پیر، 9 جون، 2025

صاف ستھرا پنجاب



یقین کیجیے، عید الاضحیٰ 2025 کے موقع پر پنجاب میں صفائی کے انتظامات نے ہر دل کو خوش کر دیا۔ اس بار صورتحال مختلف تھی کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ذاتی دلچسپی لیکر صفائی مہم کو اپنی اولین ترجیح بنا لیا تھا۔ ان کا وژن تھا کہ عید کی خوشیاں شہر و دیہات میں صفائی کی خوبصورتی کے ساتھ منائی جائیں تاکہ شہریوں کو نہ صرف سکون ملے بلکہ ماحول بھی صاف ستھرا ہو۔

وزیر اعلیٰ کی نگرانی میں پنجاب بھر میں صفائی کے ایک منظم اور وسیع منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ 180,000 سے زائد صفائی کارکنوں کو متحرک کیا گیا اور 36,000 سے زائد گاڑیاں، ہزاروں بیلچے اور ہینڈ کارٹس ہر شہر کے کونے کونے تک پہنچائے گئے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک نظم و ضبط اور سنجیدگی کی علامت تھی جو وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ممکن ہو سکی۔

لاہور ڈویژن میں خصوصی توجہ دی گئی جہاں 754 کیمپ قائم کیے گئے تاکہ شہری آسانی سے قربانی کی آلائشیں جمع کرا سکیں۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر صفائی کے عمل کی نگرانی کے لیے سیف سٹی اتھارٹی اور ڈرون کیمرے بھی استعمال کیے گئے، تاکہ کوئی کمی بیشی نہ رہے۔ بدبو کو ختم کرنے کے لیے لاکھوں لیٹر گلاب کے پانی اور فینائل کا استعمال ہوا، جو اس مہم کی باریکیوں کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ صفائی مہم محض ایک انتظامیہ کی کوشش نہیں بلکہ ایک وژن تھی جس نے پنجاب کو صاف ستھرا اور خوشبودار بنایا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذاتی دلچسپی نے ثابت کیا کہ اگر قیادت سنجیدگی سے کام کرے تو معمولی مسائل بھی عظیم کامیابیوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس عید پر، پنجاب نے نہ صرف قربانی دی بلکہ صفائی کے جذبے کی بھی قربانی دی، جس کا سہرا بلا شبہ وزیر اعلیٰ کی قیادت کو جاتا ہے۔

یہی جذبہ ہے جو ہمارے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا، اور یہی مثال باقی صوبوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔

فریڈم فلوٹیلا 2025 کیا ہے





فریڈم فلوٹیلا کولیشن 
(Freedom Flotilla Coalition - FFC)
 ایک بین الاقوامی اتحاد ہے جو 2008 سے ایسے بحری مشن ترتیب دے رہا ہے جن کا مقصد اسرائیل کی غزہ پر عائد بحری ناکہ بندی کو توڑنا اور انسانی امداد براہِ راست فلسطینی عوام تک پہنچانا ہے۔ جون 2025 کا مشن انہی کوششوں کا تازہ تسلسل ہے۔
اس مشن میں شامل کشتی کا نام "مدلین" 
(Madleen)
 رکھا گیا، جو کہ ایک فلسطینی ماہی گیر خاتون مدلین کلاب کے نام سے منسوب ہے۔ کشتی نے 1 جون 2025 کو اٹلی کے شہر کاتانیا سے روانگی اختیار کی۔
کشتی میں بنیادی امدادی اشیاء موجود ہے ۔ اس  میں 
بچوں کا دودھ (فارمولا)
آٹا، چاول، دالیں
ڈائپرز
ابتدائی طبی امداد کی کٹس
بچوں کے مصنوعی اعضاء
پانی صاف کرنے والے یونٹس
 کشتی میں شامل نمایاں افراد
گریٹا تھنبرگ (ماحولیاتی کارکن)
ریما حسن (فرانسیسی-فلسطینی MEP)
عمر فیاض (صحافی)
تھیگو ایویلا (برازیلی کارکن)
سرجیو توریبیو (ہسپانوی کارکن)
یہ عملہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً درجن بھر کارکنوں پر مشتمل تھا۔
 مئی 2025 کا حملہ
اس سے قبل 2 مئی 2025 کو فلوٹیلا کی پہلی کشتی
 "Conscience"
 پر مالٹا کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ڈرون حملہ ہوا تھا۔ اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا، کیونکہ ایک اسرائیلی C-130
 طیارہ اس علاقے میں موجود تھا۔
8
 جون کو مدلین کشتی پر ڈرونز کے ذریعے سفید رنگ جیسا مادہ چھڑکا گیا جو سانس اور آنکھوں میں جلن پیدا کر رہا تھا۔ اسی دن اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں کشتی پر دھاوا بول کر اسے قبضے میں لے لیا اور اسے اشدود بندرگاہ منتقل کر دیا گیا۔ عملے کو حراست میں لے کر بعد ازاں ملک بدر کرنے کی تیاریاں کی گئیں
اسرائیلی حکام نے کہا کہ یہ کارروائی بحری ناکہ بندی کے تحت "قانونی" ہے اور فلوٹیلا کے شرکاء دراصل "حماس کے حامی" ہیں۔ وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے فوج کو "تمام ضروری اقدامات" کی ہدایت جاری کی۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے اسے اسرائیل کی جانب سے "قزاقی" قرار دیا اور کہا کہ کشتی بین الاقوامی پانیوں میں تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ وہ انسانی امداد لے کر جا رہے تھے اور ان کا مشن پرامن اور قانونی ہے۔
اسرائیل کی اس کارروائی پر دنیا بھر میں تنقید کی گئی۔ فرانس، اسپین، اور دیگر یورپی ممالک نے احتجاج کیا۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
 مشن کے بنیادی مقاصد
فلسطینی عوام کے لیے علامتی و حقیقی امداد پہنچانا
غزہ کی ناکہ بندی کو قانونی و اخلاقی سطح پر چیلنج کرنا
عالمی میڈیا اور عوام کی توجہ غزہ کے انسانی بحران کی طرف مبذول کرانا
یہ مشن مکمل طور پر علامتی نوعیت رکھتا ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی مقصد دنیا کو جگانا، اسرائیلی پالیسیوں کو بے نقاب کرنا، اور غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی ظاہر کرنا تھا۔ اس سے قبل 2010 میں ماروی مرمرہ فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے میں 10 کارکن شہید ہوئے تھے، جس سے عالمی سطح پر سخت ردعمل پیدا ہوا تھا۔


حقیقی آزادی



کہتے ہیں انسان نے آگ جلانا سیکھا، شکار کرنا سیکھا، زبان بنائی، شہر آباد کیے —
مگر وہ خوف سے کبھی آزاد نہ ہو سکا۔
وہ غار کے دور میں بھی ڈرتا تھا — اندھیری راتوں، درندوں اور گرجدار بادلوں سے۔
اور آج… وہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ڈرتا ہے — افلاس سے، عذاب سے، بیماری سے، دوزخ سے، موت سے۔
یہ خوف — کبھی مذہب کے لبادے میں آتا ہے، کبھی دنیاوی محرومیوں کے روپ میں، اور کبھی انسان کے اپنے نفس سے۔
تاریخ میں مارٹن لوتھر کے زمانے کا واقعہ درج ہے کہ
ایک کسان نے انڈ لجنس
indulgence
خریدنے کے بعد وہ سوال کر لیا جو خوف کی بنیاد ہلا گیا:
"اگر میں قتل کر دوں، تو کیا بچ جاؤں گا؟"
"ہاں!" پادری نے اطمینان سے جواب دیا۔
اور کسان نے اُسے قتل کر دیا — کیونکہ معافی نامہ وہ پہلے ہی خرید چکا تھا۔
یہاں ہر محلے میں ایک پیر، ہر چینل پر ایک مبلغ، ہر فیس بک پیج پر ایک مجازی شیخ موجود ہے۔
وہی خوف بیچا جا رہا ہے — صرف انداز بدلا ہے۔
چندہ نہ دیا؟ خدائی عذاب!
کسی فقیر کو انکار کیا؟ رزق بند ہو جائے گا!
فلاں بزرگ کے مزار پر حاضری نہ دی؟ سانحہ ہو جائے گا!
سوال کر لیا؟ ایمان خطرے میں ہے!
اس کے عالوہ
غربت کا خوف، بے روزگاری کا خوف، کاروبار کے تباہ ہونے کا خوف، فصل نہ اُگنے کا خوف، بچوں کے بچھڑنے کا خوف…
ان سب خوفوں کے بیچ انسان جیتا نہیں، بس زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
لیکن ان سب خوفوں سے بڑا ایک ہی ہے: موت کا خوف۔
موت — جو کسی وقت، کسی شکل میں آ سکتی ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے: موت کے بعد کا انجام۔
کیا ہم نجات پائیں گے؟
کیا بخشش ممکن ہے؟
یا ہم ہمیشہ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے؟
یہ سوالات صرف مذہب سے وابستہ نہیں، یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔
خوف… کیا ہمیشہ برا ہے؟
نہیں۔
خوف کبھی کبھی تحفظ دیتا ہے۔
دوزخ کا خوف ہی ہے جو ہمیں جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔
غربت کا اندیشہ ہی ہمیں محنت پر اکساتا ہے۔
اپنوں کے بچھڑنے کا ڈر ہمیں ان کی قدر سکھاتا ہے۔
لیکن…
جب خوف انسان کی آزادی، رائے، ضمیر اور سوال کو کچلنے لگے —
تو وہ صرف ایک شکنجہ ہوتا ہے، ایک اندھی تقلید کا بوجھ، جس کے نیچے انسان سانس لینا بھول جاتا ہے۔
نجات کا واحد دروازہ: سچائی اور شعور
قرآن کہتا ہے:
"فَلا تَخافُوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ"
(ان سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو)

اتوار، 8 جون، 2025

ریاستوں مین بکھرتا بھارت



 پاکستان سے حالیہ جنگی محاذ پر شکست نے نہ صرف عالمی منظرنامے پر بھارت کی گرفت کو ڈھیلا کیا، بلکہ اس کے اندرونی ڈھانچے کو بھی لرزا کر رکھ دیا ہے۔
سب سے پہلے منی پور نے آواز اٹھائی — اور اب وہ آواز بھارت کے مشرق سے مغرب تک گونجنے لگی ہے۔
منی پور، جسے 1949 میں بھارت میں ضم کیا گیا، برسوں سے اندرونی خلفشار اور نسلی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ 2023 میں شروع ہونے والے  فسادات، نہ صرف خون ریزی کا باعث بنے بلکہ وفاقی حکومت کی ناکامی کو بھی بے نقاب کر گئے۔
علیحدگی کی پہلی کھلی صدا کوکی برادری کی طرف سے آئی۔ انہوں نے "الگ انتظامیہ" کا مطالبہ کیا اور یہ پیغام دیا کہ اب مشترکہ ریاست کا تصور ان کے لیے ناقابلِ قبول ہو چکا ہے۔
پاکستان سے شکست کے بعد بھارت کی مرکزی حکومت داخلی طور پر کمزور پڑ چکی ہے۔ سیکیورٹی ادارے داخلی احتجاجوں سے پریشان، اور عوام مہنگائی و بے روزگاری کے بوجھ تلے پس رہے ہیں۔ ایسے میں پنجاب، آسام، ناگالینڈ اور یہاں تک کہ تمل ناڈو میں بھی علاقائی قوم پرستی کی ہوا تیز ہو گئی ہے۔
تجزیہ کار انورادھا اوینام 
(The Diplomat) 
لکھتی ہیں:
"منی پور کی شورش دراصل دہلی کے ساتھ اعتماد کے ٹوٹنے کا نتیجہ ہے۔ جب حکومت عوام کی فریاد نہ سنے، تو راستہ صرف دو ہی رہ جاتے ہیں: خاموشی یا بغاوت۔"
پنجاب میں خالصتان تحریک کی بازگشت دوبارہ سنائی دینے لگی ہے۔ سوشل میڈیا پر خالصتانی پرچم، جلسے اور بیرونِ ملک کی سرگرمیاں ایک نئے دور کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔ ریاستی حکومتیں ان آوازوں کو دبانے لی کوشش تو کر رہی ہیں، مگر سکھوں  کے ذخم گہرے ہیں اور اس جنگ نے ان کے زخم مزید گہرے کر دیے ہیں ۔ ان پر اب مرکزی حکومت نے اعتبار کرنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔  
شمال مشرقی بھارت کی چھوٹی ریاستیں عرصہ دراز سے علیحدہ شناخت اور خودمختاری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جنگلوں میں سرگرم شورش پسند گروپوں نے اب کھلے عام بھارت سے آزادی کی بات شروع کر دی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز کے مطابق:
"شمال مشرق کے 70 سے زائد گروہ اب بھی فعال ہیں اور مرکز کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ منی پور ان کے لیے ایک مثال بنتا جا رہا ہے۔"
ہندوستان ایک کثیرالثقافتی ملک ہے۔ اگر اس کی سیاست "ایک قوم، ایک مذہب، ایک زبان" کے نظریے پر چلتی رہی، تو منی پور صرف آغاز ہوگا۔ ہر وہ خطہ جہاں اپنی شناخت موجود ہے، وہ آزاد ہونا چاہے گا۔
اس وقت منی پور اپنی آزادی کی منزل کے بیت قریب ہے ۔ اگر منی پور بھارت سے آزادی حاصل کرنے میں 
کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر
پنجاب 
آسام اوربنگال کی علیحدگی کو روکنا ممکن نہیں رہے گا/

گورا قبرستان



Commonwealth war graves Commision

نے اپنی ویب سائت پر 4 نومبر 2022 کو ایک تصویر شائع کی تھی جس میں ایک برطانوی سپاہی کی باقیات کو ، اس کی موت کے 105 سال برطانیہ کے ایک قبرستان میں دفناتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ زندہ قومیں اپنے مرنے والے جانثاروں کو بھولتی ہیں نہ ان کی قبروں کو ویران ہونے دیتی ہیں ۔اس کا ثبوت راولپنڈی کے سی ایم ایچ ہسپتال کے ایمرجنسی گیٹ کے سامنے ، ہارلے سٹریٹ کے علاقے میں گورا قبرستان ہے ۔جس میں برطانوی بری فوج اور فضائیہ کے اس علاقے مین جنگ کا ایندھن بننے والے فوجی دفن ہیں ۔

دنیا بھر مین عسکری خدمات دیتے ہوئے جان بحق ہونے والوں کی قبروں اور قبرستانوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک ادارہ بنا ہوا ہے جس کا نام کامن ویلتھ گریوز کمیشن ہے ۔ ہارلے سٹریٹ کے علاقے میں موجود گورا قبرستان اسی ادارے کی زیر نگرانی ہے ۔ اس قبرستان میں جنگ ؑ عظیم اول کے 257 اور جنگ ؑعظیم دوئم کے 101 لوگ کو قبریں ہیں حالانکہ قبروں کی مجموعی تعداد 357

ہے اس کی وجہ ہے کہ ایک شخص جس کا نام ارتھر کنراڈ گرٹس تھا کی قبر کی نشاندہی نہیں ہو سکی ہے ۔