ہفتہ، 9 دسمبر، 2017

یروشلم ۔۔۔۔ انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟




تحریر: Asif Mahmood
امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقومی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں ہے تو سفارت خانہ وہاں منتقل کیسے ہو سکتا ہے؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں وہ بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کر پا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔
اسرائیل کے ناجائز قیام کی بحث کو ایک طرف رکھ دیجیے اور اسی بیانیے میں معاملے کو دیکھ لیجیے جس بیانیے میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں ہو گا۔
29 نومبر 1947 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum" کی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں ۔اس کی الگ اور جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں لیکن یروشلم کا شہر "Corpus Separatum" ہو گا اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاؤزین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک جاری رہی۔
اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن ، شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement" یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔چنانچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلا گیا۔یاد رہے کہ مسجد اقصی ، قبۃ الصخرا، مغربی دیوار ،اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔1967تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے انتظامی معاملات کو یکھتا رہا۔
1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا لیکن دنیا نے اس قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم ’’مقبوضہ فلسطین ‘‘ ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔سلامتی کونسل نے 22نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کوکہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت 15ممالک کے ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4جولائی 1967 کو قرارداد نمبر2253 کے ذریعے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل کر تا ہو۔99ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
تیرہ سال اسی طرح گزر گئے۔1980 میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہو گا۔اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرے۔اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آ گیا اور او آئی سی نے کہا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا تمام اسلامی ممالک سے اس کے سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں گے۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے 30 جون کو قرارداد نمبر 476 اور پھر 20 اگست 1980کو قرارداد نمبر 478 پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کو مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جب کہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔امریکہ البتہ غیر حاضر رہا۔چنانچہ اس قرارداد کے فورا بعدبولیویا،چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، پانامہ، یوروگوائے ، وینزیویلا، ایکواڈور ، سالوادور جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے واپس تل ابیب لے کر آ گئے۔حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے۔دسمبر 1980میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔وہ اس سے باز رہے۔
یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے کر چکی ہے کہ یہ اسرائیل کاحصہ نہیں ہے۔جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967 اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی 1968کی قرارداد نمبر252میں بھی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کر کے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہا ہے اس سے وہ اجتناب کرے۔
1990میں اسرائیلی کی جانب سے جب مسجد اقصی میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672کے ذریعے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کر دی گئی ہیں۔
یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ معاملہ 2004میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تا کہ اس سے ’’ ایڈ وائزری اوپینین‘‘ لیا جا سکے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔کہا گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ اس کا نہیں ہے بلکہ مقبوضہ ہے ۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات کریں۔عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔یہاں ا س غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔یاد رہے کہ امریکہ تو 1995ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کرا چکا ہے۔خواب پرانا ہے ،اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے رہے ہیں۔
اس وقت یروشلم کے معتبر ترین مسیحی رہنما ، گریک آرتھوڈوکس چرچ کے ثیو فیلوس الثالث اور درجن بھر دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے جس میں انہیں وارننگ دی ہے کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے آپ ناقانل تلافی نقصان اٹھائیں گے ، اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت ، تشدد میں اضافہ ہو گا اور امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہو جائیں گے۔
معاملہ کا قانونی پہلواب آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کی حمایت کرنے کے لیے دو میں سے ایک خوبی کا ہونا ضروری ہے۔اول: آدمی جاہل ہو۔ دوم: وہ بد دیانت ہو۔تیسری صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں یہ دونوں خوبیاں جمع ہو جائیں۔

بدھ، 6 دسمبر، 2017

سیکولرازم




سعودیہ ایک وسیع اور تاریخی ملک ہے۔ وہاں ، اگر کہا جائے ، دین لوگوں کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ قبائل پرمشتمل اس ملک کے ایک صوبے نجد میں جو روایات کا قلعہ کہا جاتا ہے میں اشیقر نامی قلعے سے متصل ایک ویران گلی میں ایک نوجوان لڑکی نے علاقے کی روایات سے ہٹ کر ایسا لباس زیب تن کیا جو اس علاقے میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے اچنبھے کی بات تھی۔ وہ لڑکی کوئی عام لڑکی نہ تھی، اس کا نام خلود ہے جو سعودیہ کی ایک پروفیشنل ماڈل ہے، جب خلود سکرٹ پہن کر ایک ویران گلی میں چہل قدمی کر رہی تھی اس کے اس عمل کو فلمایا گیا۔ لوگوں نے اس کی شکائت کی  . اس کے خلاف تفتیش ہوئی ، اس کے جرم کو نا قابل گرفت بتاتے ہوئے اس کے خلاف تفتیش بند کر دی گئی۔ البتہ اس کاویڈیو 
 کلپ ایک بحث کا عنوان بن گیاکہ  " فرد کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت ہونی چاہئے کہ نہیں۔

اب ایک مثال پاکستان کی، ایک دھرنے میں موجود ایک علامہ صاحب کے طرز تخاطب کو بنیاد بنا کر ، مولویوں ، علماء اور دینی مبلغین کے طرز تخاطب کو دین سے جوڑ کر دین کی بے ثمراتی پر بحث شروع کر دی گئی ہے۔ اوربحث کا مرکز ی نقطہ یہ ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے کو دینی ہونا چاہیے یا سیکولر ؟ 

سوشل میڈیا ایسا فورم ہے جہاں آ پ اپنا بیانیہ دوسرے کی رضامندی کے بغیر بھی اس کے ذہن میں انڈیل سکتے ہیں۔ جب پکتی دیگ میں خیالات کا ایک دانہ بھی ڈال دیا جائے تو اس نے پک جانا ہے اور کسی مرحلے پر اس کے اثرات بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

پاکستان کے سوشل میڈیا پر جاری سیکولرازم پر تبصروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہمارے لبرلز ہیں جن کو ْ دیسی ْ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک روایات، اخلاقیات اور دین ایسے سنگ گراں ہیں جو معاشرے اور ملک کی ترقی میں حائل ہیں ۔ 

یہ بحث اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ ، قوم پرست اور دین دار طبقے کو اس بحث کا حصہ بن جانا چاہئے تاکہ نوجوان ذہن یک طرفہ بیانئے سے متاثر ہونے سے پہلے بیانئے کا دوسرا رخ بھی جان سکے۔

جمعہ، 1 دسمبر، 2017

شاہد خان کے نوکیلے قلم کا شاہکار



معروف واقعہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود اور مولانا عبدالستار نیازی دونوں ایک کمرے میں بیٹھے سیاسی گفتگو کررہے تھے کہ اچانک 
فضل الرحمان وہاں پر آگئے تب ان کا بچپن تھا انکے آتے ہی مفتی محمود صاحب نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر نیازی صاحب کو گفتگو روکنے کا اشارہ کیا بعد میں استفسار پر مفتی صاحب نے بتایا کہ سی آئی ڈی والوں نے فضل الرحمن کو میرا مخبر رکھا ہے لہٰذا اس کے سامنے ایسی ویسی بات مت کرنا۔
مولانا مفتی محمود کو اللہ نے پانچ صاحبزادوں سے نوازا، سب سے پہلے تو ان کے عہدے دیکھ لیں:
وہی والد کے مخبر مولانا فضل الرحمان، 6 مرتبہ ایم این اے، تیسری مرتبہ کشمیر کمیٹی کا چئیرمین، مراعات وفاقی وزیر کے برابر
انکے ایک بھائی مولانا عطا الرحمان آج کل سینیٹر ہے۔
دوسرے بھائی مولانا لطف الرحمان خیبرپختون خواہ اسمبلی کا اپوزیشن لیڈر ہے، مراعات وزیراعلی کے برابر۔
تیسرا بھائی مولانا ضیا الرحمان 2007 میں وزیراعلی اکرم درانی کے زریعے غیرقانونی ڈیپوٹیشن کے زریعے افغان مہاجرین کا ایڈیشنل سیکرٹری مقرر ہوا - پچھلے سال پانامہ لیکس میں فضل الرحمان نے نوازشریف کے حق میں بیان دیا تو نوازشریف نے ضیا الرحمان کو کمشنر افغان مہاجرین کے عہدے پر ترقی دے دی - مراعات اور اوپر کی آمدنی کے لحاظ سے یہ گریڈ 20 کے 30 افسروں کی آمدن سے بھی زیادہ پرکشش عہدہ ہے۔
چوتھا بھائی مولانا عبیدالرحمان ضلع کونسل ڈیرہ اسماعیل خان میں اپوزیشن لیڈر ہے۔
لوگوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں تو وہ خوش نصیب کہلاتے ہیں، مفتی محمود کے یہ پانچوں فرزند پورے کے پورے گھی میں ہیں، ان کی خوش نصیبی کے کیا کہنے۔
اس سے پہلے میڈیا میں خبر آچکی ہے کہ فضل الرحمان کے ایک بھائی کو پی آئی اے میں ایک نیا شعبہ " اسلامی " تخلیق کرکے اہم عہدے پر فائز کردیا گیا۔ مولانا صاحب کو بطور انسٹرکٹر پی آئی اے مسجد کے امام اور مؤذن کی " ٹریننگ " کرنا تھی لیکن موصوف ظہر کی چار فرض رکعات پڑھ کر ہی مسجد سے بھاگ جاتے۔
پھر یہ چھٹیاں لے کر، پی آئی اے کی بزنس کلاس کی مفت کی ٹکٹ پر امریکہ گئے، وہاں خود ہی اپنے آپ کو پی آئی اے کی طرف سے امریکہ میں پورا رمضان تراویح پڑھانے کی ڈیوٹی تفویض کردی اور 6 ہفتے امریکہ گزارنے کے بعد واپس آئے تو لاکھوں روپے ٹی اے ڈی اے کی مد میں چارج کرلئے۔
پھر ایک دن اپنے ہی شعبہ اسلامی میں رکھا قیمتی سامان، فرنیچر، کمپیوٹر، ٹی وی وغیرہ اپنے گھر پہنچا کر کہہ دیا کہ چوری ہوگئی۔
مولانا نے پی آئی اے میں ترقی پا کر اگلے گریڈ میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس مقصد کیلئے ان کیلئے علیحدہ سے ایک آسان سا اسلامی امتحان رکھا گیا جس میں مولانا بمشکل 50 نمبر ہی لے پائے اور بعد میں سارا الزام ممتحن پر ڈال دیا کہ اس نے " آؤٹ آف سلیبس " پرچہ لیا۔ اور تو اور فضل الرحمن کے بیٹے نے اپنے ہی باپ کیخلاف بغاوت کردی میڈیا کے مطابق ان کے بیٹے اسد الرحمان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی مدرسے پر مبینہ قبضے کی کوشش کی ۔ مقامی اخبار کے مطابق ملتان کے کچہری چوک پر واقع مدرسے پر اسدالرحمان کی قبضے کی مبینہ کوشش کو پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ناکام بنا دیا۔ مدرسے کے باہر پولیس کی نفری تعینات کی گئ
پتہ نہیں مفتی محمود مرحوم کو کس کی نظر لگ گئی، اللہ نے پانچ صاحبزادے دیئے، پانچوں کے پانچوں ، کرپٹ اور حکمرانوں کے دربار کے باہر بیٹھے .
الحمد للہ مولانا فضل الرحمان تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے باپ ہیں ۔ ان کے ایک بیٹے اسد محمود خیرالمدارس ملتان میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے مگر ٹانک سے وہ عمران کے امیدوار سے شکت یافتہ ہیں جبکہ ہ لکی مروت کی چھوڑی ہوئی نشست پر بھی مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطاءالرحمان کو تحریک انصاف کے امیدوار کی جانب سے بھی شکست کا سامنا ۔ دوسرے بیٹے انس محمود ڈی آئی خان میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ تیسرے بیٹے اسجد محمود حفظ قرآن میں مگن ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی فدائی بنا ہے ‘ نہ افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف مصروف عمل ہے ‘ نہ کشمیر کی آزادی کے لئے سرگرم ہے اور نہ جنوبی یا شمالی وزیرستان میں مورچہ زن ہے۔
ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا ۔ ۔ ۔ !!!


تحریر شاہد خان

پیر، 27 نومبر، 2017

پین دی سری




20
 دنوں کی تھکاوٹ نے جسم کوتوڑ ا اور ذہن کو لتاڑا ، دو چھٹیاں ، ایسے محسوس ہوا ساری تھکاوٹ اتر 
گئی۔ بھلا ہو راولپنڈی کی انجمن تاجراں کا جس نے ہڑتال کا اعلان کیا اوراسلام و آباد اور راولپنڈی کی انتظامیہ نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ان بیس دنوں کے آخر میں بہت سے لوگوں نے چند لوگوں سے اور بہت سارے لوگوں نے بہت سارے لوگوں سے بہت کچھ ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کسی نے اپنی اجرت لی، کسی نے محنتانہ، کسی نے لفافہ مگر ہماری بد قسمت پولیس کے حصے میں خون دے کر بھی بد نامی ہی آئی۔ اور یہ پہلی بار یا آخری بار نہیں ہے کہ پولیس کے حصے میں ْ پین کی سری ْ آئی ہے بلکہ یہ ایک جاری تماشہ ہے جو چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ مجھے ترس آتا ہے ان جوانوں پر جو پوری ہمت سے لاٹھیاں برسا کر صدق دل سے ْ 
پین کی سری ْ پاتے ہیں۔

صبح ساتھ بجے فیض آباد کا محاذ خود پولیس نے گرم کرنا شروع کیا، اشک آور گیس کے شلوں اور پتھروں سے ابتداء کی گئی۔ حسب منشاء عمل کا رد عمل پیدا ہوا اور 3 گھنٹوں میں میدان عمل اس قدر گرم ہو گیا کہ خیموں نے آگ پکڑ لی۔ مجاہدین بکھر چکے تھے، امیر المجاہدین تھک چکے تھے، پولیس ان تک پہنچ چکی تھی۔ کہ اچانک سب حالات بدل گئے۔ مجاہدین کے بقول موعود نصرت الہی نازل ہوئی ۔ذہن میں اس وقت توڈہاکہ کا پلٹن میدان آرہا تھا مگر اس کا حوالہ نہیں دونگا کہ خود کو خود سے شرم سی آتی ہے، کہ ہم ایک با غیرت قوم ہیں ، روشن تاریخ پر کالک کے دھبے ملنا ، احساس ہے کہ غلط کام ہے، اور اللہ تعالیٰ غلط کاموں 
کی توفیق ہی نہ دے۔

تحریک لبیک کے دھرنے کے قانونی، اخلاقی، سیاسی یا دینی پہلو کی بجائے زیر بحث پولیس کا اپریشن کلین اپ یعنی  "دھو ڈالو " ہے۔ کیا واقعی پولیس کے جوان میدان عمل میں ناکام رہے ہیں، یا کمانداروں کی کمان میں نقص تھا، یا بے وقت بچ اٹھنے والے موبائل فون باعث ناکامی بنے ہیں۔ یا  ْ یک سوْ  ہونے کا فقدان تھا۔اس موضوع پر کھلی بحث ہو جائے تو مستقبل میں دھرنا دینے کا ارادہ رکھنے والے، جگہ کا انتخاب کر کے لا بٹھانے والے، اخراجات برداشت کرنے والے،  دھرنے کو دھو ڈالنے کی نیت رکھنے والے، مجاہدین کو پانی کی سردی سے بچانے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت رکھنے والوں، ذمہ داری کا تعین کر کے قربانی کا بکرا ڈہونڈ نکالنے والوں ، منصفوں ، ضامنوں اور خود فریقین کو بہت سی غلطیوں کے اعادہ سے چھٹکارا مل جائے گا۔

امید ہی نہیں یقین ہے کہ اس کارخانہ حیات میں طوطی کی آواز لاوڈ سپیکروں کی آواز میں دب جائے گی ، پہلے ہم " مٹی پاو " حکمت عملی اپنائے ہوئے تھے ، گلوبل ویلج میں نیا ، ہمارے نعرے جیسا نعرہ صرف   ہمارے ہی پاس ہے ۔  نہیں سنا تو اب سن لیں    ْ پین دی سری ْ 

اتوار، 26 نومبر، 2017

بیانیہ


ہفتے کے دن کی صبح ہنگاموں، پتھراو، پولیس کی شیلنگ، جلاو گھیراو، روکو اور بند کرو کے نعروں کے ساتھ شروع ہوئی اور جب سورج غروب ہو ا تو شفق پردرجنوں انسانی لاشوں کے خون سے سرخ تھی،
2,000
افراد زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پڑے تھے،
7,000
افراد گرفتار ہو کر جیلوں میں جا چکے تھے
 تمام نجی ٹی وی چینل بند ہو چکے تھے، سوشل میڈیا بند ہو چکا تھا، موبائل فون سروس بعض علاقوں میں سسکیاں لیتی رہی، اور انٹرنیٹ یا تو بند ہوئی یا اس قدر سست ہو گئی کہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ سانس ہے کہ نہیں ہے۔








فیض آباد اور اس کے گرد و نواع سے 26 نومبر رات 8 بجے تک 8750
 ایسے خالی خول جمع کئے گئے ہیں جو پولیس نے لبیک یا رسول اللہ والوں کےخلاف انسو گیس پھینکنے کے دوران استعمال کیے 




  فیض آباد میں بیٹھے اہل دھرنا کے مطالبات 


کل کے خون ریز دن کے خاتمے پر اہل دھرنا جن کا نام ْ تحریک لبیک یا رسول اللہ ْ ہے اور جس کے روح رواں ْ علامہ خادم حسین رضوی ْ صاحب ہیں، اپنے 12 مطالبے لے کر لاہور سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگھم پر واقع فیض آباد فلائی اور کے اوپر آکر بیٹھ گئے تھے۔ ان کے مطالبات میں مرکزی مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان کے وفاقی وزیر قانون کو بر طرف کیا جائے۔اب سب مطالبات سے دست بردار ہو گئی ہے اور اب اس کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان کی مرکزی کابینہ میں شامل وزیر قانون زاہد حامد کو بر طرف کیا جائے ۔




تحریک لبیک یا رسول اللہ پر الزامات

وفاقی وزیر داخلہ جناب اقبال احسن صاحب نے کل شام کو تحریک لبیک یا رسول اللہ کو ایک سیاسی جماعت بتایا ہے اور کہا ہے کہ ان کا سیاسی ایجنڈاہے ، اور مذہب کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ حکمران جماعت کے رہنماء دلیل پیش کرتے ہیں کہ تحریک لبیک بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اور اس نے
NA 120
کے انتخابات میں حصہ لیا ہے ،یہ لوگ جناب علامہ خادم حسین رضوی کے اس انٹر ویو کو بھی اپنی دلیل 

بناتے ہیں ، جس میں انھوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا ْ تین جماعتوں کے مجموعی ووٹ کی تعدا 
2400
 ہے جبکہ ہم نے اکیلے
10,000
" ووت لئے ہیں ۔اب آپ ہی بتائیں وہ جیتے یا ہم ْ 

بقول نون لیگ سینہ زوری کا مظاہرہ ہے کہ سیاسی ایجنڈے کو مذہبی لفافے میں ڈالا ہوا ہے۔
علامہ خادم رضوی صاحب کی ذات پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے لاہور کی مکی مسجد میں ممتاز حسین قادری کی پھانسی کے خلاف حکومت پر تنقید کرتے تھے، جس کی پاداش میں حکومت نے انھیں برطرف کر دیا اور وہ واجبات جو سرکار کسی ملازم کی برطرفی پر ادا کرتی ہے ، علامہ صاحب کو ادا کرنے سے انکار کر دیا۔اس لیے علامہ صاحب کی حکومت مخالفت میں ذاتی عناد بھی شامل ہے۔ 


یہ بھی الزام ہے کہ اتنے دنوں سے دھرنے پر اٹھنے والے اخراجات کہاں سے آ رہے ہیں۔
ْْ ْ ۔ یہ لوگ ان قوتوں کے آلہ کار ہیں جو نون لیگ کی مخالف ہیں اور ہر صورت میں ن لیگ کی حکومت کر گرانا چاہتی ہیں۔

۔ یہ لوگ اس زنجیر کی کڑی ہیں جس کو حکومتی پارٹی نظریہ تصادم کہتی ہے۔

علامہ اور پیر کی یقین دہانی
فیض آباد کے دھرنے میں دو مرکزی شخصیات ہیں جو اول دن سے اپنے مقام پر جم کر بیٹھی ہوئی ہیں ، ایک تحریک کے سرپرست جناب پیر افضل قادری صاحب، دوسرے علامہ رضوی صاحب۔

اس دھرنے کی تین خصوصیات ایسی ہیں عوام اور خواص کو ان کی نیت پر شک کرنے سے روکتی ہیں۔ 
۔ دھرنے میں لگے درجنوں لاوڈ سیپیکروں کے مائیک کا کنٹرول ان ہی دو شخصیات کے پاس ہے، جو بات کی جاتی ہے مائیک میں کی جاتی ہے، حتیٰ کی عام فون کالز کا جو جواب دیا جاتا ہے اس کو سب لوگ سن رہے ہوتے ہیں۔ ساری ملاقاتیں عوام کے سامنے ہوتی ہیں ۔ کھانا پینا بھی عوام سے پوشیدہ نہیں ہے۔ان دو میں سے ایک شخصیت ہر وقت سٹیج پر موجود ہوتی ہے۔
۔ دونوں حضرات اپنی نیت کے خالص ہونے پر جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں سچ اور حق پر ہونے کی دلیل مانے جاتے ہیں۔ اپنے تمام مطالبات سے دست بردار ہو کر خود کو حرمت الرسول کا پہرے دار بتانا بھی بڑی دلیل ثابت ہو رہا ہے۔
۔ علامہ صاحب اورکو عوام کی موجودگی میں لوگ چندہ بھی دیتے ہیں ، گھروں سے کھانا پکا کر بھی دھرنے میں موجود لوگوں کو کھلاتے ہیں۔ 
علامہ اور پیر صاحب کے بیانئے کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ لوگ ان کی بات سنتے ہیں اور ان کی نیت کو شک و شبہ سے بالا پاتے ہیں 



بیانیہ

حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت عوام کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان نام کے ملک میں خدا کی حکمیت قائم کی جائے گی اور محمد ﷺ کا دین نافذ کیا جائے گا، آئین پاکستان میں ترمیم کر کے خدا کی حکمیت کو تو قائم کر دیا گیا ہے مگر محمد ﷺ کے دین کا نفاذ ہونا باقی ہے جس کے استعارے عمر بن خطاب اور عمر بن عبد العزیز ہیں اور علامہ خادم حسین رضوی کا یہ بیانیہ کہ
 ْ وقت آنے پر بلال کعبے کی چھت پر چڑھ جاتا ہے ْ                      
کچھ لوگوں کو سیاسی لگتا ہے مگر اس بیانئے کا کیا کریں کہ ْ اسلام میں
دین و سیاست جدا نہیں ہیں ْ یہی وہ بیانیہ ہے جو عوام کو لبیک یا رسول اللہ کے نعرے پر اکساتا ہے
  ْ گو ویل چہر پر بیٹھا ایک معذور مولوی ہی یہ نعرہ لگائے "