اتوار، 19 اکتوبر، 2025

وجود کے دو بازو (3)

وجود کے دو بازو (3)
کائنات ایک ایسا حیرت انگیز نظام ہے جو دو بنیادی ستونوں پر قائم ہے:
توانائی (حرکت کی قوت) اور وقت (حرکت کا پیمانہ)۔
یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔
توانائی وجود کو ظاہر کرتی ہے،
اور وقت اس ظہور کی ترتیب کو منظم کرتا ہے۔
اگر توانائی رک جائے تو وقت بے معنی ہو جاتا ہے،
اور اگر وقت نہ ہو تو توانائی کا کوئی بہاؤ باقی نہیں رہتا۔
یوں کہا جا سکتا ہے:
"وقت، توانائی کی زبان ہے — اور توانائی، وقت کی آواز۔"

 توانائی — وجود کا دھڑکتا پہلو
توانائی کسی بھی شے کی اثر پیدا کرنے یا تبدیلی لانے کی صلاحیت ہے۔
یہ وہ پوشیدہ قوت ہے جو کائنات کے ہر ذرے میں سانس لیتی ہے۔
یہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے:
حرارتی توانائی (Heat)
نوری توانائی (Light)
برقی توانائی (Electricity)
کیمیائی توانائی (Chemical Energy)
جوہری توانائی (Nuclear Energy)

سائنس نے ایک بنیادی اصول دیا
“توانائی نہ پیدا کی جا سکتی ہے، نہ ختم — صرف ایک صورت سے دوسری میں تبدیل ہوتی ہے۔”
یہی وہ نکتہ ہے جو قرآن نے کھول کر بیا کر دیا  تھا:
اللّٰهُ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ
“اللہ ہر لمحہ کسی نئی حالت میں ہے۔” (الرحمن: 29)
یعنی کائنات میں ہر لمحہ ایک نیا ظہور ہو رہا ہے،
مگر اصل قوت، اصل وجود — ہمیشہ ایک ہی ہے۔
جب پنڈت اپنے فہم سے مجبور ہو کر پتھر میں الوہیت تلاش کرتا ہے،
تو وہ دراصل اسی پوشیدہ توانائی کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے
جو ہر شے میں جلوہ گر ہے۔
وہ بھی جانتا ہے کہ
“کائنات میں ہر لمحہ توانائی نئی صورت میں جلوہ گر ہو رہی ہوتی ہے۔”
آج انسان کو معلوم ہو چکا ہے کہ 
“توانائی اور مادّہ ایک ہی حقیقت کی دو شکلیں ہیں۔”
تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ
وجود کی ہر صورت دراصل توانائی ہی کا لباس ہے۔
یہ وہی لباسِ مجاز ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں۔

 وقت — نظمِ کائنات کا محافظ
وقت کسی بھی حرکت یا تبدیلی کے تسلسل اور ترتیب کا پیمانہ ہے۔
یہ وہ بہاؤ ہے جس میں توانائی اپنی شکل بدلتی اور ظاہر ہوتی ہے۔
“وقت وہ حقیقت ہے جو ہر چیز کو ایک ساتھ ہونے سے روکتی ہے۔”
یعنی وقت نظمِ کائنات کا نگہبان ہے۔
قرآن اسی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى
“ہر چیز ایک مقررہ وقت تک چل رہی ہے۔” (الرعد: 2)
یوں وقت کائنات کے تسلسل، تقدیر اور توازن — تینوں کا محور ہے۔

توانائی اور وقت — ایک ابدی رشتہ
1. جہاں توانائی ہے، وہاں وقت بہتا ہے
کیونکہ توانائی کی حرکت ہی وقت کا پیمانہ ہے۔
اگر تمام ایٹم رک جائیں، تو وقت بھی رک جائے گا۔
2. توانائی وقت کو خم دیتی ہے
نظریۂ اضافیت کے مطابق:
“زیادہ توانائی یا زیادہ کششِ ثقل والے مقام پر وقت سست ہو جاتا ہے۔”
یعنی وقت خود توانائی کے دباؤ سے متاثر ہوتا ہے۔
3. وقت توانائی کو سمت دیتا ہے
اگر وقت نہ ہو تو توانائی بے سمت ہو جائے۔
سورج کی روشنی صرف اس لیے اثر رکھتی ہے
کہ وہ وقت کے ساتھ بہتی ہے۔
قرآن اس تعلق کو یوں ظاہر کرتا ہے:
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
“بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی۔” (القمر: 49)
یہ "قدر" — دراصل توانائی کی مقدار اور وقت کی ترتیب دونوں کا مجموعہ ہے۔

وجود کا خالق — نظم اور حرکت کا مالک
توانائی اور وقت دراصل خالقِ کائنات کی تجلی کے دو پہلو ہیں 
ایک پہلو میں حرکت ہے، دوسرے میں ترتیب۔
جہاں توانائی ہے وہاں “ہونا” ہے،
جہاں وقت ہے وہاں “ظہور” ہے۔


  :  حتمی نکتہ
اللّٰهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
“اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔” (النور: 35)
اسی نور سے وجود جنم لیتا ہے،
اسی سے وقت بہتا ہے،
اور اسی سے ہر توانائی اپنے رخ اور معنی پاتی ہے۔

جواب، جو ہر سوال کو معنی دے(4)


دنیا کا سب سے پرانا سوال آج بھی زندہ ہے:
کیا خدا موجود ہے؟
یہ سوال کبھی مندر کے پتھروں پر گونجا، کبھی مسجد کے محراب میں،
کبھی فلسفے کے درسگاہ میں اٹھا، کبھی سائنس کی لبارٹری میں سنا گیا
اور کبھی ایک تنہا انسان نے رات کی خاموشی میں خود اپنے دل سے پوچھا۔

زمانہ بدلا، علم بڑھا، سائنس نے زمین و آسمان کے کئی راز کھول دیے
لیکن "خالق" کا سوال اب بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں سے انسان نے سوچنا شروع کیا تھا۔

خدا کے بارے قران کیا کہتا ہے؟
قرآن مجید نے خدا کے وجود کو صرف ایمان کا معاملہ نہیں بنایا،
بلکہ عقل، مشاہدے اور فطرت کی روشنی میں سمجھایا۔ فرمایا:
"بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔"(سورۃ آلِ عمران: 190)ایک اور جگہ اعلان کیا:"اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔"
(الزمر: 62)اور پھر سورۃ الاخلاص میں آخری بات کہہ دی:
"اللہ ایک ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔"
(الاخلاص: 1–3)

یعنی جو سب کو پیدا کرتا ہے، وہ خود کسی کے پیدا کرنے کا محتاج نہیں۔
یہ وہ نکتہ ہے جہاں انسانی عقل اپنی آخری حد کو چھو لیتی ہے —
اور رک کر سوچتی ہے کہ "جو سب کا سبب ہے، اس کا سبب کون ہو سکتا ہے؟"

اسلامی فلسفہ — مسلمان فلسفیوں نے اسی سوال کو عقل کے پیمانے پر پرکھا۔ ابنِ سینا نے کہا:دنیا کی ہر چیز کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ممکن ہیں،
تو ضرور کوئی ایسا وجود ہے جو لازمی طور پر موجود ہو —جسے وہ "واجب الوجود" کہتے ہیں، یعنی وہ جس کا ہونا خود اپنی دلیل ہے۔
پھر آئے امام غزالی —انہوں نے کہا کہ عقل روشنی ہے، لیکن وحی سورج ہے۔
عقل راستہ دکھاتی ہے، مگر منزل تک وحی پہنچاتی ہے۔
ملا صدرا نے کہا:کائنات میں جو کچھ ہے، وہ ایک ہی وجود کے مختلف درجے ہیں۔یعنی خدا صرف خالق ہی نہیں، بلکہ وجود کی اصل حقیقت بھی ہے۔

مغربی فکر — عقل کی جستجو، ایمان کی بازگشت
ارسطو نے کہا: ہر شے حرکت میں ہے، تو کوئی پہلا "غیر متحرک محرک" ضرور ہوگا — وہی خدا ہے۔
ڈیکارٹ نے کہا:“میں سوچتا ہوں، لہٰذا میں موجود ہوں۔”
اور چونکہ میرے اندر کمال کا تصور ہے،تو وہ کسی کامل ہستی نے ہی رکھا ہوگا — یعنی خدا۔
اسپنوزا نے کہا: خدا اور فطرت ایک ہی ہیں ۔جو کچھ ہے، وہی خدا کی صورت ہے۔
کانٹ نے کہا: خدا کو عقل سے نہیں، اخلاق سے پہچانا جا سکتا ہے۔
اگر جزا و سزا نہ ہو،تو نیکی اور بدی کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا۔
یوں اخلاق خود خدا کی گواہی بن جاتا ہے۔

سائنس کا جواب — ادھورا اور خاموش: سائنس نے بتایا کہ کائنات کیسے بنی،لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیوں بنی۔
"بگ بینگ" نے ابتدا سمجھا دی،مگر اس ابتدا کے پیچھے ارادہ کس کا تھا — یہ نہیں بتایا۔
آج جدید انسان کہتا ہے کہ سب کچھ اتفاق سے ہوا،مگر وہ خود یہ سوچنے پر مجبور ہے: "اگر سب کچھ اتفاق ہے تو اتفاق اتنا منظم کیوں ہے؟"

جہاں عقل ختم ہوتی ہے، وہاں ایمان جاگتا ہے
قرآن کہتا ہے: "وہی اول ہے اور وہی آخر، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن۔"
(الحدید: 3) یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفہ خاموش ہو جاتا ہے اور دل کہتا ہے:
"میں اسے دیکھ نہیں سکتا، مگر ہر شے میں اس کی جھلک محسوس کرتا ہوں۔"

حتمی نکتہ: خدا کوئی سوال نہیں جو ختم ہو جائے بلکہ وہ جواب ہے جو ہر سوال کو معنی دیتا ہے۔ اس کے ہونے کا ثبوت دلیلوں میں نہیں،
زندگی کے ہر سانس میں ہے۔ جب دل سچائی کی طرف مائل ہوتا ہے،
وہ دراصل خدا کی طرف ہی لوٹتا ہے۔

ہفتہ، 18 اکتوبر، 2025

خدا — وجود کا سرچشمہ (5)

خدا — وجود کا سرچشمہ

دنیا کے ہر سوال کی جڑ ایک ہی سوال میں سمٹی ہوئی ہے:
“خدا کیا ہے؟” یہ سوال انسان نے اپنے وجود کے پہلے لمحے سے کیا ہے — کبھی حیرت سے، کبھی عشق سے، اور کبھی بغاوت کے لہجے میں۔
مگر جواب ہمیشہ ایک ہی سمت سے آیا: خدا ہے — اور وہی ہر وجود کی بنیاد ہے۔

کائنات اور خالق کا تعلق
قرآن کہتا ہے:
“اللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ” (النور 24:35)
یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں "نور" سے مراد وجود بخشنے والی حقیقت ہے۔
تفسیرِ ابنِ کثیر کے مطابق، کائنات میں جو کچھ نظر آتا ہے — ستارے، روشنی، توانائی، وقت، مادہ — یہ سب اسی نورِ الٰہی کے ظہور ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتا تو کوئی شے "ہوتی" ہی نہیں۔

اللہ — وقت و توانائی کا خالق
جدید انسان جب کہتا ہے کہ "توانائی کبھی پیدا یا فنا نہیں ہوتی"، تو وہ دراصل اسی ازلی قوت کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے جسے قرآن نے "اللہ" کہا۔ وہ خود توانائی نہیں، بلکہ توانائی کا خالق ہے۔
وہ خود وقت نہیں، بلکہ وقت کا مالک ہے۔
قرآن کہتا ہے: “هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ” (الحدید 57:3) یعنی وہی اول ہے اور وہی آخر۔ امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اللہ کے وجود سے پہلے کچھ نہ تھا، اور اس کے بعد بھی کچھ باقی نہیں رہے گا۔"

"خدا کو کس نے پیدا کیا؟" — ایک عقلی جواب
یہ وہ سوال ہے جو اکثر ذہنوں میں آتا ہے: اگر ہر شے کا خالق ہے، تو خود خدا کو کس نے پیدا کیا؟
قرآن اس کا جواب مختصر مگر مکمل انداز میں دیتا ہے:
“اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ” (الزمر 39:62) یعنی اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔

تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ اگر ہر شے کو کسی خالق نے بنایا، تو یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں جا کر رکنا ضروری ہے۔ ورنہ خالقوں کا ایک لا متناہی سلسلہ بن جائے گا — اور ایسا تسلسل خود عقل کے خلاف ہے۔ لہٰذا ایک ایسی ہستی کا ہونا ضروری ہے جسے کسی نے پیدا نہ کیا ہو۔
وہی "واجب الوجود" ہے — جس کا ہونا لازمی ہے۔

انبیا کی زبان میں خدا
انبیائے کرام نے کبھی فلسفے سے نہیں، بلکہ فطرت سے خدا کو پہچانا۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب چاند اور سورج کو غروب ہوتا دیکھا تو کہا:
“میں غروب ہونے والی چیزوں کو پسند نہیں کرتا۔” (الانعام 6:76)
یہ انسان کی عقلِ فطری کی پہلی گواہی تھی کہ جو فانی ہے، وہ خدا نہیں ہو سکتا۔

حضرت موسیٰؑ نے طورِ سینا پر عرض کی
“اے رب! اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تجھے دیکھوں۔”
اللہ نے فرمایا: “تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، مگر پہاڑ کی طرف دیکھ…” (الاعراف 7:143) یہ منظر بتاتا ہے کہ اللہ کا وجود ماورائی ہے — انسان کی آنکھ یا عقل اس کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتی۔

حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا
“میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا، بلکہ وہی کرتا ہوں جو خالق چاہتا ہے۔”
(یوحنا 5:30) اسلامی تفاسیر کے مطابق، یہ بیان وحدانیتِ الٰہی کی تصدیق ہے — کہ خدا ایک ہے، اور تمام قوتیں اسی سے جنم لیتی ہیں۔

اور آخر میں نبیِ آخرالزماں ﷺ نے فرمایا
“اللہ تھا، اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا۔” (صحیح بخاری) یہ حدیث ہر فلسفے کی انتہا ہے۔ خدا ہمیشہ سے تھا — وہ وقت اور مکان سے ماورا ہے۔

وجود کی آخری حقیقت
تفسیرِ جلالین میں سورۃ الاخلاص کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
“قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ”
"کہہ دو: وہ اللہ ایک ہے۔"
یعنی وہ اپنی ذات میں یکتا، اپنی صفات میں کامل اور اپنے وجود میں غیر محتاج ہے۔ نہ وہ پیدا ہوا، نہ کسی نے اسے پیدا کیا۔

حتمی نکتہ
دنیا میں ہر نظریہ، ہر فلسفہ، ہر سائنس آخرکار اسی ایک نکتے پر آ کر رک جاتا ہے کہ کوئی ایسی حقیقت ضرور ہے جو سب کے پیچھے ہے، جو حرکت کو توانائی، اور توانائی کو معنی دیتی ہے۔ قرآن اسے “اللہ” کہتا ہے
جو "اول" بھی ہے، "آخر" بھی، جو "نور" بھی ہے، "وجود" بھی،
اور جو ہر سوال کا پہلا اور آخری جواب ہے۔

جمعہ، 17 اکتوبر، 2025

وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت (1)



 وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت (1)
وجود — حقیقت کی اساس
وجود کی چار اقسام
فلسفے میں "وجود" کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عام طور پر وجود کی چار بنیادی اقسام بیان کی جاتی ہیں:
پہلی قسم : جس کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں
یہ واجب الوجود ہے
دوسری قسم: جس کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ممکن ہیں
— اسے ممکن الوجود کہتے ہیں،
جس کا ہونا ممکن ہی نہیں
— یہ ممتنع الوجود ہے،
جس کا ہونا اور مٹ جانا دونوں ممکن ہیں
— یہ حادث الوجود کہلاتا ہے،

 وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت
سائنس کہتی ہے کہ ہر شے "توانائی" کی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
یہ توانائی کبھی ذرّے میں قید ہوتی ہے، کبھی روشنی بن کر سفر کرتی ہے،
اور کبھی نظامِ حیات میں حرکت اور شعور کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
یہی “توانائی کا تسلسل” دراصل وجود کی سائنسی تعبیر ہے۔
انسان کی عقل جب وجود کی حقیقت کو سمجھنے نکلتی ہے تو اسے وجود کی چار بنیادی جہتیں نظر آتی ہیں —
بالکل ایسے ہی جیسے طبیعیات میں مادہ چار حالتوں میں ظاہر ہوتا ہے: ٹھوس، مائع، گیس اور پلازما۔

 1. وہ وجود جو مٹ ہی نہیں سکتا — واجب الوجود
کائنات کے تمام قوانین ایک مرکزی مستقل حقیقت پر قائم ہیں۔
سائنس اسے 
Universal Constant
 یا 
Law of Conservation
 کہتی ہے —
جس کے مطابق “توانائی نہ پیدا کی جا سکتی ہے نہ فنا کی جا سکتی ہے، صرف ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتی ہے۔”
یہی وہ ابدی اصول ہے جس کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
اگر یہ اصول لمحہ بھر کے لیے ٹوٹ جائے تو کائنات کا توازن ختم ہو جائے۔
اسی کو فلسفہ "واجب الوجود" کہتا ہے — وہ حقیقت جو ہر شے کے وجود کی بنیاد ہے۔

2. وہ وجود جو ہو بھی سکتا ہے اور نہ بھی — ممکن الوجود
یہ وہ دائرہ ہے جہاں خلقت، ارتقا اور انتخاب کا عمل جاری ہے۔
ایک بیج زمین میں ہو تو درخت بن سکتا ہے، نہ ہو تو مٹی میں مل جاتا ہے۔
ایک انسانی جنین ڈی این اے کے ایک معمولی تغیر سے پیدا ہوتا ہے — اگر وہ تغیر نہ ہو تو وجود ممکن نہیں رہتا۔
یہی “ممکن الوجود” کی سائنسی صورت ہے:
جس کے ہونے کے لیے شرائط لازم ہیں،
اور نہ ہونے کے لیے کمی کافی۔

 3. وہ وجود جو عقلاً یا طبعاً ممکن ہی نہیں — ممتنع الوجود
فطرت میں کچھ تصورات ایسے ہیں جو منطقی یا طبیعی قوانین کے منافی ہیں۔
مثلاً:
روشنی سے زیادہ تیز سفر کرنا
Relativity 
کی خلاف ورزی
Absolute zero
 سے نیچے درجہ حرارت حاصل کرنا
یا بیک وقت کسی ذرّے کا دو متضاد سمتوں میں موجود ہونا بغیر کسی کوانٹم سپرپوزیشن کے۔
یہ سب ناممکن الوجود ہیں —
یعنی وہ تصورات جنہیں نہ توانائی قبول کرتی ہے، نہ منطق۔

3. وہ وجود جو پیدا بھی ہوتا ہے اور فنا بھی — حادث الوجود
یہ وجود “وقت” کے تابع ہے۔
ستارے پیدا ہوتے ہیں، توانائی ختم ہوتی ہے،
انسان جنم لیتا ہے، بڑھتا ہے، اور مٹی میں لوٹ جاتا ہے۔
فزکس کی زبان میں یہ 
Entropy
کا دائرہ ہے —
جس میں ہر نظام آہستہ آہستہ اپنی ابتدائی ترتیب کھو کر
انتشار 
(disorder)
 کی طرف بڑھتا ہے۔
یہی “حادث الوجود” ہے —
جس کا ہونا بھی ممکن ہے، اور مٹ جانا بھی لازم۔

فلسفہ وجود کو لفظوں میں بیان کرتا ہے،
اور سائنس اسے توانائی، وقت، اور نظمِ کائنات کے اصولوں میں ناپتی ہے۔
دونوں مل کر بتاتے ہیں کہ
“وجود نہ صرف حقیقت کی بنیاد ہے، بلکہ وہ مسلسل حرکت میں رہنے والی توانائی ہے،
جو کبھی ظاہر ہو جاتی ہے، کبھی اوجھل رہتی ہے، مگر کبھی فنا نہیں ہوتی۔”

وجود، خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔(2)

وجود، خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔(2)



وجود اور ماہیت — خیال اور حقیقت کا فرق
دنیا میں ہر چیز دو مرحلوں سے گزرتی ہے:
پہلے وہ خیال بنتی ہے، پھر حقیقت۔
فلسفے کی زبان میں خیال کو ماہیت
(Essence)
اور حقیقت کو وجود
(Existence)
کہا جاتا ہے۔


ماہیت — کسی چیز کا "کیا ہونا"
ماہیت دراصل کسی شے کی شناخت یا تصور ہے۔
یعنی یہ چیز کیا ہے؟
مثلاً:
گلاب کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "پھول" ہے۔
بلب کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "روشنی دینے والا آلہ" ہے۔
موبائل کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "رابطے کا ذریعہ" ہے۔
یہ سب خیالات انسان کے ذہن میں پہلے بنتے ہیں —
بالکل ایسے جیسے کسی انجینئر کے دماغ میں پل کا نقشہ بننے سے پہلے وہ پل زمین پر موجود نہیں ہوتا۔

وجود — کسی چیز کا "ہونا"
جب وہی خیال عملی صورت اختیار کرتا ہے تو وہ وجود میں آ جاتا ہے۔
جب گلاب زمین سے اگتا ہے تو وہ “موجود” ہو جاتا ہے۔
جب بلب جلتا ہے تو روشنی “وجود” میں آتی ہے۔
جب موبائل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتا ہے تو وہ “حقیقت” بن جاتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماہیت سوچ ہے، وجود اس سوچ کی عملی شکل۔

ابنِ سینا کی سادہ تشریح
ابنِ سینا نے کہا تھا:
"چیز کی اصل اس کی ماہیت ہے، اور وجود بعد میں اس پر آتا ہے۔"
یعنی پہلے خیال بنتا ہے، پھر وہ حقیقت میں بدلتا ہے۔
بالکل ایسے جیسے:
ایک ایپ یا ویڈیو گیم پہلے کمپیوٹر کوڈ کی شکل میں ذہن میں پیدا ہوتی ہے،
اور جب وہ اسکرین پر ظاہر ہوتی ہے تو “وجود” حاصل کر لیتی ہے۔

اختلاف کی جڑ — اصل کیا ہے؟
یہ بحث تب پیدا ہوئی جب لوگوں نے سوال اٹھایا:
کیا اصل حقیقت خیال (ماہیت) ہے یا اس خیال کی عملی شکل (وجود)؟
مثلاً:
ایک گیت اگر کسی کے ذہن میں ہے مگر گایا نہیں گیا —
کیا وہ گیت "موجود" ہے یا نہیں؟
کچھ کہیں گے نہیں، کیونکہ آواز نہیں نکلی۔
کچھ کہیں گے ہاں، کیونکہ خیال موجود ہے۔
یہی “وجود اور ماہیت” کا اختلاف ہے۔
جدید مثال — ڈیجیٹل دنیا
آج کی دنیا میں یہ فرق سب سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
جب آپ موبائل میں کوئی فائل بناتے ہیں —
اس کا "خیال" یا "ڈیزائن" آپ کے ذہن میں تھا (یہ ماہیت ہے)۔
جب آپ
“Save”
دباتے ہیں، تو وہ کمپیوٹر کی یادداشت میں “موجود” ہو جاتی ہے (یہ وجود ہے)۔
ہوسکتا ہے آپ اس فائل کو نہ دیکھ سکیں، مگر وہ پھر بھی وہاں ہے۔
اسی طرح کچھ چیزیں نظر نہیں آتیں مگر ان کا وجود حقیقتاً ہوتا ہے —
بالکل جیسے
Wi-Fi
کا سگنل، آواز کی لہریں، یا دل کی دھڑکن کے برقی سگنل۔


وجود کی شدت اور کمزوری
ہر وجود ایک جیسا نہیں ہوتا۔
کچھ چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں (جیسے میز یا درخت)،
اور کچھ محسوس کی جا سکتی ہیں (جیسے خوشبو، محبت یا وقت)۔
یہی فرق “شدت و ضعفِ وجود” ہے۔
جو چیز جتنی زیادہ پائیدار اور اثر رکھتی ہے، اس کا وجود اتنا ہی مضبوط ہے۔
مثلاً:
روشنی لمحاتی ہے، مگر اس کا اثر ہر سمت پھیلتا ہے۔
محبت نظر نہیں آتی، مگر دنیا کا نظام اس کے بغیر ادھورا ہے۔

مظاہر سے حقیقت کی پہچان
جو چیز دکھائی نہ دے، اسے اس کے اثرات سے پہچانا جاتا ہے۔
آپ ہوا کو نہیں دیکھ سکتے، مگر پتے ہلتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ ہوا ہے۔
آپ بجلی کو نہیں دیکھتے، مگر بلب کا جلنا بتاتا ہے کہ بجلی موجود ہے۔
بالکل اسی طرح، انسان کا وجود اس کے اعمال، الفاظ اور اثرات سے پہچانا جاتا ہے۔

جدید سائنس کا زاویہ
افلاطون نے کہا:
“وجود ہی علم کی بنیاد ہے۔”
اور آئن سٹائن نے کہا:
“کائنات کا وجود خود ایک عقلی معجزہ ہے۔”
آج کی سائنسی زبان میں یہ یوں سمجھیں کہ
کائنات کا ہر ذرہ ایک منظم نظام کا حصہ ہے —
ایک ایسا کوڈ، جسے کسی نے نہ صرف تخلیق کیا بلکہ مسلسل چلائے رکھا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی مثال
جب 
یا
یا
 کوئی روبوٹ مسئلہ حل کرتا ہے،
تو وہ دراصل انسان کے تخلیق کردہ خیال (ماہیت) کا عملی نتیجہ ہے — وجود۔
پروگرام کا خاکہ انسان نے سوچا (ماہیت)،
اور جب وہ کوڈ لکھا گیا اور چلنے لگا،
تو وہ "موجود" ہو گیا۔
یوں کہا جا سکتا ہے:
“ماہیت خیال کی دنیا میں جنم لیتی ہے،
اور وجود اسے حقیقت کی زمین پر اُتارتا ہے۔”

خلاصہ
ماہیت: خیال، تصور، یا نقشہ
وجود: اس خیال کی حقیقت یا عملی صورت
فرق: ایک ذہن میں رہتا ہے، دوسرا دنیا میں ظاہر ہوتا ہے

اور حقیقت یہ ہے کہ
“کائنات میں جو کچھ ہے — وہ کبھی کسی خیال کی ماہیت تھا،
اور آج اس خیال کا وجود بن کر ہمارے سامنے ہے۔”
اور اسی حقیقت کو  یوں بیان کیا گیا:
"کُنْتُ كَنْزًا مَخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ"
"میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔"
یہی جملہ تمام فلسفے، تمام سائنس، اور تمام معرفت کا خلاصہ ہے —
وجود، دراصل خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔

بدھ، 15 اکتوبر، 2025

تحریک لبیک اور مستقبل کا سوال (3)

تحریک لبیک اور مستقبل کا سوال (3)
تحریک لبیک پاکستان آج اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ذرا سی بے توجہی اس کے اصل مشن — عشقِ رسول ﷺ، امن اور اخلاق — کو مٹانے کا سبب بن سکتی ہے۔ سیاست کے شور اور جذبات کے طوفان میں ایمان کی روشنی اور نظم و ضبط ہی وہ طاقت ہیں جو کسی بھی تحریک کو بقا عطا کرتی ہیں۔ جب جذبات عقل پر حاوی ہو جائیں تو نعرے ایمان کے بجائے نفرت کی علامت بننے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب قیادت کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔
نظم و ضبط کی اہمیت
پاکستان میں احتجاج کی منظم روایت سب سے پہلے جماعت اسلامی نے قائم کی۔ ان کے اجتماعات میں اسلحہ نہیں بلکہ تربیت، نظم اور مکالمہ ہوتا ہے۔ یہی سیاسی بصیرت کئی بار ملک کو تصادم سے بچاتی رہی۔ اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت نے اختلافات کے باوجود اعتدال اور فہمِ سیاست کو اپنایا۔ یہ جماعتیں یاد دلاتی ہیں کہ مذہبی سیاست کی اصل طاقت شور نہیں بلکہ شائستگی اور حکمت ہے۔
خادم حسین رضوی کا دور
علامہ خادم حسین رضوی کے دور میں تحریک لبیک صرف ایک مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی تحریک بن کر ابھری۔ ان کا علم، توکل اور عشقِ رسول ﷺ کا پیغام عوام کے دلوں میں اتر گیا۔ ان کے اجتماعات میں ایمان کی حرارت بھی تھی اور نظم کی قوت بھی۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک لبیک کا وہ فکری تسلسل، تنظیمی مرکزیت اور قیادت کا توازن آہستہ آہستہ ماند پڑتا گیا۔
قیادت کا بحران اور فکری انتشار
آج کی تحریک لبیک اندرونی اختلافات، غیر واضح فیصلوں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ کارکنان اور ہمدرد محسوس کرتے ہیں کہ تحریک کا بیانیہ کمزور ہو گیا ہے۔ جذبات باقی ہیں مگر سمت غائب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی اعتماد میں کمی اور فکری انتشار کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ربوہ، مریدکے واقعات کا بوجھ
ربوہ اور مریدکے کے واقعات نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی تحریک لبیک کو سخت دباؤ میں لا کھڑا کیا ہے۔ خلیجی ممالک استحکام اور گفت و شنید پر زور دے رہے ہیں، امریکہ نے حفاظتی وارننگز جاری کیں، اور یورپی ممالک — خصوصاً اسپین اور اٹلی — میں عدالتی کارروائیوں نے یہ ظاہر کیا کہ شدت پسندی عالمی تشویش کا موضوع بن چکی ہے۔ ایسے میں تحریک لبیک کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ ربوہ واقعے پر وضاحت نہ دینا، اسپین و اٹلی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرنا — یہ رویہ بگلے کو ریت میں چھپانے کے مترادف ہے۔
پروپیگنڈہ اور بیانیے کی کمزوری
اسی دوران ملکی و غیر ملکی میڈیا نے تحریک کے دفاتر اور گھروں سے برآمد ہونے والی رقوم کو بھارتی ایجنسی را، تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے، خیبرپختونخوا کی تبدیلی، اور افغانستان میں سرگرم فتنۂ خوارج سے جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ تمام ابواب دراصل اسی صیہونی مافیا کی کتاب کے مختلف عنوانات ہیں جو پاکستان کے وجود، اس کی عسکری قوت اور اسلامی تشخص سے خوفزدہ ہیں۔ بھارتی میڈیا اور مغربی تجزیہ کار اس بیانیے کو مزید ہوا دے رہے ہیں تاکہ دنیا کو یقین دلایا جا سکے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ افسوس کہ تحریک لبیک کی جانب سے اب تک کوئی مؤثر تردید یا وضاحتی موقف سامنے نہیں آیا۔
سوشل میڈیا پر نئی مہمات اور اندرونی خاموشی
ملک کے اندر یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ بھارت، تحریک انصاف کے علیحدگی پسند، فتنۂ خوارج، فتنۂ ہند، اور تحریک لبیک ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ یہ مہمات تنظیمی خاموشی کے سبب تقویت پا رہی ہیں۔ نہ مجلسِ شوریٰ متحرک ہے، نہ میڈیا سیل فعال۔ یہ وہ وقت ہے جب قیادت کی حکمت، شوریٰ کی بصیرت اور کارکنان کی نظم و تربیت سب سے زیادہ درکار ہیں۔
نعرے اور پیغام
وقت آ گیا ہے کہ تحریک لبیک اپنے نعروں اور اندازِ احتجاج پر نظرِ ثانی کرے۔
وہ نعرے جو کبھی ایمان کی علامت تھے، اب اشتعال کی پہچان بن چکے ہیں۔ “سر تن سے جدا” جیسے نعرے دشمنوں کے ہاتھ میں ہتھیار بن گئے ہیں، جبکہ “صدقے یا رسول اللہ ﷺ” اور “لبیک یا رسول اللہ ﷺ” جیسے عقیدت آمیز نعرے اسلام کے محبت و رحمت والے پیغام کو زندہ رکھتے ہیں۔
اسلام کا پیغام نفرت نہیں، رحمت ہے۔
فیصلہ کن موڑ
تحریک لبیک کے لیے اب وقت احتجاج کا نہیں، احتساب اور اصلاح کا ہے۔
اگر قیادت نے تعلیم یافتہ، مکالمہ پسند اور بصیرت افروز رویہ اپنایا تو یہ جماعت دوبارہ عوامی اعتماد حاصل کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک جذباتی داستان بن کر تاریخ میں دفن ہو جائے گی۔ قیادت کا کمال یہ نہیں کہ ہجوم جمع کر لے، بلکہ یہ ہے کہ ہجوم کو نظم، عقل اور امن کی راہ پر ڈال دے۔
اگر تحریک لبیک نے عشقِ رسول ﷺ کے پیغام کو سیاست کی تلخیوں سے نکال کر اخلاق، امن اور محبت کے سانچے میں ڈھال لیا، تو یہ تحریک ایک بار پھر قوم کے ایمان، اخلاق اور اتحاد کی علامت بن سکتی ہے۔

علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)


علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)
تحریک لبیک پاکستان کی کہانی دراصل عشقِ رسول ﷺ کے جذبے سے شروع ہوئی تھی۔ علامہ خادم حسین رضویؒ نے اس تحریک کو عشق، ایمان، اور اخلاق کے سنگم پر کھڑا کیا۔ ان کے خطابات میں جہاں جوش ہوتا، وہاں تہذیب بھی ہوتی؛ جہاں غیرتِ ایمانی دکھائی دیتی، وہاں احترامِ انسانیت بھی جھلکتا تھا۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک ایک ایسے موڑ پر آ گئی جس نے اس کے اخلاقی اور فکری وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اختلافات کی بازگشت
خادم حسین رضویؒ کے انتقال کے فوراً بعد پارٹی کے اندر قیادت کے تعین پر اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ تحریک کے کچھ بانی اراکین کا مؤقف تھا کہ قیادت کے لیے صرف نسب کافی نہیں، بلکہ دینی علم، سیاسی بصیرت اور اخلاقی پختگی بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ: “تحریک ایک جذباتی طوفان ہے، اگر اسے تجربہ کار ہاتھ نہ سنبھالیں تو یہ اپنے ہی خوابوں کو توڑ دے گی۔” اس اختلاف کے باوجود، مرکزی شوریٰ نے سعد رضوی کو نیا امیر مقرر کر دیا۔ یہ فیصلہ جذباتی احترام میں تو درست محسوس ہوا، مگر تنظیمی لحاظ سے کئی سوالات اٹھ گئے - ان سوالات میں ایک سوال ایک بانی کارکن کا بھی تھا “جو شخص کسی کو محض قرابت یا دوستی کی بنیاد پر ذمہ داری دے، وہ اللہ اور رسول ﷺ سے خیانت کرتا ہے۔”
(سنن بیہقی، ج5، ص65)
بانی اراکین کی خاموش رخصتی
علامہ صاحب کے چند قریبی رفقا، جو تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے، نے یا تو خاموشی اختیار کر لی یا نظریاتی اختلاف کے باعث خود کو الگ کر لیا۔ان میں بعض وہ تھے جو خادم رضویؒ کے ابتدائی جلسوں، احتجاجوں اور تنظیمی خاکے کے معمار تھے۔ان کے نزدیک تحریک کا رخ آہستہ آہستہ عوامی اصلاح سے زیادہ سیاسی مفاد کی طرف مڑ رہا تھا۔
ایک سابق ضلعی ناظم نے کہا: “اب تحریک کے اندر رائے دینا گناہ سمجھا جاتا ہے، اور سوال اٹھانا بغاوت۔”
اخلاقی گراوٹ
تحریک کا سب سے بڑا نقصان اخلاقی سطح پر ہوا۔علامہ خادم رضویؒ کی زندگی میں کارکنوں کو "زبان کی پاکیزگی" پر سختی سے تاکید کی جاتی تھی۔ ان کا فرمان ریکارڈ پر ہے “زبان بندہ کا آئینہ ہے، اگر زبان خراب ہو گئی تو دل سیاہ ہو جاتا ہے۔” (بیان فیضِ رضوی، لاہور اجتماع 2017)
لیکن آج تحریک کے کارکنان اور رہنما اکثر غلیظ زبان، طنز اور گالی کو دلیل سمجھ بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے لیے بلکہ اصلاحی ناقدین کے بارے میں ایسے جملے استعمال ہوتے ہیں جن کا ذکر بھی شرمناک ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں عشق کا بیانیہ اخلاقی زوال میں بدل گیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی یہ زوال خطرناک ہے
قرآن مجید فرماتا ہے: “اور اپنے قول میں نرمی اختیار کرو، بے شک شیطان تمہارے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔”
(سورۃ الاسراء، آیت 53)
جب عشق نفرت میں بدل جائے
تحریک کی اصل بنیاد محبت، ادب، اور عشقِ رسول ﷺ تھی۔
مگر اب جلسوں اور تقاریر میں جذباتی ردعمل، ذاتی حملے، اور بد زبانی کا رنگ غالب رہنے لگآ جو تحریک عشقِ نبی ﷺ کے نام پر اُٹھی تھی، وہ رفتہ رفتہ نفرت کے اظہار کا ذریعہ بن گئی۔ اور جب محبت نفرت میں بدل جائے تو سنجیدہ لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خادم رضویؒ کے زمانے کے کئی سنجیدہ مذہبی علما، صوفیا، اور فکری ہمدرد اب اس تحریک سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں۔
نا تجربہ کاری
سعد رضوی کی جوانی اور بے تجربگی کے باعث تنظیمی نظم ڈھیلا پڑ گیا۔
نوجوان قیادت کا جوش، دانائی کے بغیر، اکثر شدت میں بدل گیا۔ کئی بار تحریک کے بیانات اور پالیسی فیصلے ملک کے اندر سیاسی بحران کا سبب بنے۔
یہ سب وہ اشارے ہیں جن سے لگتا ہے کہ پارٹی فکری کمزوری اور اخلاقی بحران دونوں کا شکار ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: “جو شخص تجربے سے خالی ہو، وہ خود اپنی رائے کا قیدی بن جاتا ہے۔”
(نہج البلاغہ)
تحریک کی بقا اخلاقی اصلاح میں ہے
تحریک لبیک اگر واقعی خادم حسین رضویؒ کے مشن کو زندہ رکھنا چاہتی ہے، تو اسے تنظیمی اصلاح، اخلاقی تربیت، اور قیادت میں بہتری لانا ہو گی۔ محبت اور ادب کے بغیر مذہبی بیانیہ، صرف نعروں کا شور بن جاتا ہے۔
اور نعروں کا شور سیاسی پارتی کا تو ممکن ہے مگر مزہبی پارٹی پر سوال اتھ جایا کرتے ہین اور یہ سوال باہر سے نہیں تحریک لبیک کے ابدر سے اتھ رہے ہیں
اگر تحریک نے خود احتسابی نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب عشقِ رسول ﷺ کا نعرہ بھی سیاست کی گرد میں دب جائے گا۔
(جاری ہے )

علامہ خادم حسین رضوی (1)




عنوان: عاشقِ رسولؐ علامہ خادم حسین رضوی — علم، عشق اور توکل کی ایک داستان

 دلپزیر احمد جنجوعہ

دینِ اسلام کی تاریخ ایسے رجالِ کار سے بھری پڑی ہے جنہوں نے عشقِ رسول ﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ انہی عاشقانِ مصطفی ﷺ میں ایک نام علامہ خادم حسین رضوی کا بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک عالمِ باعمل، نڈر مقرر، اور باوقار قائد تھے بلکہ عشقِ رسول ﷺ کے ایسے دیوانے کہ اپنی جان، مال اور آرام سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم

خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو ضلع اٹک کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسے سے حاصل کی اور بعدازاں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ قرآن و حدیث پر گہری نظر، عربی و فارسی پر عبور اور فقہ و سیرت کی گہری فہم نے انہیں کم عمری ہی میں ممتاز بنا دیا۔
علم اور خطابت کا سفر

خادم حسین رضوی کا اصل تعارف ان کی دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی خطابت تھی۔ لاہور کے منبر سے لے کر کراچی اور پشاور کے اجتماعات تک، جب وہ زبان کھولتے تو دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی آگ بھڑک اٹھتی۔ ان کی گفتگو میں علم، درد، اور عقیدت کا ایسا امتزاج ہوتا کہ سننے والے دیر تک مسحور رہ جاتے۔
توکل اور زہد کی جھلک

حادثے کے باعث زندگی بھر وہیل چیئر پر رہنے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ان کی زندگی فقیرانہ انداز، قناعت، اور اللہ پر کامل توکل کی مثال تھی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے:


“میں نے اللہ کے دین کے لیے قلم اٹھایا ہے، اس کا نتیجہ وہی لکھے گا جو بہتر ہوگا۔”

دنیاوی آسائشوں سے بے نیاز، وہ سادہ لباس، معمولی کھانے، اور کم سامانِ زیست پر قناعت کرتے تھے۔ مگر دل  
عشقِ رسول ﷺ سے مالا مال تھا۔
میں نے ان کی زبان سے سنا "ایک روٹی اور اچار کی دو ڈلیاں" میرے لیے کافی ہیں
عشقِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت کا دفاع

علامہ خادم حسین رضوی کا سب سے نمایاں پہلو ان کا عشقِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کا عزم تھا۔ وہ کسی بھی سطح پر گستاخیِ رسول ﷺ کے خلاف آواز بلند کرتے اور لاکھوں دلوں میں عشق کی حرارت پیدا کر دیتے۔ ان کے جلسوں میں نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک، سب کے دل عشق و ایمان سے لبریز ہوتے۔
اخلاص اور عوامی مقبولیت

خادم حسین رضوی نے اقتدار کی نہیں بلکہ عقیدت کی سیاست کی۔ ان کے جلسے کسی سیاسی شو سے زیادہ روحانی اجتماع کا منظر پیش کرتے۔ ان کے چاہنے والے انہیں “مجاہدِ ناموسِ رسالت ﷺ” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
انتقال اور عوامی سوگ

انیس  نومبر 2020 کو جب ان کے انتقال کی خبر پھیلی تو پورا ملک غم میں ڈوب گیا۔ لاکھوں لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ ان کے چاہنے والوں کے چہروں پر آنسو اور زبانوں پر درود و سلام تھا۔ یہ محبت، یہ عقیدت اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ دلوں پر راج کرنے والے انسان تھے۔

علامہ خادم حسین رضوی کی زندگی ایک پیغام تھی
علم کے ساتھ عمل، عشق کے ساتھ ادب، اور قیادت کے ساتھ توکل۔
ان کی یاد آج بھی اس بات کی علامت ہے کہ عشقِ رسول ﷺ اگر خلوص کے ساتھ ہو تو انسان کے جسم کی معذوری بھی روح کے عزم کو روک نہیں سکتی۔
نوٹ: یہ مضمون تین قسطوں پر محیط ہے ۔ )
  (یہ پہلی قسط ہے 
 

پیر، 13 اکتوبر، 2025

امن کی نئی صبح



 مشرقِ وسطیٰ میں امن کی نئی صبح

 شرم الشیخ میں آج ایک تاریخی بین الاقوامی امن اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔
یہ اجلاس غزہ میں جنگ بندی کو مستقل امن میں بدلنے، تعمیرِ نو کے منصوبے بنانے اور مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے نئے دور کے آغاز کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔

شرکت کرنے والے ممالک
اس اہم اجلاس میں  فلسطین، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ، اردن، بحرین، عمان، کویت، لبنان، عراق، شام، الجزائر، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، یمن، ایران، چین، روس، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، اسپین، نیدرلینڈ، یونان، ناروے، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور، جنوبی افریقہ، نائیجیریا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی یونین کے نمائندے شامل ہیں۔
البتہ اسرائیل اور حماس کو اجلاس میں باضابطہ طور پر مدعو نہیں کیا گیا، تاہم دونوں کے نمائندوں سے بالواسطہ رابطہ رکھا جا رہا ہے۔

اجلاس کے مقاصد
مصری ایوانِ صدر کے مطابق اجلاس کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی کو پائیدار بنانا، انسانی امداد کی فراہمی کو منظم کرنا، تعمیرِ نو کا جامع منصوبہ بنانا، اور طویل المدتی سیاسی استحکام کے لیے مؤثر لائحہ عمل طے  کرنا ہے۔
یہ اجلاس اس تین روزہ جنگ بندی کے فوراً بعد منعقد ہو رہا ہے جو مصر، قطر، ترکیہ، امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ سفارتی کوششوں سے ممکن ہوئی۔
تازہ معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی، خان یونس، رفح، بیت لحیا اور بیت حانون کے بعض حصوں سے جزوی انخلا شروع کیا ہے جبکہ پانچ سرحدی راستے انسانی امداد اور غذائی سامان کے لیے کھولے جا چکے ہیں۔

قیادت کے بیانات

صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنے خطاب میں کہا
“مصر اس یقین کے ساتھ یہ کانفرنس منعقد کر رہا ہے کہ امن ہی ترقی، انصاف اور انسانی خوشحالی کی بنیاد ہے۔ آج دنیا کو ایک متحد آواز میں ظلم کے خاتمے اور تعمیر کے آغاز کا پیغام دینا ہوگا۔”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا
“ہم مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئے دور میں داخل کر رہے ہیں — ایسا دور جہاں جنگ نہیں بلکہ تعاون ہوگا۔ امریکہ، مصر، قطر، ترکیہ اور پاکستان نے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا ہے جو غزہ میں امن کو پائیدار بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔”

عالمی تعاون اور وعدے
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے خصوصی فنڈ کے قیام کا اعلان کیا۔
قطر نے ایک بین الاقوامی ریلیف میکنزم کی تجویز دی جو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں چلے گا۔
ترکیہ نے فوری بحالی اور طبی نظام کی تعمیرِ نو میں عملی مدد کا وعدہ کیا۔
پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت ادویات، خوراک اور طبی عملہ بھجوانے کا اعلان کیا۔
چین اور روس نے اس بات پر زور دیا کہ امن صرف برابری، انصاف اور خودمختاری کے اصولوں پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔
یورپی ممالک — فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور یورپی یونین — نے تکنیکی و مالی تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

فلسطینی عوام کی امید
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس کو “امید کی کرن” قرار دیتے ہوئے کہا
“اگر عالمی برادری اپنے وعدوں کو عمل میں تبدیل کرے تو ریاستِ فلسطین کا قیام اب ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بن سکتا ہے۔”

شرم الشیخ امن اجلاس کو مشرقِ وسطیٰ میں امن، استحکام اور تعاون کے نئے دور کا نقطۂ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
اگر طے شدہ نکات عملی شکل اختیار کر گئے تو غزہ کی تباہ شدہ زمین ایک بار پھر زندگی، امید اور تعمیر کی علامت بن سکتی ہے۔
یہ اجلاس اس حقیقت کا مظہر ہے کہ دنیا کی طاقتیں اب جنگ نہیں، امن کی زبان بولنا چاہتی ہیں
اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن کا سورج طلوع ہونے جا رہا ہے۔

ہفتہ، 11 اکتوبر، 2025

شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا



شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا



دنیا کے سب سے باوقار اعزازات میں شمار ہونے والا نوبل امن انعام اس سال بھی عالمی سیاست کا مرکزِ نگاہ بنا رہا۔ مگر 2025 کا اعلان ایک غیر متوقع بحث کو جنم دے گیا — کیونکہ جنہیں سب سے زیادہ مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا، یعنی امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وہ یہ انعام حاصل نہ کر سکے۔

صدر ٹرمپ کو یقین تھا کہ اُن کے حالیہ امن اقدامات، خصوصاً غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اور مشرقِ وسطیٰ میں امن مذاکرات، اُنہیں عالمی سطح پر امن کا علمبردار بنا چکے ہیں۔ کئی تجزیہ کار اور ان کے حمایتی بھی یہ سمجھتے تھے کہ نوبل کمیٹی اس بار اُن کی کوششوں کو تسلیم کرے گی۔ لیکن جب اعلان ہوا تو یہ اعزاز وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کے حصے میں آیا۔

صدر ٹرمپ کا ابتدائی ردِعمل بظاہر پُر سکون تھا، مگر ان کے الفاظ میں مایوسی کی ہلکی جھلک صاف محسوس ہوئی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ماریا کورینا ماچادو نے انہیں ذاتی طور پر فون کر کے بتایا کہ وہ یہ انعام ’’صدر ٹرمپ کے اعزاز میں‘‘ قبول کر رہی ہیں۔ ٹرمپ نے کہا:

’’میں نے وہ کام کیے جو کئی دہائیوں سے کوئی نہیں کر سکا — امن، قیدیوں کی رہائی، اور دشمنوں کے درمیان مذاکرات — لیکن کچھ ادارے امن سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی نوبل کمیٹی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ سیاست کو امن پر ترجیح دینے کا ثبوت ہے‘‘۔
 صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی حلقے میں کہا کہ وہ ’’انعام کے بغیر بھی دنیا کے امن کے لیے کام جاری رکھیں گے‘‘، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ ’’نوبل کمیٹی نے موقع گنوا دیا‘‘۔

صدر کے حامیوں میں اس فیصلے کے بعد ایک طوفان مچ گیا۔ ریپبلکن رہنماؤں اور قدامت پسند حلقوں نے نوبل کمیٹی پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ سوشل میڈیا پر نوبل کمیٹی کے خلاف  مہم شروع ہو گئی۔

کئی سیاسی شخصیات نے طنزیہ انداز میں ’’ٹرمپ امن انعام‘‘ کے مجسمے اور تصویریں شیئر کیں۔ ایک سینیٹر نے لکھا:


’’اگر نوبل کمیٹی نے انصاف کیا ہوتا، تو آج امن کے انعام کے ساتھ امریکہ کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔‘‘

ٹرمپ کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ، کوریا اور افریقہ میں امن کے لیے جو اقدامات کیے، وہ کسی بھی عالمی رہنما سے زیادہ قابلِ تعریف ہیں۔ ان کے نزدیک نوبل کمیٹی نے ’’عالمی اشرافیہ کے دباؤ میں آ کر ایک سیاسی فیصلہ کیا۔‘‘


دنیا بھر میں اس فیصلے پر ردِعمل ملا جلا رہا۔

نوبل انعام حاصل کرنے والی ماریا کورینا ماچادو نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ یہ اعزاز ’’صدر ٹرمپ کے ساتھ شیئر کرتی ہیں‘‘ کیونکہ انہوں نے وینزویلا کی جمہوری تحریک کے لیے ’’اہم عالمی حمایت‘‘ فراہم کی۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹرمپ کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے عالمی سطح پر تنازعات کے حل کے لیے عملی کوششیں کیں‘‘۔
جبکہ نوبل کمیٹی نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتخاب خالصتاً میرٹ اور امن کے اصولوں پر مبنی تھا، کسی سیاسی دباؤ کے بغیر۔‘‘

امریکی میڈیا میں بھی بحث چھڑ گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق زیادہ تر امریکی ووٹرز کا خیال ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کے کچھ اقدامات قابلِ ذکر ہیں، مگر وہ نوبل انعام کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔


یہ پہلا موقع نہیں کہ صدر ٹرمپ نے عالمی اداروں کے فیصلوں کو ’’متعصب‘‘ قرار دیا ہو۔ لیکن اس بار معاملہ صرف ایک انعام کا نہیں بلکہ عالمی ساکھ اور امریکی بیانیے کا بھی ہے۔

ٹرمپ کے لیے نوبل انعام نہ ملنا شاید وقتی دھچکا ہو، مگر سیاسی طور پر یہ اُن کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے حامیوں نے اس فیصلے کو ایک نئے نعروں میں بدل دیا ہے 


’’امن کی خدمت، انعام کی نہیں۔‘‘

صدر ٹرمپ کے لیے یہ انعام شاید نہ سہی، لیکن عالمی توجہ، سیاسی فائدہ اور عوامی تاثر — یہ سب ابھی بھی ان کے پاس ہیں۔ اور بعض اوقات سیاست میں یہ سب کچھ نوبل انعام سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتا ہے۔
تحریر: دلپزیر  جنجوعہ

جمعہ، 10 اکتوبر، 2025

غزہ میں امن کی کرن






غزہ کی مساجد مین اب  بھی اذان کی صدا گونجتی ہے، یہ سرزمین محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایمان، قربانی اور استقامت کی علامت ہے۔ فلسطینی عوام کا اپنے وطن سے روحانی، مذہبی اور تاریخی تعلق اتنا گہرا ہے کہ سات دہائیوں کی آگ اور خون کی بارش بھی اسے کمزور نہ کر سکی۔

نو اکتوبر 2025، دوپہر دو بجے—دنیا نے ایک نیا منظر دیکھا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل اور خونی جنگ کے بعد ایک نازک مگر امید بھرا معاہدہ نافذ ہوا۔ اس کے تحت 400 ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہونے لگے، یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا، اور شہری آبادیوں سے اسرائیلی فوج کے انخلا کی خبریں آنے لگیں۔ برسوں کے بعد، ملبے کے درمیان کچھ چہروں پر زندگی کی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ غزہ کے لوگ جو بچ گئے، انہوں نے اس معاہدے کو امن کی پہلی سانس قرار دیا۔

لیکن امن کی یہ سانس کتنی نازک ہے، یہ صرف وہ جانتے ہیں جنہوں نے 724 دنوں تک موت کے سائے میں زندگی گزاری۔ دو برس سے زائد عرصے میں 92 فیصد اسکول تباہ ہو گئے، 63 یونیورسٹیاں مٹی کا ڈھیر بن گئیں، اور باقی تعلیمی ادارے بھی ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔۔ 62 فیصد لوگ اپنے گھروں اور زمینوں کے دستاویزی ثبوت کھو چکے ہیں۔ تین لاکھ سے زیادہ جانیں قربان ہو چکیں، اور 50 ہزار بچے بھوک اور بیماری کے ہاتھوں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں۔ یہ وہ چہرے ہیں جن پر کسی دنیاوی معاہدے کا نام تحریر نہیں، مگر ان کی خاموشی سب سے بڑا الزام ہے۔

سیاسی منظر بھی پیچیدہ ہے۔ نیتن یاہو کا دو ریاستی حل سے انکار عرب و مسلم دنیا میں اتحاد کی نئی لہر پیدا کر رہا ہے۔ ٹونی بلیر کے بارے میں عرب حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ "جنگی مجرم" ہے، ایک اسرائیلی وزیر نے کھلے عام کہا کہ "یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس کو ختم کر دیا جائے گا" — یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے پیچھے اب بھی انتقام کی آنچ باقی ہے۔

اس کے برعکس، بین الاقوامی منظرنامے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوداعتمادی اور آٹھ ممالک کی شمولیت نے اس معاہدے کو وقتی طور پر مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔  مگر اقوام متحدہ اور علمی برادری کا کہنا ہے کہ حقیقی امن انصاف اور جواب دہی کے بغیر ممکن نہیں۔ ماضی کے معاہدے دیرپا ثابت نہیں ہوئے، اس لیے دنیا کے لیے یہ ایک آزمائش ہے کہ کیا وہ اس بار انصاف کے ساتھ امن کو جوڑ سکتی ہے یا نہیں۔

غزہ کی داستان سیاست کی نہیں، انسانیت کی ہے۔ قحط نے جسم سوکھا دیے، مگر روح کو زندہ رکھا۔ انسان کا سر پھول جاتا ہے، ہڈیوں سے گوشت غائب ہو جاتا ہے، مگر بچے پھر بھی اپنے ٹوٹے کھلونوں سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی امید ہے، جو اس ملبے میں بھی زندہ ہے۔ حماس اور فلسطینی عوام نے معاہدہ قبول کیا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت صرف گولی سے نہیں، یقین سے جیتی جاتی ہے۔ یہ فتح تحفے میں نہیں ملی؛ یہ خون، صبر اور قربانی سے حاصل کی گئی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس فتح کو کیسے دیکھے گی؟ اگر انصاف نہ ہوا، اگر جنگی جرائم کی نشاندہی اور احتساب نہ کیا گیا، تو یہ امن محض وقتی خاموشی بن کر رہ جائے گا۔  اگر اس موقع کو انصاف، تعمیر نو اور انسانی وقار کے ساتھ جوڑا گیا، تو یہی معاہدہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

غزہ آج بھی سانس لے رہا ہے—زخمی، کمزور، مگر زندہ۔ وہاں کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ امید کو مارا نہیں جا سکتا۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی ایک روشنی باقی ہے، وہ روشنی جو ملبے کے بیچ سے پھوٹتی ہے، جو دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ امن صرف طاقت سے نہیں، انصاف سے قائم ہوتا ہے۔ اور جب انصاف قائم ہو جائے گا، تب شاید فلسطین کی زمین پر پہلی بار حقیقی امن کا سورج طلوع ہوگا۔

بدھ، 8 اکتوبر، 2025

تیسرا دن: شرم الشیخ میں امن مذاکرات میں پیش رفت






تیسرا دن: شرم الشیخ میں امن مذاکرات میں پیش رفت
مشرقِ وسطیٰ میں امن کے امکانات نے تیسری بار روشن کرن دکھائی جب شرم الشیخ میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے تیسرے دن ایک اہم پیش رفت سامنے آئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک غیر متعلقہ تقریب کے دوران اعلان کیا، “مجھے بتایا گیا ہے کہ ہم امن معاہدے کے بہت قریب ہیں۔”
صدر کے مطابق، یہ پیغام انہیں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے ہاتھ سے موصول ایک نوٹ میں ملا، جس میں لکھا تھا: “آپ کو فوراً ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کی منظوری دینی چاہیے تاکہ آپ پہلے امن معاہدے کا اعلان کر سکیں۔” اس لمحے ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے کہا، “ہم مشرقِ وسطیٰ میں امن کے بہت قریب ہیں۔”

شرم الشیخ مذاکرات: نیا موڑ
بدھ کے روز مصری بحیرہ احمر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی بات چیت میں مصری، قطری اور ترک ثالثوں نے حماس کے نمائندوں کے ساتھ سات گھنٹے طویل نشست کی۔ ذرائع کے مطابق بات چیت کا مرکز امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا، جس میں جنگ بندی، تمام مغویوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا غزہ کے کچھ حصوں سے انخلا شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ قیدیوں کی فہرستوں اور جنگ بندی کی ضمانتوں پر قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ حماس نے تمام اسرائیلی مغویوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کی ہے، جبکہ شہدا کی لاشوں کی حوالگی زمینی حالات بہتر ہونے پر کی جائے گی۔

امن منصوبے کے خدوخال
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق، غزہ میں فوری جنگ بندی کے ساتھ اسرائیل اپنے فوجی پیچھے ہٹائے گا اور انسانی امداد کا راستہ کھولا جائے گا۔ اس منصوبے میں ایک بین الاقوامی فورس — زیادہ تر عرب و مسلم ممالک کی — غزہ میں سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالے گی، جبکہ امریکا ایک بڑے تعمیرِ نو کے پروگرام کی قیادت کرے گا۔
اس منصوبے کا مقصد صرف جنگ بندی نہیں بلکہ ایک پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا،
“اس کا مطلب ہے کہ تمام مغوی بہت جلد رہا کیے جائیں گے، اسرائیلی افواج طے شدہ حد تک پیچھے ہٹیں گی، اور یہ ایک مضبوط، دیرپا اور حقیقی امن کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ تمام فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔”

اسرائیل اور فلسطین کا ردِعمل

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا، “خدا کے فضل سے ہم سب کو واپس گھر لائیں گے۔”
حماس نے اس بات کی تصدیق کی کہ معاہدے میں اسرائیلی فوج کے انخلا، امداد کے داخلے، اور قیدیوں کے تبادلے کی ضمانت شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق، حماس اس ہفتے کے اختتام تک تمام 20 زندہ مغویوں کو رہا کرے گی، جبکہ اسرائیلی افواج غزہ کے بیشتر حصوں سے انخلا شروع کریں گی۔


بین الاقوامی ثالث اور آئندہ مرحلہ
ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر بدھ کو شرم الشیخ پہنچے تاکہ معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے۔ اجلاس میں مصر، قطر اور ترکی کے اعلیٰ حکام کے علاوہ اسرائیلی وفد بھی شریک تھا۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی صدر ٹرمپ کو دعوت دی ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوں تو وہ معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک ہوں۔ اپنے خطاب میں السیسی نے کہا، “مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں، امید ہے تمام فریق اس موقع کو امن کے لیے استعمال کریں گے۔”

امن کا تیسرا موقع
یہ جنگ کے آغاز کے بعد تیسرا بڑا جنگ بندی معاہدہ ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوا، تو یہ نہ صرف دو سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

جیسے ٹرمپ نے کہا، “یہ صرف غزہ کا امن نہیں، یہ پورے مشرقِ وسطیٰ کا امن ہے۔”

ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ



شرم الشیخ میں امن مزاکرات کے بارے میں بہت کم خبریں باہر آرہی ہیں البتہ عرب میڈیا میں ایک ترمیم شدہ 20 نکاتی ٹرم پلان کا مسودہ گردش کر رہا ہے جو الجزیرہ ٹی وی کی ویب سایٹ پر بھی مجود ہے ۔ اپنے دوستوں کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش ہے

ترمیم شدہ 20 نکاتی منصوبہ: نوآبادیاتی شرائط سے آزاد ٹرمپ پلان


فلسطین اور اسرائیل دونوں ایسے دہشت گردی سے پاک ممالک ہوں گے جو اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ ہوں۔


فلسطین کو فلسطینی عوام کے فائدے کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جنہوں نے پہلے ہی بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔


اگر دونوں فریق اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی افواج قیدیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ حد تک پیچھے ہٹ جائیں گی، اور تمام فوجی کارروائیاں بند ہو جائیں گی۔


دونوں فریقوں کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی طور پر قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام مغوی — زندہ اور جاں بحق — واپس کر دیے جائیں گے۔


تمام مغویوں کی رہائی کے بعد، اسرائیل عمر قید یافتہ قیدیوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام فلسطینی قیدی بھی رہا کرے گا جنہیں 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔


جب تمام مغوی واپس کر دیے جائیں، تو ایسے حماس اراکین جو پُرامن بقائے باہمی پر آمادہ ہوں اور اپنے ہتھیار جمع کرائیں، انہیں عام معافی دی جائے گی۔ جو حماس اراکین غزہ چھوڑنا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔


اس معاہدے کی منظوری کے فوراً بعد مکمل انسانی امداد غزہ پٹی میں داخل کی جائے گی۔ کم از کم امدادی مقدار 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے مطابق ہوگی، جس میں بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، نکاسیٔ آب) کی بحالی، اسپتالوں اور تنور خانوں کی تعمیرِ نو، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری آلات کی فراہمی شامل ہے۔


غزہ میں امداد اور سامان کی تقسیم اقوام متحدہ، اس کی ایجنسیوں، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانب دار بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بغیر کسی مداخلت کے کی جائے گی۔ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں اسی طریقہ کار کے تحت کھولا جائے گا جو 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں نافذ کیا گیا تھا۔


فلسطین، جس میں غزہ ایک لازمی حصہ ہوگا، فلسطینی اتھارٹی (PA) کے تحت ہوگا۔ بین الاقوامی مشیر اس عمل میں مدد کر سکتے ہیں، لیکن خودمختاری صرف فلسطینیوں کی ہوگی۔


فلسطینی اتھارٹی عرب ماہرین اور منتخب بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے تعمیر نو اور ترقی کا منصوبہ تیار کرے گی۔ بیرونی تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن اقتصادی منصوبہ بندی عرب قیادت میں ہوگی۔


فلسطینی خصوصی اقتصادی زون قائم کر سکتے ہیں، جس کے محصولات اور تجارتی نرخ فلسطین اور شراکت دار ممالک کے درمیان طے پائیں گے۔


کسی بھی خودمختار فلسطینی علاقے سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا۔ جو جانا چاہے وہ آزادانہ جا سکتا ہے اور آزادانہ واپس آ سکتا ہے۔


حماس اور دیگر گروہوں کا حکومتی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ تمام فوجی و دہشت گردی کے ڈھانچے ختم کیے جائیں گے، جس کی تصدیق غیر جانب دار مبصرین کریں گے۔


علاقائی شراکت دار اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر گروہ معاہدے کی پابندی کریں، تاکہ غزہ اپنے ہمسایوں یا اپنے عوام کے لیے خطرہ نہ بنے۔


عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کی دعوت پر فلسطین میں 1 نومبر 2025 سے عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) تعینات کی جائے گی، جو فلسطینی سیکیورٹی کو تربیت و تعاون فراہم کرے گی۔ یہ فورس مصر اور اردن کے مشورے سے سرحدی حفاظت، عوامی تحفظ اور سامان کی تیز تر نقل و حرکت کو یقینی بنائے گی تاکہ تعمیر نو کا عمل تیز ہو۔


اسرائیل نہ تو غزہ اور نہ ہی مغربی کنارے پر قبضہ کرے گا یا اسے ضم کرے گا۔ اسرائیلی افواج 31 دسمبر 2025 تک تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے مکمل انخلا کر لیں گی، جب تک ISF اور فلسطینی سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیں۔


اگر حماس اس تجویز کو تاخیر کا شکار کرے یا مسترد کرے، تو امداد اور تعمیر نو کا عمل ان علاقوں میں جاری رہے گا جو ISF اور فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہوں گے۔


فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان برداشت اور پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے بین المذاہب مکالمے کا نظام قائم کیا جائے گا۔


یکم جنوری 2026 سے ریاستِ فلسطین اپنی مکمل خودمختار سرزمین پر حکومت کرے گی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 12 ستمبر کی قرارداد اور 2024 میں عالمی عدالتِ انصاف کی مشاورتی رائے کے مطابق۔


امریکہ ریاستِ فلسطین کو فوری طور پر ایک خودمختار، پُرامن ملک کے طور پر تسلیم کرے گا اور اسے اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت دی جائے گی، تاکہ وہ ریاستِ اسرائیل کے ساتھ امن سے رہ سکے۔