پیر، 31 دسمبر، 2018

پسندیدہ جہاد

کرکٹ کا کھیل کھیلنے کے لیے پچ بہت محنت سے تیا ر کی جاتی ہے، تیار ہو جانے کے بعد اپنی ٹیم کھیلتی ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے اپنی تیار کردہ پچ پر مخالف کو کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔جب مخالف کو کھیلنے کا موقع دے رہے ہوتے ہیں تو بھی مد نظر اس کی شکست ہی ہوتی ہے۔

سیاست کی پچ پر، اس ملک میں طویل ترین میچ ،کرپشن کے نام پر چل رہا ہے۔میرے نوجوانی کے دنوں میں شہر میں ٹانگے ہوئے کرتے تھے۔ ٹانگوں کے کوچوان گھوڑے کو چابک سے اور سواریوں کو اپنی زبان سے قابو میں رکھے کرتے تھے البتہ ایک سرکاری محکمہ ایسا بھی تھا جس کے اہلکار کوچوانوں کو قابو میں رکھتے تھے۔ حکومت نے اس کا نام محکمہ انسداد بے رحمی رکھا ہوا تھا مگر اس محکمے کے اہلکاروں کو بے رحمی والے کے نام سے جانا جاتا تھا۔کوچوان کی آمدن اس قابل تو ہوتی نہیں تھی کہ خدا کی عائد کردہ زکواۃ ادا کرے مگر بے رحمی والے انسپکٹر کو اپنی آمدن کا حصہ دینا نہیں بھولتا تھا۔

ایک وقت تھا،جنگلات کی حفاظت کے نام پر بکری پالنا جرم قرار دیا گیا۔حتیٰ کہ دیہات میں بھی بکری پالنے والا مجرم ٹھہرایا جاتا تھا۔ قانون کی زد میں آنے سے اکثر لوگ بچ جاتے مگر گاوں کی مسجد کاپیش امام ہمیشہ حوالات کی ہوا کھاتا کیونکہ اسے موٹے پیٹ والوں کو کھلانے سے ایک وہ حدیث نبوی روکتی جس میں کھانے اور کھلانے والے دونوں ایک جیسے بتائے جاتے ہیں۔ 

حکومتوں کے فیصلے دور رس نتائج کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ پاکستان اپنے خاندانی سسٹم پر بہت نازاں ہوا کرتا تھا ۔ اور مشترکہ خاندانی نظام کو بچانے کے لیے چولہا ٹیکس نافذ کیا گیا تاکہ خاندان کے لوگ اپنا ہانڈی چولہا علیحدہ علیحدہ نہ کر لیں۔ ایک خاندان گھر میں ایک ہی چولہا رکھ سکتا تھا۔ دوسرا چولہا رکھنے کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ حکومت نے تو قانون سازی ہی خاندانی اتفاق و اتحاد کے لیے کی تھی البتہ جن گھروں میں شادی کے بعد خانہ آبادی ہو جاتی ان گھرانوں اور حکومت کے مابین تعلقات خراب ہو جاتے البتہ پولیس والے ان تعلقات کے سدہار میں نمایاں کردار ادا کیا کرتے تھے۔

قیام پاکستان سے پہلے ہی علاقے میں ذرائع آمد روفت کے طور پر گھوڑے کی جگہ بائیسکل نے لینا شروع کر دی تھی۔ سائیکلوں کی چوری روکنے اور چوری شدہ سائیکلوں کی برآمدگی کے لیے ضلع کی سطح پر ایک رجسٹر ترتیب دیا جاتا تھااور ہر چوری ہونے والی سائیکل کا نمبر اس رجسٹر مین درج کر لیا جاتا تھا۔ جب یہ رجسٹر کافی پرانا اور بھاری ہو جاتا تو اسے کسی بھی چوراہے پر رکھ کر سائیکل سواروں کی سواریوں کے نمبر اس رجسٹر سے ملائے جاتے۔ جو عام طور پر نہیں ملا کرتے تھے۔ البتہ یہ منظر عام ہوتے کہ اہل رجسٹر اور اس کے درجنوں اہلکار ہر آنے والی کی سائیکل کو پکڑ لیتے اور سائیکل کی رسید پیش کرنے کا مطالبہ کرتے۔ الزام لگا کر بار ثبوت ملزم پر ڈالنا اسی زمانے کی اختراع ہے

یہ ابتداء تھی، معاشرے میں کرپشن نظر آنا شروع ہو گئی تو میرٹ کے نام پر تھانوں اور پٹوار خانوں میں با اعتماد افراد کی تعیناتی کا ڈول ڈالا گیا۔ معاشرے میں دیہاڑی دار آٹھ گھنٹے کی مزدوری پر کام کرتا تھا مگر کرپشن کے باعث اسے دیہاڑی کی بجائے ٹھیکہ دینے کا چلن چل نکلا۔ تھانے اور پٹوار خانے بھی بکنا شروع ہو گئے۔ محکوموں کو یقین ہو گیا کہ کرپشن کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ وکیل نہ کرو جج ہی کر لوکی اصطلاع ایجاد ہو چکی تھی۔ رشوت اور حرام کمائی کو لگام دینے کی بجائے مک مکا روائت بن گئی۔ نوسو چوہے کھا کر عمرہ کرنے کا فیشن چل نکلا۔ اور ایسا چلا کہ معاشرہ اس متفق ہو گیا کہ کنویں میں پڑا مردار بے شک نہ نکالوحسب فرمان پانی کے ڈول نکال لو۔ مردار ملا پینے والا پانی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔معالجین گلی محلوں میں پھیل گئے ۔ لیبارٹریوں کا میلہ لگ گیا۔ میلے میں جلیبیاں تلنے والے بھی پہنچ گئے ۔معلوم ہوا تیل ملاوٹ زدہ ہے۔۔۔

اکہتر سالوں کی محرومیوں، تلخ تجربات، جلوسوں اور ہنگاموں کے بعد ہم طے کر چکے ہیں جلوس نہیں نکالیں گے البتہ ریلیاں نکالنا شرف انسانیت ہے۔ہنگاموں سے ہم نے منہ موڑ لیا ہے مگردھرنے وقت کی ضرورت ہیں۔اجتماعی زندگی میں ہم اپنے گروہ کا حصہ ہیں تو انفرادی زندگی کو محفوظ بنانے کے گر بھی ہمیں آگئے ہیں ہم اپنے نومولود کے سرہانے اس کے باپ کو بطور چوکیدار کھڑا کرتے ہیں،بچہ دن میں ایک بار تو اس کی حفاظت کے ذمہ دار دوبار سکول جاتے ہیں۔ بچے کو ٹیوشن اس لیے پڑہاتے ہیں کہ علم کے حصول کا حصہ ہے، ایک وقت تھا علم بڑی دولت ہوا کرتی تھی اب دولت ساری تعلیم میں سمٹ آئی ہے۔ہر سرٹیفیکیٹ اور ڈگری کی قیمت ہے ۔

ہم دنیا کے نمبرایک جفاکش ہیں۔ گھر کو چمکاکر رکھتے ہیں۔ گھر کا کوڑا گلی کے راسے نکاسی کے نالے میں جاتا ہے۔ اللہ باران رحمت برساتا ہے تو نالا بھی صاف ہو جاتا ہے۔ البتہ دس سال بعد جب بند ہو جاتا ہے اور اس کے متوازی نیا نالا تعمیر کرلیتے ہیں۔ہم جان چکے ہیں سارا معاشرہ کرپٹ ہوجکا ہے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ کرپشن ختم ہوالبتہ ہم چاہتے ہیں اس کی ابتداء حریفوں سے ہو۔ 

جمعہ والے دن منبر پر بیٹھے خطیبوں، نصابی کتابوں میں درج داستانوں، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روائتوں، جذباتی ناولوں اور سوشل میڈیا پر پھیلی اپنی کامیابیوں کا مان ہمیں مجبور کرتا ہے کہ کچھ کر کے دکھائیں۔ کرنے والے سارے کام تو مکمل ہو چکے اب اعادہ ہی ممکن ہے ۔ بھٹو نامی شخص نے اگرچہ نیا پاکستان دسمبر1971 میں بنا لیا تھا دوبارہ دہرانے کا خیال نوجوانوں کو پسند آیا مگر کچھ ریٹائرڈ قسم کے بزرگوں کے من پر بھاری رہا ۔ البتہ کرپشن کے خلاف جہاد ایک بار پھر شروع کیا گیا تو اس پر ہمیشہ کی طرح نئے اور پرانے لوگ کافی مطمن ہیں۔ یہ تجربہ ہر بار عوام میں ایک نیا جذبہ پھونکتا ہے۔ اور سرور کا اصل سبب لفظ جہاد ہے۔ پاکستان میں کرپشن واحد برائی ہے جس کے خلاف عمل کے لیے نوجوان، جوان اور ریٹائرڈ لوگ سب ہی خوش دلی سے جہاد کرتے ہیں۔ 

ہم معاشرے میں گہری دفن کرپشن کی جڑوں کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ ہر دس ، پندرہ سال بعد کرپشن کا درخت کاٹ کر اپنے جذبات کو قابل تحسین بنا سکیں۔

کتا ۔۔ہائے ہائے


قدرت اللہ شہاب صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دن جنرل ایوب گھر سے نکلے ، راستے میں لڑکے نعرے لگا رہے تھے۔ ایوب خان نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا لڑکے کیا کہہ رہے ہیں۔ ڈرائیور کو ہمت نہ ہوئی مگر ایوب خان کے اصرار پر جب ڈرائیور نے حقیقت بیان کی تو ایوب خان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑنے کا کہا اور گھر جا کر استعفیٰ دے دیا۔
ضیاء شائد صاحب نے لکھا ہے کہ لاہور میں دو کتوں کے گلے میں ْ ایوب کتا ہاے ہائے ْ کی تختی ڈالی گئی۔ اس کی تصویر بناکر ایوب خان کو دکھائی گئی تو ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔
ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہائے ْ کا نعرہ ہمارے سامنے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے گیٹ کے سامنے مری روڈ پر ۷ نومبر ۱۹۶۸ کو لگایا گیا تھا۔ نعرہ لگوانے والا نوجوان عبدلحمید تھا جو راولپنڈی پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ جوپشاور روڈ پر گولڑہ موڑ سے پشاور کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے کنارے واقع تھا ( جنرل ضیاء کے دور میں اس سول ادارے کو عسکری ادارہ بنا دیاگیا تھا ) کا طالب علم تھا اور اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس نعرے کو عسکری حکمرانی سے جمہوری سفر کے آغاز کی نوید بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اور کچھ بنیادی حقائق سے جان بوجھ کر چشم پوشی کی جاتی ہے ۔ 
۵ ۱۹۶ کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان غذائی قلت کا شکار ہو گیا تھا۔ ایوب خان کے لائق وزیر زراعت خدا بخش بچہ کی درخواست پر امریکہ نے سرخ رنگ کی موٹے دانوں والی دہرے خواص والی مکئی پاکستان بجھوائی تھی ۔ اس مکئی کی پہلی خاصیت اس کا بد ذائقہ ہونا اور دوسری خاصیت یہ تھی کہ حلق سے نیچے مشکل سے اترتی تھی۔ قلت میں چینی بھی شامل تھی ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس کی قیمت میں ۲۵ فیصد اضافہ کر دیا گیا یعنی ایک روپیہ سیر کی بجائے سوا روپے سیر ۔ ملک بھرمیں پائی جانے والی تشویش کو مجتمع ہوتے ہوتے تین سال لگ گئے ۔ یاد رہے اس وقت سوشل میڈیا تھا نہ ٹی وی۔ خبر چیونٹی کی چال رینگتی تھی۔ جب تشویش نے مظاہروں کا روپ دھارا تو اس وقت ملک میں اختیارات کا منبع جرنل ایوب خان تھا اور وہ لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم میں اپنا دس سالہ اقتدار کا جشن ْ عشرہ ترقی ْ کے نام سے منا رہا تھا۔ گو پاکستان ایک وکیل نے بنایا تھا مگر ہراول دستے کا کردار طلباء نے ادا کیا تھا۔ ملک میں طلباء کی یونینز کافی مضبوط تھیں۔ لاہور کے جشن دس سالہ کے دوران لاہور کے طالب علم سٹیڈم کے گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے ۔مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ اور دوسرے مقامات پر بھی طلباء نے ہڑتال اور ہنگامے شروع کر دیے۔ دس سالہ ترقی کی سیٹی بجاتی ٹرین کو بہاولپور میں نذر آتش کر دیا گیاتھا۔۷ دسمبر کو ایوب خان کے ڈھاکہ کے دورے کے دوران پولیس کی گولی سے دو افراد جان بحق ہو گئے تھے۔
اس وقت سوویت یونین اپنی سیاسی طاقت کے عروج پر تھا۔ چین سے ماوزے تنگ کی عطا کردہ ٹوپی مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کے سر پر تھی تو مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعدمولانا بھاشانی کی قیادت میں نیشل عوامی پارٹی منظم ہو چکی تھی۔ ملک کے دونوں حصوں میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم ننگی تلواریں لیے مد مقابل تھے ۔ اسلامی ذہن کی سیاسی جماعتیں اور جنرل ایوب موجود نظام کے محافظ تھے تو مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب سرخ انقلاب کے داعی تھے۔ قحط کی ماری قوم سے ایک جلسے میں ایک مذہبی سیاسی رہنماء (جماعت اسلامی کے امیر )نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں قران پاک اٹھا کر عوام سے پوچھا کہ روٹی کو ترجیح دو گے یا قران کی حفاظت کرو گے۔ عوام نے شیخ مجیب اور بھٹو کو منتخب کر کے روٹی کو اہمیت دی ۔ ان دنوں ایک جلسے میں نعرہ بلند ہوتا تھا ایشیاء سرخ ہے تو دوسرے دن اسی مقام پر ایشیاء کے سبز ہونے کی نوید سنائی جاتی تھی ۔ جنگ دائیں اوربائیں بازو کی تھی۔ جسے کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا گیا تھا۔ 
ایوب کتا ۔۔ ہائے ہائے کے نعرے لگانے والے کوئی زیادہ جمہوریت پسند نہ تھے ۔ جب ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ کوجنرل یحییٰ خان نے اپنے بھائی آغا محمد علی (جو انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ تھے) کی مدد سے فیلڈ مارشل ایوب خان سے پہلے سے ٹائپ شدہ پر دستخط کرائے تو ایشیا سبز ہے کے نعرے لگانے والے مطمن ہو کر گھر چلے گئے ۔ اور سرخوں نے بھی کمیونزم کو
لپیٹ کر اسلامی سوشلزم کو برامد کر لیا۔ 
اس دور سے تھوڑا پیچھے جائیں تو آپ اس حقیقت کو بھی دریافت کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے مطالبے کے پیچھے بنیادی عنصر یہ تھا کہ کانگریس نے ذہن بنا لیا تھا کہ مسلمانوں کو شیڈولڈ کاسٹ میں رکھنا ہے ۔ مسلمانوں کو کانگریس کی اس سوچ سے اختلاف پیداہوا۔ مسلم لیگ نے جنم لیا اور پاکستان بن گیا۔ عزت نفس بنیادی انسانی حق ہے۔ ممتاز صحافی علی احمد خان نے اپنی کتاب ْ جیون ایک کہانی ْ میں لکھا ہے کہ وہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں مادر ملت کے جلسے میں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک کٹی ہوئی تھی اور گاڑی کو گذارنے کے لیے تختوں کی ضرورت تھی۔ گرد و نواح کے گاوں کے لوگ بھی وہاں جمع تھے اور ہماری پریشانی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ گاڑی نے بنگالی ڈرائیور نے انھیں تختے لانے کے لیے کہاتو ان میں ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے پوچھا کس کی طرف سے آئے ہو؟ ڈرائیور نے بتایا مادر ملت فاطمہ جناح کی طرف سے ۔ بنگالی نے کہا ایسا بولو نا ۔۔ تمھاری گاڑی کو تو ہم کندہوں پر اٹھا کر پار کرا دیتے ہیں۔اس جلسے نے ثابت کر دیا تھا مادر ملت نے میدان مار لیا ہے ۔ مگر ایوب خان کی انتخابات میں دھاندلی نے عوام سے شراکت اقتدار کی امید ہی چھین لی تھی۔ جب امیدین چھین لی جائیں توبقول صاحب طلوع ارشاد احمد عارف ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہاے ْ کے نعرے گھر کے اندر معصوم نواسے بھی لگاتے ہیں۔

جمعہ، 28 دسمبر، 2018

جنات کی اصلیت


جنات کا وجود قران مجید اور احادیث نبوی سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا قول ہے کی 
انسان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے جنات کو تخلیق کیا گیا تھا۔حضرت عبداللہ بن عباس کا کہنا ہے کہ آگ کی گرم لو جو شعلے میں نظر نہیں آتی اس لو سے جنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ مولاناابواعلی مودوی نے بھی ابن عباس کے قول کی تصدیق کی ہے۔
جنات عام طور پر انسانوں کو نظر نہیں آتے ۔ مگر ہمارے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات ہمیں جنات کی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ جنات پر کھل کر علمی بحث ایک مسلمان ماہر حیوانات اورمحقق جناب عمر بن بحر بن محبوب نے کی ہے جو بصرہ کے رہنے والے تھے۔انھیں لوگ ان کی کنیت ابو عثمان کی بجائے ْ جاحظ ْ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ اس کا سبب ان کے چہر ے اور آنکھوں کی غیر معمولی بناوٹ تھی۔ ان کی کتاب ْ حیوان جاحظ ْ میں جنات پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف کے مطابق جنات کی کئی اقسام ہیں، کچھ جن ادمیوں مین مل جل کر رہتے ہیں اور کسی کو کوئی ضرر یا تکلیف نہیں پہنچاتے۔ ایسے جنا ت کو عامر کہا جاتا ہے۔ شرارتی جنات جو لوگوں کو ڈراتے ہیں مگر نقصان نہیں پہنچاتے ایسے جنات کوروح کہا جاتا ہے۔زیادہ شرارتی اور تنگ کرنے والون کو شیطان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے خطرناک جنات کو عفریت کہا جاتا ہے۔ یہ آبادیوں سے انسانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔حضرت علی کے بڑے بھائی کا نام طالب تھا۔ ان کے بارے میں سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ بچپن میں انھیں جن اٹھا کر لے گئے تھے اور وہ کبھی بھی واپس نہیں آئے۔ عربوں میں عمرو بن عدی لحمی نام کا ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اسے جنات اٹھا کر لے گئے تھے۔اورکئی سال گذر جانے کے بعد اسے واپس بھی کر گئے تھے۔ خرافہ نام کے ایک شخص کا ذکر بھی ملتا ہے جسے جن اٹھا کر لے گٗے تھے اور جب اسے واپس کیا تو وہ بہکی بہکی باتیں کیا کرتا تھا۔ انسانوں میں بھی کچھ لوگوں نے جنات کے ساتھ تعلقات بنا رکھے تھے۔ اہل یمن میں ایک گروہ کا یقین ہے کہ ملکہ بلقیس جننی ( سعلاۃ) کی اولاد تھی۔ عربوں کی کتابوں کے حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ عمرو بن یربوع نامی شخص نے ایک سعلاۃ کے ساتھ شادی کی تھی اور اس کی اولاد بھی ہوتی تھی۔تابط شرا نام کا ایک عامل تھاجس کی جنات کے ساتھ دوستیاں تھیں۔ ایک نام ابوالبلاد طہوی کا ہے جس نے ایک بھوت کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
جنات کے بارے میں علمی تحقیق کم اور سنے سنائے قصے زیادہ ہیں۔ ان قصوں میں عاملین جنات ایک بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے مضافات میں ایک عامل ہوا کرتے تھے۔ ان کے پاس جو بھی آتا اسے بتاتے کہ اس پر جنات کے ذریعے کالا جادو ہوا ہوا ہے۔ اور وہ اپنے عمل کے ذریعے چند منٹوں میں دور دراز کے شہروں اور قصبوں کے قبرستانوں میں دبائے تعویز جنات کے ذریعے نکال کر د دیتے۔ اسی کی دہائی میں ان کا نذرانہ یا فیس گیارہ سو روپے ہوا کرتی تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے انھوں نے سڑک کنارے پلاٹ خرید کر مکان بنا لیا۔
کشمیر میں ایک عامل سے میری دوستی تھی۔ وہ فوج مین ملازم تھا اور مشرقی پاکستان میں پوسٹنگ کے دوران اس نے کچھ عملیات سیکھے تھے۔ اس نے ایک بار خود مجھے بتایا کہ اس نے اس عمل سے دو کروڑ کے اثاثے بنائے ہیں۔ 
انسان کے اندر حسد اور کینہ دو خصلیں ہیں ۔ عامل لوگ انسان کی ان خصلتوں کو اپنی میزان کے ایک پلڑے میں رکھتے ہیں اور دوسرے پلڑے کو متاثرہ شخص کو اپنی دولت سے برابر کرنے کا کہتے ہیں۔ میں نے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں کو عاملوں کا معمول بنتے دیکھا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کمزور قوت ارادی کے لوگ آگ کی پیداوار اس مخلوق کا ایندہن بنتے ہیں۔ ان کے وہم کی پرورش عاملین جنات کرتے ہیں اور ان کو کھلی آنکھوں سے جنات دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں
۔ 

جمعرات، 27 دسمبر، 2018

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 1

اعزاز سید

اسلام آباد : 6 اگست1990 کو عین اسی دن جس دن صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا پاکستان فوج کے111 بریگیڈ کے ایک نوجوان کپتان محمد صفدر کی عبوری وزیر اعظم جتوئی کےلیے بطور اے ڈی سی تعیناتی ہوئی۔ اسی دن وہ صدارتی محل پہنچے جہاں بریگیڈیئر نثار نے ان کا استقبال کیا۔ اسی روز حلف برداری کی روایتی تقریب کے بعد انہیں عبوری وزیر اعظم سے متعارف کرایا گیا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں دیگر حکومتی ارکان کے ساتھ تعارف کے علاوہ وہ نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ کرنل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملے جنہوں نے بعد میں بغیر مارشل لاء لگائے پاکستانی فوج کی طویل ترین سربراہی کی۔ ان دونوں کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کی جانب سے تعینات کیا گیا اور بعد ازاں یہ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر اہم اور با اثر ثابت ہوئے۔
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وہ میرے استاد جیسے تھے۔ میں نے بہت سی چیزیں انہیں سے سیکھیں۔ ہم دونوں نے بہت اچھا وقت ایک ساتھ گزارا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں نیو جتوئی میں تھے جہاں سے اس وقت نگران وزیراعظم مصطفیٰ جتوئی قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے تھے ۔ کچھ عرصہ ایک ساتھ کام کرنے کے بعد لیفٹیننٹ کرنل کیانی کو دوبارہ فوجی ذمہ داریاں دے دی گئیں تاہم کیپٹن صفدر نے وزیراعظم ہاؤس میں اے ڈی سی کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھیں۔ تقریباً 21 سالوں بعد ان کی دوبارہ ملاقات صدارتی محل میں ہوئی جہاں 5 جون 2013 کو وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے۔
نوجوان کیپٹن صفدر 27 سال کے تھے۔ وہ نہایت وجیہہ صورت تھے۔ خصوصاً جب وہ وردی میں ہوتے تو اطراف کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنی یاداشتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔
” میں جب بھی وردی میں اپنے آبائی شہر مانسہرہ جاتا تھا تو عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پہ چڑھ کر مجھے دیکھا کرتی تھیں۔ ”
وزیر اعظم ہاؤس میں فرائض کے آغاز پر کیپٹن صفدر کو علیحدہ رہائش گاہ دی گئی۔ انہوں نے وزیر اعظم کے عملے سے ایک الماری کا تقاضا کیا جہاں وہ اپنی استری شدہ وردی کو ٹانک سکیں۔ جلد ہی انہیں ایک تالہ لگی الماری دے دی گئی انہیں بتایا گیا کہ اس کا انتظام سندھ ہاؤس سے کیا گیا ہے جہاں یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کےزیر استعمال تھی، جب وہ وزیر اعظم کے عہدے پر تھیں۔ جب نوجوان کیپٹن نے اس الماری کے تالے کو کھولا تو انہیں اس میں سفید سونے کے زیورات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی خاندانی تصاویر کے کچھ البم ملے ۔
کیپٹن صفدر نے فی الفور وزیر اعظم ہاؤس کے ملٹری آفیسر کو مطلع کیا اور یہ قیمتی زیورات اور تصاویر باضابطہ طریقہ کار سے ایک تحریر ی نوٹ کے ہمراہ واپس کردیں۔ ملٹری آفیسر نے یہ معاملہ وزیر اعظم کےسامنے رکھا اور انہوں نے یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو صاحبہ تک پہنچانے کا فی الفور حکم دیا۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور یہ تمام اشیاء بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں، انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ تمام اشیاء فوج کے ایک نوجوان کپتان کو ملی تھیں۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ بے نظیر بہت خوش تھیں ۔ کچھ دن بعد اسی الماری کے دوسرے دراز سے ہیرے کی انگوٹھیاں ملیں۔ صفدر نے دوبارہ وہی طریقہ کار اپنایا اور یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں۔
یہ تمام خصوصیات وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدیداران کے علم میں تھیں کہ نوجوان کیپٹن نہ صرف پیشہ ور انہ صلاحیتوں کا حامل افسر ہے بلکہ ایمان دار اور اعلیٰ اقدار کا مالک انسان بھی ہے۔ جلد ہی ان کے نگراں وزیر اعظم جتوئی سے قریبی تعلقات قائم ہوگئے۔ 24 اکتوبر 1990 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف نے بحیثیت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔
نئے وزیر اعظم اپنا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔ نوجوان کپتان نے فوج کے اہم پیشہ ورانہ تربیتی کورسسز پورے نہیں کیے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ انہیں سول سروسز میں بھیج دیا جائے۔ قانون کے مطابق وزیر اعظم جسے چاہے سول سروسز میں بھیج سکتا ہے تاہم فوج کے اس مقصد کے لیے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔
نگران وزیر اعظم جتوئی نے چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ کو خط لکھا جس میں سفارش کی گئی کہ کیپٹن صفدر کو سول سروسز میں تعینا ت کیا جائے۔ 6 نومبر 1990 کو جس روز میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا، رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم جتوئی نے میاں نواز شریف کو کیپٹن صفدر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
” کیپٹن صفدر صرف میرے اے ڈی سی ہی نہیں بلکہ خاندان کے ایک فرد اور ایک بیٹے کی طرح ہیں۔ ”
تقریب حلف برداری کے بعد کیپٹن صفدر نے نئے وزیر اعظم سے اجازت مانگی کہ انہیں رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم کو خدا حافظ کہنے کے لیے کراچی جانے کی اجازت دی جائے۔ نئے وزیر اعظم کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ جب دارلحکومت میں ہر کوئی نئے وزیر اعظم کی قربت چاہ رہا ہے، یہ کیپٹن سابقہ نگران وزیر اعظم کو عزت سے روانہ کرنا چاہ رہاہے۔ کیپٹن صفدر نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
” میں نے غلام مصطفیٰ جتوئی صاحب کو خدا حافظ کہا اور انہیں جہاز میں کراچی تک چھوڑنے گیا۔ جتوئی صاحب اس غیر معمولی احترام پہ بہت خوش تھے۔ ”
واپس آکر کیپٹن صفدر نے اپنی ذمہ داریاں نئے ویر اعظم نواز شریف کے اے ڈی سی کی حیثیت سے نبھانا شروع کر دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کام کرتے ہوئے کیپٹن صفدر خاتون اول بیگم کلثوم نواز کی نظروں میں بھی آئے۔ انہوں نے جلد ہی اس نوجوان اور وجیہہ صورت کپتان کو پسند کرنا شروع کردیا، جو بہت تابعدار تھا اور اپنی دیانت اور اقدار کے سبب مقبول تھا۔ ایک روز کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری سے یہ کہہ کر اپنے آبائی شہر مانسہرہ جانے کی چھٹی لی کہ ان کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اسی روز جب وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں ہیں تو ان کے متعلق دریافت کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کے سبب چھٹی پر گئے ہیں۔
کیپٹن صفدر پہلی بار دو نوں خاندانوں کی گفتگو کو یادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس روز گھر گیا ہوا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ میرے والد صاحب نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آپریٹر نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف بات کریں گے۔ انہوں نے میرے والد سے فون پہ گفتگو کی اور میری والدہ کی صحت کے متعلق بات چیت کی۔ ہم سب بہت حیران تھے کہ وزیر اعظم اپنے عملے سے کس قدر باخبر ہیں۔ اگلے روز بیگم کلثوم نواز نے فون کیا اور میری والدہ سے ان کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔ ہمیں ان دونوں کا رویہ بہت پسند آیا کیونکہ یہ ان دونوں کی بہت مہربانی تھی۔
جون 1990 میں وزیر اعظم نواز شریف کا موٹر کیڈ اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے اور آج کل کے خیبر پختونخوا کے ضلع ناران کی وادی کاغان کی جانب رواں تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پہ وجیہہ صورت کیپٹن صفدر براجمان تھے۔ اس روز گاڑی میں وزیر اعظم کے ہمراہ ان کی اہلیہ کلثوم نواز بھی موجود تھیں۔ مانسہرہ سے گزرتے ہوئے اے ڈی سی وزیر اعظم اور خاتون اول کو علاقے کے متعلق آگاہ کررہے تھے کہ اچانک خاتون اول نے کہا۔
” یہ وادی کس قدر خوبصورت ہے۔ ”۔
”جی میڈم۔ یہ وادی بہت خوبصورت ہے۔ میرا بچپن اسی جگہ کھیل کود میں گزرا ہے۔ ” کیپٹن صفدر نے بے تکلفی سے کہا۔
” اوہ واقعی، یہاں سے آپ کا گھر کتنا دور ہے؟ ” بیگم کلثوم نواز نے اشتیاق سے پوچھا۔
” میڈم، یہاں سے بہت قریب ہی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔
” تو پھر چلیے۔ ہمیں اپنا گھر دکھائیے۔ ” بیگم کلثوم نواز نے کہا اور وزیر اعظم نے بھی اپنی اہلیہ کی تجویز سے اتفاق کیا۔
حاری ہے

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 3

اعزاز سید

”جی سر۔ مجھے جانا ہوگا کیونکہ مجھے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نرم روی سے جواب دیتے ہیں۔
” تم اپنی نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں رہ جاتے؟ ”۔ نواز شریف صفدر کو مشورہ دیتے ہیں۔ جبکہ ریل گاڑی لاہور سے راولپنڈی کا سفر طے کررہی ہے۔
” سر۔ مجھے اپنے والد سے اجازت لینا ہوگی۔ ”۔ کیپٹن صفدر آہستگی سے کہتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد سے اجازت لے لیں اور پھر انہیں مطلع کریں۔
کیپٹن صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعظم کے کیبن سے نکل رہے تھے تو ان کے پرانے خدمتگار تیزی سے ان کے پاس آئے اور کہا کہ مت جاؤ۔ ملک کا وزیر اعظم تمہیں روک رہا ہے۔ تم مت جاؤ۔
وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر کیپٹن صفدر اپنے والد کو فون کرتے ہیں اور وزیر اعظم کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے اجازت مانگتے ہیں۔
” ٹھیک ہے تم وہی کرو جو میاں نواز شریف کہتے ہیں۔ ” ان کے والد اسحاق مسرور نے ان سے کہا۔ کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کو مطلع کیا تو وہ مسکرانے لگے اور کہا کہ اپنے والد کا شکریہ ادا کریں۔ اس وقت اندازہ ہوگیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور خاص طور پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کیپٹن صفدر پہ بہت مہربان ہیں۔
” مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ بیگم کلثوم نواز نے اسٹاف کے عملے سے قمر زمان کو مانسہرہ بھیجا تھا کہ وہ وہاں خاموشی سے پتہ کریں کہ میرا مزاج اور طور طریقہ اور ہمارے خاندان کا رہن سہن اور شہرت کیسی ہے۔ اب کی بار وزیر اعظم کے روکنے پہ ایسا ہوا کہ ان کی زندگی کی ڈگر ہی بدل گئی۔ ” کیپٹن صفدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ 1992 کی گرمیوں میں کیپٹن صفدر اے ڈی سی وزیر اعظم اپنی ہفتہ وار چھٹی پہ گھر آئے ہوئے تھے۔ ان کے والد66 سالہ اردو شاعر اسحاق مسرور جو کہ اپنی اہلیہ حاجرہ بی بی کے ہمراہ بیٹھے تھے نے اپنے بیٹے صفدر کو بلایا۔
”صفدر، میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کا خاندان اپنی بیٹی کے لئے تمہارا رشتہ مانگ رہا ہے۔ ”۔ اسحاق مسرور نے صفدر سے کہا۔
” میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکتا ہے اباجی۔ آپ نے ایسا یہاں تو کہہ دیا لیکن کہیں اور مت کہیے گا میری نوکری چلی جائے گی۔ ” کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو جواب دیا۔
” میں نے اپنی عمر گزاری ہے اور میں تجربہ کار ہوں۔ بیگم کلثوم نواز نے تمہاری والدہ حاجرہ بی بی کو فون کیا ہے اور تمہارا رشتہ مانگا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں آپ کا بیٹا چاہیے۔ ” باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا ہے۔
اس موقع پر جواں سال کیپٹن صفدر 28 سال کے تھے جبکہ مریم نواز نے 23 اکتوبر 1991 کو اپنی اٹھارہویں سالگرہ منائی تھی۔ دونوں کے مابین دس سال کا فرق تھا جو کہ قابل قبول تھا۔ کیپٹن صفدر سے بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ وجیہہ صورت کیپٹن سے اپنی ٹین ایج میں ضرور متاثر ہوں گی۔
اس کے بعد دونوں خاندانوں نے شادی کی تیاری شروع کردی اور مریم اور صفدر کی شادی 25 دسمبر 1992 کو نواز شریف کی 42 ویں سالگرہ کے موقع پر رکھی گئی۔ اتفاق ہے کہ سالوں بعد ان کی بڑی بیٹی مہرالنساء کی شادی کی تاریخ بھی یہی رکھی گئی جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم مودی بھی افغانستان کے دورے سے واپس آتے ہوئے شریک ہوئے تھے۔
کیاآپ کو توقع تھی کہ آپ کی شادی مریم نواز سے ہوگی؟ میں نے کیپٹن صفدر سے ایک سیدھا سوال پوچھا۔
” نہیں بالکل نہیں۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔ کیا آپ شادی سے پہلے مریم سے ملے تھے؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا۔ ” وہ دونوں بہنیں مریم اور عاصمہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھومتی پھرتی تھیں۔ میں نے انہیں دیکھا تھا۔ لیکن میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا جیسا کہ بعض اپوزیشن کی جماعتوں نے مشہور کیا۔ جولوگ فوج کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہماری تربیت کیسی ہوتی ہے۔ ہم لوگ ایسی جرات نہیں کرسکتے کہ اپنے باس کے خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں اور پھر وزیر اعظم کا خاندان؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد بیگم کلثوم نواز( جنہیں اب وہ امی جان کہتے ہیں) نے بتایا کہ مریم کے لیے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گھروں سے بہت سے امیدوار تھے لیکن ہمیں امیر خاندانوں کی تلاش نہیں تھی، ہمیں تو اچھے اور شریف لوگوں کی تلاش تھی سو ہم نے تمہیں منتخب کرلیا۔
مترجم شوذب عسکری۔
بشکریہ تجزیات ڈاٹ کام۔