منگل، 22 مئی، 2018

شہباز شریف کا طوطی



جنگ میں اقدار کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا۔کراچی ، جس کے باسیوں کا فخر اقدار ہوا کرتا تھا ۔ ایک ایسی
جنگ مین الجھ چکے ہیں جس نے ان سے اقدار ہی نہیں چھینیں بلکہ ان کی راہ کی روشنی بھی اچک لی ہے ۔ کراچی ، ۱۹۷۷ سے پہلے باہر سے آنے والی ساری روشنیوں اور اچھوتے نظریات کا استقبال کیا کرتا تھا۔، خیرہ کن اشتہارات والے رسائل کے بنڈل لانے والے سارے جہازاسی شہر میں لینڈ کیا کرتے تھے۔ نئے ماڈل کی گاڑیاں ہی کراچی کی بندرگاہ پر نہیں اترا کرتی تھیں بلکہ نئے فیشن کے ملبوسات کے کنٹینر بھی یہیں کھلا کرتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کراچی میں برداشت کا کلچر ناپید ہو گیا ہے ۔ لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ برداشت اور رواداری کو کراچی سے شہر بدر کرنے کے لیے ۱۹۷۷ سے اب تک پچاس ہزار سے زائد چلتے پھرتے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ جنگجو بدلتے رہے، جنگ کے عنوان تبدیل ہوتے رہے ۔مگر انسانیت کے کلاف جنگ جاری رہی۔ گذشتہ چالیس سالوں میں جوان ہونے والی ہماری نسل کو صرف ایک ہی سبق ازبر ہے ، مارو یا جان بچاو۔ شروع میں گلیوں اور محلوں سے ، نیم خواندہ نوجوانوں کے غول جھنڈے اور ڈنڈے اٹھا کر نکلا کرتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی تو راولپنڈی میں دی گئی تھی۔ مگر پیپلز پارٹی کا جنازہ کراچی میں اٹھایا گیا تھا۔کندھا دینے والوں کو مہاجر کہا گیا ۔بتایا یہ گیا مہاجر ان لوگوں کی اولاد ہیں جو اپنی شناخت پاکستان پر نچھاور کر بیٹھے تھے۔ ۱۹۴۷ سے بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے کو احساس ہی نہ ہوا مگر ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے انھیں احساس دلایا کہ آپ مہاجرین کی اولاد ہو۔ علیحدہ قوم ہو ، اور اردوزبان پر تمھاری اجارہ داری ہے۔ کراچی اور حیدرآباد آپ کے شہر ہیں ۔ اپنی حکومت بناو اور پیپلز پارٹی والوں کو بھگاو۔ زبانی کلامی، ڈندے سے اور پھر کلاشنکوف سے بھگایا گیا مگر معلوم یہ ہوا کہ اصل دشمن تو اپنے اندر موجود ہیں لہذا اپنوں کو ختم کرنے کے لیے اچھوتے طریقے اپنائے گئے۔البتہ مار نے والے کو احساس تک نہ ہوا کہ جس لاش کی ہڈیاں توڑ کر بوری میں سمائی جا رہی ہے خود اس کا بھائی ہے۔
جنگ جہاں بھی لڑی جا رہی ہو ااس جنگ کے باعث کسی نہ کسی کی تجوری بھری جا رہی ہوتی ہے۔جب انفرادی تجوری بھری جا رہی ہوتو عوام کی جیب ہلکی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
کراچی نے ۹۷۷ا سے ایک سفر طے کیا ہے ۲۰۱۸ میں حالت یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کو مار مار کر تھک گیا ہے، ہر قسم کے تعصب کے نام پر خون بہا جا چکا ہے ، مگر دو عوامل ایسے ہیں جن سے کسی کو بھی انکار نہیں ، ایک یہ کہ کراچی کا نوجوان روزگار کو ترس رہا ہے اور دوسرا کراچی کے کسی باسی کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکل کر کسی تجوری میں جمع ہو رہا ہے۔ اب تو لوگ اس تجوری کو بھی پہچان گئے ہیں۔ جہاں غریبوں کے خون پسینے کی کمائی جمع ہوتی ہے۔ اور ان مگر مچھوں کو بھی پہچان گئے ہیں جنھوں نے نوجوانوں کو سیاست کے رستے بے روزگاری کے میدان میں لا کر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ۔
کراچی والوں کو مہاجر کے نعرے نے کچھ دیا نہ بھٹو مخالفت نے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان کے زخموں پر مرحم رکھا نہ پاک سرزمین پر کوئی سایہ دار شجر چھاوں مہیا کر سکا۔بہادر آباد سے لے کر لیاری اور نائن زیرو سے لے کر ڈیفنس تک سب کٹھ پتلیاں ہی ثابت ہوئے ہیں۔
۲۰۱۸ میں کٹھ پتلیوں کا کھیل عروج پر ہے۔ ایک سرکس ماسٹر دوبئی میں بیٹھا اپنے مہروں کے ذریعے کراچی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ کراچی کے باسی تو اس کے جال ہوس سے بچ گئے تو اس نے دوسرے شہروں سے کٹھ پتلیاں در آمد کر لی ہوئی ہیں ۔ رالپنڈی بوائز جو باقائدہ ایک سیاسی پارٹی ہے نے اپنا وزن وزارت عظمیٰ کو ترستے ایک سیاست دان کے پلڑے میں ڈال دیا ہوا ہے۔وزارت کے اس شیدائی کا کے پی کے میں اعمال نامہ یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں جو کچھ ترقیاتی کام ہوا ہے صرف سوشل میڈیا پر ہوا ہے، ان کا شیوہ ہے جھوٹ ڈٹ کر بولو۔ پنجاب میں تو اس کی کسی نے سنی نہیں ہے لہذا اب اس کا سارا زور کراچی پر ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے کراچی میں بھٹو بھی کے الیکٹرک کی شکل میں زندہ ہے ۔ لے دے کے ملک مین نون لیگ ہی رہ جاتی ہے ۔ جس نے پنجاب میں عا�آدمی کے حالات بدلے ہیں ۔ پنجاب مین تعلیم اور صحت کے شعبے میں زبردست کام ہوا ہے۔ پنجاب کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں نیا ہسپتال بناہے یا پرانا اپ گریڈ ہوا ہے۔ اس وقت پنجاب کے ہسپتالوں میں کے پی کے ، بلوچستان اور سندھ کے علاقوں سے لوگ علاج کران�آآتے ہیں۔ پنجاب مین ہر قسم کا علاج مفت ہے ۔ اور تعلیم میں پنجاب نے پچھلے پانچ سالوں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ ہر گریجویٹ کو لیپ ٹاپ حکومت پنجاب کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ بیرون ملک یونیورسٹیوں میں پنجاب کی یونیورسٹیوں کے ساتھ معاہدوں کے تحت پاکستانی طلباء اعلی تعلیم حا صل کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے پنجاب کی ترقی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ میٹرو بس پرجیکٹ نے پنجاب میں اولیت حاصل کر کے دوسرے صوبوں کو راہ دکھائی ہے۔تیز رفتار ٹرین کا چلنا ایسا کام ہے جو بھارت بھی نہ کر سکا۔ اس بار مقابلہ نعرہ بازی میں نہیں بلکہ عملی ترقی میں ہے اور عملی ترقی میں شہباز شریف کا طوطی بہت اونچی آواز میں بول رہا ہے۔

جمعہ، 18 مئی، 2018

گرین لینڈ

رمضان المبارک 2018 کی خصوصیت یہ ہے کہ عام طور پر ساری دنیا میں اس سال رمضان المبارک ایک ہی دن یعنی 17 مئی کو شروع ہو رہا ہے البتہ سحر و افطار کے اوقات مقامی وقت کے لحاظ سے طے ہوتے ہیں ۔ دنیا بھر میں طویل ترین روزہ مملکت ڈنمارک کے ملک گرین لینڈ میں ہوتا ہے جہاں روزے کا دورانیہ 21 گھنٹے کا ہو گا۔ 
گرین لینڈ بحر شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان، براعظم شمالی امریکہ میں واقع ہے۔ کینیڈا کی سرحد سے متصل گرین لینڈ 1814 سے ڈنمارکی بادشاہت کے زیر نگین علیحدہ ملک ہے جس کے دارلحکومت کا نام ْ نوک ْ ہے اس کا رقبہ 2166,000 مربع کلو میٹر اور آبادی 57,000 نفوس کے لگ بھگ ہے۔ ملک میں ڈنمارکی کراون بطور کرنسی استعمال ہوتا ہے ۔ گرین لینڈ کی اپنی زبان ہے جس کو ْ گرین لینڈی زبان ْ کہا جاتا ہے ۔گرین لینڈ کم ترین آبادی پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ نوک کا ڈنمارک سے فاصلہ 3645 کلومیٹر ہے
مذہبی طور پر آبادی عیسائی اکثریت پر مشتمل ہے مگر آبادی کا 0.01% حصہ مسلمان بھی ہے ۔ ان مسلمانوں میں پاکستانی الاصل لوگ بھی ہیں۔جن کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔
اس ٹھنڈے اور یخ بستہ ملک میں روزے کے طویل ترین دورانئے کے علاوہ مزید دو عوامل ایسے ہیں جس ان کو باقی دنیا سے منفرد کرتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اپنی زبان میں تحریر کے دوران پورے جملے کو بطور ایک لفظ لکھتے ہیں ۔ اس ملک کی دوسری انفرادیت وہاں نوجوانوں کو خود کشی کا ارتکاب کرنا ہے ۔ اس ملک میں نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان دنیا بھر میں اب سب سے زیادہ ہے

جمعرات، 17 مئی، 2018

حجر اسود

حجر اسود


ذی الحجہ 317 ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرلیا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال حج بیت اللہ نہ ہوسکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جاسکا۔ یہ اسلام میں پہلا ایسا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہوگیا، اسی ابوطاہر قرامطی نے حجر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابوطاہر کے ساتھ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دیئے اور حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا۔ یہ واپسی 339 ھ کو ہوئی، گویا بائیس سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا۔ جب فیصلہ ہوا کہ حجراسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث عبداللہ کو حجراسود کی وصولی کے لئے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا۔ یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں حجر اسود کو اُن کے حوالہ کیا جائے گا۔ اب انہوں نے ایک پتھر جو خوشبودار تھا ، خوبصورت غلاف سے نکالا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں۔ محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر اس میں یہ نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہوگا ورنہ نہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ڈوبتا نہیں ہے، دوسری یہ کہ آگ سے بھی گرم نہیں ہوتا۔ اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا گیا تو سخت گرم ہوگیا یہاں تک کہ پھٹ گیا۔ محدث عبداللہ نے فرمایا یہ ہمارا حجر اسود نہیں ۔ پھر دوسرا پتھر لایا گیا اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور وہ پانی میں ڈوب گیا اور آگ پر گرم ہوگیا، فرمایا کہ ہم اصل حجر اسود ہی لیں گے۔ پھر اصل حجراسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا تو وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا ، ’’یہی ہمارا حجراسود ہے اوریہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے‘‘۔ اس وقت ابوطاہر قرامطی نے تعجب کیا اور پوچھا کہ یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں ؟تو محدث عبداللہ نے فرمایا: یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہوگا۔ ابوطاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے۔ جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچا یا، اس اونٹنی میں زبردست قوّت آگئی اس لئے کہ حجراسود اپنے مرکز (بیت اللہ) کی طرف جارہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جارہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مرجاتا حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مرگئے۔‘‘
(تاریخ مکہ للطبری)

پیر، 7 مئی، 2018

تیرے میرے خواب


                                

کہا جاتا ہے ساون کے اندھے کو ہریالی ہی نظر آتی ہے ۔ اس ایک جملے میں زندگی کی بہت بڑی حقیقت کو بیان کر دیا گیا ہے۔خواب کا تعلق انسان کے طرز معاشرت اور اس کے علم سے جڑا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھنا یا سیدنا یوسف علیہ السلام کا گیارہ ستارون اور چاندو سورج کو سجدہ ریز دیکھنا۔
طرز معاشرت کی وضاحت ان دو غلاموں کے خواب سے ہوتی ہے جو سید نا یوسف علیہ السلام کے ساتھ قیدخانہ میں تھے ۔ ایک بادشاہ کا ساقی تھا اس نے خواب میں خود کو رس نچوڑ کر بادشاہ کو پیش کرتے دیکھا تو بادشاہ کے باورچی نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں۔
انسان کا ذہن جن معاملات کے بارے مین فکر مند ہوتا ہے ، اس کو نیند میں خواب بھی ان ہی معاملات کے متعلق نظر
آتے ہیں مثال کے طور پر مصر کے ایک بادشاہ نے خواب میں سات دبلی اور سات موٹی گائیں دیکھی تھیں۔ موجودہ دور میں ایک شخصیت نے اپنے خوابوں کا سلسلہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ ان سے رہائش و طعام و سفر کے اخراجات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
درپیش مہمات بارے خواب دیکھنے کی مثال نبی اکرم ﷺ کا جنگ بدر سے قبل دشمنوں کی تعداد بارے خواب ہے یا ہجرت نبوی ﷺ کے پانچویں سال میں آپ ﷺ کا یہ خواب کہ وہ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ ادا فرما رہے ہیں اور اطمینان سے حرم شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔جن دنوں نماز کی دعوت کے طریقوں پر غور ہو رہا تھا تو ایک صحابی رسول ﷺ نے اذان خواب میں دیکھی تھی۔
کتابوں مین مذکور ہے کہ الیاس ہاوی ، جس نے سلائی مشین بنائی تھی، دن رات اس کے ڈیزائن ذہن میں بنایا کرتا تھا تو ایک دن اس نے مکمل ڈیزائن خواب میں دیکھ لیا۔بابل کے نامور بادشاہ بنو کد نصر نے بھی آنے والے وقت میں حکمرانی کا عروج و زوال بھی خواب میں ہی دیکھا تھا۔ موجودہ دور میں ایک خواب کا چرچا رہا جس میں ایک روحانی عالمہ نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر ایک سیاسی شخصیت سے شادی کر لی تھی ۔ اور وجہ عالم رویا میں نظر آنے والا خواب بیان کیا گیا تھا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ کو نارول میں ۶ مئی والے دن گولی مار کر زخمی کرنے والے عابد نامی ملزم نے بھی اس جرم کی ہدائت ایک خواب کے ذریعے پائی تھی۔
خوابوں دیکھنا ، خواب دکھانا اور خواب کو سچ کر دکھانا ، تین مختلف قسم کے اعمال ہیں ۔ خواب ہر بینا شخص دیکھتا ہے، خواب دکھانا رہنمائی کے دعویداروں کا شغل ہے مگر خوابوں کو سچا کر دکھانا اصحاب کمال کا کام ہوتا ہے ۔
مادر زاد اندھا خواب نہیں دیکھتا، سچے خواب رحمان کی طرف سے مگر جھوٹے خواب دکھانا شیطان کا شیوہ ہے ، باکمال لوگ اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھالتے ہیں ۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر باکمال پر سنگ باری لازمی ہوئی ہے

اتوار، 6 مئی، 2018

5th Generation War


ففتھ جنریشن وار پاکستان میں بہت پہلے شروع ہو چکی تھی ۔ ہم اس کو سیاست کا کھیل سمجھتے رہے، بلوچستان کی حکومت گرنے سے لے کر فاٹا سے اٹھے حقوق کا واویلا کرتے نوجوان ہی نہیں بلکہ مہینوں پہلے پاناما یا اقامہ پر فیصلہ آنے کے بعد بدلتے سیا سی حالات کی کھلتی گرہیں ، پھر نا اہلیوں اور چلتی گولیوں نے ففتھ جنریشن وار کی اصلیت کو کھول کر رکھ دیا۔ وہ عنوان جس کو ہم دور کا ڈھول گرداننتے تھے ۔ اپنے صحن مین بجتا دیکھ لیا۔ جب تصور حقیقت مجاز کا روپ دھار کر آنکھوں کے سامنے آ جائے تو پھر یقین نہ کرنا کفر ہی کہلاتا ہے اور اللہ جو کہ ستار العیوب بھی ہے کفر کے گناہ سے محفوظ رکھے ۔
ففتھ جنریشن وار کی تشریح کرتے ایک امریکی جرنیل شانون بیبی Shannon Beebi نے کہا تھا کہ یہ تلخی اور مایوسی کا پیدا کردہ ایسا پر تشدد بھنور ہو گا جو کسی کو کچھ سجھائی نہ دینے والی کیفیت پیدا کر دے گا۔ مگر مقتدر قوت کی گرفت میں رہے گا ۔ اس کو یون بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد بھنور کو جو گرفت میں لے پائے گا وہی مقتدر قوت ہو گی۔
اس کی ابتداء یون ہو گی کہ معاشرے اور انسانوں کی تمام تر محرومیاں آنکھوں کے سامنے یون سجا دی جائیں گی جیسے میز پر رکھے گلدان میں رنگین پھول سجائے جاتے ہیں، ہر پھول اور ہر رنگ آنکھوں کے ذریعے دماغ میں احساس محرومی پیدا کرتا رہے گا۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے کے بعد فورتھ جنریشن وار کی تکنیک کے ذریعے اس جنگ کو جیتا جائے گا جس کا تجربہ 1979 میں افغانستان سے شروع ہو کر عراق اور لیبیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔
میرین کارپ مییگزین Marine Corp Magazine میں سائع ہونے والے ایک مضمون میں Lt Col Stanton Coerr کے مطابق ملکوں اور معاشروں میں سیاسی تعطل اس جنگ کے حربوں میں ایک حربہ ہے۔کرنل نے لکھا ہے اس جنگ کو فوجی جنتا ہی جیتے گی جس کی ہم نصرت کر رہے ہوں گے، وہ کچھ بھی نہ کھو کر کامیاب ہوں گے تو ہم ناکام نہ ہو کر کامیاب ہو جائیں گے