**خسارۂ ذات**
*دلپزیر احمد جنجوعہ*
زندگی کا ہر دن نفع اور نقصان کے ایک نئے توازن میں گزرتا ہے۔ مگر ایک ایسا نقصان ہے جس کا احساس سب سے کم ہوتا ہے — **خسارۂ ذات**۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے ہی اندر سے کچھ کھو دیتا ہے، اپنی روح سے، اپنی سچائی سے، اپنی اصل سے۔
سوچیے، ایک مزدور سارا دن پسینہ بہاتا ہے، لیکن شام کو اُسے مزدوری نہ ملے — یہ صرف مالی نقصان نہیں، یہ اُس کی محنت کی بے قدری کا خسارہ ہے۔ ایک ملازم پورا سال دیانت داری سے کام کرے، لیکن سالانہ ترقی کی فہرست میں اس کا نام نہ آئے — یہ اس کی ذات کا خسارہ ہے۔ ایک طالب علم جو راتوں کی نیند قربان کر کے امتحان کی تیاری کرے مگر ناکام ہو جائے، وہ اپنی محنت اور حوصلے کا نقصان جھیلتا ہے۔ ایک سرمایہ کار جو اپنے خوابوں کی رقم کسی کمپنی میں لگا دے اور مارکیٹ میں اس کے حصص گر جائیں — وہ صرف روپے نہیں، اعتماد بھی کھو دیتا ہے۔
لیکن ان سب سے بڑا خسارہ وہ ہے جو **انسان اپنے ضمیر کے ساتھ کرتا ہے**۔ جب وہ اپنے آپ سے وعدہ کرے کہ جھوٹ نہیں بولے گا، اور پھر وعدہ توڑ دے — یہ اخلاقی شکست اس کے اندر ایک خلا چھوڑ جاتی ہے۔ یہی خلا رفتہ رفتہ اس کی انسانیت کو چاٹنے لگتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
> **وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ**
(سورۃ العصر)
زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق کی تلقین کی اور صبر کی وصیت کی۔
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل کامیابی کا پیمانہ بینک بیلنس یا عہدہ نہیں، بلکہ ایمان، عمل، سچائی اور صبر ہیں۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
> “دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں: صحت اور فارغ وقت۔”
(صحیح بخاری)
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم اپنی صحت اور وقت کو کس طرح ضائع کر دیتے ہیں؟ ہم دوسروں کو نقصان سے بچانے کے لیے تو بہت فکرمند ہوتے ہیں، مگر خود اپنی ذات کے نقصان کے بارے میں کتنے غافل ہیں۔
امام غزالیؒ نے کہا تھا:
> “جو اپنی روح کی اصلاح کے بغیر دنیا کی فلاح چاہتا ہے، وہ سب سے بڑے خسارے میں ہے۔”
اور مولانا رومؒ نے فرمایا:
> “اگر تُو نے اپنی جان کو نہ پہچانا تو سمجھ لے کہ تُو نے سب کچھ کھو دیا۔”
یہ اقوال ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں — کہ اصل خسارہ دولت یا عہدہ نہیں، بلکہ **خودی کا زوال** ہے۔
دنیا کا خسارہ تو کبھی پورا ہو سکتا ہے، مگر آخرت کا خسارہ ناقابلِ تلافی ہے۔ قرآن میں صاف فرمایا گیا:
> **"إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"**
(الزمر: 15)
بے شک سب سے بڑے خسارے والے وہ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو گنوا دیا۔
زندگی کی اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کے سرمائے کو ضائع نہ کرے۔ ایمان، کردار، سچائی اور صبر — یہی وہ اثاثے ہیں جو **خسارۂ ذات** سے بچاتے ہیں۔ ورنہ زمانے کے بازار میں وہ سب کچھ جیت کر بھی انسان خود کو ہار دیتا ہے۔
جمعرات، 30 اکتوبر، 2025
خسارۂ ذات
بدھ، 29 اکتوبر، 2025
روضۂ رسول حق کے دربار کی گواہیﷺ —
روضۂ رسول حق کے دربار کی گواہیﷺ
مدینہ منورہ — وہ شہر جس کی فضا میں ایمان کی خوشبو ہے، اور جس کی گلیوں میں نبی ﷺ کے قدموں کی آہٹ آج بھی سنائی دیتی ہے۔ یہاں کا سب سے مقدس مقام وہ ہے جہاں آقائے دو جہاں ﷺ آرام فرما ہیں۔ روضۂ رسول ﷺ پر نظر پڑے تو سب سے پہلے ایک جملہ دل کی گہرائیوں کو چھو جاتا ہے -
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین۔
یہ الفاظ نہ صرف ایمان کی بنیاد ہیں بلکہ صداقت اور امانت کی وہ سند ہیں جو انسانیت کو آسمان سے عطا ہوئی۔
پہلا حصہ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین
یعنی "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بادشاہ، حق اور ظاہر کرنے والا ہے۔"
یہ جملہ توحید کی مکمل تصویر ہے۔ یہاں “المَلِک” یعنی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے — کوئی طاقت، کوئی حکومت، کوئی اقتدار اس کے حکم کے بغیر نہیں۔ “الحق” اس بات کی شہادت ہے کہ حقیقت صرف وہی ہے، باقی سب مظاہر عارضی ہیں۔ اور “المبین” وہ ذات ہے جو سب کچھ ظاہر کرنے والی ہے، جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
یہ کلمہ محض عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ شعور کی بیداری ہے — کہ دنیا کا ہر نظام، ہر قانون، ہر حرکت اسی کی مشیت کے تابع ہے۔ جب انسان دل سے اس آیت کو سمجھتا ہے تو اس کا غرور پگھل جاتا ہے، اور بندگی کا شعور جاگ اٹھتا ہے۔
دوسرا حصہ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین
یعنی "محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، وعدے کے سچے اور امانت دار۔"
یہ وہ تعریف ہے جو کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ ایک مثالی وجود کے لیے ہے — جس نے انسانیت کو سچائی، انصاف، صبر اور محبت کا کامل درس دیا۔ “صادق الوعد” — وہ جو کبھی وعدہ خلاف نہ ہوا۔ “الامین” — وہ جس کی امانت و دیانت پر دشمن بھی گواہ تھے۔
روضۂ رسول ﷺ پر یہ الفاظ محض تبرک نہیں بلکہ اعلان ہیں — کہ سچائی، امانت اور وعدے کی پاسداری ایمان کا جزوِ لازم ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ایمان صرف زبان سے ادا کیے گئے کلمے کا نام نہیں، بلکہ کردار میں اترے ہوئے نور کا نام ہے۔
روحانی مفہوم
یہ دو جملے دراصل ایک ہی پیغام کے دو رخ ہیں — ایک اللہ کی وحدانیت اور دوسرا نبی ﷺ کی رسالت۔ ایک ہمیں مقصدِ حیات بتاتا ہے اور دوسرا اس مقصد تک پہنچنے کا راستہ۔ جب کوئی دل سے کہتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو وہ اپنے وجود کی تمام جھوٹی خدائیوں سے انکار کرتا ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ تو وہ اعلان کرتا ہے کہ وہ سچائی اور امانت کے اس راستے کا پیروکار ہے جو محمد ﷺ نے دکھایا۔
روضۂ رسول ﷺ کی تاثیر
وہ لمحہ جس میں کوئی مؤمن روضۂ اقدس کے سامنے کھڑا ہو کر یہ الفاظ پڑھتا ہے، اس کے دل پر ایک عجیب سکون نازل ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ الفاظ صرف دیواروں پر نہیں، بلکہ روح کے اندر لکھے جا رہے ہوں۔ وہاں کا نور، وہاں کی فضا، اور وہ سکوت — سب اسی ایک حقیقت کی گواہی دیتے ہیں:
کہ “اللہ حق ہے، اور محمد ﷺ اس کے سچے رسول ہیں۔”
روضۂ رسول ﷺ صرف ایک زیارت گاہ نہیں، یہ ایمان کی تجدید کا مقام ہے۔ یہاں انسان اپنی ساری خواہشیں، غم، اور تکبر چھوڑ کر خالص بندگی کی کیفیت میں ڈھل جاتا ہے۔
ان دو جملوں میں کائنات کا نچوڑ چھپا ہے۔ ایک اللہ کے وجود کی دلیل ہے، اور دوسرا انسان کے کامل ترین
یونے کی گواہی۔
اگر انسان اس حقیقت کو سمجھ لے تو اس کے دل سے خوف، نفرت اور جھوٹ ختم ہو جائیں — اور باقی رہ جائے صرف روشنی، وہ روشنی جو مدینہ کے آسمان سے پھوٹتی ہے۔
“لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین،
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین۔”
یہ وہ کلمہ ہے جو روح کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے،
اور انسان کو بندگی کے سچ میں زندہ کر دیتا ہے۔
انسانی شعور کی چار منازل
انسانی شعور کی چار منازل
انسانی ذہن ہمیشہ تلاش میں رہتا ہے — کبھی حقیقت کی جستجو میں، کبھی یقین کے استحکام میں۔ یہ جستجو ہی انسان کو چار فکری منازل میں تقسیم کرتی ہے: مومن، منکر، منافق اور متذبذب۔ یہ چاروں کیفیتیں دراصل انسانی شعور کی مختلف حالتیں ہیں، جو فرد کی سوچ، عمل اور سماج پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔
مومن
مومن وہ ہے جو حقیقت کو پہچاننے کے بعد دل سے اسے تسلیم کرے اور اپنے عمل سے اس پر گواہی دے۔ ایمان اس کے لیے صرف عقیدہ نہیں بلکہ شعوری یقین اور عملی اخلاقیات کا امتزاج ہوتا ہے۔
مومن کا ذہن سکون، توازن اور اعتماد سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ شک اور تذبذب کے مرحلوں سے گزر کر یقین کے مقام تک پہنچتا ہے۔ اس کے لیے کائنات اتفاق نہیں بلکہ نظم اور حکمت کی مظہر ہے۔ قرآن اسی یقین کو “نورٌ علیٰ نور” قرار دیتا ہے — روشنی پر روشنی۔
ایمان والے انسان معاشرے میں عدل، صداقت اور خدمت کا چراغ جلاتے ہیں۔
امام حسینؓ نے
نے ساری متاح حیات کربلا کے میدان میں قربان کر کے مومن کی مثال قائم کی۔
منکر
منکر وہ شخص ہے جو سچائی کا ادراک رکھنے کے باوجود اسے تسلیم کرنے سے انکار کرے۔ وہ عقل رکھتا ہے مگر دل کے تکبر، مفاد یا انا کے باعث حق سے منہ موڑ لیتا ہے۔
منکر کا ذہن تضاد، ضد اور خوف کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ غلط ہے، مگر اپنی برتری یا مفاد کے لیے سچائی سے فرار اختیار کرتا ہے۔
فرعون نے موسیٰؑ کے معجزات دیکھے مگر اقتدار قائم رکھنے کے لیے سچ ماننے سے انکار کیا۔
ابوجہل جانتا تھا کہ محمد ﷺ صادق و امین ہیں، لیکن قبیلوی برتری نے اسے حق کے سامنے جھکنے نہ دیا۔
منکر جب اقتدار یا علم کا حامل ہو تو معاشرے میں سچائی کمزور اور مفاد پرستی غالب آ جاتی ہے۔ ایسے لوگ نظریاتی انتشار پیدا کرتے ہیں، مگر ان کے سوال ہی آگے چل کر فکری ارتقاء کا سبب بنتے ہیں۔
منافق
منافق وہ ہے جو زبان سے ایمان کا اظہار کرے مگر دل میں انکار چھپائے۔ اس کی وفاداری اصول نہیں بلکہ ذاتی مفاد سے بندھی ہوتی ہے۔
منافق مسلسل خوف اور تضاد کا شکار رہتا ہے۔ وہ نہ ایمان کے سکون سے بہرہ مند ہوتا ہے، نہ انکار کی آزادی سے۔ اس کا وجود دو چہروں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔
مدینہ کا عبداللہ بن اُبی بظاہر مسلمان تھا مگر ہر موقع پر مسلمانوں کے خلاف سازش کرتا۔ وہ اقتدار کے خوف سے ایمان لایا، مگر دل سے کبھی مان نہ سکا۔
منافق معاشرے کے لیے سب سے خطرناک عنصر ہے۔ وہ سچائی کے لبادے میں جھوٹ پھیلاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے
"إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ"
(بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے)
کیونکہ نفاق انسان کو اعتماد، سچائی اور اجتماعی بھروسے سے محروم کر دیتا ہے۔
متذبذب
متذبذب وہ شخص ہے جو نہ پوری طرح ایمان لا پاتا ہے نہ کھلے دل سے انکار کرتا ہے۔ وہ فکری اور روحانی دو راہے پر کھڑا رہتا ہے۔
متذبذب کا ذہن کشمکش، تجسس اور خوف کا میدان ہوتا ہے۔ وہ حق کو دیکھتا ہے مگر قدم نہیں بڑھا پاتا۔ کبھی علم اسے قریب لاتا ہے، کبھی وسوسہ دور کر دیتا ہے۔
یونانی فلسفی سقراط نے کہا تھا: “شک علم کی پہلی سیڑھی ہے۔”
اسی طرح اسلام نے بھی سوال کو جرم نہیں سمجھا — قرآن میں بارہا عقل، فکر اور تدبر کی دعوت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ متذبذب انسان اگر علم و دلیل کے ذریعے رہنمائی پائے تو ایمان کی طرف پلٹ سکتا ہے۔
متذبذب لوگ معاشرے کے لیے بوجھ نہیں بلکہ موقع ہیں۔ ان میں تبدیلی کی صلاحیت باقی ہوتی ہے۔ اگر مومن علم، شفقت اور دلیل سے ان تک پہنچے تو وہ ایمان کی روشنی قبول کر لیتے ہیں۔ منافق کے برعکس، متذبذب کو قائل کرنا ممکن ہوتا ہے کیونکہ اس کا دل ابھی مکمل بند نہیں ہوتا۔
شعور کی روشنی میں انسان کا مقام
انسان کا شعور چار سمتوں میں سفر کرتا ہے
مومن روشنی میں چلتا ہے۔
منکر روشنی دیکھ کر آنکھیں بند کرتا ہے۔
منافق روشنی کا لباس پہن کر اندھیرے میں رہتا ہے۔
متذبذب روشنی اور اندھیرے کے درمیان بھٹکتا ہے۔
یہ سب انسان کے اندر کے ممکنات ہیں۔ اصل کامیابی اس کی ہے جو شک سے گزر کر یقین تک پہنچے، اور یقین کو عمل کا جامہ پہنائے۔
“شک اگر علم کی تلاش بن جائے،
تو وہ ایمان کا دروازہ کھول دیتا ہے۔”
برطانوی فلسفی اینٹونی فلو
(Antony Flew)
خدا کے وجود کے منکر رہے، مگر جب انہوں نے ڈی این اے اور انسانی تخلیق کے پیچیدہ ڈھانچے کا مطالعہ کیا تو تسلیم کر لیا کہ “ایسا منظم نظام محض اتفاق سے وجود میں نہیں آ سکتا۔”
جو کبھی الحاد کا مبلغ تھا اس نے خدا کے وجود کی گواہی میں کتاب لکھی
یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ جب علم تعصب سے پاک ہو تو منکر بھی ایمان کی طرف پلٹ آتا ہے۔
منگل، 28 اکتوبر، 2025
مثبت اور منفی سوچ
مثبت اور منفی سوچ
“انسان اپنی سوچ کا عکس بن کر جیتا ہے؛
روشنی ذہن میں ہو تو اندھیرا بھی راستہ بن جاتا ہے۔”
زندگی میں محرومیاں ہوں یا آسائشیں، دونوں انسان کے اندر ایک خاص ذہنی زاویہ پیدا کرتی ہیں — ایک ایسا مائنڈسیٹ جو وقت کے ساتھ اُس کی پہچان بن جاتا ہے۔ دولت، شہرت اور آرام اگرچہ زندگی کو سہولت دے سکتے ہیں، مگر سکون اور وقار کا تعلق ہمیشہ سوچ کے معیار سے ہوتا ہے۔
ہم روز دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص مال و دولت میں ڈوبا ہوا ہے مگر دل کے سکون سے محروم ہے، اور کوئی تنگدست اپنی خودداری کے باعث بادشاہوں کی طرح جیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل دولت مثبت سوچ ہے، اور اصل غربت منفی سوچ۔
مثبت سوچ انسان کو حالات سے اوپر اٹھا دیتی ہے۔ وہ رکاوٹ کو سبق سمجھتا ہے، اور محرومی کو تربیت۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی کا ہر موڑ ایک نیا پیغام رکھتا ہے۔ یہی سوچ اُسے مایوسی کے اندھیروں میں بھی امید کی روشنی دکھاتی ہے۔
اس کے برعکس، منفی سوچ انسان کو آسائشوں کے باوجود قید کر دیتی ہے۔ وہ ہر نعمت میں کمی ڈھونڈتا ہے، ہر خوشی میں اندیشہ۔ مایوسی، شک اور خوف اس کے ذہن پر قابض رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی ہی سوچ کا غلام بن جاتا ہے۔
اصل غلامی جسم کی نہیں، ذہن کی ہوتی ہے۔
جو اپنے مائنڈسیٹ کا غلام بن جائے، وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ مگر جو اپنی سوچ کا مالک ہو جائے، وہ محرومی میں بھی مطمئن رہتا ہے۔
زندگی دراصل وہی دکھاتی ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر نگاہ میں روشنی ہو تو اندھیرا بھی جمال بن جاتا ہے، اور اگر نظر میں منفی سوچ چھا جائے تو روشنی بھی بوجھ لگتی ہے۔
لہٰذا سوال یہ نہیں کہ ہمارے پاس کیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں۔
کیونکہ انسان اپنی سوچ کے رنگ میں ڈھل کر جیتا ہے —
اور جو اپنی سوچ کو سنوار لے، وہی دراصل زندگی جیتا ہے۔
سدا مثبت سوچیں اور خوش رہیں۔۔۔
دعا گو
دلپزیرجنجوعہ
اتوار، 26 اکتوبر، 2025
غزہ: امن کی تلاش یا طاقت کی آزمائش
غزہ: امن کی تلاش یا طاقت کی آزمائش
امریکہ نے ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کے نقشے پر نئی بساط بچھانے کی کوشش کی ہے۔ اس بار عنوان ہے: غزہ کے لیے بین الاقوامی سیکیورٹی فورس
ISF)
ایک ایسا منصوبہ جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن فارمولے کا مرکزی ستون بتایا جا رہا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے انکشاف کیا ہے کہ ’’کئی ممالک‘‘ نے اس فورس میں شمولیت کی پیش کش کی ہے، مگر ساتھ ہی شرط عائد کی گئی ہے کہ اس میں صرف وہی ممالک شامل ہوں گے جن پر اسرائیل کو اعتماد ہو۔ یہ جملہ بظاہر سادہ ہے، مگر اپنے اندر پوری سیاست سمیٹے ہوئے ہے۔ گویا امن کا پیغام بھی اسی دروازے سے گزرے گا جس کی چابی اسرائیل کے پاس ہے۔
وزیرِ خارجہ کے مطابق اس منصوبے پر مذاکرات جاری ہیں اور اسے جلد عملی شکل دینے کا ارادہ ہے۔ تاہم انہوں نے خود اعتراف کیا کہ جب تک حماس کے ساتھ کسی درجے کی مفاہمت نہیں ہوتی، اس فورس کی تعیناتی ایک خواب ہی رہے گی۔ وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس فورس کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ غزہ ایک غیر مسلح خطہ بن جائے جہاں کوئی گروہ اسرائیل یا اپنی ہی عوام کے لیے خطرہ نہ بنے۔ ٹرمپ پلان کے مطابق حماس کا غیر مسلح ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے، اور اگر اس نے اسلحہ چھوڑنے سے انکار کیا تو ’’معاہدے کی خلاف ورزی‘‘ سمجھا جائے گا — جسے، ان کے الفاظ میں، ’’نافذ‘‘ کرنا پڑے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ ’’نافذ کرنے‘‘ والا مرحلہ کس کے ہاتھ میں ہوگا؟
اسی ضمن میں
ISF
کی ساخت سامنے آتی ہے۔ منصوبے کے تحت یہ فورس ایک کثیرالملکی امن مشن ہوگی، جس کے ساتھ ایک مقامی تربیت یافتہ پولیس فورس بھی ہوگی۔ مقصد ہے ایک ایسا غیر مسلح اور دہشت گردی سے پاک غزہ قائم کرنا جہاں حالات مستحکم ہوں، اور اسرائیلی افواج کو بتدریج واپس بلایا جا سکے۔
فورس کے فرائض میں سرحدوں کی نگرانی، انسدادِ دہشت گردی، انسانی امداد کا تحفظ اور فلسطینی پولیس کی معاونت شامل ہوں گے۔
جب حالات معمول پر آئیں گے، اسرائیلی افواج مرحلہ وار واپسی کریں گی — لیکن تب تک ایک سیکیورٹی پٹی برقرار رکھی جائے گی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کئی ممالک نے فورس میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، ترکی، پاکستان، انڈونیشیا، آذربائیجان، آسٹریلیا، ملائیشیا، کینیڈا، فرانس، اور قبرص ان میں شامل بتائے جاتے ہیں۔ مگر اسرائیلی وزیرِاعظم نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ترکیکی فوج کو غزہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے بعد خبریں آئیں کہ آذری اور انڈونیشی افواج کو مرکزی کردار دیا جا سکتا ہے، جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے شرکت سے معذرت کر لی ہے۔
یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ امن کی راہ پر چلنا ابھی آسان نہیں۔ امریکہ کے وزیرِ خارجہ خود بھی مانتے ہیں کہ ’’مشکلات ضرور آئیں گی، مگر ہمیں اس منصوبے کو کامیاب بنانا ہے۔‘‘ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا یہ فورس واقعی امن لائے گی یا ایک نئے سیاسی معاہدے کی پیش بندی ثابت ہوگی؟
غزہ کے زخم ابھی تازہ ہیں، اور ہر نئی ’’بین الاقوامی فورس‘‘ کے ساتھ وہاں کے عوام کو یہ اندیشہ ضرور ستاتا ہے کہ کہیں ان کے امن کا سودا کسی اور کی شرائط پر تو نہیں ہو رہا۔
"غزہ کا امن اب طاقت کے توازن سے مشروط ہو چکا ہے۔"
ہفتہ، 25 اکتوبر، 2025
مفت دوائیں
مفت دوائیں
جب انسان بیمار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں دوا، ڈاکٹر اور اسپتال کا خیال آتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، جبکہ معالجوں اور اسپتالوں کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں لمبی قطاریں، فائلوں کا بوجھ، اور گھنٹوں کی انتظارگاہیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ علاج آج بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ بعض اوقات مریض علاج کے انتظار میں ہی مزید بیمار ہو جاتا ہے۔
البتہ زندگی میں کچھ ایسی "دوائیں" بھی ہیں جن پر کوئی خرچ نہیں آتا، پھر بھی وہ انسان کے جسم و روح دونوں کے لیے شفا بن جاتی ہیں۔ یہ وہ مفت کی دوائیں ہیں جنہیں اکثر ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ورزش — جسم و دل کی تندرستی
ورزش سب سے آسان اور مؤثر دوا ہے۔ یہ نہ صرف جسم کو متحرک رکھتی ہے بلکہ دل و دماغ کو بھی تازگی بخشتی ہے۔ روزانہ چند منٹ کی چہل قدمی، ہلکی پھلکی ورزش یا سانسوں کی مشقیں انسان کے جسم میں نئی توانائی پیدا کرتی ہیں۔ ڈاکٹر اکثر کہتے ہیں کہ "حرکت میں برکت ہے"۔ ورزش دراصل جسم کے نظام کو قدرتی طور پر متوازن رکھتی ہے اور بہت سی بیماریوں کو آنے سے پہلے روک دیتی ہے۔
مسکراہٹ — خوشی کا راز
ایک سادہ سی مسکراہٹ بھی دوا ہے۔ جب آپ مسکراتے ہیں تو دماغ میں خوشی کے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو ذہنی دباؤ کم کرتے ہیں۔ ایک مسکراہٹ نہ صرف آپ کے لیے بلکہ آپ کے آس پاس کے لوگوں کے لیے بھی راحت کا باعث بنتی ہے۔ کسی بیمار چہرے پر مسکراہٹ واپس لانا دراصل اس کے دکھ کا نصف علاج ہے۔ گہری
نیند — جسم و روح کا آرام
ایک اور مفت مگر قیمتی دوا نیند ہے۔ مناسب اور گہری نیند جسم کو آرام دیتی ہے، ذہن کو سکون بخشتی ہے، اور روزمرہ کی تھکن دور کرتی ہے۔ بے خوابی نہ صرف اعصاب کو کمزور کرتی ہے بلکہ کئی ذہنی و جسمانی امراض کی جڑ بھی بن جاتی ہے۔ لہٰذا وقت پر سونا، پر سکون ماحول میں نیند لینا خود ایک شفا ہے۔
گھر والوں کے ساتھ کھانا — محبت کا ذائقہ
اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت اب کم ہوتی جا رہی ہے، مگر یہ بھی ایک دوا ہے۔ جب آپ اپنے پیاروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں تو اس لمحے کی محبت، گفتگو، اور قربت انسان کو اندر سے مضبوط کرتی ہے۔ یہ تعلقات کو گہرا اور دلوں کو قریب کرتی ہے۔
پیاروں کے ساتھ وقت گزارنا — روح کی غذا
انسان صرف جسم نہیں، احساسات اور جذبات کا مجموعہ بھی ہے۔ اپنے دوستوں، بچوں، والدین یا شریکِ حیات کے ساتھ وقت گزارنا دل کو خوشی دیتا ہے، ذہنی دباؤ کم کرتا ہے، اور زندگی کو بامعنی بناتا ہے۔ محبت، خلوص، اور قربت ایسی دوائیں ہیں جن کا کوئی متبادل نہیں۔
دیکھا جائے تو زندگی میں ایسی بہت سی دوائیں موجود ہیں جنہیں ہم مفت میں حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے نہ ڈاکٹر کی پرچی چاہیے، نہ لمبی قطاریں، نہ مہنگی فیسیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان مفت دواؤں کی قدر کریں اور انہیں اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں۔ ورزش، مسکراہٹ، نیند، خاندانی محبت، اور اچھا وقت یہ سب قدرت کی طرف سے ہمیں عطا کردہ وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے جسم و روح کو تندرست رکھتی ہیں۔ اگر ہم ان پر عمل کریں تو شاید اسپتالوں کی قطاریں چھوٹی ہو جائیں اور دلوں کی مسکراہٹیں بڑھ جائیں۔
منگل، 21 اکتوبر، 2025
روح، نفس جسم
انسان صدیوں سے یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ زندگی کے اندر وہ کون سی قوت ہے جو مردہ مادے میں حرکت پیدا کر دیتی ہے؟ وہ کون سی روشنی ہے جو جسم کو احساس، سوچ اور شعور عطا کرتی ہے؟ مذہب اسے "روح" کہتا ہے، سائنس اسے "زندگی کی توانائی" کہہ کر خاموش ہو جاتی ہے، اور فلسفہ اسے ایک ماورائی حقیقت قرار دیتا ہے۔ لیکن قرآن مجید اس سوال کا ایک مختلف، متوازن اور پر سکون جواب دیتا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"وہ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے، اور تمہیں علم میں سے بہت کم دیا گیا ہے۔" (الاسراء: 85)
یہ آیت نہ صرف انسان کی محدود عقل کو یاد دلاتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ روح کوئی مادی چیز نہیں — یہ ایک "امرِ الٰہی" ہے، یعنی وہ قوت جو صرف اللہ کے حکم سے کام کرتی ہے۔
روح کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ قرآن اسے ہمیشہ زندگی کے آغاز، یعنی "حیات" سے جوڑتا ہے۔ جب آدمؑ کو مٹی سے بنایا گیا تو اللہ نے فرمایا:
"جب میں اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب سجدہ کرو۔" (الحجر: 29)
یہ "نفخِ روح" دراصل وہ لمحہ ہے جب ایک جامد جسم زندہ وجود میں بدل گیا — یہی لمحہ انسانیت کی ابتدا ہے۔
دوسری طرف قرآن "نفس" کا ذکر اس وقت کرتا ہے جب انسان اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنے ارادوں اور اپنے
ضمیر سے جڑا ہوتا ہے۔
کبھی یہ نفس
"برائی پر اکسانے والا"
ہوتا ہے — "إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ" (یوسف: 53)،
کبھی وہ "ملامت کرنے والا ضمیر" بنتا ہے — "النَّفْسِ اللَّوَّامَةِ" (القیامہ: 2)،
اور کبھی وہ سکون کی معراج پر جا پہنچتا ہے — "يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ" (الفجر: 27)۔
یوں "روح" اور "نفس" ایک ہی وجود کے دو پہلو ہیں:
روح وہ قوت ہے جو ہمیں زندگی دیتی ہے، اور نفس وہ مرکز ہے جو طے کرتا ہے کہ ہم اس زندگی کو کیسے گزاریں گے۔
روح آسمان سے آئی روشنی ہے، نفس زمین پر جلتی ہوئی وہ شمع ہے جو کبھی طوفان میں بجھ جاتی ہے، کبھی صبر سے مضبوط ہو جاتی ہے۔
فلاسفہ نے اس کو اپنے انداز میں سمجھنے کی کوشش کی۔
ابن سینا نے کہا، "روح جسم سے الگ ایک لطیف جوہر ہے جو اس سے جڑا تو ہے مگر اس میں قید نہیں۔"
امام غزالی نے فرمایا، "روح ملکوتی ہے اور نفس حیوانی۔ جب نفس کو پاک کیا جائے تو وہ روح کے تابع ہو جاتا ہے۔"
صوفیاء کے نزدیک روح خدا کی طرف سے آنے والی روشنی ہے، اور نفس اس روشنی کا انسانی عکس — اگر عکس صاف ہو تو روشنی واضح دکھائی دیتی ہے۔
قرآن ان دونوں میں توازن سکھاتا ہے۔
نہ روح کو سمجھنے میں غلو کی اجازت دیتا ہے، نہ نفس کی خواہشات کے پیچھے اندھی تقلید کی۔
یہی وہ توازن ہے جو اسلام کو نہ صرف مذہب بلکہ ایک مکمل فکری نظام بناتا ہے۔
آج جب دنیا سائنسی ترقی کے باوجود "انسانی شعور" کی اصل کو نہیں سمجھ سکی، تو قرآن کا یہ پیغام اور بھی واضح ہو جاتا ہے:
انسان کا جسم مٹی سے بنا ہے، مگر اس کی اصل شناخت اُس "امرِ الٰہی" سے ہے جو اسے زندگی دیتا ہے۔
اسی لیے قرآن نے کہا — "روح میرے رب کے حکم سے ہے" — تاکہ انسان یاد رکھے کہ وہ مٹی کا بھی ہے اور نور کا بھی۔
روح کے بغیر انسان جسم ہے، مگر نفس کے بغیر وہ شعور نہیں۔
روح زندگی دیتی ہے، نفس سمت۔
دونوں کا امتزاج ہی "انسان" کہلاتا ہے — ایک ایسا وجود جو زمین پر چلتا ہے مگر اس کی جڑیں آسمان میں پیوست ہیں۔
دو حکمران، حضرت سلیمانؑ اور ملکہ بلقیس کی کہانی
دو حکمران، حضرت سلیمانؑ اور ملکہ بلقیس کی کہانی
تاریخِ انسانیت کے اوراق پر کچھ نام ایسے ہیں جن کی حکمرانی صرف زمین پر نہیں بلکہ دلوں اور ذہنوں پر بھی چھائی رہی۔ انہی میں سے دو درخشاں نام ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس — دو مختلف دنیاؤں کے حکمران، مگر ایمان کی ایک ہی روشنی میں جڑے ہوئے۔
نبوت اور بادشاہت کا حسین امتزاج
حضرت سلیمانؑ کو اللہ نے ایسی بادشاہت عطا کی جو کسی اور کو نہ ملی۔
ان کے تابع جنات، پرندے، ہوائیں اور انسان سب تھے۔
ان کی سلطنت بیت المقدس سے لے کر شام، اردن، عراق اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔
یہ حکومت صرف طاقت کی نہیں بلکہ عدل، علم اور روحانیت کی بنیاد پر قائم تھی۔
وہ نہ صرف ایک نبی تھے بلکہ ایک فلسفی بادشاہ بھی — جن کی عدالت میں مخلوقات کی زبانیں سمجھی جاتی تھیں۔
یمن کی رانی — عقل و حکمت کی علامت
ادھر عرب کے جنوبی خطے یمن میں قومِ سبا کی حاکم ملکہ بلقیس تھیں۔
ان کا نام دولت، نظم و نسق، اور تعمیر و تجارت کا استعارہ تھا۔
ان کے دور میں سدّ مآرب تعمیر ہوا — ایک عظیم ڈیم جس نے ان کے ملک کو زراعت اور خوشحالی میں بے مثال بنا دیا۔
ان کی سلطنت حجاز سے بحرِ عرب، اور حبشہ سے عمان تک پھیلی ہوئی تھی۔
عورت کی قیادت میں ایک کامیاب، منظم اور ترقی یافتہ ریاست — یہ خود تاریخ کا انوکھا باب تھا۔
شورائی نظام — جمہوریت کی ابتدائی شکل
بلقیس کی حکومت مطلق العنان بادشاہت نہیں تھی۔
وہ فیصلوں میں درباریوں سے مشورہ کرتی تھیں۔
قرآنِ مجید سورۃ النمل میں ان کے الفاظ ہیں:
“اے سردارو! میرے معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی کام کا فیصلہ تمہارے مشورے کے بغیر نہیں کرتی۔”
یہ جملہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی حکومت شورائی نظام پر قائم تھی
ایک ایسا نظام جو آج کی جمہوریت کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔
طاقت کے بجائے عقل، اور تلوار کے بجائے تدبر — یہی ان کی سیاست کی بنیاد تھی۔
سورج پرستی سے ربّ تک کا سفر
قرآن بیان کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے لشکر کا پرندہ ہدہد جب سبا کی خبر لایا تو بتایا کہ وہاں کی قوم سورج کی پوجا کرتی ہے۔
حضرت سلیمانؑ نے بلقیس کو ایک خط لکھا — ایمان کی دعوت کے ساتھ۔
انہوں نے جواب میں نہ غرور دکھایا، نہ انکار کیا۔
بلکہ مشورہ کیا، سوچا، اور آخرکار خود بیت المقدس حاضر ہوئیں۔
یہ وہ لمحہ تھا جہاں عقل نے ایمان سے ملاقات کی۔
شیشے کا محل — بصیرت کی کرن
قرآن کے مطابق جب بلقیس حضرت سلیمانؑ کے شیشے کے فرش والے محل میں داخل ہوئیں،
تو اسے پانی سمجھ کر اپنی پنڈلیاں اٹھا لیں۔
اس لمحے ان پر حقیقت آشکار ہوئی،
اور ان کے دل سے غرور کی چادر ہٹ گئی۔
انہوں نے کہا:
“میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اور اب میں سلیمان کے ساتھ ربّ العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔”
(سورۃ النمل: 44)
یہ اعلان صرف ایک ایمان کا اقرار نہیں تھا، بلکہ ایک عقلی انقلاب تھا
جہاں سورج پرست عقل، توحید کی روشنی میں منور ہو گئی۔
سلیمانؑ اور بلقیس — ایک روحانی رشتہ
قرآن میں ان کی شادی کا صریح ذکر نہیں،
مگر کئی اسلامی اور حبشی روایات کے مطابق حضرت سلیمانؑ نے بلقیس سے نکاح فرمایا۔
بعض روایات کے مطابق وہ کچھ عرصہ بیت المقدس میں رہیں،
پھر واپس یمن گئیں اور ایمان کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہو گئیں۔
حبشہ کے شاہی خاندان نے خود کو انہی کی نسل سے منسوب کیا
ایک نسبت جو آج بھی روحانی فخر کا نشان ہے۔
مذہبی، سیاسی اور انسانی سبق
حضرت سلیمانؑ اور بلقیس کی داستان مذہب، سیاست اور انسانیت کے ملاپ کی روشن مثال ہے۔
سلیمانؑ کی حکومت یہ سبق دیتی ہے کہ طاقت جب وحی کے تابع ہو تو عدل قائم ہوتا ہے۔
اور بلقیس کی حکمرانی یہ سکھاتی ہے کہ عقل، علم اور مشاورت اقتدار سے زیادہ مضبوط بنیاد رکھتے ہیں۔
یہ دونوں شخصیات اپنے عہد سے آگے کی سوچ رکھنے والے حکمران تھے
جنہوں نے روحانیت کو سیاست کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا۔
حکومت مٹ جاتی ہے پالیسی یاد رہتی ہے
وقت کی گرد نے سلیمانؑ اور بلقیس کی سلطنتوں کے آثار مٹا دیے،
مگر ان کی دانائی اور ایمان آج بھی زندہ ہیں۔
یہی اس کہانی کا اصل پیغام ہے
ہر حکومت مٹ جاتی ہے، مگر عدل، عقل اور ایمان ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔
“اقتدار کی اصل بنیاد ایمان اور بصیرت ہے، نہ کہ تخت و تاج”
بدھ، 15 اکتوبر، 2025
تحریک لبیک اور مستقبل کا سوال (3)
تحریک لبیک اور مستقبل کا سوال (3)
تحریک لبیک پاکستان آج اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ذرا سی بے توجہی اس کے اصل مشن — عشقِ رسول ﷺ، امن اور اخلاق — کو مٹانے کا سبب بن سکتی ہے۔ سیاست کے شور اور جذبات کے طوفان میں ایمان کی روشنی اور نظم و ضبط ہی وہ طاقت ہیں جو کسی بھی تحریک کو بقا عطا کرتی ہیں۔ جب جذبات عقل پر حاوی ہو جائیں تو نعرے ایمان کے بجائے نفرت کی علامت بننے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب قیادت کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔
نظم و ضبط کی اہمیت
پاکستان میں احتجاج کی منظم روایت سب سے پہلے جماعت اسلامی نے قائم کی۔ ان کے اجتماعات میں اسلحہ نہیں بلکہ تربیت، نظم اور مکالمہ ہوتا ہے۔ یہی سیاسی بصیرت کئی بار ملک کو تصادم سے بچاتی رہی۔ اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت نے اختلافات کے باوجود اعتدال اور فہمِ سیاست کو اپنایا۔ یہ جماعتیں یاد دلاتی ہیں کہ مذہبی سیاست کی اصل طاقت شور نہیں بلکہ شائستگی اور حکمت ہے۔
خادم حسین رضوی کا دور
علامہ خادم حسین رضوی کے دور میں تحریک لبیک صرف ایک مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی تحریک بن کر ابھری۔ ان کا علم، توکل اور عشقِ رسول ﷺ کا پیغام عوام کے دلوں میں اتر گیا۔ ان کے اجتماعات میں ایمان کی حرارت بھی تھی اور نظم کی قوت بھی۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک لبیک کا وہ فکری تسلسل، تنظیمی مرکزیت اور قیادت کا توازن آہستہ آہستہ ماند پڑتا گیا۔
قیادت کا بحران اور فکری انتشار
آج کی تحریک لبیک اندرونی اختلافات، غیر واضح فیصلوں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ کارکنان اور ہمدرد محسوس کرتے ہیں کہ تحریک کا بیانیہ کمزور ہو گیا ہے۔ جذبات باقی ہیں مگر سمت غائب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی اعتماد میں کمی اور فکری انتشار کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ربوہ، مریدکے واقعات کا بوجھ
ربوہ اور مریدکے کے واقعات نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی تحریک لبیک کو سخت دباؤ میں لا کھڑا کیا ہے۔ خلیجی ممالک استحکام اور گفت و شنید پر زور دے رہے ہیں، امریکہ نے حفاظتی وارننگز جاری کیں، اور یورپی ممالک — خصوصاً اسپین اور اٹلی — میں عدالتی کارروائیوں نے یہ ظاہر کیا کہ شدت پسندی عالمی تشویش کا موضوع بن چکی ہے۔ ایسے میں تحریک لبیک کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ ربوہ واقعے پر وضاحت نہ دینا، اسپین و اٹلی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرنا — یہ رویہ بگلے کو ریت میں چھپانے کے مترادف ہے۔
پروپیگنڈہ اور بیانیے کی کمزوری
اسی دوران ملکی و غیر ملکی میڈیا نے تحریک کے دفاتر اور گھروں سے برآمد ہونے والی رقوم کو بھارتی ایجنسی را، تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے، خیبرپختونخوا کی تبدیلی، اور افغانستان میں سرگرم فتنۂ خوارج سے جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ تمام ابواب دراصل اسی صیہونی مافیا کی کتاب کے مختلف عنوانات ہیں جو پاکستان کے وجود، اس کی عسکری قوت اور اسلامی تشخص سے خوفزدہ ہیں۔ بھارتی میڈیا اور مغربی تجزیہ کار اس بیانیے کو مزید ہوا دے رہے ہیں تاکہ دنیا کو یقین دلایا جا سکے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ افسوس کہ تحریک لبیک کی جانب سے اب تک کوئی مؤثر تردید یا وضاحتی موقف سامنے نہیں آیا۔
سوشل میڈیا پر نئی مہمات اور اندرونی خاموشی
ملک کے اندر یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ بھارت، تحریک انصاف کے علیحدگی پسند، فتنۂ خوارج، فتنۂ ہند، اور تحریک لبیک ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ یہ مہمات تنظیمی خاموشی کے سبب تقویت پا رہی ہیں۔ نہ مجلسِ شوریٰ متحرک ہے، نہ میڈیا سیل فعال۔ یہ وہ وقت ہے جب قیادت کی حکمت، شوریٰ کی بصیرت اور کارکنان کی نظم و تربیت سب سے زیادہ درکار ہیں۔
نعرے اور پیغام
وقت آ گیا ہے کہ تحریک لبیک اپنے نعروں اور اندازِ احتجاج پر نظرِ ثانی کرے۔
وہ نعرے جو کبھی ایمان کی علامت تھے، اب اشتعال کی پہچان بن چکے ہیں۔ “سر تن سے جدا” جیسے نعرے دشمنوں کے ہاتھ میں ہتھیار بن گئے ہیں، جبکہ “صدقے یا رسول اللہ ﷺ” اور “لبیک یا رسول اللہ ﷺ” جیسے عقیدت آمیز نعرے اسلام کے محبت و رحمت والے پیغام کو زندہ رکھتے ہیں۔
اسلام کا پیغام نفرت نہیں، رحمت ہے۔
فیصلہ کن موڑ
تحریک لبیک کے لیے اب وقت احتجاج کا نہیں، احتساب اور اصلاح کا ہے۔
اگر قیادت نے تعلیم یافتہ، مکالمہ پسند اور بصیرت افروز رویہ اپنایا تو یہ جماعت دوبارہ عوامی اعتماد حاصل کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک جذباتی داستان بن کر تاریخ میں دفن ہو جائے گی۔ قیادت کا کمال یہ نہیں کہ ہجوم جمع کر لے، بلکہ یہ ہے کہ ہجوم کو نظم، عقل اور امن کی راہ پر ڈال دے۔
اگر تحریک لبیک نے عشقِ رسول ﷺ کے پیغام کو سیاست کی تلخیوں سے نکال کر اخلاق، امن اور محبت کے سانچے میں ڈھال لیا، تو یہ تحریک ایک بار پھر قوم کے ایمان، اخلاق اور اتحاد کی علامت بن سکتی ہے۔
علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)
علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)
تحریک لبیک پاکستان کی کہانی دراصل عشقِ رسول ﷺ کے جذبے سے شروع ہوئی تھی۔ علامہ خادم حسین رضویؒ نے اس تحریک کو عشق، ایمان، اور اخلاق کے سنگم پر کھڑا کیا۔ ان کے خطابات میں جہاں جوش ہوتا، وہاں تہذیب بھی ہوتی؛ جہاں غیرتِ ایمانی دکھائی دیتی، وہاں احترامِ انسانیت بھی جھلکتا تھا۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک ایک ایسے موڑ پر آ گئی جس نے اس کے اخلاقی اور فکری وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اختلافات کی بازگشت
خادم حسین رضویؒ کے انتقال کے فوراً بعد پارٹی کے اندر قیادت کے تعین پر اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ تحریک کے کچھ بانی اراکین کا مؤقف تھا کہ قیادت کے لیے صرف نسب کافی نہیں، بلکہ دینی علم، سیاسی بصیرت اور اخلاقی پختگی بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ: “تحریک ایک جذباتی طوفان ہے، اگر اسے تجربہ کار ہاتھ نہ سنبھالیں تو یہ اپنے ہی خوابوں کو توڑ دے گی۔” اس اختلاف کے باوجود، مرکزی شوریٰ نے سعد رضوی کو نیا امیر مقرر کر دیا۔ یہ فیصلہ جذباتی احترام میں تو درست محسوس ہوا، مگر تنظیمی لحاظ سے کئی سوالات اٹھ گئے - ان سوالات میں ایک سوال ایک بانی کارکن کا بھی تھا “جو شخص کسی کو محض قرابت یا دوستی کی بنیاد پر ذمہ داری دے، وہ اللہ اور رسول ﷺ سے خیانت کرتا ہے۔”
(سنن بیہقی، ج5، ص65)
بانی اراکین کی خاموش رخصتی
علامہ صاحب کے چند قریبی رفقا، جو تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے، نے یا تو خاموشی اختیار کر لی یا نظریاتی اختلاف کے باعث خود کو الگ کر لیا۔ان میں بعض وہ تھے جو خادم رضویؒ کے ابتدائی جلسوں، احتجاجوں اور تنظیمی خاکے کے معمار تھے۔ان کے نزدیک تحریک کا رخ آہستہ آہستہ عوامی اصلاح سے زیادہ سیاسی مفاد کی طرف مڑ رہا تھا۔
ایک سابق ضلعی ناظم نے کہا: “اب تحریک کے اندر رائے دینا گناہ سمجھا جاتا ہے، اور سوال اٹھانا بغاوت۔”
اخلاقی گراوٹ
تحریک کا سب سے بڑا نقصان اخلاقی سطح پر ہوا۔علامہ خادم رضویؒ کی زندگی میں کارکنوں کو "زبان کی پاکیزگی" پر سختی سے تاکید کی جاتی تھی۔ ان کا فرمان ریکارڈ پر ہے “زبان بندہ کا آئینہ ہے، اگر زبان خراب ہو گئی تو دل سیاہ ہو جاتا ہے۔” (بیان فیضِ رضوی، لاہور اجتماع 2017)
لیکن آج تحریک کے کارکنان اور رہنما اکثر غلیظ زبان، طنز اور گالی کو دلیل سمجھ بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے لیے بلکہ اصلاحی ناقدین کے بارے میں ایسے جملے استعمال ہوتے ہیں جن کا ذکر بھی شرمناک ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں عشق کا بیانیہ اخلاقی زوال میں بدل گیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی یہ زوال خطرناک ہے
قرآن مجید فرماتا ہے: “اور اپنے قول میں نرمی اختیار کرو، بے شک شیطان تمہارے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔”
(سورۃ الاسراء، آیت 53)
جب عشق نفرت میں بدل جائے
تحریک کی اصل بنیاد محبت، ادب، اور عشقِ رسول ﷺ تھی۔
مگر اب جلسوں اور تقاریر میں جذباتی ردعمل، ذاتی حملے، اور بد زبانی کا رنگ غالب رہنے لگآ جو تحریک عشقِ نبی ﷺ کے نام پر اُٹھی تھی، وہ رفتہ رفتہ نفرت کے اظہار کا ذریعہ بن گئی۔ اور جب محبت نفرت میں بدل جائے تو سنجیدہ لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خادم رضویؒ کے زمانے کے کئی سنجیدہ مذہبی علما، صوفیا، اور فکری ہمدرد اب اس تحریک سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں۔
نا تجربہ کاری
سعد رضوی کی جوانی اور بے تجربگی کے باعث تنظیمی نظم ڈھیلا پڑ گیا۔
نوجوان قیادت کا جوش، دانائی کے بغیر، اکثر شدت میں بدل گیا۔ کئی بار تحریک کے بیانات اور پالیسی فیصلے ملک کے اندر سیاسی بحران کا سبب بنے۔
یہ سب وہ اشارے ہیں جن سے لگتا ہے کہ پارٹی فکری کمزوری اور اخلاقی بحران دونوں کا شکار ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: “جو شخص تجربے سے خالی ہو، وہ خود اپنی رائے کا قیدی بن جاتا ہے۔”
(نہج البلاغہ)
تحریک کی بقا اخلاقی اصلاح میں ہے
تحریک لبیک اگر واقعی خادم حسین رضویؒ کے مشن کو زندہ رکھنا چاہتی ہے، تو اسے تنظیمی اصلاح، اخلاقی تربیت، اور قیادت میں بہتری لانا ہو گی۔ محبت اور ادب کے بغیر مذہبی بیانیہ، صرف نعروں کا شور بن جاتا ہے۔
اور نعروں کا شور سیاسی پارتی کا تو ممکن ہے مگر مزہبی پارٹی پر سوال اتھ جایا کرتے ہین اور یہ سوال باہر سے نہیں تحریک لبیک کے ابدر سے اتھ رہے ہیں
اگر تحریک نے خود احتسابی نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب عشقِ رسول ﷺ کا نعرہ بھی سیاست کی گرد میں دب جائے گا۔
(جاری ہے )
علامہ خادم حسین رضوی (1)
عنوان: عاشقِ رسولؐ علامہ خادم حسین رضوی — علم، عشق اور توکل کی ایک داستان
دلپزیر احمد جنجوعہ
دینِ اسلام کی تاریخ ایسے رجالِ کار سے بھری پڑی ہے جنہوں نے عشقِ رسول ﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ انہی عاشقانِ مصطفی ﷺ میں ایک نام علامہ خادم حسین رضوی کا بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک عالمِ باعمل، نڈر مقرر، اور باوقار قائد تھے بلکہ عشقِ رسول ﷺ کے ایسے دیوانے کہ اپنی جان، مال اور آرام سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو ضلع اٹک کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسے سے حاصل کی اور بعدازاں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ قرآن و حدیث پر گہری نظر، عربی و فارسی پر عبور اور فقہ و سیرت کی گہری فہم نے انہیں کم عمری ہی میں ممتاز بنا دیا۔
علم اور خطابت کا سفر
خادم حسین رضوی کا اصل تعارف ان کی دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی خطابت تھی۔ لاہور کے منبر سے لے کر کراچی اور پشاور کے اجتماعات تک، جب وہ زبان کھولتے تو دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی آگ بھڑک اٹھتی۔ ان کی گفتگو میں علم، درد، اور عقیدت کا ایسا امتزاج ہوتا کہ سننے والے دیر تک مسحور رہ جاتے۔
توکل اور زہد کی جھلک
حادثے کے باعث زندگی بھر وہیل چیئر پر رہنے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ان کی زندگی فقیرانہ انداز، قناعت، اور اللہ پر کامل توکل کی مثال تھی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے:
“میں نے اللہ کے دین کے لیے قلم اٹھایا ہے، اس کا نتیجہ وہی لکھے گا جو بہتر ہوگا۔”
دنیاوی آسائشوں سے بے نیاز، وہ سادہ لباس، معمولی کھانے، اور کم سامانِ زیست پر قناعت کرتے تھے۔ مگر دل
عشقِ رسول ﷺ سے مالا مال تھا۔
میں نے ان کی زبان سے سنا "ایک روٹی اور اچار کی دو ڈلیاں" میرے لیے کافی ہیں
عشقِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت کا دفاع
علامہ خادم حسین رضوی کا سب سے نمایاں پہلو ان کا عشقِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کا عزم تھا۔ وہ کسی بھی سطح پر گستاخیِ رسول ﷺ کے خلاف آواز بلند کرتے اور لاکھوں دلوں میں عشق کی حرارت پیدا کر دیتے۔ ان کے جلسوں میں نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک، سب کے دل عشق و ایمان سے لبریز ہوتے۔
اخلاص اور عوامی مقبولیت
خادم حسین رضوی نے اقتدار کی نہیں بلکہ عقیدت کی سیاست کی۔ ان کے جلسے کسی سیاسی شو سے زیادہ روحانی اجتماع کا منظر پیش کرتے۔ ان کے چاہنے والے انہیں “مجاہدِ ناموسِ رسالت ﷺ” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
انتقال اور عوامی سوگ
انیس نومبر 2020 کو جب ان کے انتقال کی خبر پھیلی تو پورا ملک غم میں ڈوب گیا۔ لاکھوں لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ ان کے چاہنے والوں کے چہروں پر آنسو اور زبانوں پر درود و سلام تھا۔ یہ محبت، یہ عقیدت اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ دلوں پر راج کرنے والے انسان تھے۔
علامہ خادم حسین رضوی کی زندگی ایک پیغام تھی
علم کے ساتھ عمل، عشق کے ساتھ ادب، اور قیادت کے ساتھ توکل۔
ان کی یاد آج بھی اس بات کی علامت ہے کہ عشقِ رسول ﷺ اگر خلوص کے ساتھ ہو تو انسان کے جسم کی معذوری بھی روح کے عزم کو روک نہیں سکتی۔
نوٹ: یہ مضمون تین قسطوں پر محیط ہے ۔ )
(یہ پہلی قسط ہے
پیر، 13 اکتوبر، 2025
امن کی نئی صبح
مشرقِ وسطیٰ میں امن کی نئی صبح
شرم الشیخ میں آج ایک تاریخی بین الاقوامی امن اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔
یہ اجلاس غزہ میں جنگ بندی کو مستقل امن میں بدلنے، تعمیرِ نو کے منصوبے بنانے اور مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے نئے دور کے آغاز کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔
شرکت کرنے والے ممالک
اس اہم اجلاس میں فلسطین، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ، اردن، بحرین، عمان، کویت، لبنان، عراق، شام، الجزائر، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، یمن، ایران، چین، روس، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، اسپین، نیدرلینڈ، یونان، ناروے، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور، جنوبی افریقہ، نائیجیریا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی یونین کے نمائندے شامل ہیں۔
البتہ اسرائیل اور حماس کو اجلاس میں باضابطہ طور پر مدعو نہیں کیا گیا، تاہم دونوں کے نمائندوں سے بالواسطہ رابطہ رکھا جا رہا ہے۔
اجلاس کے مقاصد
مصری ایوانِ صدر کے مطابق اجلاس کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی کو پائیدار بنانا، انسانی امداد کی فراہمی کو منظم کرنا، تعمیرِ نو کا جامع منصوبہ بنانا، اور طویل المدتی سیاسی استحکام کے لیے مؤثر لائحہ عمل طے کرنا ہے۔
یہ اجلاس اس تین روزہ جنگ بندی کے فوراً بعد منعقد ہو رہا ہے جو مصر، قطر، ترکیہ، امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ سفارتی کوششوں سے ممکن ہوئی۔
تازہ معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی، خان یونس، رفح، بیت لحیا اور بیت حانون کے بعض حصوں سے جزوی انخلا شروع کیا ہے جبکہ پانچ سرحدی راستے انسانی امداد اور غذائی سامان کے لیے کھولے جا چکے ہیں۔
قیادت کے بیانات
صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنے خطاب میں کہا
“مصر اس یقین کے ساتھ یہ کانفرنس منعقد کر رہا ہے کہ امن ہی ترقی، انصاف اور انسانی خوشحالی کی بنیاد ہے۔ آج دنیا کو ایک متحد آواز میں ظلم کے خاتمے اور تعمیر کے آغاز کا پیغام دینا ہوگا۔”
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا
“ہم مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئے دور میں داخل کر رہے ہیں — ایسا دور جہاں جنگ نہیں بلکہ تعاون ہوگا۔ امریکہ، مصر، قطر، ترکیہ اور پاکستان نے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا ہے جو غزہ میں امن کو پائیدار بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔”
عالمی تعاون اور وعدے
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے خصوصی فنڈ کے قیام کا اعلان کیا۔
قطر نے ایک بین الاقوامی ریلیف میکنزم کی تجویز دی جو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں چلے گا۔
ترکیہ نے فوری بحالی اور طبی نظام کی تعمیرِ نو میں عملی مدد کا وعدہ کیا۔
پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت ادویات، خوراک اور طبی عملہ بھجوانے کا اعلان کیا۔
چین اور روس نے اس بات پر زور دیا کہ امن صرف برابری، انصاف اور خودمختاری کے اصولوں پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔
یورپی ممالک — فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور یورپی یونین — نے تکنیکی و مالی تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
فلسطینی عوام کی امید
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس کو “امید کی کرن” قرار دیتے ہوئے کہا
“اگر عالمی برادری اپنے وعدوں کو عمل میں تبدیل کرے تو ریاستِ فلسطین کا قیام اب ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بن سکتا ہے۔”
شرم الشیخ امن اجلاس کو مشرقِ وسطیٰ میں امن، استحکام اور تعاون کے نئے دور کا نقطۂ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
اگر طے شدہ نکات عملی شکل اختیار کر گئے تو غزہ کی تباہ شدہ زمین ایک بار پھر زندگی، امید اور تعمیر کی علامت بن سکتی ہے۔
یہ اجلاس اس حقیقت کا مظہر ہے کہ دنیا کی طاقتیں اب جنگ نہیں، امن کی زبان بولنا چاہتی ہیں
اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن کا سورج طلوع ہونے جا رہا ہے۔
ہفتہ، 11 اکتوبر، 2025
شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا
شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا
دنیا کے سب سے باوقار اعزازات میں شمار ہونے والا نوبل امن انعام اس سال بھی عالمی سیاست کا مرکزِ نگاہ بنا رہا۔ مگر 2025 کا اعلان ایک غیر متوقع بحث کو جنم دے گیا — کیونکہ جنہیں سب سے زیادہ مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا، یعنی امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وہ یہ انعام حاصل نہ کر سکے۔
صدر ٹرمپ کو یقین تھا کہ اُن کے حالیہ امن اقدامات، خصوصاً غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اور مشرقِ وسطیٰ میں امن مذاکرات، اُنہیں عالمی سطح پر امن کا علمبردار بنا چکے ہیں۔ کئی تجزیہ کار اور ان کے حمایتی بھی یہ سمجھتے تھے کہ نوبل کمیٹی اس بار اُن کی کوششوں کو تسلیم کرے گی۔ لیکن جب اعلان ہوا تو یہ اعزاز وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کے حصے میں آیا۔
صدر ٹرمپ کا ابتدائی ردِعمل بظاہر پُر سکون تھا، مگر ان کے الفاظ میں مایوسی کی ہلکی جھلک صاف محسوس ہوئی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ماریا کورینا ماچادو نے انہیں ذاتی طور پر فون کر کے بتایا کہ وہ یہ انعام ’’صدر ٹرمپ کے اعزاز میں‘‘ قبول کر رہی ہیں۔ ٹرمپ نے کہا:
’’میں نے وہ کام کیے جو کئی دہائیوں سے کوئی نہیں کر سکا — امن، قیدیوں کی رہائی، اور دشمنوں کے درمیان مذاکرات — لیکن کچھ ادارے امن سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی نوبل کمیٹی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ سیاست کو امن پر ترجیح دینے کا ثبوت ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی حلقے میں کہا کہ وہ ’’انعام کے بغیر بھی دنیا کے امن کے لیے کام جاری رکھیں گے‘‘، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ ’’نوبل کمیٹی نے موقع گنوا دیا‘‘۔
صدر کے حامیوں میں اس فیصلے کے بعد ایک طوفان مچ گیا۔ ریپبلکن رہنماؤں اور قدامت پسند حلقوں نے نوبل کمیٹی پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ سوشل میڈیا پر نوبل کمیٹی کے خلاف مہم شروع ہو گئی۔
کئی سیاسی شخصیات نے طنزیہ انداز میں ’’ٹرمپ امن انعام‘‘ کے مجسمے اور تصویریں شیئر کیں۔ ایک سینیٹر نے لکھا:
’’اگر نوبل کمیٹی نے انصاف کیا ہوتا، تو آج امن کے انعام کے ساتھ امریکہ کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔‘‘
ٹرمپ کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ، کوریا اور افریقہ میں امن کے لیے جو اقدامات کیے، وہ کسی بھی عالمی رہنما سے زیادہ قابلِ تعریف ہیں۔ ان کے نزدیک نوبل کمیٹی نے ’’عالمی اشرافیہ کے دباؤ میں آ کر ایک سیاسی فیصلہ کیا۔‘‘
دنیا بھر میں اس فیصلے پر ردِعمل ملا جلا رہا۔
نوبل انعام حاصل کرنے والی ماریا کورینا ماچادو نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ یہ اعزاز ’’صدر ٹرمپ کے ساتھ شیئر کرتی ہیں‘‘ کیونکہ انہوں نے وینزویلا کی جمہوری تحریک کے لیے ’’اہم عالمی حمایت‘‘ فراہم کی۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹرمپ کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے عالمی سطح پر تنازعات کے حل کے لیے عملی کوششیں کیں‘‘۔
جبکہ نوبل کمیٹی نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتخاب خالصتاً میرٹ اور امن کے اصولوں پر مبنی تھا، کسی سیاسی دباؤ کے بغیر۔‘‘
امریکی میڈیا میں بھی بحث چھڑ گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق زیادہ تر امریکی ووٹرز کا خیال ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کے کچھ اقدامات قابلِ ذکر ہیں، مگر وہ نوبل انعام کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ صدر ٹرمپ نے عالمی اداروں کے فیصلوں کو ’’متعصب‘‘ قرار دیا ہو۔ لیکن اس بار معاملہ صرف ایک انعام کا نہیں بلکہ عالمی ساکھ اور امریکی بیانیے کا بھی ہے۔
ٹرمپ کے لیے نوبل انعام نہ ملنا شاید وقتی دھچکا ہو، مگر سیاسی طور پر یہ اُن کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے حامیوں نے اس فیصلے کو ایک نئے نعروں میں بدل دیا ہے
’’امن کی خدمت، انعام کی نہیں۔‘‘
صدر ٹرمپ کے لیے یہ انعام شاید نہ سہی، لیکن عالمی توجہ، سیاسی فائدہ اور عوامی تاثر — یہ سب ابھی بھی ان کے پاس ہیں۔ اور بعض اوقات سیاست میں یہ سب کچھ نوبل انعام سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتا ہے۔
تحریر: دلپزیر جنجوعہ
جمعہ، 10 اکتوبر، 2025
غزہ میں امن کی کرن
غزہ کی مساجد مین اب بھی اذان کی صدا گونجتی ہے، یہ سرزمین محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایمان، قربانی اور استقامت کی علامت ہے۔ فلسطینی عوام کا اپنے وطن سے روحانی، مذہبی اور تاریخی تعلق اتنا گہرا ہے کہ سات دہائیوں کی آگ اور خون کی بارش بھی اسے کمزور نہ کر سکی۔
نو اکتوبر 2025، دوپہر دو بجے—دنیا نے ایک نیا منظر دیکھا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل اور خونی جنگ کے بعد ایک نازک مگر امید بھرا معاہدہ نافذ ہوا۔ اس کے تحت 400 ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہونے لگے، یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا، اور شہری آبادیوں سے اسرائیلی فوج کے انخلا کی خبریں آنے لگیں۔ برسوں کے بعد، ملبے کے درمیان کچھ چہروں پر زندگی کی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ غزہ کے لوگ جو بچ گئے، انہوں نے اس معاہدے کو امن کی پہلی سانس قرار دیا۔
لیکن امن کی یہ سانس کتنی نازک ہے، یہ صرف وہ جانتے ہیں جنہوں نے 724 دنوں تک موت کے سائے میں زندگی گزاری۔ دو برس سے زائد عرصے میں 92 فیصد اسکول تباہ ہو گئے، 63 یونیورسٹیاں مٹی کا ڈھیر بن گئیں، اور باقی تعلیمی ادارے بھی ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔۔ 62 فیصد لوگ اپنے گھروں اور زمینوں کے دستاویزی ثبوت کھو چکے ہیں۔ تین لاکھ سے زیادہ جانیں قربان ہو چکیں، اور 50 ہزار بچے بھوک اور بیماری کے ہاتھوں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں۔ یہ وہ چہرے ہیں جن پر کسی دنیاوی معاہدے کا نام تحریر نہیں، مگر ان کی خاموشی سب سے بڑا الزام ہے۔
سیاسی منظر بھی پیچیدہ ہے۔ نیتن یاہو کا دو ریاستی حل سے انکار عرب و مسلم دنیا میں اتحاد کی نئی لہر پیدا کر رہا ہے۔ ٹونی بلیر کے بارے میں عرب حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ "جنگی مجرم" ہے، ایک اسرائیلی وزیر نے کھلے عام کہا کہ "یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس کو ختم کر دیا جائے گا" — یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے پیچھے اب بھی انتقام کی آنچ باقی ہے۔
اس کے برعکس، بین الاقوامی منظرنامے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوداعتمادی اور آٹھ ممالک کی شمولیت نے اس معاہدے کو وقتی طور پر مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ مگر اقوام متحدہ اور علمی برادری کا کہنا ہے کہ حقیقی امن انصاف اور جواب دہی کے بغیر ممکن نہیں۔ ماضی کے معاہدے دیرپا ثابت نہیں ہوئے، اس لیے دنیا کے لیے یہ ایک آزمائش ہے کہ کیا وہ اس بار انصاف کے ساتھ امن کو جوڑ سکتی ہے یا نہیں۔
غزہ کی داستان سیاست کی نہیں، انسانیت کی ہے۔ قحط نے جسم سوکھا دیے، مگر روح کو زندہ رکھا۔ انسان کا سر پھول جاتا ہے، ہڈیوں سے گوشت غائب ہو جاتا ہے، مگر بچے پھر بھی اپنے ٹوٹے کھلونوں سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی امید ہے، جو اس ملبے میں بھی زندہ ہے۔ حماس اور فلسطینی عوام نے معاہدہ قبول کیا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت صرف گولی سے نہیں، یقین سے جیتی جاتی ہے۔ یہ فتح تحفے میں نہیں ملی؛ یہ خون، صبر اور قربانی سے حاصل کی گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس فتح کو کیسے دیکھے گی؟ اگر انصاف نہ ہوا، اگر جنگی جرائم کی نشاندہی اور احتساب نہ کیا گیا، تو یہ امن محض وقتی خاموشی بن کر رہ جائے گا۔ اگر اس موقع کو انصاف، تعمیر نو اور انسانی وقار کے ساتھ جوڑا گیا، تو یہی معاہدہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
غزہ آج بھی سانس لے رہا ہے—زخمی، کمزور، مگر زندہ۔ وہاں کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ امید کو مارا نہیں جا سکتا۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی ایک روشنی باقی ہے، وہ روشنی جو ملبے کے بیچ سے پھوٹتی ہے، جو دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ امن صرف طاقت سے نہیں، انصاف سے قائم ہوتا ہے۔ اور جب انصاف قائم ہو جائے گا، تب شاید فلسطین کی زمین پر پہلی بار حقیقی امن کا سورج طلوع ہوگا۔
بدھ، 8 اکتوبر، 2025
تیسرا دن: شرم الشیخ میں امن مذاکرات میں پیش رفت
تیسرا دن: شرم الشیخ میں امن مذاکرات میں پیش رفت
مشرقِ وسطیٰ میں امن کے امکانات نے تیسری بار روشن کرن دکھائی جب شرم الشیخ میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے تیسرے دن ایک اہم پیش رفت سامنے آئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک غیر متعلقہ تقریب کے دوران اعلان کیا، “مجھے بتایا گیا ہے کہ ہم امن معاہدے کے بہت قریب ہیں۔”
صدر کے مطابق، یہ پیغام انہیں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے ہاتھ سے موصول ایک نوٹ میں ملا، جس میں لکھا تھا: “آپ کو فوراً ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کی منظوری دینی چاہیے تاکہ آپ پہلے امن معاہدے کا اعلان کر سکیں۔” اس لمحے ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے کہا، “ہم مشرقِ وسطیٰ میں امن کے بہت قریب ہیں۔”
شرم الشیخ مذاکرات: نیا موڑ
بدھ کے روز مصری بحیرہ احمر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی بات چیت میں مصری، قطری اور ترک ثالثوں نے حماس کے نمائندوں کے ساتھ سات گھنٹے طویل نشست کی۔ ذرائع کے مطابق بات چیت کا مرکز امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا، جس میں جنگ بندی، تمام مغویوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا غزہ کے کچھ حصوں سے انخلا شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ قیدیوں کی فہرستوں اور جنگ بندی کی ضمانتوں پر قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ حماس نے تمام اسرائیلی مغویوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کی ہے، جبکہ شہدا کی لاشوں کی حوالگی زمینی حالات بہتر ہونے پر کی جائے گی۔
امن منصوبے کے خدوخال
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق، غزہ میں فوری جنگ بندی کے ساتھ اسرائیل اپنے فوجی پیچھے ہٹائے گا اور انسانی امداد کا راستہ کھولا جائے گا۔ اس منصوبے میں ایک بین الاقوامی فورس — زیادہ تر عرب و مسلم ممالک کی — غزہ میں سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالے گی، جبکہ امریکا ایک بڑے تعمیرِ نو کے پروگرام کی قیادت کرے گا۔
اس منصوبے کا مقصد صرف جنگ بندی نہیں بلکہ ایک پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا،
“اس کا مطلب ہے کہ تمام مغوی بہت جلد رہا کیے جائیں گے، اسرائیلی افواج طے شدہ حد تک پیچھے ہٹیں گی، اور یہ ایک مضبوط، دیرپا اور حقیقی امن کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ تمام فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔”
اسرائیل اور فلسطین کا ردِعمل
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا، “خدا کے فضل سے ہم سب کو واپس گھر لائیں گے۔”
حماس نے اس بات کی تصدیق کی کہ معاہدے میں اسرائیلی فوج کے انخلا، امداد کے داخلے، اور قیدیوں کے تبادلے کی ضمانت شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق، حماس اس ہفتے کے اختتام تک تمام 20 زندہ مغویوں کو رہا کرے گی، جبکہ اسرائیلی افواج غزہ کے بیشتر حصوں سے انخلا شروع کریں گی۔
بین الاقوامی ثالث اور آئندہ مرحلہ
ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر بدھ کو شرم الشیخ پہنچے تاکہ معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے۔ اجلاس میں مصر، قطر اور ترکی کے اعلیٰ حکام کے علاوہ اسرائیلی وفد بھی شریک تھا۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی صدر ٹرمپ کو دعوت دی ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوں تو وہ معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک ہوں۔ اپنے خطاب میں السیسی نے کہا، “مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں، امید ہے تمام فریق اس موقع کو امن کے لیے استعمال کریں گے۔”
امن کا تیسرا موقع
یہ جنگ کے آغاز کے بعد تیسرا بڑا جنگ بندی معاہدہ ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوا، تو یہ نہ صرف دو سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
جیسے ٹرمپ نے کہا، “یہ صرف غزہ کا امن نہیں، یہ پورے مشرقِ وسطیٰ کا امن ہے۔”
ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ
شرم الشیخ میں امن مزاکرات کے بارے میں بہت کم خبریں باہر آرہی ہیں البتہ عرب میڈیا میں ایک ترمیم شدہ 20 نکاتی ٹرم پلان کا مسودہ گردش کر رہا ہے جو الجزیرہ ٹی وی کی ویب سایٹ پر بھی مجود ہے ۔ اپنے دوستوں کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش ہے
ترمیم شدہ 20 نکاتی منصوبہ: نوآبادیاتی شرائط سے آزاد ٹرمپ پلان
فلسطین اور اسرائیل دونوں ایسے دہشت گردی سے پاک ممالک ہوں گے جو اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ ہوں۔
فلسطین کو فلسطینی عوام کے فائدے کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جنہوں نے پہلے ہی بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔
اگر دونوں فریق اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی افواج قیدیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ حد تک پیچھے ہٹ جائیں گی، اور تمام فوجی کارروائیاں بند ہو جائیں گی۔
دونوں فریقوں کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی طور پر قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام مغوی — زندہ اور جاں بحق — واپس کر دیے جائیں گے۔
تمام مغویوں کی رہائی کے بعد، اسرائیل عمر قید یافتہ قیدیوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام فلسطینی قیدی بھی رہا کرے گا جنہیں 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
جب تمام مغوی واپس کر دیے جائیں، تو ایسے حماس اراکین جو پُرامن بقائے باہمی پر آمادہ ہوں اور اپنے ہتھیار جمع کرائیں، انہیں عام معافی دی جائے گی۔ جو حماس اراکین غزہ چھوڑنا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔
اس معاہدے کی منظوری کے فوراً بعد مکمل انسانی امداد غزہ پٹی میں داخل کی جائے گی۔ کم از کم امدادی مقدار 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے مطابق ہوگی، جس میں بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، نکاسیٔ آب) کی بحالی، اسپتالوں اور تنور خانوں کی تعمیرِ نو، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری آلات کی فراہمی شامل ہے۔
غزہ میں امداد اور سامان کی تقسیم اقوام متحدہ، اس کی ایجنسیوں، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانب دار بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بغیر کسی مداخلت کے کی جائے گی۔ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں اسی طریقہ کار کے تحت کھولا جائے گا جو 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں نافذ کیا گیا تھا۔
فلسطین، جس میں غزہ ایک لازمی حصہ ہوگا، فلسطینی اتھارٹی (PA) کے تحت ہوگا۔ بین الاقوامی مشیر اس عمل میں مدد کر سکتے ہیں، لیکن خودمختاری صرف فلسطینیوں کی ہوگی۔
فلسطینی اتھارٹی عرب ماہرین اور منتخب بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے تعمیر نو اور ترقی کا منصوبہ تیار کرے گی۔ بیرونی تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن اقتصادی منصوبہ بندی عرب قیادت میں ہوگی۔
فلسطینی خصوصی اقتصادی زون قائم کر سکتے ہیں، جس کے محصولات اور تجارتی نرخ فلسطین اور شراکت دار ممالک کے درمیان طے پائیں گے۔
کسی بھی خودمختار فلسطینی علاقے سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا۔ جو جانا چاہے وہ آزادانہ جا سکتا ہے اور آزادانہ واپس آ سکتا ہے۔
حماس اور دیگر گروہوں کا حکومتی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ تمام فوجی و دہشت گردی کے ڈھانچے ختم کیے جائیں گے، جس کی تصدیق غیر جانب دار مبصرین کریں گے۔
علاقائی شراکت دار اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر گروہ معاہدے کی پابندی کریں، تاکہ غزہ اپنے ہمسایوں یا اپنے عوام کے لیے خطرہ نہ بنے۔
عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کی دعوت پر فلسطین میں 1 نومبر 2025 سے عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) تعینات کی جائے گی، جو فلسطینی سیکیورٹی کو تربیت و تعاون فراہم کرے گی۔ یہ فورس مصر اور اردن کے مشورے سے سرحدی حفاظت، عوامی تحفظ اور سامان کی تیز تر نقل و حرکت کو یقینی بنائے گی تاکہ تعمیر نو کا عمل تیز ہو۔
اسرائیل نہ تو غزہ اور نہ ہی مغربی کنارے پر قبضہ کرے گا یا اسے ضم کرے گا۔ اسرائیلی افواج 31 دسمبر 2025 تک تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے مکمل انخلا کر لیں گی، جب تک ISF اور فلسطینی سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیں۔
اگر حماس اس تجویز کو تاخیر کا شکار کرے یا مسترد کرے، تو امداد اور تعمیر نو کا عمل ان علاقوں میں جاری رہے گا جو ISF اور فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہوں گے۔
فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان برداشت اور پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے بین المذاہب مکالمے کا نظام قائم کیا جائے گا۔
یکم جنوری 2026 سے ریاستِ فلسطین اپنی مکمل خودمختار سرزمین پر حکومت کرے گی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 12 ستمبر کی قرارداد اور 2024 میں عالمی عدالتِ انصاف کی مشاورتی رائے کے مطابق۔
امریکہ ریاستِ فلسطین کو فوری طور پر ایک خودمختار، پُرامن ملک کے طور پر تسلیم کرے گا اور اسے اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت دی جائے گی، تاکہ وہ ریاستِ اسرائیل کے ساتھ امن سے رہ سکے۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے (Atom)




