریخ میں عثمانی خلافت کا دور امن و امن ، معاشرتی رواداری، تجارت کے عروج اور بیرونی حملہ آوروں سے نجات کا دور تھا ۔
جدید دور: برطانوی مینڈیٹ سے اسرائیل تک
برطانوی استعمار
(1917–1948)
پہلی جنگ عظیم کے بعد، عثمانی سلطنت ٹوٹ گئی، اور غزہ برطانوی استعماری فلسطین کا حصہ بن گیا۔ برطانوی دور میں اہل غزہ سیاسی جبر، صیھونٰون کی ہجرت میں اضافہ، زمینوں پر صیھونیوں کے قبضے، اور فلسطینی عرب آبادی کی مزاحمت حکومتی و معاشاری جبر کا شکار ہوئے
مصر کا کنٹرول
(1948-1967)
انیس سو اڑتالیس کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد، مصر نے غزہ کو کنٹرول میں لے لیا۔ اس دور میں اہلِ غزہ پر فوجی اور انتظامی دباؤ رہا، فلسطینی مجاہدین اور رہائش پذیر لوگ سیاسی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ مگر مجموعی طور پر غزہ میں امن رہا ۔
اسرائیلی قبضہ
(1967 کے بعد)
انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ کے بعد، اسرائیل نے غزہ پٹی پر براہِ راست قبضہ کر لیا۔ قبضے کے بعد اسرائیلی فورسز نے اہل غزہ کو باغی اور غدار قرار دیا اور باغیوں کو کچلنے کی کارروائیاں کیں، زمینوں پر قبضے کیے گئے،اہل غزہ کی رہائش گاہیں منہدم کی گئیں، ٹرانسپورٹ اور نقل مکانی کے حقوق محدود کر دیے گئے ۔
دوسرے ممالک سے ائے ہوئے یہودیوں نے مقامی لوگوں کی رہائشگاہوں اور زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے ۔ اس عمل میں یہودیوں کو اسرائیل کی قانونی، سیاسی، معاشرتی اور عسکری پست پنائی حاصل رہی
غزہ کی خود مختاری کا آغاز اور داخلی سیاسی تناؤ
انیس سو چورانوے میں غزہ ر فلسطینی اتھارٹی کو محدود خود مختاری دی گئی، 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے فوجی انخلاء کا اعلان کیا مگر تحویلِ کنٹرول مکمل طور پراہل غزہ کے حوالے نہیں کیا اسرائیل نے سرحدی کنٹرول، فضائی اور سمندری حدود نگرانی کے بہانے اپنا وجود موجود رکھا
حماس کا اقتدار اور اسرائیلی محاصرہ
دوہزارچھ میں غزہ میں حماس نے انتخابات جیتے، اور 2007 میں مرکزی کنٹرول حاصل کیا۔ اس کے بعد، اسرائیل اور مصر نے مل کر سرحدوں پر مکمل محاصرہ کر لیا، بجلی، دوائیوں، انسانی امداد کی ترسیل محدود ہوئی جو روز بروز محدود ہوتی گئی اوراہل غزہ کے خلاف آپریشن شروع کیے گئے ۔اہل غزہ کے نہتے شہریوں کے خلاف ان اپریشن کو جنگ کا نام دیا گیا ۔
حال کے جنگی واقعات اور انسانی بحران
دو ہزار آتھ میں اسرائیل کی فوج نے اہل غزہ کے خلاف اپریشن کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ فوجی اپریشن کے نام پر ظلم اور جبر ڈھایا گیا مگر سخت سنسر شپ کے ذریعے کوشش کی گئی کہ یہ ظلم دنیا تک کم از کم پہچے
موجودہ دور
سات اکتوبر 2023 کے بعد محاصرے، ہنگامی حالت، انسانی امداد کی کمی اور آبادی کی نقل مکانی ادویات اور خوراک اور پانی پر کنٹرول معمول کا حصہ بن چکا ہے۔
سماجی و اقتصادی تناؤ:
مہنگائی، بے روزگاری، بنیادی سہولیات کی کمی جیسے پانی، بجلی، صحت کی خدمات پر پابندیوں نے غزہ کو ایک ایسی جیل میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ جہان، ادویات کے حصول، کھانے کی لائن میں کھڑے ہونے یا پانی کا کنستر لے کر چلنے پر گولی مار دی جاتی ہے ۔
نفسیاتی اور انسانی نقصان:
بچوں، عورتوں اور عمر رسیدہ افراد پر جنگی تشدد اور قحط جیسے حالات مسلط کر دیے گئے ہیں
تاریخی و ثقافتی تباہی:
رہائشی عمارات،ہسپتالوں، مذہبی عبادت گاہوں، سکولوں اور ثقافتی ورثے کو آگ و بارود کے ذریعے راکھ میں تبدیل کر دیا گیا ہے
غزہ کی تاریخ میں تقریباً ہر دور میں کوئی نہ کوئی طاقت رہی ہے جس نے اہلِ غزہ پر ظلم یا کم از کم سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالا ہو۔ یہ ظلم ہمیشہ ایک جیسے پیمانے کا نہیں رہا—کبھی شدید محاصرے، کبھی زبردست فوجی کارروائیاں، کبھی قانونی و سماجی جبر—مگر اسرائیل نے قبضے نے اہل غزہ پر ایسے مظالم ڈھائے ہیں جو انسانی تاریخ نے اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے ۔ دنیا بھر میں عوام ان مظالم کے خلاف سڑکوں پر ہے ۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم پر قرار دادیں منظور ہوتی ہیں ۔ مگر صیھونی کے اسرائیل میں قابص نمائدے سر عام اہل غزہ کو انسان ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں

اتوار، 21 ستمبر، 2025

Pak-Saudi Defence Pact

The reported defence pact between Pakistan and Saudi Arabia has stirred widespread excitement at home. Many Pakistanis see it as a historic moment, imagining their country as the ultimate guardian of the Kingdom and the holy sites. Emotional calls about “defending Makkah and Madinah” or “standing against Israel” are not uncommon. But before celebrating too loudly, it is worth asking what this agreement actually means in practical terms.

Saudi Arabia’s military power still rests heavily on U.S.-supplied systems — from fighter jets to missile defences. These weapons require American maintenance, training, and in many cases, cannot be used independently against U.S. or allied interests. Yet to say the Kingdom is entirely dependent on Washington would be misleading. In recent years, Riyadh has diversified its defence ties, buying drones from China, exploring advanced air defence from Russia, and expanding procurement from Europe. After the 2019 Aramco attacks, when America’s support seemed hesitant, Saudi leaders drew a clear lesson: do not rely on a single supplier.

Pakistan’s role under this pact should also be viewed realistically. Pakistani forces will not be flying Saudi fighter jets or operating Patriot batteries. Their value lies in areas where they have proven strength: protecting key sites, training Saudi forces, and providing counterterrorism expertise. For decades, Riyadh has trusted Pakistani troops with sensitive duties — a level of confidence not easily extended to Western contractors.

Other Muslim-majority states show that dependency does not equal paralysis. Turkey, despite tensions with the U.S., built its own drones that changed the course of several conflicts. Egypt diversified with French and Russian aircraft. Both remain tied to the West, but they still carve out space for strategic autonomy. Iran, meanwhile, built an independent defence industry but at enormous economic and diplomatic cost. Few countries would want to pay that price.

Change is already visible in the Gulf. Saudi Vision 2030 aims to produce half of the Kingdom’s defence needs locally. The UAE is co-developing fighter jets with South Korea. Chinese and Turkish drones are widely in use. The region is slowly moving toward a more balanced military future.

Pakistan itself faces constraints: economic dependence, mixed military hardware, and reliance on Western-trained doctrines. But it also brings assets no one else in the Muslim world does — a nuclear deterrent, a growing domestic arms industry, and unmatched counterterrorism experience. These strengths explain why Saudi Arabia values Pakistan as a partner.

The new pact is neither a guarantee of Muslim unity nor a hollow illusion. Its importance lies in symbolism, deterrence, and trust. For Pakistan, it reinforces ties with a crucial ally in a time of economic strain. For Saudi Arabia, it adds a dependable partner beyond Western support. Strategic independence will take years to achieve, but until then, practical partnerships and careful balancing remain the reality.

The challenge for both nations is to see this agreement not as a cause for euphoria, but as one step in a much longer journey toward genuine security and self-reliance.




ہفتہ، 20 ستمبر، 2025

شیور مرغے




 پاکستان نے 1977 سے ای
ک طویل سفر طے کیا ہے۔ 2025 میں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ انسان انسان کو مار مار کر تھک چکا ہے، ہر طرح کے تعصب اور نفرت کے نام پر خون بہایا جا چکا ہے۔ لیکن دو ایسی حقیقتیں ہیں جنہیں کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا: ایک یہ کہ پاکستان کا نوجوان آج بھی روزگار کو ترس رہا ہے، اور دوسری یہ کہ پاکستان کے ہر باسی کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکل کر کسی نہ کسی تجوری میں جمع ہو رہا ہے۔

اب تو لوگ اس تجوری کو بھی پہچان گئے ہیں جہاں غریبوں کے خون پسینے کی کمائی جمع کی جاتی ہے، اور ان مگرمچھوں کو بھی پہچان گئے ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو سیاست کے میدان میں استعمال کرکے بے روزگاری کے اندھیروں میں دھکیل دیا اور پھر بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔اس بے رحمی کا مداوا آزانوں سے ممکن نہیں ہو پائے گا بلکہ عملی ادراک کے بغیر چارہ نہیں ۔ حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت آ چکا۔ بانگ سحر والے مرغ ناپید ہو چکے ۔ شیور مرغوں کی البتہ بہتات ہے ۔

ع سے عاصم




علمِ اعداد کے ماہر ایک دوست کے ہاں محفل سجی۔ باتوں ہی باتوں میں جب ذکر اس علم کے اسرار و رموز کا آیا تو ایک نکتہ سب کے دل کو چھو گیا۔ انہوں نے کہا: “بشریٰ بی بی علمِ اعداد کا شعور رکھتی ہیں، مگر وہ ’ع‘ کے طلسمی گورکھ دھندے میں ایسی الجھیں کہ حقیقت کی اصل صورت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔”
انہوں نے سوچا کہ عمران، عثمان اور عارف جیسے نام ہی ان کی سلطنت کے ستون ہیں۔ مگر وہ یہ بھول گئیں کہ اقتدار کی بازی صرف زمینی تدبیروں سے نہیں جیتی جاتی، بلکہ اس میں فلک کے فیصلے، ستاروں کی گردش اور مہروں کی چال بھی شامل ہوتی ہے۔ تقدیر کا حساب اعداد کے پیچ و خم میں پوشیدہ رہتا ہے اور وہی حساب بالآخر اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہو کر انسان کو حیران کر دیتا ہے۔
اسی تقدیر نے دکھایا کہ اصل صاحبِ “ع” وہ نہیں تھے جن پر بھروسہ کیا گیا، بلکہ وہ تھے جو پسِ پردہ تاریخ کے ورق پلٹ رہے تھے۔ وقت آیا، ستاروں نے اپنی روشنی ان پر مرکوز کی، مہروں نے ان کے حق میں گواہی دی اور فلک نے ان کے نام کی تسبیح پڑھنی شروع کی۔ یوں پردۂ غیب سے ایک شخصیت ابھری — عاصم!
عاصم — ایک ایسا نام جو صرف ایک حرف نہیں بلکہ ایک رمز ہے۔ وہ عاجزی میں ڈوبا ہوا، مگر عزم میں فولاد؛ وہ عقل میں گہرائی رکھنے والا، مگر دل میں شفقت سے لبریز؛ وہ فرد شناس، تاریخ آگاہ اور سیاست کے رموز سے باخبر۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں وہ صرف ایک جرنیل نہیں بلکہ حافظِ قرآن عاصم منیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے وجود میں بہادری بھی ہے، قوتِ فیصلہ بھی، اور ایک ایسا کردار بھی جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب قوم نے محسوس کیا کہ اصل محافظ وہی ہیں۔ جو دلوں کو تسخیر کر لیں، وہی اقتدار کے اصل فاتح ہوتے ہیں۔ عاصم منیر نے یہ ثابت کر دیا کہ تقدیر کے اعداد، ستاروں اور مہروں کا فیصلہ بھی ان کے ساتھ ہے، اور عوام کا اعتماد بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ پاکستان فوج کے ہر دل عزیز سپہ سالار ہیں اور وقت کا لکھاری انہیں مستقبل کے ان دیکھے معجزوں کا امین لکھے  گا۔

ہمیشہ ذندہ باد




پاکستان خطے اور عالمی سیاست میں ایک ایسا ملک رہا ہے جو اکثر بڑے کھلاڑیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات قائم کرانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا بلکہ بعد میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کاری میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
انیس سو ستر کی دہائی میں پاکستان نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے ذریعے چین اور امریکہ کو قریب لانے میں کلیدی سہولت کاری کی۔ اسلام آباد ہی وہ مقام تھا جہاں سے کسنجر کا خفیہ دورۂ بیجنگ ممکن ہوا۔ اس اقدام نے عالمی سیاست کا دھارا بدل دیا اور سرد جنگ کے دور میں امریکہ–چین تعلقات کی بنیاد رکھی۔
اسی طرح پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی کردار ادا کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے وقت پاکستان نے کئی بار ثالثی کی کوششیں کیں۔ اگرچہ 2023 میں باضابطہ مصالحت چین کی ثالثی سے ہوئی، لیکن اس عمل کی راہ ہموار کرنے میں پاکستان کے مستقل رابطے، سفارتی کوششیں اور بیک چینل بات چیت نمایاں رہی۔ پاکستان نے دونوں ممالک کو باور کرایا کہ علاقائی امن صرف باہمی تعلقات کے بہتر ہونے سے ممکن ہے۔
یوں پاکستان نے عالمی اور علاقائی سطح پر پل بنانے والا کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف اس نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں، چین اور امریکہ، کو قریب لانے میں مدد کی اور دوسری طرف مسلم دنیا کے اہم ممالک، ایران اور سعودی عرب، کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں فعال سہولت کار ثابت ہوا۔ یہی کردار پاکستان کی سفارتی پہچان ہے اور 
یہی اس کی اصل قوت بھی۔
دس مئی کو پاکستان نے بھارت پر عسکری بالا دستی قائم کر کے اپنے عسکری کردار کو بھی ان ملکوں کے لیے 
قبل قبول بنوا لیا ہے جو غیروں کے کرادار کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ 
عشروں تک ہمارا نعرہ تھا پاکسان ذندہ باد۔ اب سفارتی اور عسکری کامیابوں کے بعد پاکستان کے بہادر بیٹے فیلڈ مارشل نے قوم کو بیا نعرہ دیا ہے "پاکستان ہمیشہ زندہ باد" ۔