بدھ، 6 مارچ، 2019

پہلی اور آخری جنگ


دنیا کی پہلی جنگ میں  چوتھائی آبادی تباہ ہو گئی تھی۔ اس تباہی پر پوری دنیا غم میں ڈوب گئی۔ انسانیت اپنے خالق کے سامنے شرمندگی سے جھکی ۔ مارنے والے بھی اپنے عمل پر شرمندہ ہی تھے وہ وقتی اشتعال تھاجو پچھتاوہ بن گیا۔ ظلم کرنے کے بعد ظالم پچھتانے لگے، معافی مانگے ، اپنے ظالم ہونے کا اعتراف کرے ، منصف کی دی سزا قبول کرنے کا عندیہ ظاہر کرے تو منصف بھی مہربان ہو جایا کرتا ہے۔ اس بار منصف خود انسان کا خالق تھا۔ جس نے انسان کو بناتے ہوئے فرشتوں کے اس قول کو پسند نہیں کیا تھا کہ یہ خود اپنے ہی بھائیوں کا خون بہائیں گے۔ مگر بھائی نے بھائی کا خون بہا دیا تھا۔ قابیل ہابیل کو قتل کر کے دنیا پر پہلی جنگ برپا کر چکا تھا۔ اس وقت ایٹم بم تو موجود نہیں تھا مگر چار لوگوں کی بستی میں ایک جنگ کی نذر ہو چکا تھا۔یہ پچھتاوہ پورے ایک سو تیس برس تک رہا ۔ خالق نے شیت عطا کر کے ابو البشرکی دلجوئی کی۔اللہ نے قابیل سے بدلہ لیا نہ آدم ہی نے اپنے لاڈلے بیٹے ہابیل کے مار ڈالنے پر قابیل کی موت مانگی ۔ ہابیل کی ماں نے بھی بدلے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔

انسانیت کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں غلط عمل صرف دو ہیں ۔ ایک دنیا پیدا کرنے والے خالق کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا لینا ، حضرت لقمان کے بارے میں خدا کا فرمان ہے کہ ہم نے اسے حکمت عطا کی تھی ۔ اس حکیم شخص نے اپنی اولاد کو نصیحت کی تھی ْ بیٹا خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا ، شرک سب سے بڑا ظلم ہےْ ۔ حضرت ابراہیم و یعقوب کی اپنی اولادوں کو اسی طرح کی نصیحت کتابوں میں مذکور ہے ۔خدا نے اٹھارہ عظیم و برگزیدہ اشخاص کا ذکر کے بتایا کہ اگر یہ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال برباد ہو جاتے۔ 

دوسرا غلط عمل بے انصافی ہے۔یہ ایسا کریہہ عمل ہے جو بغاوت، انتقام، حسد اور بد امنی کو جنم دیتا ہے ۔ آج کے دور میں موجود ہشت گردی کا منبع بھی بے انصافی ہی ہے۔ ہر معاشرہ اور ملک اپنے عوام کو انصاف مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ملک ، معاشرے، خاندان اور افراد کی زندگی میں امن رہے۔ انسان حکمت کے اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں انصاف کی اہمیت کا اسے ادراک ہو چکا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ہر ملک میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی عدالتیں فعال ہیں۔

عدالت کسی قصبے کی ہو، بڑے شہر کی یا پوری دنیا کے معاملات پر فیصلے کرنے والی۔ اس میں یہ تو ممکن ہے کہ سو فی صد انصاف مہیا نہ ہو سکے ۔ کیونکہ منصف فیصلہ اپنے دماغ سے کرتے ہیں اور ہر انسان کے دماغ کی سوچ کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ اس امر کا اندازہ ایک تاریخی واقعے سے ہوتا ہے ۔ حضرت داود کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا۔ دعویٰ دار ایک کھیت کا مالک تھا۔ اس کے کھیت میں رات کے وقت بکریاں داخل ہوئیں اور کھیت کی ساری فصل برباد کر دی۔ منصف نے کھیت میں ہونے والے نقصان کا مالی اندازہ لگوایا۔ یہ مالیت بکریوں کی مجموعی مالیت کے برابر تھی۔ حضرت داود نے بکریوں کے مالک کو حکم دیا کہ وہ کھیت والے کے نقصان کے بدلے اپنی بکریاں کھیت کے مالک کے حوالے کر دے۔ اس فیصلے پر ایک دوسرے منصف حضرت سلیمان نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا حکم کیوں نہیں دیتے جو انصاف کے قریب تر ہو ۔ اور بتایا کہ بکریاں کھیت والے کے حوالے کر دی جائیں وہ بکریوں کے دودھ اور اون سے مستفید ہو مگر بکریاں اس کی ملکیت میں نہ جائیں۔ بکریوں کا مالک اس دوران کھیتی میں زراعت کرے ، زراعت کو سیراب کرے اور جب زراعت اس نوبت تک پہنچ جائے ، جس نوبت پر بکریوں نے اسے تباہ کیا تھا۔ تو بکریوں والا کھیت کی زراعت حوالے کر کے اپنی بکریاں واپس لے لے۔یہ فیصلہ پہلے فیصلے کی نسبت انصاف کے قریب تر تھا۔ دونوں منصف اس فیصلے پر متفق ہو گئے۔

عدالتوں میں مقدمہ پیش کرنا اور اس پر اپنے مدلل کلام کے ذریعے اثر انداز ہونے کا ذکر سیرت کی کتابوں میں بھی درج ہے۔ مگر بنیادی بات یہ ہے کہ جب کوئی مقدمہ عدالت میں پیش ہو اس پر کسی فریق کو یہ شکائت پیدا ہونا تو ممکن ہے کہ اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں کیا گیا مگر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کہ مظلوم کی شکائت سنی ہی نہ جائے اور اس کو انصاف مہیا کرنے ہی سے انکار کر دیا جائے۔سابقہ وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب کے پنامہ کیس کے بارے میں کچھ لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ سو فی صد انصاف نہیں کیا گیا مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عدالت نے ان کے مقدمے کو سنا ہی نہیں ہے۔ ۱۹۶۹ میں اسلامی ممالک کی تنطیم کے قیام کے بعد جب مسٗلہ فلسطین کو اقوام عالم کی عدالت میں لایا گیاتو اس فیصلے پر اکثر مسلمانوں کو اعتراض ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اقوام عالم نے مسٰلے کو سنا۔ اس پر غور کیا اور ایک قرار داد منظور کی۔ یہ گلہ کسی کو بھی نہیں ہے کہ بات سنی نہیں جاتی یا انصاف نہیں کیا جاتا مگر انصاف کے معیار پر تنقید کی جاتی ہے۔ کم معیار کا انصاف بھی گلے شکوے دور کرنے میں مددگار ہی ہوتا ہے۔ اعلی معیار کا انصاف اعلی معیار کا امن قائم کرنے کا سبب بنتا ہے۔

جب پاکستان کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ سیاسی طور پر زندگی اور موت جیسے حالات تھے قائد اعظم نے اپنا مقدمہ اس مدلل انداز سے پیش کیا کہ گاندہی اور نہرو ہی نہیں لارد مونٹ بیٹن سے لے کر برطانوی وزیر اعظم تک ان کے دلائل کو رد نہ کر سکے اور پرامن طور پر ایک نئی مملکت معرض وجود میںآ گئی۔ مگر وجود میں آنے کے اعلان کے ساتھ ہی ایسی قتل و غارت شروع ہوئی جس کو قائداعظم اور  
مہاتما گاندہی بھی بند نہ کراسکے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا مقدمہ کئی دہائیوں تک لڑا گیا مگر قائد اعظم نے پاکستان بنا کر یہ سبق بھی دیا کہ سچے مقدمے کو لڑنے کے لیے بھی قابلیت اور سلیقہ اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ 
بر صغیر میں ۱۹۴۷ میں انسانی خون سے جو رنگین ہولی کھیلی گئی۔ شیطانی اور انسانیت دشمن قوتیں وقفے وقفے سے اس عمل کو دہراتی رہی ہیں۔ ہندو اورمسلم کش فسادات کے بعد یہ کام پاک و ہند کے مابین جنگوں کی صورت میں جاری ہے۔۱۹۴۸ کی جنگ میں کشمیر کا کچھ حصہ کھو جانے کے بعد ۵۶ میں پورے کشمیر کو چھین لینے کے لیے ۵۶ کا معرکہ برپا ہوا۔ اکہتر میں بتایا گیا یہ ۵۶ کی جنگ کا بدلہ ہے۔ بلوچستان کی بد امنی کا ڈانڈےخالصتان سے جا ملتے ہیں۔ کارگل کے بدلے سرجیکل سٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔سرجیکل سٹرائیک کا بدلہ پلوامہ کہا گیا۔ پلوامہ کا بدلہ دو جہاز گرا کر اور ایک ہوا باز کو قیدی بنا کر لیا گیا ۔ بدلہ لینا انسان کی جبلت میں شامل ہے مگر اللہ اور اس کے بندوں سے رحمت العالمیں کا لقب پانے والے نبی نےبدلہ کی بجائے قصاص کو رواج دے کرانسانیت کو ایک نئی راہ دکھائی اور اللہ تعالی نے بدلے سے دستبردار ہونے کو بڑی بات قرار دیا 

الہامی کتابوں میں جو جنگوں کے واقعات کا ذکر ملتا ہے ان میں یمن کی ملکہ بلقیس کے الفاظ قران نے نقل کرتے ہوئے اس تباہی اور بربادی کا ذکر کیا ہے جو جنگیں معاشروں پر مسلط کرتی ہیں کہ معیشت تباہ ہو جاتی ہے اور با عزت لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں۔ انسان بلقیس کی اس جسارت پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب اس کے جرنیل اس کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرا چکے تو اس نے اپنے عوام کو امن دینے کا فیصلہ کیا ۔ قران نے بلقیس کے واقعے کو بیان کر کے حکمرانوں کو مشکل فیصلے کرنے کی ترغیب دی ہے وقتی طور پر مشکل فیصلے بڑی کامیابی کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کا مشکل فیصلہ اس کی مثال ہے

پائیدار اور مشکل فیصلے وقتی طور پر شکست دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں واجپائی کو بزدل اور نواز شریف کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑہانے کے طعنے دیے گئے۔ مودی کو جب وہ نواز شریف کی سالگرہ پر لاہور آیا تو بھارت میں اس پر پھبتیاں کسی گئیں۔ پاکستان میں مشرف کے کارگل کے کارنامہ کو پاکستان کی ایسی فتح بنا کر پیش کیا گیا جیسے اس نے پورا بھارت فتح کر لیا ہو۔ نواز شریف کی امن کی خواہش کو مودی کا یار کہہ کرطعنہ بنا دیا گیا مگر وقت نے ثابت کیا دو جوہری طاقتوں کے مابین امن کی خواہش زندگی اور انتقامی نعرے انسانیت کی بربادی ہے ۔

  بر صغیر میں ۲۶ جنوری کے بعد کنٹرول لائن کے دونوں اطراف امن کی خواہش ایک امید بن کر اٹھی ہے۔ پاک و ہند میں موجود امن پسندوں، انسانیت کے دوستوں، محبت و آشتی کے مبلغوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس خواہش کو امن کے بیج کی طرح اس کی کاشت کریں ، جب ننھی کونپلیں نکلیں تو اس کے گردآگاہی اور دلائل کی مضبوط باڑھ لگائیں، یہ آسان کام نہیں ہے مگر ممکنات میں سے ہے۔ 

ہماری حکومت نیا پاکستان بنانے کی دعویدار ہے ، اس نے کئی درجن مسلح گروہوں کو نابود کر دینے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کے تمام ادارے حکومت کی پشت پر ہیں۔ حکومت کو پاکستان کے امن پسند، محب وطن، امن کا مقدمہ مدلل طور پر لڑنے کے اہل شہری اپنی پشت پر کھڑے ملیں گے البتہ اندرونی حالات بہتر کرنے کے لیے ان لاوڈسپیکروں کی بیٹری نکالنے کی ضرورت ہے جو اپنی ساری توانایاں پاکستانیوں کو غیر ملکی ایجنٹ اور وطن دشمن ثابت کرنے پر صرف کرتےہیں ۔ ایک وقت تھا کفر کا فتوہ استعمال کیا جاتا تھا اس کی جگہ غدار کا لفظ استعمال کر کے سیاسی مخالفیں سے اپنے بغض و حسد کی تسکین کی جاتی ہے۔ ہم نے اکہتر میں اس رویے سے نقصان اٹھایا ہے

۴۸ سے لے کر بھارتی ہوا باز کہ رہائی تک تمام جنگوں اور معرکوں کے ڈانڈے کشمیر سے ملتے ہیں۔ کشمیر کو نہ بھارت ہڑپ کر سکتا ہے نہ پاکستان چھین سکتا ہے۔ اس خونی لکیر کے آرپار ستر ہزار انسانوں کا خون بہہ چکا ہے۔ اس مسٗلے نے آخر کار بات چیت سے حل ہونا ہے۔ کشمیری جان کی بازی لگا کر بھی اور پاکستان اپنے وجود کو خطرے میں ڈال کر بھی اپنا نقطہ نظر اقوام عالم کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہے۔ ہمیں اپنی ان خامیوں پر قابو پانا ہوگا۔ فیصلہ میز پر بیٹھ کر ہو یا کسی عدالت میں ہمیں یہ مقدمہ لڑنے کے لیے سیاستدانوں کو موقع دینا ہوگا۔ عدالت کوئی بھی ہو جانبدار نہیں ہوا کرتی ۔ مقدمہ جیتنے کے لیے مضبوط دلائل کے ساتھ ساتھ دلائل پیش کرنے کا سلیقہ بھی ایک مقام رکھتا ہے۔ ہمارے دلائل اگر دنیا سمجھ نہیں پا رہی تو ہم دنیا کو اپنا موقف سمجھا بھی نہیں پا رہےہیں ۔ ہمیں مقدمے کے لیے اپنے وکیل ہی نہیں پیش کرنے کا سلیقہ بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ بہتری کے لیے ہمیں اعتراف کا کڑوا پیالہ پینا ہی ہو گا ۔ ہمارا مقدمہ حقائق پر مبنی ہے، ستر ہزار جانوں کی قربانی، دو جوہری طاقتوں کا آمنے سامنے ہونا، اور کشمیریوںکا ہر فورم پر سینہ سپر ہونا، ایسے حقائق ہیں جن کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا  

گھر کی صفائی شروع کر ہی دی گئی ہے تو سیاسی اختلافات، قانونی بے انصافیوں اور حکومتی جبر کے تاثرات کو بھی دھو ڈالنے کا یہی موقع ہے۔ یہ بات وقت نے سچ ثابت کر دی ہے کہ پاکستان کو خطرہ کسی بیرونی طاقت سے نہیں اندرونی طاقت ور عناصر سے ہے۔ اندرونی عناصر کو نابود کرنے کی بجائے ان کو رواں دھارے میں شامل کرنے کے لیے بات چیت ہی بہتر اور کامیاب کوئی لائحہ عمل ثابت ہو گی۔

ابن آدم کی برپا کردہ پہلی جنگ نے چار مین سے ایک کو نگل کر چوتھائی انسانیت کو ختم کر دیا تھا۔ اب انسان کےپاس ایسے مہلک ہتھیارموجود ہیں کہ جنگ کی صورت میں چوتھائی انسانوں کا بچ جانا بھی معجزہ ہی ہو گا۔


پیر، 4 مارچ، 2019

پنجاب پولیس

                  
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی ابینندن نامی ہوا باز جس کے جہاز کو پاکستان نے گرایا اور اسے گرفتار کرنے کے بعدامن اور جذبہ خیر سگالی کے اظہارکے طور پر آزاد کر کے واپس بھارت کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی رہائی پر پاکستانی سوشل میڈیا میں ہلکے پھلکے اندازمیں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ایک منچلے نے لکھا 
ْ شکر ہے ابینندن پنجاب پولیس کے ہاتھ نہیں چڑہا ورنہ اب تک ۔۔۔آگے پنجاب پولیس کی نااہلی، قانون شکنی اور منہ زوری پر پھبتی کسی گئی تھی۔
پاکستان میں جب میاں نواز شریف کی پہلی بار حکومت ختم ہوئی تو میاں صاحب نے راولپنڈی سے لاہور کا سفر ٹرین میں کیا۔ ایک ریلوے سٹیشن پر پنجاب پولیس کے عوام کو ڈنڈے مارنے پر میاں صاحب نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا ْ یہ کیا ہو رہا ہے ْ پولیس افسر کا جواب تھا ْ سر وہی کچھ ہو رہا ہے جس کی طرف میں نے اپ کی توجہ دلائی تھی ْ 
واقعہ یہ ہوا تھاکہ فوجی دور میں ایک ٹریفک پولیس کا اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک وزیر نے سڑک سے گذرتے گذرتے ڈیوٹی سے معطل کردیاتھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پولیس اہلکار کو کسی بھی محکمے کا وزیر معطل کر دے بلکہ ہم نے تو دوسرے اداروں کے افسران کو بھی پولیس والوں کو ڈیوٹی کے دوران معطل ہوتے دیکھا۔۔۔
کیا پنجاب پولیس ہے ہی اسی لائق کہ اس کو سوشل میڈیا پر طنز کا نشانہ بنایا جائے یا پنجاب پولیس کے ہاتھ باندھ کر اس سے معجزوں کی امید کی جاتی ہے۔میں ایک واقعے کا شاہد ہوں ۔ جس میں راولپنڈی پولیس کے دو اہلکاروں نے اپنے ذاتی موٹر سائیکل پر مجرموں کا پیچھا کیا جو گاڑی میں سوار تھے۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو جا لیا۔ اور چلتے موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے اہلکار نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آئی رائفل تان کر انھیں گاڑی روکنے کا کہا۔ گاڑی نے موٹر سائیکل کو گرانے کی کوشش کی توپولیس اہلکار نے گاڑی کے دو ٹائروں کو برسٹ کر کے گاڑی کو رکنے پر مجبور کر دیا۔ میرا خیال تھا ان جوانوں کی فرض شناسی، قانون کی حرمت کی رکھوالی اور بہادری پر انھیں سراہا جائے گا مگر ہوا یہ کہ دو چلی ہو گولیوں کے خالی خول پیش نہ کر سکنے پر دونوں کے خلاف انکوائری بٹھا دی گئی۔
ایک دوسرا واقعہ بھی میرے سامنے کا ہے ۔ جس میں ایک ضعیف العمر غریب خاتون اپنے معصوم اور یتیم پوتوں کے ساتھ اپنی چادر کی جھولی پھیلا کراور جذبات میں ڈوب کر پولیس والوں کو دعائیں دے رہی تھی ۔ کرائے پر رہنے والی اس خاتون کے مرحوم بیٹے کے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے ایک بڑے نے قبضہ کر لیا تھا اوراس کے آدمیوں نے بوڑہی خاتون اور اس کی بہو کو دہمکایا بھی تھا۔ پولیس کی مداخلت پر پلاٹ سے قبضہ ختم ہوا، قبضہ مافیا کے سرغنہ نے خاتون کے گھر آکر اپنے آدمیوں کے رویے کی معافی مانگی اور خود اس خاندان کو تحفظ کا یقین دلایا۔
مقصدواقعات سنانا نہیں ہے بلکہ حقیقت کا احساس دلانا ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پنجاب پولیس نہ ہوتو پنجاب کے بد معاش، شر پسند، چور ، ڈکیت اور قبضہ مافیاچند دنوں میں ہی ظلم و بربریت کی داستان مکمل کر لیں۔ 
مال روڈ پر پولیس کے شہداء کی یادگارہمیں پنجاب پولیس کے ان جوانوں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے پنجاب میں امن لانے کے لیے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادت پائی ہے۔ جب لاہور میں کھڑے ہو کر ایک شہری اونچی آواز میں کہتا ہے ْ ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں پر فخر ہے، پنجاب پولیس وہ ادارہ ہے جس کے جوان جان کی بازی لگا کر اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے ہیںْ تو وہ گیارہ کروڑ سے زیادہ پنجاب کے باسیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف اس ادارے کے ڈیڑھ ہزار جوانوں نے اپنے گرم خون سے بندباندہا ہے۔اور سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔
حالات جن میں پنجاب پولیس اپنا فرض نبھا رہی ہے یہ ہیں کہ پولیس اہلکار کے پاس ذرائع نقل و حرکت مفقود ہیں، ڈیوٹی کے اوقات محدودنہیں ہیں، رہائش یا تو نایاب ہیں یا تھانوں کے عقب میں کھنڈر نما بارک ہے جس کی مرمت کرائے عشرے بیت چکے ہیں۔واش روم نایاب ہیں۔کھانے کے لیے میس کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تھانے کے بازو میں کسی نے ڈھابہ بنا لیا تووہ جو کچھ لاکر رکھے گا اس کو خوراک کہا جاتا ہے۔ ملازمت کے لوازمات میں چلائی گئی گولی کے خالی خول واپس لا کر ان کا حساب دینا ہوتاہے۔ 
سڑک پر چلتے موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں والے رک کر پولیس اہلکاروں کو لفٹ دے رہے ہوتے ہیں تو یہ اظہار نفرت یا پنجاب پولیس کا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے پن کا احساس ہے۔سابقہ دور میں پولیس کے ایک حصے کو جدیدہیوی بائیک،جدید ترین اسلحہ، اور قانوں ن سے آگاہی د ی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے چوہنگ ٹرینگ سینٹر میں کھڑے ہو کر اس کی تعریف کی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جان بوجھ کر پنجاب پولیس کے خلاف ْ کنٹینرْ والی زبان سوشل میڈیا پر استعمال کی جاری ہے ۔ یہ یاد نہیں رکھا جاتا یہ انڈین پنجاب کی پولیس نہیں بلکہ پاکستان کی پولیس ہے ۔ جو معزز لیڈران اور وی آئی پی شخصیات کی چوبیس گھنٹے حفاطت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔یہ کھلے بازار، سکول جاتے بچے، اپنے فرائض ادا کرتی خواتین اور محفوظ شاہرائیں، بین الاقوامی مسافروں سے بھرے ائرپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہ بیرونی سرمایہ کاری جس کی آج کل پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس امن کی مرہون منت ہے جو پولیس قائم کرتی ہے۔
عشرے گذر گئے رہنماء اداروں کا دورے کرتے ہیں ۔ وعدے کرتے ہیں۔ حالات کی بہتری کی امید دلاتے ہیں ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نے بھی لاہور کے ایک پولیس تربیتی ادارے میں کھڑے ہو کر بڑے دلپذیر وعدے کیے تھے مگر ان میں سے ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود نہ پنجاب پولیس اپنے فرائض سے کوتائی کی مرتکب ہو رہی ہے نہ عوام پنجاب پولیس سے مایوس ہیں ۔ 
اگر موجودہ حکومت اپنے دعوے کے مطابق پنجاب پولیس میں تبدیلی لانے کے لیے صدیوں پرانا قانونی ڈھانچا تبدیل کرنے کے وعدے سے یو ٹرن لے چکی ہے ۔ تو عوام کے پاس خاموشی کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے۔ عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ بڑا لیڈر بننے کی سیڑہی یو ٹرن ہے ۔ البتہ عوام کواپنے اداروں پر پھبتیاں پریشان کرتی ہیں۔ اگر عدالتوں کو پھبتیاں کسنا قابل مذمت ہے تو پنجاب پولیس پر پھبتیاں کسنا بھی قابل مذمت ہی قرار پائے گا 


اتوار، 3 مارچ، 2019

تلوار سےایٹمی میزائل تک


یہ تصویرابو دھابی میں منعقد ہونے والے، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے 46 واں اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد رسمی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی ۔ تصویر کے کیپشن میں بتایا گیا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید، ڈاکٹر یوسف العثمان اور ششما سواراج اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔

اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
 مہمان خصوصی 

مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔

جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔

ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر 
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔

جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ

ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ 

ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور 
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔ 

پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔ 

تلوار سے لے کر ایٹمی میزائل تک ، انسان کو تبدیل نہیں کر سکتے ، صرف بیانئے کی تبدیلی میں مدد گار ہو سکتے ہیں

منگل، 26 فروری، 2019

کج وی نہی ہویا


بارش برستی ہے تو زمین سراب اور جاندار فرحان ہوتے ہیں۔ مگر جب بادل بپھر جائیں تو باران رحمت زمین کے باسیوں کے لیے زحمت بن جایا کرتی ہے۔ پرامن خیر خواہ سفید بادل اگر انسان کو امید دلاتے ہیں تو گمبھیر اور سیاہ بادل انسان کو خوف زدہ کرتے ہیں۔ اس وقت آسمان پاک وبھارت پر اختلافات کے گہرے بادل ہیں۔جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دونوں اطراف سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی ابتدا مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے علاقے ہونے والا وہ خود کش حملہ ہے جس میں بھارت کے چالیس پیراملٹری فورس کے جوان مارے گئے۔ یہ حملہ مقبوضہ کشمیر کے رہائشی ایک نوجوان نے کیا تھا۔ بھارت نے اس کا ذمہ دار پاکستانی خفیہ ایجنسی اور اس کی حمائت یافتہ ایک مجاہد تنظیم جیش محمد کو بتایا۔ پاکستانیوں کی طرف سے سب سے پہلا ردعمل ایک ٹویٹ کے ذریعے پاکستان کے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے آیا۔ جس میں انھوں نے بتایا کہ یہ جیش محمد کا کام ہے ، ان لوگوں نے ریٹائرڈ جنرل کی جان لینے کی کوشش کی تھی اور اس کی مذمت کی۔ بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کو ْ سنجیدہ سبق ْ سکھانے کی بات کی اور سوموار والے دن بھارت نے دس ہزار کلو گرام بارود سے لیس ایک درجن معراج ۲۰۰۰ طیارے اڑائے ۔ جومقبوضہ کشمیر کے رستے آزاد کشمیر میں داخل ہوئے۔ آزاد کشمیر کی سرحد کے تین سے چار کلومیٹر کے علاقے میں بم گرکر واپس چلے گئے۔ بھارت کے ایک وزیر مملکت جو ہیں تو بھارتی ْ محکمہ زراعت ْ کے مگر انھوں نے دعویٰ کیا کہ بھارتی طیاروں نے ْ مکملْ طور پر تباہ کر دیا ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ بھارتی طیارے تین چار کلومیٹر سرحد کے اندر گھس آئے تھے ۔ چوکس پاک فضائیہ کی کاروائی سے بچ نکلے اور اپنا گولہ بارود ایک ویران علاقے میں گر کر واپس چلے گئے۔میں نے اپنے دوست ندیم ڈار کو بارڈر پر فون کر کے حقیقت معلوم کرنا چائی ۔ وہ سو رہا تھا ۔ ْ کج وی نہی ہویا ْ سونے دو۔ میں نے عالمی میڈیا کو کھنگال ڈالا مگر ْ وزیر زراعتْ کا بیان مٹی میں دفن ہو چکا تھا۔اس سے قبل ایک بار بھارت نے ْ سرجیکل سٹرائیک ْ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ بعد میں پاکستانیوں کو معلوم ہوا کہ وہ تو ہو بھی چکا ۔ 
پاکستان عشروں سے حالت جنگ میں ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ گولے بارود کا خوف مدہم پڑگیا ہے ۔ مجموعی طور پر پاکستانی واناو گلگت میں ہوں یا کراچی میں موت سے بے خوف ہو چکا ہے ۔ رہ گئے کشمیری تو ان پر بھارت نے ایسا ایسا ظلم ڈہایا ہے کہ شیطان بھی ان ہتھکنڈوں پر شرمندہ نظر آتا ہے۔ کشمیری دنیا بھر میں سب سے زیادہ امن پسند تھے اور ہیں مگر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے ۔ کشمیر میں بھارتی مظالم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب امن پسند کشمیری نہتے ہونے کے باوجود اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ بھارت کا ْ اٹوٹ انگ ْ کا نعرہ بکھر چکا ہے۔تاریخ بتاتی ہے جب کوئی قوم بکھرنے پر آتی ہے تو پہلے اس کے نعرے بکھرا کرتے ہیں ۔ ہر ابتداء کی ایک انتہا بھی ہوا کرتی ہے۔ ابتداء ہو چکی انتہاء زیادہ دور نہیں ہے

ہفتہ، 2 فروری، 2019

نوازشریف کی ہار اور مسلم لیگ ن


حذیفہ رحمٰن

کھلا راز


سابق وزیراعظم نوازشریف گرمجوشی سے جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کا استقبال کررہے تھے،جبکہ چیئرمین نیب چوہدری قمر الزمان ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔پی اے ایس آفیسر چوہدری قمر الزمان کے ڈرائیونگ روم میں لگی یہ تصویر تقریباََ بیس سال پرانی معلوم ہورہی تھی۔یہ شاید اس وقت کی تصویر تھی جب چوہدری قمرالزمان چیف کمشنر اسلام آباد تھے اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ عظیم نیلسن منڈیلا کو اسلام آباد آمد پر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ابھی تصویر کا بغور مشاہدہ کرہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک جانی پہچانی آواز نے مڑنے پر مجبور کردیا ۔دیکھا تو نوازشریف کے داماد کیپٹن(ر) صفدر ،سعید مہدی،پرویز راٹھور ،میاں ناصر جنجوعہ اور چوہدری مشاہد رضا کے ہمراہ ڈرائیونگ روم میں داخل ہوچکے تھے۔یہ سب دوست سابق چیئر مین نیب چوہدری قمر الزمان کے بھائی کے انتقال پر تعزیت کے لئے جمع ہوئے تھے ۔مجھے تصویر میں محو دیکھ کر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما چوہدری مشاہد رضا چیلانوالہ کہنے لگے کہ نوازشریف بھی نیلسن منڈیلا کی طرح اقتدار کے ایوانوں میں لوٹیں گے۔چوہدری مشاہد رضا کی بات سن کر ڈرائنگ روم میں سیاسی بحث شروع ہوگئی۔نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی سے استفسار کیا کہ آپکی کتاب کہاں تک پہنچی؟ وہ روایتی انداز میں کہنے لگے کہ کتاب تو مکمل ہوگئی ہے مگر ابھی اسے چھاپنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔کیونکہ ابھی سابق وزیراعظم نوازشریف آزمائش میں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کتاب میں بیان کئے گئے کسی واقعے سے تاثر جائے کہ مشکل وقت میں دوستوں پر تنقید کی ہے۔بہر حال بیوروکریسی اور سیاست کے بڑے بڑے نام چوہدری قمر الزمان کے آنگن میں موجود تھے اور سب اس بات سے متفق تھے کہ نوازشریف کی سیاست ختم نہیں ہوئی بلکہ نوازشریف کی اصل سیاست شروع ہی جولائی 2018کے بعد ہوئی ہے۔
آج سابق وزیراعظم نوازشریف جیل میں قید ہیں اور انتہائی علیل ہیں۔اللہ ان کو صحت دے۔شاید آئندہ ہفتے کے دوران ان کی ضمانت ہوجائے ۔مگر سول سروس اور سیاست کے زرخیز دماغ سمجھتے ہیںکہ رائیونڈ میں بیٹھا ہوا نوازشریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے نوازشریف سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہوگا۔پنجاب کی سیاست کے ماہر سمجھے جانے والے نوازشریف رائیونڈ میں بیٹھ کر جب چاہے پنجاب میں اقتدار کا مرکز تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نوازشریف بہت مضبوط اعصاب کا مالک انسان ہے۔سابق ایڈیشنل آئی جی پرویز راٹھور واقعہ سناتے ہیں کہ 2009میں جب پنجاب میں گورنر راج لگااور پوری مسلم لیگ ن پریشان تھی۔نوازشریف کی اگلے روزشہباز شریف سے رائیونڈ میں ملاقات ہوئی تو نوازشریف انتہائی اطمینان سے کہنے لگے کہ "شہباز فکر نی کرنی ،بس تسی ٹیک اوور کرن دی تیاری کرو"۔مگر کچھ غلطیاں اور چند ناعاقبت اندیش مشیران کے غلط مشورے نوازشریف کے لئے آزمائشی حالات پیدا کرتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں جن لوگوں نے نوازشریف اور راولپنڈی کے درمیان معاملات کو ڈیل کیا ،وہ سب سے بڑے قصور وار ہیں۔ایسے لوگ غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں اور معاملات کو بند گلی کی طرف لے جاتے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ شریف خاندان کے درمیان دراڑ پیدا کردی جائے۔شہباز شریف کے خلاف غلط پروپیگنڈا کرکے دونوں بھائیوں کے درمیان فاصلے پیدا کئے جائیں۔جان بوجھ کر خود کو راولپنڈی کے قریب ہونے کا تاثر دیتے ہیں اور ایسی معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ،جس سے یہ تاثر شدت اختیار کرجائے کہ شاید شہباز شریف اور ان کے بچے اپنے تایا جان کی سوچ کے خلاف چل رہے ہیں۔نوازشریف کے ساتھ شہباز شریف سے زیادہ مخلص کوئی نہیں ہوسکتا۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ن میں صرف ایک ہی لیڈر ہے ،جس کا نام نوازشریف ہے اور نوازشریف کا متبادل بھی نوازشریف ہی ہے۔کیونکہ لیڈر کا متبادل ہمیشہ اس کا نظریہ ہوتا ہے۔نوازشریف کی ہار مسلم لیگ ن کی ہار ہوگی۔اگر نوازشریف ہارا تو مسلم لیگ ن کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔نوازشریف کی بقا میں ہی مسلم لیگ ن کی بقاہے۔اکثر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اقتدار کے آخری سال میں نوازشریف نے بعض اداروں سے متعلق اہم معاملات شہباز شریف کے بجائے ایک وفاقی وزیر،ایک مشیر اور ایک عزیز بزنس مین کے سپرد کئے۔یہی لوگ معاملات میں گارینٹر تھے اور سب کچھ ٹھیک ہونے کی اطلاع دیتے تھے۔ٹوئٹ کی واپسی،ڈرافٹ کیا ہونا چاہئے،حساس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی اور پھر ڈان لیکس تک ۔سب کچھ یہی لوگ ڈیل کرتے رہے اور جب معاملات خراب ہوئے تو ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ یہی تنقید کی جاتی ہے کہ میاں صاحب کے انہی فیصلوں کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔مگر میری رائے ہے کہ پارٹی نوازشریف کی ہے،سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر نوازشریف ہے۔اگر کچھ غلط فیصلے ہوئے بھی ہیں تو ان کے ردعمل کا سامنا بھی تو نوازشریف ہی کررہا ہے۔مگر نوازشریف کو تصویر کا دوسرا رخ بھی ضرو ر دیکھنا چاہئےاور یہ سوچنا چائیے کہ کچھ معاملات بہت حساس ہوتے ہیں۔اس کو ڈیل کرنے کے لئے ایسا شخص ہونا چاہئے،جو نہ صرف میاں نوازشریف سے مخلص ہو بلکہ اچھے برے وقت میں کرائے گئے فیصلوں پر پہرہ دے سکے۔دونوں فریقین کے درمیان برف کو پگھلائے ،کیونکہ قدر ت کا اصول ہے کہ بڑا آدمی کبھی بھی معاملات کو براہ راست خود ڈیل نہیں کرسکتا۔اسے درمیان میں negotiatorکی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ معاملات میں کسی بھی موڑ پر ڈیڈ لاک پیدا نہ ہو۔سابق وزیراعظم نوازشریف کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ دانشمندی اور حکمت کا مظاہرہ کرکے آزمائشوں کو کم کیا جاسکتا ہے ،وگرنہ نوازشریف کی ہار مسلم لیگ ن کی ہار ہوگی۔