جمعہ، 25 اپریل، 2025

اگر بھارت پاکستان کا پانی روک دے...!

 


اگر بھارت پاکستان کا پانی روک دے...!

جنوبی ایشیا کی سیاست میں پانی اب بارود کی طرح خطرناک ہو چکا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا، جسے دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر بھارت آج اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کا پانی روک لے، تو اس کے نتائج محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ پاکستان کے وجود پر براہِ راست حملہ ہوں گے۔

سوچیے! پاکستان کی زراعت کا انحصار دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی زمینیں اسی پانی سے زندہ ہیں۔ اگر بھارت ان دریاؤں پر بند باندھ کر یا پانی روک کر پاکستان کو خشک سالی میں دھکیل دے تو سب سے پہلے ہماری زرعی معیشت دھڑام سے نیچے گرے گی۔ گندم، چاول، کپاس اور گنا جیسی بنیادی فصلیں تباہ ہو جائیں گی، اور ملک کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔

صرف اتنا ہی نہیں، پانی کی بندش کا مطلب بجلی کی بندش بھی ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے ڈیم پانی کے بغیر بے جان ہو جائیں گے۔ بجلی کی پیداوار میں نمایاں کمی آئے گی، جس کا براہ راست اثر صنعت، تجارت اور روزگار پر پڑے گا۔
جب صنعتیں رکیں گی، جب کھیت سوکھیں گے، تو بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ناگزیر ہو گا۔

دوسری طرف، شہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی کمی ایک نئی انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ اسپتالوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سیلاب آ جائے گا۔ بچے، بزرگ اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

اور یاد رکھیے، جب پیاس بڑھتی ہے تو احتجاج کی چنگاری شعلوں میں بدل جاتی ہے۔ پانی کی قلت پاکستان کے اندرونی امن کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کے سیاسی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دے گی۔

بین الاقوامی سطح پر بھی معاملہ آسان نہ ہو گا۔ اگر بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، تو پاکستان عالمی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے، لیکن عدالتی کارروائی سست ہوتی ہے، جب کہ زمین پر لوگ پانی کے لیے تڑپ رہے ہوں گے۔
خطے میں جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا، کیونکہ پاکستان پانی کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔

اصل سوال یہ ہے: کیا بھارت سمجھتا ہے کہ پانی کی بندش کا بوجھ صرف پاکستان پر پڑے گا؟
نہیں! پانی کی جنگ کی آگ پورے برصغیر کو جلا سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک سمجھداری سے کام لیں، اور انڈس واٹر ٹریٹی جیسے معاہدوں کی پاسداری کریں۔

کیونکہ پانی زندگی ہے — اور زندگی پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔

تاریخ کروٹ لینے والی ہے



دنیا میں کچھ جرائم بارود سے کیے جاتے ہیں، اور کچھ خاموشی سے —  پانی، جو زندگی کا استعارہ ہے، جب ہتھیار بن جائے تو یہ صرف کھیتوں کو نہیں، انسانیت کو بھی ویران کر دیتا ہے۔

پاکستان کی زمین، جو دریاؤں کے سائے میں پروان چڑھی، آج ایک ایسے خطرے کی دہلیز پر کھڑی ہے جس کا تعلق  پانی  سے ہے۔
اگر بھارت، سیاسی یا انتقامی سوچ کے تحت، اپنے علاقے سے نکلنے والے دریاؤں — جہلم، چناب، سندھ — کا پانی پاکستان کی طرف روکنے کی کوشش کرے، تو یہ محض معاہدے کی خلاف ورزی نہیں، انسانیت کے خلاف  جرم ہو گا۔پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی تاریخ نئی نہیں۔

بلکہ انسانیت کے ماتھے پر سب سے گہرا داغ کربلا میں لگا تھا —
جب نہرِ فرات کو بند کر دیا گیا۔
حسینؑ کے ننھے علی اصغر کی پیاس صرف جسمانی نہیں تھی، وہ پیاس انصاف کی تھی، شرافت کی تھی، اور انسانیت کی آخری سانس تھی۔

پانی روکا گیا… اور تاریخ نے کروٹ بدلی تھی۔ 


جمعرات، 24 اپریل، 2025

کبوتر




کبوتر: قدرت کا ہوشیار قاصد

کبھی آسمان پر پرواز کرتا ایک معصوم سا کبوتر دیکھا ہے؟ شاید آپ نے اسے صرف ایک عام پرندہ سمجھا ہو، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ حیران کن ہے! کبوتر نہ صرف خوبصورتی اور محبت کی علامت ہیں بلکہ ذہانت، وفاداری اور حیران کن صلاحیتوں کے مالک بھی ہیں۔
دماغی صلاحیتیں: آئینے میں پہچان اور یادداشت کا کمال

کبوتر وہ نایاب پرندہ ہے جو آئینے میں اپنی شبیہ پہچان سکتا ہے — یہ صلاحیت صرف چند جانوروں کو حاصل ہے۔ یہی نہیں، وہ مختلف چہروں اور تصویروں کو طویل عرصے تک یاد بھی رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ دوسرے کبوتروں میں فرق بھی پہچان سکتے ہیں۔
راستہ شناس: ہزاروں میل دور سے گھر واپسی

کبوتروں کی "ہومنگ" صلاحیت ایک معجزہ لگتی ہے۔ چاہے انھیں کتنی ہی دور چرا لیا جائے، وہ سینکڑوں میل دور سے اپنے آشیانے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں — جیسے ان کے ذہن میں گوگل میپ انسٹال ہو!
بصارت، سماعت اور پرواز: حیرتوں بھری دنیا

ان کی نظر نہ صرف تیز ہے بلکہ وہ سطحوں کو 3D میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی سماعت بھی غیر معمولی ہے، جو انسانوں کے سننے کی حد سے کہیں کم فریکوئنسی والی آوازوں کو بھی سن سکتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے یہ سینکڑوں میل دور سے ہواؤں کی سرگوشی سن لیتے ہیں، اور 26 میل دور تک دیکھ سکتے ہیں۔

کبوتروں کی پرواز بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ایک دن میں سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پندرہ سو سے سترہ سو کلومیٹر کا سفر طے کر سکتے ہیں! ان کے دس ہزار پر، تیرہ انچ کی لمبائی، اور چھے سو دھڑکنیں فی منٹ ان کی طاقتور بناوٹ کا ثبوت ہیں۔
تاریخ کے قاصد: میدانِ جنگ میں ہیرو

پانچ ہزار سال پہلے یونانیوں نے کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے تربیت دینا شروع کیا۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی یہ خاموش سپاہی بن کر اُبھرے۔ ایک کبوتر، جس کا نام "چر آمی" (Cher Ami) تھا، زہریلی گیسوں سے بچتا ہوا، سینے اور ٹانگ پر گولیاں کھا کر بھی پیغام پہنچا گیا اور کئی زندگیاں بچا گیا۔ اسے اعزازی میڈل سے نوازا گیا — کیا انسان ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟
محبت، ہمدردی اور ایثار

کبوتر صرف ذہین نہیں، دل والے بھی ہیں۔ کھانے کے وقت اگر کوئی بچہ پاس ہو، چاہے وہ ان کا ہو یا نہیں، یہ اسے دانہ کھلا دیتے ہیں۔ نر اور مادہ دونوں برابر کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ ایک نر کبوتر کی محبت اور وفاداری بھی قابلِ مثال ہوتی ہے۔
آج بھی خدمات جاری

فرانس، چین، اسرائیل، سویڈن اور دیگر ممالک میں آج بھی کبوتر فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کبوتر ریس ایک مہنگی تفریح بن چکی ہے — سب سے مہنگا کبوتر 2,25,000 ڈالر میں فروخت ہوا!
روحانی اہمیت

اسلام، ہندو مت، سکھ مت اور بدھ مت — ہر بڑے مذہب میں کبوتروں کو دانہ ڈالنا باعثِ ثواب سمجھا جاتا ہے۔ یہ پرندے صرف زمین پر نہیں، دلوں میں بھی جگہ رکھتے ہیں۔

کبوتر کو اب صرف "پرندہ" کہنا شاید اس کی توہین ہو۔ وہ تو ایک ذہین، باوفا، خاموش قاصد ہے — جو صدیوں سے انسان کے ساتھ چل رہا ہے، کبھی چھاؤں، کبھی پیغام، کبھی دعا بن کر۔

تسلسل /مسلسل



 کائنات کے نظام میں تسلسل ایک بنیادی اصول ہے۔ سورج روز طلوع ہوتا ہے، رات ہر دن کے بعد آتی ہے، اور موسموں کی گردش کبھی نہیں رُکتی۔ یہی تسلسل فطرت کا حسن بھی ہے اور طاقت بھی۔ اسی تسلسل کی ایک شاندار مثال ہے: "پانی کا مسلسل بہاؤ سخت چٹان میں سے راستہ بنا لیتا ہے" — یہ صرف ایک قدرتی مشاہدہ نہیں بلکہ انسان کے لیے ایک عظیم درس ہے کہ اگر کوشش لگاتار ہو، تو کامیابی یقینی ہے، چاہے سامنے چٹان جیسی رکاوٹ ہی کیوں نہ ہو۔

تسلسل: کامیابی کی کنجی

پانی میں کوئی ظاہری سختی یا طاقت نہیں ہوتی، لیکن اس میں ایک خوبی ہے — وہ رکتا نہیں۔ نہ تھکتا ہے، نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ نرم ہو کر بھی وہ چٹان کو کاٹ دیتا ہے، لیکن صرف ایک شرط پر: مسلسل بہنے کی شرط پر۔

انسان کی زندگی میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ کامیابی اُنہی کے قدم چومتی ہے جو وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر رک نہیں جاتے، بلکہ پانی کی طرح بہتے رہتے ہیں، حالات سے الجھتے رہتے ہیں، اور وقت کے ساتھ اپنے لیے نئی راہیں نکال لیتے ہیں۔

قرآن کی روشنی میں: صبر اور تسلسل

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صبر اور استقامت کو بارہا کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ"
(العنکبوت 29:69)
اور جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں، اور بے شک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔

یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ جدوجہد مسلسل ہو تو رہنمائی بھی آتی ہے اور منزل بھی۔ یعنی وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ٹھہرے نہیں رہتے، جو مشکلات کے باوجود چلتے رہتے ہیں۔

حضرت موسیٰؑ کا واقعہ بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ جب بنی اسرائیل سمندر کے کنارے بے بس کھڑے تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو حکم دیا کہ لاٹھی سمندر پر مارو۔ اور پھر سمندر چٹان کی مانند دو حصوں میں بٹ گیا:

"فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ"
(الشعراء 26:63)
تو سمندر پھٹ گیا اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہو گیا۔

یہ محض معجزہ نہیں تھا بلکہ صبر، یقین اور تسلسل کے بعد آنے والی فتح کی علامت تھی۔

بائبل کی روشنی میں: نہ رکنے کی تلقین

بائبل میں بھی یہی پیغام موجود ہے۔
پولس رسول فرماتے ہیں:

نیکی کرتے کرتے تھک نہ جاؤ، کیونکہ اگر ہم باز نہ آئیں تو وقت پر ہم اس کا پھل ضرور پائیں گے۔

یہ آیت تسلسل کی روح ہے۔ جب ہم تھکتے نہیں، جب ہم باز نہیں آتے، تبھی ہمیں پھل ملتا ہے۔ حضرت ایوبؑ کی زندگی اسی تسلسل کا نمونہ ہے — بیماری، غم اور تنہائی کے باوجود اُنہوں نے صبر نہیں چھوڑا، اور آخرکار اللہ نے انہیں دُگنا انعام دیا۔

 بہتے رہنے والا کبھی ہارتا نہیں

پانی کی طاقت اُس کی روانی میں ہے، اُس کے بہنے میں ہے۔ اگر وہ رُک جائے تو بدبودار ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ بہتا رہے تو زرخیزی، تازگی اور راستہ دونوں لے آتا ہے۔

اسی طرح، انسان کو بھی اپنی زندگی کے مقصد کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ رک جانا، تھک جانا، اور ہار مان لینا صرف ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔
جو بہتا ہے، وہ منزل پاتا ہے۔ جو رکتا ہے، وہ پتھر بن جاتا ہے۔

لہٰذا، کامیابی کا راز طاقت میں نہیں، تسلسل میں ہے۔ یہی قرآن کا درس ہے، یہی بائبل کی ہدایت، اور یہی فطرت کی گواہی۔

بدھ، 23 اپریل، 2025

اللہ آخر چاہتا کیا ہے


عملی زندگی میں  فخر کی روش عام ہو چکی ہے۔ کسی کو اپنے لباس پر فخر ہے کسی کو معاشرت پر تو کوئی قبیلہ کو اپنا فخر سمجھتا ہے اب توسنتے ہیں ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ہے -  اسلامی تعلیمات کی روح اطاعت میں پوشیدہ ہے، فخر میں نہیں۔
دین کی اصل روح اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت ہے۔ اس کے برعکس، کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دین پر فخر کرو یا اس کی بنیاد پر دوسروں کو کمتر جانو۔
رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں فتح مکہ بڑا واقعہ تھا ۔ اس موقع پر کسی نے بھی فخر کا اظہار نہ کیا بلکہ سر سجدے میں تھے یہ منظر اس بات کی علامت ہے کہ طاقت، عزت اور اختیار بھی اگر مل جائے تو بندگی کا تقاضا جھکنا ہے، نہ کہ فخر کرنا۔
بدقسمتی سے آج امتِ مسلمہ کے اندر فخر اور تعصب نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔
بات لباس ، قبیلے ، سواری اور مسلک سے ہوتے ہوئے اسلام تک پہچ چکی ہے ۔ فخر ایک ایسا فریب ہے جو نہ صرف فرد کو حقیقت سے دور کرتا ہے بلکہ سماج کو انتشار اور نفرت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی فخر شیطان کا پہلا گناہ تھا، جس نے کہا: "أنا خير منه" (میں اس سے بہتر ہوں) — اور ہمیشہ کے لیے لعنت کا حقدار ٹھہرا۔
دوسری جانب اطاعت ایک ایسی خصلت ہے جو اللہ کی قربت کا راستہ ہے۔ یہ بندے کو اس کے اصل مقام، یعنی عبدیت، تک پہنچاتی ہے۔ یہی وصف ہمیں اللہ کے محبوب بندوں میں شامل کرتا ہے۔
اسلام کی سربلندی اس میں نہیں کہ ہم اس پر فخر کریں، بلکہ اس میں ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں۔  ہماری اطاعت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے نہ کہ زبانی فخر کہ ہم مسلمان ہیں ۔ فخر ایک خول ہے جس میں بند ہو کر انسان اپنے خیالات کا ہی اسیر رہتا ہے جبکہ اطاعت ایسا خیمہ ہے جو ہوا دار بھی ہے اور باران کی رجمت سے بھیگتا بے تو اس کی نمی اندر تک محسوس ہوتی ہے ۔


آپ اس نیت سےقرآن کا مظالعہ کریں کہ کہ 
"اللہ آخر چاہتا  کیا ہے" 
تو جواب ملے گا
"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ"
(النساء: 59)
یعنی ’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔‘
 فخر خود فریبی ہے
جبکہ اطاعت مقصد حیات ہے