بدھ، 30 اپریل، 2025

فیس سیونگ سے فیس چینج تک



فیس سیونگ سے فیس چینج تک

تحریر : دلپذیر

2019 

سے 2025 تک کا عرصہ برصغیر کے سیاسی، عسکری اور سفارتی منظرنامے میں کئی اہم موڑ لے کر آیا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات جنہیں کبھی "نارملائزیشن" کی امید سے جوڑا جاتا تھا، وہ ایک بار پھر "سیکیورٹی اسٹیٹ بنام پاپولر نیشنلزم" کی کھائی میں جا گرے۔ 2019 میں جب پلوامہ کے واقعے نے سرخیوں میں جگہ بنائی اور بالاکوٹ پر حملے کی خبر آئی، تو خطے میں جنگ کے بادل اچانک چھا گئے۔ عالمی قوتوں نے بیچ بچاؤ کر کے معاملات کو کسی حد تک "سفارتی طور پر طے" کروا دیا، لیکن اس حل کو "فیس سیونگ" کے نام پر یاد رکھا گیا۔

ہندوستان کو اپنی عوامی خواہشات کے سامنے ایک کامیاب کارروائی کا دھوکہ دینا تھا، اور پاکستان کو عالمی دباؤ سے بچنے کے لیے ایک عقلی راستہ اختیار کرنا تھا۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے تئیں ایک چالاکی کا مظاہرہ کیا، لیکن اس چالاکی کا انجام آنے والے برسوں میں واضح ہو گیا۔

پاکستان میں  یہ آواز بھی سنائی دی: "ہمارے پاس تو ٹینک میں تیل ڈالنے کے پیسے بھی نہیں ہیں"۔ یہ ایک جملہ تھا، مگر درحقیقت پوری ریاست کی معاشی ناتوانی اور عالمی تنہائی کا عکاس تھا۔ لیکن وقت کے پہیے نے پلٹا کھایا ہے۔ وہ 2019 تھا، اب 2025 ہے۔ منظرنامہ یکسر مختلف ہے۔
سپہ سالار اگلے مورچوں پر جوانوں کے ساتھ کھڑا ہے، جوانوں کا مورال بلند ترین سطح پر ہے۔ ماضی کی ہزیمتیں — 1971، کارگل، اور پلوامہ — آج ایک یاد دہانی بن چکی ہیں کہ صرف عسکری تیاری کافی نہیں، قومی وژن اور اقتصادی خودمختاری بھی لازم ہے۔

2019 

میں بھارت میں مودی کی پاپولسٹ سیاست نے خطے کو بحران کی جانب دھکیلا، اور آج بھی ویسا ہی رجحان نظر آ رہا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا جواب بلوچستان میں دینے کے نعرے ایک بار پھر فضا میں گونج رہے ہیں۔ مودی حکومت کی انتخابی حکمتِ عملی ہمیشہ "دشمن تراشی" پر مبنی رہی ہے، جہاں پاکستان کو ایک آسان ہدف بنا کر عوامی حمایت حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کا مسئلہ، بھارت کے مسئلے سے مختلف ہے۔ ہم ایک احسان زیاں، قومی بحران، اور مسلسل دھوکے کے کرب سے گزر چکے ہیں۔ ہماری عوام اب جنگ سے زیادہ امن، اور دشمنی سے زیادہ ترقی کی خواہاں ہے۔

پاکستانی عوام کا شعور بدل چکا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ ہر چند سال بعد ایک مصنوعی بحران کھڑا کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں جو بھی معمولی ترقی ہوتی ہے، وہ راکھ ہو جاتی ہے۔ یہی شعور ہے جس نے ایک پاپولر لیڈر کو قید خانے تک پہنچا دیا۔ قوم اب پاپولزم سے تھک چکی ہے۔
مگر بھارت کی عوام شاید ابھی اس منزل تک نہیں پہنچی۔ ورنہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں مودی کے جنگی بیانیے کا حصہ نہ بنتیں۔ بھارت ایک ایسے سیاسی جال میں پھنس چکا ہے جہاں "قوم پرستی" اور "جنگی ہیجان" کی آڑ میں اصل مسائل پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔

مودی حکومت عوام کو شیر پر سوار ہونے کا منظر دکھا رہی ہے، مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ شیر سے اترنے کے بعد کیا ہو گا۔ بھارت کے میڈیا اور سیاسی قوتیں اپنے ہی جال میں پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ خطے کے امن کو داؤ پر لگا کر وقتی سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن یہ آگ صرف سرحد کے اِس پار نہیں رکے گی۔

مودی کو 2019 میں جو فیس سیونگ دی گئی، اس کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔ سفارتی چالاکی کے پردے میں اصل ایشوز کو دبا دینا، نہ صرف ریاستی کمزوری کی علامت ہوتا ہے، بلکہ وہ کمزوری کل کو سیاسی بھوت بن کر واپس آتی ہے۔ اب بھی فون بج رہے ہیں، پیغامات آ رہے ہیں: "کچھ کر گزرو، مگر فیس سیونگ دے دو"۔
لیکن اس بار حالات مختلف ہیں۔

روڈ پر بیٹھا ریڑھی بان، دکان دار، طالب علم، سرکاری ملازم، وزیر اعظم، ٹینک کا ڈرائیور، اور خود سپہ سالار — سب ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں: اب یا کبھی نہیں۔ وہ گولی جو ہم نے گھاس کھا کر بنائی تھی، شاید اب وقت آ گیا ہے کہ اس کا مصرف دیکھا جائے — نہ اس لیے کہ ہم جنگ چاہتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ روز روز کے بحران، دھمکیوں، اور فریبوں سے نجات صرف ایک واضح موقف سے ممکن ہے۔

یقیناً، اس تالاب میں کچھ ایسے مینڈک بھی ہیں جو بار بار پھدک پھدک کر یہ بتاتے ہیں کہ مودی تو پاگل ہے، تم تو ہوش سے کام لو، کوئی راستہ نکالو، فیس سیونگ دے کر معاملہ رفع دفع کرو۔ لیکن سوال یہ ہے: 2019 کی فیس سیونگ اگر 2025 میں گلے کا طوق بن چکی ہے، تو کیا 2025 کی فیس سیونگ زہر کا پیالہ نہیں بنے گی؟

پاکستان کو اب فیس سیونگ کی سیاست سے باہر آ کر فیس چینج کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ قوموں کی بقا "سیاسی سمجھوتوں" میں نہیں، بلکہ اپنے وژن اور اصولوں پر ڈٹ جانے میں ہے۔
جنگ نہ سہی، مگر جنگ سے زیادہ خطرناک وہ امن ہے جس کی بنیاد جھوٹ اور وقتی فائدے پر ہو۔


منگل، 29 اپریل، 2025

اللہ کا دوست


 اس اللہ کے ولی کوساری دنیا جانتی ہے کیا آپ بھی جانتے ہیں؟


اسے پاکستان نے اعلی ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نواز تو اعزاز کے ساتھ ملنے والی رقم جو ایک کروڑ روپے بنتی تھی
اس رقم کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ تحقیقات اسلامی کو یہ کہتے ہوئے دیا کہ اگر اس فانی دنیا میں یہ اعزاز وصول کیا تو پھر باقی رہنے والی زندگی کے لئے کیا بچے گا.



اس نے 1994ء میں کنگ فیصل ایوارڈ کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے لکھا ہے لہذا مجھ پر میرے دین کو خراب نہ کریں.


ااس نے فرانس کی نیشنیلٹی کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی کہ مجھے اپنی مٹی اور اپنے وطن سے محبت ہے.


اس کے ہاتھ پر 40000 غیر مسلموں نے کلمہ طیبہ پڑھا.


یہ 22 زبانوں کا ماہر تھا اور 84 سال کی عمر میں تھائی سیکھ لی تھی.


اس نے مختلف زبانوں میں 450 کتابیں اور 937 علمی مقالے لکھے.

وہ اپنے برتن اور کپڑےخود دھوتا تھا.





یہ وہ عظیم مصنف جس نے حدیث کی اولین کتاب جو 58 ہجری میں لکھی گئی تھی جسے
صحیفہ ہمام بن منبہ کہا جاتا ہے
اس عظیم حدیثی و تاریخی دستاویز کو انہوں نے
1300
سال بعد جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور تحقیق کے بعد شائع کرایا.


اتنا نیک شخص جس نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ و تفسیر لکھا اس شاہکار ترجمے کے بیسوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں.


ایک ایسا عاشق رسول جس نے "تعارف اسلام " کے نام سے ایک شاہکار کتاب لکھی جس کتاب کے دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں.


ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تھی،آپ 1908 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے،
آپ نے 1933ء میں جرمنی کیبون یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد وہیں عربی اور اردو کے استاد مقرر ہوئے.

آپ 1946ء میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ (سفیر) مقرر ہوئے۔


1948
میں سقوط حیدر آباد اور انڈیا سے ریاست کے جبری الحاق پر سخت دلبرداشتہ ہوئے اور جلاوطنی کی زندگی اختیار کی اور جلا وطنی کے دوران "حیدرآباد لیبریشن سوسائٹی" کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی.

1950
میں پاکستان کا پہلا قانونی مسودہ بن رہا تھا تو آپ سے رابطہ کیا گیا آپ پاکستان تشریف لائے. آپ نے 1952 سے 1978 تک ترکی کی مختلف جامعات میں پڑھایا 1980
میں جامعہ بہاولپور میں طلبہ کو خطبات دیے جنہیں بعد ازاں خطبات بہاولپوری کے نام سے شائع کیا گیا یہ عظیم علمی اور فکری شخصیت 17 دسمبر 2002 کو امریکی ریاست فلوریڈا میں انتقال کر گئی.
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کہنے کو ایک فرد تنہا لیکن کام کئی جماعتوں سے زیادہ کر گئے،اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے.

پیر، 28 اپریل، 2025

پیشگوئی: ماضی، حال اور مستقبل


پیشگوئی ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہی ہے۔ قرآن، بائبل، اور دیگر الہامی کتب میں متعدد پیشگوئیاں وقتاً فوقتاً سچ ثابت ہوتی رہی ہیں۔ بنیادی طور پر پیشگوئی دو اقسام کی ہوتی ہے: الہامی، جو انبیاء یا اولیاء کو خدا کی طرف سے عطا ہوتی ہے؛ اور علمی یا سائنسی، جو مشاہدے اور اندازے پر مبنی ہوتی ہے۔

اسلامی تاریخ میں کئی بزرگوں نے الہامی انداز میں پیشگوئیاں کیں، جن میں حضرت نعمت اللہ ولیؒ کا نام نمایاں ہے۔ آپ کی فارسی نظم میں برصغیر میں انگریزوں کی آمد، مسلمانوں کی غلامی، پاکستان کا قیام، اور اسلام کے احیاء کی حیرت انگیز تفصیل موجود ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

"آئیں گے مشرق سے شیر دل جوان،
دین کا ہوگا پھر روشن نشان"

آج فلسطین و کشمیر میں جو بیداری دکھائی دے رہی ہے، وہ انہی اشارات کی تعبیر معلوم ہوتی ہے۔

دوسری طرف القدس کے مسئلے پر دنیا کی مسیحی قیادت، خصوصاً ویٹیکن، اسرائیلی قبضے کی مخالف نظر آتی ہے۔ پوپ فرانسس نے یروشلم کو "تمام ادیان کے لیے مشترکہ مقدس شہر" قرار دیا۔ فلسطینی مسیحی راہب عطا اللہ حنا نے تو یہاں تک کہا:
"ہم مسجد اقصیٰ کے دفاع میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔"

اسلامی احادیث کے مطابق، آخری زمانے میں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا، جو امام مہدیؑ کے ساتھ مل کر دجال اور اس کے پیروکاروں (جن میں اکثریت یہودی ہوگی) کے خلاف قیادت کریں گے۔ یہ پیشگوئی عیسائی صحیفوں میں بھی پائی جاتی ہے، جہاں حضرت مسیحؑ "آخری جنگ" میں بدی کو شکست دیں گے۔

دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے، اور ظلم و عدل کے نئے محاذ کھل رہے ہیں، ان میں یہ پیشگوئیاں ایک آئینہ ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم ان اشاروں کو پہچان کر تیاری کرتے ہیں یا تاریخ کا دھارا ہمیں خود بہا لے جاتا ہے۔

اتوار، 27 اپریل، 2025

ایک سچا انسان

 

علم کی دو بنیادی اقسام ہیں: ایک وہ علم جو محنت، جستجو اور کوشش سے حاصل کیا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جو اللہ کی خاص عطا کے طور پر دل کی آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔ پہلا علم ڈگریوں، اسناد اور رسمی تعلیم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، جب کہ دوسرا علم براہِ راست الہام و بصیرت کا نتیجہ ہوتا ہے، جو دل کی گہرائیوں میں اتر کر انسان کو حقیقت کا مشاہدہ کراتا ہے۔

ہم اللہ کے برگزیدہ رسولوں کے علم پر لب کشائی کی جسارت نہیں کرتے، کیونکہ وہ علم الہٰی کی براہ راست امانت ہے۔ تاہم، علی ابن ابی طالبؓ کے علم پر بات کرنا ممکن ہے، کیونکہ ان کے دہن سے نکلے ہوئے گوہر بار، حکمت سے بھرپور، اور عقل و شعور کو جھنجوڑنے والے اقوال آج بھی کتابوں میں جگمگا رہے ہیں، اور  انسانیت  

کو راہ دکھا رہے ہیں۔

حضرت علی نے ولی اللہ کی کچھ نشانیاں بتائی تھی ولی اللہ وہی ہوتا ہے جو علم و عمل کا جامع ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جاہل اور لاعلم کو اپنا دوست نہیں بناتا۔ ولایت کے لیے حقیقت شناس اور باعمل ہونا شرط ہے۔ جب علم و عمل کا نور دل میں اتر جائے تو پھر اللہ کی عطا کا دروازہ کھلتا ہے۔

یہ بات عشروں برس پرانی ہے، جب ایک ہندوستانی نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بارے میں کہا: "ڈاکٹر اسرار سچے انسان ہیں۔" یہ جملہ میرے لیے باعثِ حیرت و تجسس بنا۔ ایک غیر مسلم کی زبان سے ایک قرآنی اسکالر کی سچائی کا اعتراف میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو قریب سے جاننے کی جستجو پیدا کر گیا۔ میں ان کے حلقہ احباب سے قریب ہوا، ان کی تحریروں کا مطالعہ کیا، ان کی تقریریں سنیں۔

اگرچہ ان کے بعض سیاسی نظریات میری طبیعت سے ہم آہنگ نہ ہو سکے، تاہم میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص بے غرض، مخلص اور سچائی کا پرستار ہے۔ اسی سوچ نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کی ہر بات کو تنقیدی نظر سے جانچوں، مگر سچائی کی روشنی ہمیشہ غالب رہی۔

 ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد میں نے ان کے لیے دل کی گہرائیوں سے مغفرت کی  دعا کی مگر یہ دعا  اللہ کے حضور درجات کی بلندی میں بدل گئی

  میں نے اپنی آنکھوں سے ان کی پیش گوئیوں کو حقیقت بنتے دیکھا تھا۔ وہ سچا انسان اب اپنے سچے رب کے حضور ہے۔ ان کی کئی پیش گوئیاں — خصوصاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی اور میدان کارزار کشمیر ہوگا — آج قریب الوقوع محسوس ہوتی ہیں۔


ہفتہ، 26 اپریل، 2025

بی بی پاک دامن

 

بی بی پاکدامنؒ — لاہور کی روحانی اور تاریخی نشانی

لاہور، جو صدیوں سے علم، روحانیت اور محبت کا مرکز رہا ہے، اپنے دامن میں بے شمار اولیاء اللہ کی قبروں اور خانقاہوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ انہی بزرگ ہستیوں میں بی بی پاکدامنؒ کا نام نہایت عقیدت سے لیا جاتا ہے۔ ان کا مزار آج بھی محبت، عقیدت اور روحانی سکون کا سرچشمہ ہے۔


بی بی پاکدامنؒ کا تاریخی پس منظر

تاریخی روایات کے مطابق، بی بی پاکدامنؒ کا اصل نام بی بی رقیہؓ تھا۔ آپ اہلِ بیتؑ میں سے تھیں اور حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی اولاد یا قریبی رشتہ دار سمجھی جاتی ہیں۔ بعض روایات میں ان کے ساتھ دیگر خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے، جن کی تعداد 35 سے 40 بتائی جاتی ہے۔
یہ نیک بیبیاں عباسی خلافت کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے وطن (عراق) سے ہجرت کر کے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آئیں۔ آخر کار لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں انہوں نے نہایت سادگی، پردے اور عبادت میں زندگی گزاری۔

"پاکدامن" لقب کا پس منظر

آپ کی پاکیزگی، عبادت گزاری، اور دنیا سے بے رغبتی دیکھ کر اہلِ لاہور نے انہیں "بی بی پاکدامن" کا لقب دیا۔ "پاکدامن" کا مطلب ہے وہ عورت جس کا دامن ہر طرح کی آلائش سے پاک ہو۔

لاہور میں آمد اور قیام

کہا جاتا ہے کہ جب بی بی پاکدامنؒ اور ان کی ساتھی بیبیاں لاہور پہنچیں تو یہ شہر ایک غیر مسلم اکثریتی بستی تھا۔ وہ یہاں ایک نسبتاً پر سکون جگہ پر قیام پذیر ہوئیں۔ ان کی شبانہ روز عبادات، ذکر الٰہی، اور صبر و شکر کی کیفیت نے اردگرد کے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔

روایات کے مطابق، بی بی پاکدامنؒ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی زندگی کو گوشہ نشینی میں گزارتے ہوئے دینِ اسلام کے پیغام کو اپنی سیرت اور کردار سے عام کیا۔ انہوں نے کبھی ظاہری دعوت نہیں دی، بلکہ اخلاق و کردار سے لوگوں کے دل جیتے۔

شہادت یا وفات؟

کچھ پرانی روایات کے مطابق بی بی پاکدامنؒ اور ان کے ساتھیوں کو مقامی مخالفین نے شہید کر دیا تھا، جب کہ بعض دیگر روایات کے مطابق وہ طبعی موت مریں۔
بی بی پاکدامنؒ کی قبر کا مقام وہی ہے جہاں آج ان کا مشہور مزار واقع ہے۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ یہ جگہ صدیوں سے زیارت گاہ ہے اور اسے صوفیاء، درویشوں اور عام مسلمانوں کی عقیدت حاصل رہی ہے۔


مزار کی تعمیر و توسیع

بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی موجودہ شکل کئی بار مرمت اور توسیع کے عمل سے گزری۔
مغل دور میں، اور بعد میں سکھ حکمرانوں کے زمانے میں بھی، مزار کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا۔ سکھ دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس مقام کو خصوصی تحفظ فراہم کیا تھا، کیونکہ مقامی لوگ اسے روحانی مقام تسلیم کرتے تھے۔

مزار کے اندرونی حصے میں ایک قدیم برگد کا درخت بھی ہے جسے مقامی روایات میں بڑی روحانی اہمیت دی جاتی ہے۔ زائرین مزار پر چادریں چڑھاتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں اور نذر نیاز پیش کرتے ہیں۔