جمعہ، 1 اگست، 2025

بنی اسرائیل کون تھے؟




بنی اسرائیل کون تھے؟

بنی اسرائیل کا مطلب ہے "حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد"۔ عربی میں "بنی" کا مطلب ہے "بیٹے" اور "اسرائیل" حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، جس کا مطلب بعض روایات کے مطابق "اللہ کا بندہ" یا "اللہ کا مجاہد" لیا جاتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ قرآن و بائبل دونوں میں ان کا ذکر ہے اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی ابتدا اور تاریخی پس منظر:

بنی اسرائیل درحقیقت ایک قوم تھی جس کی شروعات حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے ہوئیں۔ انہی بارہ بیٹوں کی نسل آگے جا کر بارہ قبائل میں تقسیم ہوئی، جو مجموعی طور پر "بنی اسرائیل" کہلائے۔ یہ قوم سب سے پہلے شام، فلسطین اور مصر کے علاقوں میں آباد ہوئی۔
مصر میں قیام اور غلامی:

حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کے بعد بنی اسرائیل مصر منتقل ہوئے، جہاں ابتدائی دور میں انہیں عزت ملی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ فرعونوں کے دور میں یہ قوم غلامی، مظالم اور ذلت کا شکار ہوئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خروج مصر:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی رہنمائی اور رہائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ انہوں نے فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات دلائی اور انہیں مصر سے نکال کر وعدے کی سرزمین (فلسطین) کی طرف روانہ کیا۔ اس واقعے کو "Exodus" یا خروجِ مصر کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی خصوصیات اور ان کی غلطیاں:

بنی اسرائیل وہ قوم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء، معجزات اور آسمانی کتابوں سے نوازا۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے کئی واقعات، ان کی آزمائشوں، ناشکری، انبیاء کی نافرمانی اور بعض اوقات ان کی ہٹ دھرمی کا تفصیلی ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی میں سے تھے۔
کیا موجودہ دور کے یہودی بنی اسرائیل ہیں؟
نسلی اعتبار سے:

جی ہاں، موجودہ دور کے بہت سے یہودی نسلی طور پر بنی اسرائیل کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر سفاردی، اشکنازی اور مزراحی یہودی شامل ہیں، جو دنیا بھر میں آباد ہیں اور اپنی جڑیں قدیم بنی اسرائیل سے جوڑتے ہیں۔

لیکن اس بارے میں کئی تاریخی، مذہبی اور سائنسی اختلافات بھی موجود ہیں:
1. خالص نسل کا دعویٰ مشکوک:

ہزاروں سالوں میں بنی اسرائیل کی نسل میں مختلف قوموں کی آمیزش ہوئی، غلاموں، نو مسلموں، شادیوں اور مختلف اقوام میں میل جول کے باعث اب یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ تمام یہودی خالص بنی اسرائیل ہیں۔
2. خزر یہودیوں کا معاملہ:

تاریخی شواہد کے مطابق 8ویں صدی میں وسط ایشیا کی ایک قوم "خزر" نے اجتماعی طور پر یہودیت قبول کی، حالانکہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا۔ موجودہ دور کے مشرقی یورپ کے کئی اشکنازی یہودی انہی خزر قوم کی نسل سے سمجھے جاتے ہیں، اس لیے انہیں خالص بنی اسرائیل ماننا پیچیدہ مسئلہ ہے۔
3. مذہب اور نسل کی تفریق:

یہودیت ایک مذہب بھی ہے اور نسل بھی۔ کچھ لوگ پیدائشی یہودی ہوتے ہیں (یعنی بنی اسرائیل کی نسل سے)، کچھ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ مذہبِ یہودیت قبول کر لیتے ہیں۔ اس لیے ہر یہودی کو نسلِ بنی اسرائیل سمجھنا درست نہیں۔
خلاصہ:

موجودہ دور کے بیشتر یہودی خود کو بنی اسرائیل کی اولاد سمجھتے ہیں اور مذہبی و تاریخی حوالوں سے اس پر فخر کرتے ہیں، مگر تاریخی اعتبار سے ان کی نسل کی خالص حیثیت پر سوالات موجود ہیں۔ بعض یہودی حقیقی بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں، جبکہ بہت سے یہودی دیگر اقوام کی نسل سے ہیں جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ یہودیت قبول کی۔

اسلامی نقطہ نظر:
قرآن مجید بنی اسرائیل کو بطور قوم مخاطب کرتا ہے اور ان کے واقعات میں عبرت، ہدایت اور انتباہ کی نشانیاں بیان کرتا ہے۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ اللہ کے نزدیک کسی قوم کی اصل اہمیت تقویٰ اور عمل کی بنیاد پر ہے، محض نسل یا حسب نسب کی بنیاد پر نہیں۔
نتیجہ:

نسلی اعتبار سے بنی اسرائیل کی موجودگی آج بھی دنیا میں پائی جاتی ہے، مگر خالص نسل کی پہچان تاریخی اور سائنسی اعتبار سے پیچیدہ ہے۔ اصل کامیابی نسل میں نہیں، بلکہ عمل، کردار اور اللہ کی رضا میں ہے، جو ہر انسان کے لیے کھلا راستہ ہے۔

سورۃ الحدید، آیت 23




افسوس کی زنجیروں سے نجات پانے کا نسخہ

انسان کی فطرت ہے کہ وہ خطا کرتا ہے، غلط فیصلے لیتا ہے، اور پھر انہی غلطیوں پر افسوس اور ندامت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ افسوس اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ انسان اپنی حالیہ زندگی اور مستقبل دونوں کو برباد کر بیٹھتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی غلطیوں پر رونے دھونے سے کچھ حاصل ہوتا ہے؟ کیا گزرے وقت کو واپس لایا جا سکتا ہے؟ یقینا نہیں۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں میں الجھنے کے بجائے اُن سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جائے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
"المؤمن لا يلدغ من جحر واحد مرتين"
(مسلمان ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا)
(صحیح البخاری)
یعنی مؤمن ایک ہی غلطی کو بار بار نہیں دہراتا، بلکہ اپنی کوتاہی سے سبق سیکھتا ہے اور آئندہ محتاط رہتا ہے۔
افسوس میں جینا کیوں نقصان دہ ہے؟
جب انسان مسلسل یہ سوچتا ہے:
"اگر میں نے ایسا نہ کیا ہوتا..."
"کاش میں نے وہ بات نہ کہی ہوتی..."
"اگر میں نے وہ فیصلہ لیا ہوتا تو نقصان نہ ہوتا..."
تو وہ دراصل شیطان کے ایک فریب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"اگر" کہنا شیطان کے دروازے کھولتا ہے۔
(صحیح مسلم)
یہ "اگر" کا لفظ انسان کو مایوسی، حسرت اور شک میں ڈال دیتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جو کچھ ہو چکا، وہ اللہ کی مشیئت سے ہوا، اور مومن کا کام یہ ہے کہ وہ حال کو سنوارے اور آئندہ بہتر کی کوشش کرے۔
قرآن کی رہنمائی
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
"لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ"
(تاکہ تم ان چیزوں پر افسوس نہ کرو جو تم سے چھن گئیں، اور ان پر اتراؤ نہیں جو تمہیں ملی ہیں)
(سورۃ الحدید، آیت 23)
یہ آیت انسان کو متوازن رویہ اپنانے کا درس دیتی ہے — نہ ماضی پر حد سے زیادہ افسوس، نہ حال پر فخر و غرور۔ یہ تعلیم ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم حال میں رہیں، شکر گزار ہوں اور آئندہ کے لیے عزم کے ساتھ کام کریں۔
مثبت سوچ: اسلامی رویہ
جب بھی ماضی کی کسی کوتاہی یا نقصان کا خیال آئے، تو بجائے افسوس اور مایوسی کے، خود سے یہ کہیں:
"اگلی بار میں یہ کام بہتر انداز سے کروں گا، ان شاء اللہ۔"
یہ ایک مثبت اسلامی رویہ ہے، جو انسان کو ماضی کی تاریکی سے نکال کر مستقبل کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ"
(ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو)
(سورۃ البقرۃ، آیت 216)
یہی ایمان ہے — مومن جانتا ہے کہ ہر ناکامی میں کوئی حکمت ہے، ہر ٹھوکر میں کوئی سبق ہے، اور ہر نقصان میں کوئی تربیت۔
غم اور اندیشہ: غیر ضروری بوجھ
بیشتر انسان یا تو ماضی کے کسی حادثے کا ماتم کرتے رہتے ہیں، یا پھر مستقبل کے کسی خدشے سے پریشان رہتے ہیں۔ مگر یہ دونوں ہی کیفیتیں اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا مانگی:
"اللَّهُمَّ إني أعوذ بك من الهمِّ والحَزَنِ..."
(اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں فکر اور غم سے...)
(صحیح بخاری)
یہ دکھاتا ہے کہ مسلسل غم اور اندیشہ مومن کی روحانی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
عملی راستہ: سیکھنا، شکر کرنا، آگے بڑھنا
اسلام انسان کو سکھاتا ہے کہ وہ:
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے
ان سے سیکھے
اللہ سے معافی مانگے
حال کو بہتر بنائے
اور مستقبل کے لیے اللہ پر بھروسا رکھے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا"
(بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے)
(سورۃ الشرح، آیت 6)

ماضی کی کوتاہیاں آپ کو روکنے والی زنجیر نہ بنیں، بلکہ وہ آپ کے عزم کا ایندھن بنیں۔ افسوس کے کمرے سے نکل کر امید کی کھڑکی کھولیں۔ جو شخص اللہ پر بھروسا کرتا ہے، وہ نہ ماضی سے ڈرتا ہے، نہ مستقبل سے گھبراتا ہے۔
"مؤمن مایوس نہیں ہوتا، افسوس میں نہیں جیتا، بلکہ عمل، صبر اور توکل سے اپنا راستہ خود بناتا ہے۔"


مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد




مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد

اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر ایک یہودی ریاست کے طور پر قائم ہوئے 75 برس سے زائد ہو چکے ہیں، لیکن یہ ریاست اپنے اندر ایک عجیب و غریب تضاد کے ساتھ زندہ ہے — یہودی مذہب کی روحانی تعبیر اور جدید قومی ریاست کے آئینی ڈھانچے کا ایسا تصادم، جو وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ اس داخلی کشمکش کی سب سے نمایاں شکل "مذہبی صیہونیت" اور "اسرائیلی سیکولر آئین" کے درمیان تنازع ہے، جو نہ صرف اسرائیلی معاشرے کو تقسیم کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں یہودی شناخت اور سیاسی مستقبل پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔

مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد
صیہونیت کی ابتدا ایک سیاسی تحریک کے طور پر ہوئی، جس کا مقصد یہودیوں کو دنیا بھر سے لا کر فلسطین کی سرزمین پر ایک قومی وطن قائم کرنا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ تحریک صرف سیاسی نہیں رہی بلکہ مذہبی صیہونیت کی ایک نئی جہت بھی سامنے آئی۔ مذہبی صیہونی یہودی مذہب کی اس تشریح پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے سرزمینِ اسرائیل یہودیوں کو بطور "وعدہ شدہ سرزمین" عطا کی ہے، اور یہ سرزمین کسی طور بھی غیر یہودیوں کے ساتھ تقسیم نہیں کی جا سکتی۔

یہ سوچ "توریت" کے ان حوالوں سے ماخوذ ہے جن میں ارضِ مقدس پر بنی اسرائیل کے حقِ ملکیت کو خدائی وعدے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جیسے
"اور میں تیری نسل کو یہ ملک دوں گا، جو مصر کی ندی سے لے کر عظیم دریا فرات تک ہے۔"
ایسی مذہبی بنیاد پرستی کے تحت، یہودی بستیوں کی تعمیر، مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی بحالی، اور فلسطینی سرزمین پر قبضہ محض سیاسی فیصلے نہیں، بلکہ "مقدس فریضہ" بن جاتے ہیں۔

اسرائیلی آئین: ایک سیکولر ریاست کا خاکہ
دوسری جانب، اسرائیل کا آئینی ڈھانچہ خود کو ایک "جمہوری" اور "سیکولر" ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے، جہاں تمام شہریوں کو برابری کا حق حاصل ہے، خواہ وہ یہودی ہوں، مسلمان، عیسائی یا دروز۔ اگرچہ اسرائیل کے پاس مکمل تحریری آئین نہیں ہے، تاہم اس کی "بنیادی قوانین"  جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔
اسی سیکولر فریم ورک کے تحت اسرائیلی عدالتیں، میڈیا اور بعض سیاسی جماعتیں مذہبی جنونیت کو خطرہ سمجھتی ہیں، کیونکہ اس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں بلکہ خود اسرائیل کے اندر اقلیتوں اور آزاد خیال یہودیوں کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔

ٹکراؤ کی عملی شکلیں
یہ نظریاتی تصادم وقتاً فوقتاً اسرائیلی سیاست میں شدت سے ابھرتا ہے
عدالتی اصلاحات کا بحران: 2023–2024 میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی حکومت نے عدالتِ عظمیٰ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی، جسے لاکھوں اسرائیلی شہریوں نے "مذہبی آمریت" کی طرف قدم قرار دیا۔ ان مظاہروں نے اسرائیل کے سیکولر اور مذہبی حلقوں میں خلیج کو واضح کر دیا۔

مسجد اقصیٰ کا تنازع:
 مذہبی صیہونی گروہ بارہا مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر وہاں یہودی عبادت کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ اسرائیلی حکومت بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے رسمی طور پر اس عمل سے گریز کرتی ہے۔
حریدی (الٹرا آرتھوڈوکس) یہودیوں کی الگ حیثیت
 ان کے مدارس (یشیوا) کے طلبہ کو فوجی سروس سے استثنیٰ حاصل ہے، جو سیکولر نوجوانوں میں غصے کا باعث بنتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی ریاست اور مذہب کی کشمکش کو ہوا دیتا ہے۔

عالمی اثرات
اسرائیل کے اندر اس تضاد کا اثر صرف داخلی سیاست تک محدود نہیں۔ چونکہ اسرائیل خود کو دنیا بھر کے یہودیوں کا نمائندہ سمجھتا ہے، اس لیے مذہبی صیہونیت کے انتہا پسندانہ اقدامات عالمی یہودی شناخت پر سوالیہ نشان بناتے ہیں۔ بہت سے آزاد خیال یہودی، خصوصاً امریکہ اور یورپ میں، اسرائیل کی مذہبی پالیسیوں سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔

وجود کی کشمکش
اسرائیل آج جس دو راہے پر کھڑا ہے، وہ اس کے وجود کے بنیادی سوال کو دوبارہ سامنے لاتا ہے: کیا اسرائیل ایک "یہودی مذہبی ریاست" ہے یا ایک "جمہوری قومی ریاست"؟ اگر اسرائیل مذہبی صیہونیت کی طرف جھکتا ہے تو یہ سیکولر آئینی نظام اور عالمی انسانی حقوق سے ٹکرا جائے گا۔ اور اگر وہ سیکولر رہتا ہے تو مذہبی صیہونیوں کے غصے اور بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ کشمکش جلد اسرائیل کی داخلی استحکام، علاقائی امن، اور دنیا بھر میں یہودی تشخص کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔

نو مسلم کا سوال



نو مسلم کا سوال
حضرت صعصعہ بن ناجیہؓ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد ادب و احترام سے عرض گزار ہوئے:
"یا رسول اللہ ﷺ! ایک سوال ہے، اجازت ہو تو پوچھوں؟"
رحمتِ عالم ﷺ نے نرمی سے ارشاد فرمایا: "پوچھو صعصعہ، جو پوچھنا چاہتے ہو۔"
حضرت صعصعہؓ عرض کرنے لگے:
"یارسول اللہ ﷺ! دورِ جاہلیت میں ہم نے جو نیکیاں کیں، کیا اللہ تعالیٰ ان کا بھی ہمیں اجر دے گا؟"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کیا نیکی کی؟"
صعصعہؓ نے عرض کیا:
"یارسول اللہ ﷺ! میرے دو اونٹ گم ہو گئے تھے۔ میں تیسرے اونٹ پر سوار ہو کر اُن کی تلاش میں نکلا۔ تلاش کرتے کرتے ایک پرانی بستی تک جا پہنچا، جہاں میرے اونٹ چر رہے تھے۔ ایک بوڑھا شخص جانوروں کی نگرانی کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ میرے اونٹ ہیں، اُس نے تسلیم کر لیا اور کہا: اگر تیرے ہیں تو لے جاؤ۔
اسی دوران اُس نے پانی منگوایا اور کچھ کھجوریں بھی آگئیں۔ میں پانی پی رہا تھا اور کھجوریں کھا رہا تھا کہ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔ بوڑھے نے پوچھا: بیٹا ہوا ہے یا بیٹی؟"
صعصعہؓ کہتے ہیں:
"میں نے اُس سے پوچھا: اگر بیٹی ہوئی ہو تو کیا کرو گے؟
تو وہ کہنے لگا: اگر بیٹا ہوا تو قبیلے کی شان بڑھے گی، اور اگر بیٹی ہوئی تو اُسے زندہ دفن کر دوں گا۔ میں اپنی گردن کسی داماد کے آگے جھکا نہیں سکتا۔ بیٹی کی پیدائش میرے لیے باعثِ ننگ ہے۔
یہ سن کر میرے دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی، دل نرم ہو گیا۔ میں نے کہا: پہلے معلوم تو کرو، بیٹا ہے یا بیٹی؟
اُس نے خبر لی، تو پتہ چلا بیٹی ہے۔ میں نے کہا: کیا واقعی تُو اُسے دفن کر دے گا؟
وہ بولا: ہاں، ابھی۔
میں نے کہا: ایسا نہ کر، اُسے مجھے دے دے۔
وہ کہنے لگا: اگر میں اپنی بچی تمہیں دے دوں، تو تم بدلے میں کیا دو گے؟
میں نے کہا: میرے دو اونٹ لے لو، بچی دے دو۔
اس نے کہا: نہیں، تیسرے اونٹ سمیت تینوں دینے ہوں گے۔
میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ ایک آدمی میرے ساتھ کر دو، تاکہ میں گھر پہنچ جاؤں، پھر اونٹ بھیج دوں گا۔"
حضرت صعصعہؓ کی آنکھیں نم ہو گئیں، کہنے لگے:
"یارسول اللہ ﷺ! میں نے تین اونٹ دے کر ایک بچی کی جان بچائی۔ اُسے گھر لا کر اپنی لونڈی کے حوالے کیا، جو اُسے دودھ پلاتی، اور وہ معصوم بچی میرے داڑھی کے بالوں سے کھیلتی، میرے سینے سے لگتی، اور میرا دل محبت سے بھر جاتا۔
پھر میرے دل میں یہ نیکی مزید راسخ ہو گئی۔ میں قبیلوں میں جا جا کر اُن لوگوں کو تلاش کرنے لگا جو بیٹیوں کو دفن کرتے تھے۔ یارسول اللہ ﷺ! ہر بار میں تین اونٹ دے کر ایک بچی کی جان بچاتا۔ یہاں تک کہ میں نے ۳۶۰ بچیوں کی زندگیاں بچائیں۔ وہ سب میری حویلی میں پلیں۔
یارسول اللہ ﷺ! کیا میرے رب مجھے اس کا اجر دے گا؟"
یہ سن کر نبی کریم ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، رخسار مبارک تر ہو گئے، آپ ﷺ نے صعصعہؓ کو سینے سے لگایا، پیشانی چومی اور فرمایا:
"صعصعہ! تیرا رب تجھے ضرور اجر دے گا، بلکہ اُس نے تجھے دولتِ ایمان عطا کر دی ہے۔ یہ دنیا میں تیرا انعام ہے۔
اور سن لو! تمہارے رسول ﷺ کا تم سے وعدہ ہے کہ قیامت کے دن ربِ کریم تم پر اپنے خزانے کھول دے گا۔"

متکبر سازشی نا فرمان گروہ







یہ کالم بنی اسرائیل کی اسلام دشمنی کے تاریخی، مذہبی، سیاسی اور عسکری پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر اسرائیل کے قیام (1948) اور پھر جدید دور میں بھارت کے ساتھ اسرائیلی اتحاد تک، اس کالم میں قرآن، تاریخی واقعات، سیاسی تجزیے اور عالمی رپورٹس کی روشنی میں یہودی ذہنیت، سازشی طرزِعمل اور اسلام کے خلاف مسلسل منصوبہ بندی کا علمی و دستاویزی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔


بنی اسرائیل کا تذکرہ قرآنِ مجید میں 40 سے زائد بار آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو انبیاء، آسمانی کتابیں اور ہدایت جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا، مگر اس کے باوجود انہوں نے نافرمانی، حسد، اور تکبر کے ساتھ ان نعمتوں کا انکار کیا۔ اسلام کی آمد کے بعد بنی اسرائیل نے اسی معاندانہ رویے کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ یہ کالم اس دشمنی کے اسباب، مراحل، اور موجودہ اثرات کو تاریخی اور 
معروضی تناظر میں بیان کرتا ہے۔

قرآنی تناظر میں بنی اسرائیل کی روش
قرآن کریم بنی اسرائیل کو اللہ کی نعمتوں کی یاد دہانی کراتا ہے
"اے بنی اسرائیل! میری اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی"
(البقرہ: 40)
لیکن ساتھ ہی ان کی نافرمانیوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے
"جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسی چیز لے کر آیا جو تمہارے دلوں کو پسند نہ تھی، تو تم نے ایک گروہ کو جھٹلایا اور دوسرے کو قتل کر ڈالا"
(البقرہ: 87)
قرآن میں یہ بھی ذکر ہے کہ اہل کتاب (خصوصاً یہود) اسلام کے خلاف دل میں حسد رکھتے ہیں
"اہلِ کتاب میں سے بہت سے چاہتے ہیں کہ کاش وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں، صرف اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے"
(البقرہ: 109)

عہد نبوی میں یہودی قبائل کا طرزِ عمل
نبی کریم ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد وہاں موجود تین بڑے یہودی قبائل — بنو قینقاع، بنو نضیر، اور بنو قریظہ — سے میثاقِ مدینہ کے تحت پرامن بقائے باہمی کا معاہدہ کیا گیا۔ تاہم:
بنو قینقاع (2 ہجری): مسلم خاتون کی بے حرمتی اور مسلمان کے قتل پر ان کا محاصرہ کیا گیا، اور انہیں مدینہ سے جلاوطن کر دیا گیا۔
بنو نضیر (4 ہجری): نبی ﷺ کے قتل کی سازش بے نقاب ہوئی، اور انہیں خیبر کی طرف نکال دیا گیا۔
بنو قریظہ (5 ہجری): غزوہ خندق کے دوران قریش سے ساز باز کر کے غداری کی، جس پر حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلے کے مطابق ان کے مرد قتل اور عورتیں و بچے قید کیے گئے۔
جلاوطن قبائل نے خیبر کو اپنا مرکز بنایا اور وہاں سے مسلسل فتنہ پردازی جاری رکھی۔ 7 ہجری میں نبی ﷺ نے خیبر فتح کیا، اور سیاسی طور پر ان کا زور توڑ دیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے آپ ﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے جزیرۃ العرب سے باقی یہودیوں کو بھی نکال دیا
"دو دین جزیرۃ العرب میں جمع نہیں ہو سکتے"
(سنن ابی داؤد: 3035)

1948 
کے بعد: اسرائیل کا قیام اور مسلم دنیا پر حملے
اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کے بعد یہودی قیادت کی اسلام دشمنی نے ریاستی شکل اختیار کی
1. فلسطین
لاکھوں فلسطینی بے دخل، مستقل پناہ گزین
غزہ کی ناکہ بندی، اسکولوں و اسپتالوں پر حملے
اقوام متحدہ (2024): 9 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار، 70,000 بچے علاج سے محروم
2. لبنان، شام، ایران
حزب اللہ کے خلاف جنگیں (2006، 2014)
شام میں داعش کو خفیہ مدد، فضائی حملے
ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل (2020)
3. اردن و مصر میں سیاسی مداخلت

پاکستان کے خلاف اسرائیل–بھارت گٹھ جوڑ
پاکستان کا ایٹمی پروگرام اسرائیل اور بھارت دونوں کے لیے ایک مستقل تشویش کا باعث رہا ہے۔ اسی تناظر میں:
1990 کی دہائی:
اسرائیل–بھارت "پری ایمپٹو سٹرائیک" کی تجویز
پاکستان کی جوہری صلاحیت نے منصوبے کو روک دیا
مئی 2025 کا حملہ:
بھارت نے پاکستان پر محدود حملہ کیا
اسرائیلی ڈرون اور آپریٹرز استعمال ہوئے
کچھ اسرائیلی ماہرین بھارت میں "لاپتہ" ہو گئے
بھارت کا کردار: ایک اسٹریٹیجک آلۂ کار
اسرائیلی ہتھیاروں، سائبر ٹیکنالوجی اور جاسوسی آلات کا خریدار
کشمیر میں اسرائیلی نگرانی ٹیکنالوجی کا استعمال
مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ اور سفارتی محاصرہ میں پیش پیش

یہودی نظریہ برتری: ایک مذہبی و سیاسی ذہنیت
قرآن مجید کے مطابق یہودی اپنے آپ کو "اللہ کے بیٹے اور پیارے" سمجھتے ہیں:
"وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں"
(المائدہ: 18)
ان کی توقع ہے کہ دنیا:
ان کے وجود کا احسان مانے
ان کے ظلم پر خاموش رہے
ہر تنقید کو "یہود دشمنی" قرار دے

نتیجہ: اسلام کا موقف اور موجودہ حکمتِ عملی
اسلام نے کبھی دشمنی کی ابتدا نہیں کی، بلکہ ہمیشہ عدل، صلح، اور دعوت کو ترجیح دی:
"اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو"
(الأنفال: 61)
لیکن یہودی قیادت نے ہر دور میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں، انبیاء کو جھٹلایا، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ آج یہ دشمنی ریاستی، عسکری، میڈیا، اور سائبَر سطح پر جاری ہے۔

پاکستان کا مؤقف:
ایٹمی دفاع، انٹیلیجنس صلاحیت، عسکری چوکسی
قومی اتحاد، حب الوطنی اور بیداری ہی سب سے مؤثر جواب

مسلمان دنیا کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ:
یہ دشمنی صرف ماضی کا قصہ نہیں بلکہ آج کا فعال خطرہ ہے