بدھ، 28 مئی، 2025

مفاد کا سراب

 مفاد کا سراب

پاکستان میں صحافت کبھی سچ کی روشنی تھی، آج وہ کئی حوالوں سے دھندلا سا عکس بن چکی ہے۔ جس قلم کو صداقت کا آئینہ ہونا چاہیے تھا، وہ اب مفاد کا آئینہ خانہ بنتا جا رہا ہے۔ چند صحافی حضرات نے صحافت کو محض ایک "ٹرانزٹ ویزہ" بنا لیا ہے—ایک ایسا راستہ جو انہیں مغربی اداروں کی رکنیت، کانفرنسوں کی چمک، یا فیلوشپ کے نام پر ملنے والی داد و دہش تک پہنچا دے۔

بات تلخ ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ آج ہمارے کچھ نامور صحافی اپنی تحریروں، تجزیوں اور ویڈیوز میں ایسا بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں جو مغرب کے پالیسی سازوں کو بہت مرغوب ہوتا ہے، مگر ہمارے قومی مفادات کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کی "منزلِ مقصود" اب خبر دینا نہیں، بلکہ ایسی رائے ترتیب دینا ہے جو مغرب کے پالیسی تھنک ٹینکس کو "قابلِ حوالہ مواد" مہیا کر سکے۔

ذرا نظر ڈالیں،
حامد میر صاحب جیسے جید صحافی، جن کی پیشہ ورانہ خدمات سے انکار ممکن نہیں، اب اکثر اوقات ایسے بیانات دے بیٹھتے ہیں جو نہ صرف قومی اداروں کی ساکھ کو مجروح کرتے ہیں بلکہ دشمن ریاستوں کے پروپیگنڈے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف ان کا لہجہ اور عالمی پلیٹ فارمز پر پاکستان کو "آزادیٔ اظہار کا قاتل" قرار دینا محض ایک اظہار نہیں بلکہ ایک رجحان بن چکا ہے۔

پھر آتے ہیں اعزاز سید صاحب، جن کی رپورٹنگ میں تحقیق کم اور تاثر زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کئی حساس نوعیت کی رپورٹس میں واقعات کو اس انداز سے پیش کیا کہ ان کی سچائی پس منظر میں چلی گئی اور مغرب پسند بیانیہ نمایاں ہو گیا۔ یوٹیوب پر ان کا اندازِ گفتگو، ویڈیوز کا انتخاب، اور اصطلاحات کا استعمال بھی اکثر ایسا ہوتا ہے جو بآسانی مغربی تھنک ٹینکوں کے فریم میں فِٹ آتا ہے۔

مبشر زیدی جیسے سینئر صحافی کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ان کی تنقید اکثر ریاستی اداروں اور مذہبی و تہذیبی اقدار کے گرد گھومتی ہے، اور ان کی تحریریں بیرونی اداروں کے لیے ایک سازگار حوالہ بن جاتی ہیں۔

سیرل المیڈا کی ڈان لیکس رپورٹ نے تو گویا ریاست کے اندر موجود فاصلوں کو سرخیوں میں بدل دیا۔ ایک رپورٹ نے قومی سلامتی کو عالمی تماشہ بنا دیا، اور نتیجہ؟ مغرب میں آزادیٔ صحافت کے ایوارڈز اور اندرونِ ملک اداروں پر انگلیاں۔

یہ سب مثالیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کی صحافت کے کچھ کردار اپنی "منزلِ مقصود" سے بھٹک چکے ہیں۔ جب خبر کا مقصد سچ بتانا نہیں بلکہ کسی ایوارڈ کے لیے بیانیہ تراشنا ہو، تو صحافت نہیں رہتی، لابنگ بن جاتی ہے۔

یہ درست ہے کہ صحافی کو آزاد ہونا چاہیے، مگر آزادی کے نام پر مفاد پرستی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سچ کی تلاش ضرور کیجیے، مگر اپنی شناخت، اپنے وطن، اور اپنے اداروں کو بے بنیاد الزامات کی بھینٹ نہ چڑھائیے۔

قلم جب امانت ہو تو معاشرے کو راستہ دیتا ہے،
اور جب تجارت بن جائے تو صرف راستے بیچتا ہے۔

امن ہی راستہ ہے

 

اگر پاکستان نے دہلی پر ایٹمی حملہ کر دیا تو؟ – ایک خوفناک مفروضہ

دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی ایجاد کے بعد ایک نازک توازن پر قائم ہے — ایسا توازن جو خوف، حکمت، اور ذمے داری سے جڑا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت، دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، اور ان کے درمیان جاری کشیدگی ایک ایسا آتش فشاں ہے جو اگر پھٹ پڑے تو کروڑوں جانوں کو نگل سکتا ہے۔

آئیے اس سوال کا سنجیدگی سے مفروضاتی جائزہ لیں:
اگر پاکستان دہلی پر ایٹمی حملہ کر دے، تو کیا ہوگا؟

🧨 پہلا مرحلہ: حملے کا لمحہ

فرض کریں کہ پاکستان نے کوئی درمیانے درجے کا ایٹمی ہتھیار (مثلاً 100–150 کلوٹن) دہلی پر گرا دیا —
کیا ہوگا؟

  • دہلی، جس کی آبادی تقریباً 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے، ایک لمحے میں جلتی ہوئی راکھ بن جائے گی۔

  • فوری ہلاکتیں: اندازاً 5 سے 10 لاکھ افراد فوراً ہلاک ہو سکتے ہیں۔

  • شدید زخمی: لاکھوں افراد جھلس جائیں گے، اندھے ہو جائیں گے یا تابکاری کی زد میں آ جائیں گے۔

  • شہر کا انفراسٹرکچر — اسپتال، اسکول، سڑکیں، بجلی — مکمل تباہ ہو جائے گا۔

  • تابکاری (Radiation) کے اثرات کئی دہائیوں تک نسل در نسل منتقل ہوں گے۔

🇮🇳 بھارت کا ردعمل: جوابی حملہ

بھارت، جس کے پاس ایک مضبوط ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ اور جدید دفاعی نظام موجود ہے، "Second Strike Capability" رکھتا ہے — یعنی اگر اس پر حملہ ہو، تو وہ بدلے میں ایٹمی جوابی حملہ کر سکتا ہے۔

ممکنہ جوابی حملے:

  • پاکستان کے بڑے شہر — اسلام آباد، کراچی، لاہور، راولپنڈی — نشانہ بن سکتے ہیں۔

  • فوجی تنصیبات، اڈے، اور دفاعی مراکز تباہ کیے جا سکتے ہیں۔

  • جوابی حملے میں بھی لاکھوں افراد مارے جائیں گے۔

🌍 تیسرا مرحلہ: ایٹمی جنگ اور عالمی اثرات

🔥 جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ:

اگر دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر مکمل ایٹمی حملے کیے تو:

  • 2 سے 4 کروڑ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔

  • طبی نظام مکمل مفلوج ہو جائے گا۔

  • خوراک، پانی، دوائیں، سب کچھ نایاب ہو جائے گا۔

  • لاکھوں لوگ مہاجر بن جائیں گے۔

🌫️ ماحولیاتی تباہی – "جوہری سرما" (Nuclear Winter):

  • ایٹمی دھماکوں سے اٹھنے والی راکھ سورج کی روشنی کو روک دے گی۔

  • درجہ حرارت کم ہو جائے گا، بارشیں متاثر ہوں گی، قحط پھیل جائے گا۔

  • پوری دنیا متاثر ہو گی، نہ صرف پاکستان اور بھارت۔

🌐 بین الاقوامی ردعمل: دنیا کا رویہ

  • اقوامِ متحدہ میں ہنگامی اجلاس ہوں گے۔

  • امریکا، چین، روس، یورپی یونین مداخلت کریں گے۔

  • دونوں ممالک پر مکمل اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

  • عالمی برادری پاکستان اور بھارت دونوں کو الگ تھلگ کر دے گی۔

📉 پاکستان اور بھارت: مکمل تباہی کی راہ پر

  • معیشت تباہ ہو جائے گی، کرنسی ختم، نظامِ حکومت درہم برہم۔

  • لاکھوں مہاجرین ہمسایہ ممالک کی سرحدوں پر جمع ہو جائیں گے۔

  • معاشرتی نظام ختم، خانہ جنگی، جرائم، افرا تفری

🕊️ نتیجہ: ایٹمی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا

ایٹمی جنگ کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی جیتتا نہیں، سب ہارتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں قوموں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

ایٹمی ہتھیار آخری دفاع ہوتے ہیں، پہلا حملہ نہیں۔

📢 پیغام: امن ہی راستہ ہے

یہ تحریر کسی جنگی خواہش یا اشتعال انگیزی کے لیے نہیں، بلکہ ایک سنگین یاد دہانی ہے —
کہ قوموں کو اختلافات کا حل بات چیت، سفارتکاری، اور انصاف سے نکالنا ہوگا، ورنہ نتیجہ سب کے لیے تباہ کن ہو گا۔


کشمیر کا بحران: جبر، خاموشی اور جنگ کے سائے

 

کشمیر کا بحران: جبر، خاموشی اور جنگ کے سائے

پاکستان کے ہاتھوں فوجی شکست کے بعد، بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی گرفت مزید سخت کر دی ہے۔ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے، گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا اور کئی بستیاں ملیا میٹ کر دی گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کشمیری لڑکیوں اور خواتین کو فوجی کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ وادی، جسے کبھی ایشیا کی سوئٹزرلینڈ کہا جاتا تھا، اب ایک محصور جنگی زون کا منظر پیش کر رہی ہے۔

صحافیوں کا داخلہ بند ہے، اور انٹرنیٹ تک رسائی صرف چُنے گئے افراد کو دی گئی ہے۔ جو خبریں باہر آ رہی ہیں وہ ظلم اور ریاستی جبر کی سنگین تصویر پیش کرتی ہیں۔

22 اپریل کو پہلگام کے قریب ایک سیاحتی مقام پر حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے فوراً الزام پاکستان اور ایک غیر معروف گروپ "دی ریزسٹنس فرنٹ" پر عائد کیا، مگر گروپ نے اس کی تردید کی۔ اس واقعے نے ایک بار پھر الزامات اور جوابی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

چند دنوں بعد بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، جس میں خواتین اور بچے جاں بحق ہوئے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور ان بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جہاں سے میزائل داغے گئے تھے۔ بھارت نے درجنوں لڑاکا طیارے، جن میں فرانسیسی ساختہ رافیل بھی شامل تھے، حملے کے لیے روانہ کیے، مگر پاکستان نے ان میں سے پانچ طیارے مار گرائے۔ بعد ازاں، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت پر جنگ بندی ہوئی۔

کشمیر ہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا سبب رہا ہے۔ 1947 میں تقسیم کے وقت ریاست جموں و کشمیر کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں شامل ہو۔ اکثریتی مسلم آبادی کے باوجود ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا، جسے کشمیری عوام نے مسترد کر دیا اور موجودہ آزاد کشمیر کو آزاد کروایا۔

آج کشمیر تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: وادی، جموں اور لداخ بھارت کے زیرِ انتظام؛ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ انتظام؛ جبکہ اکسائی چن اور شکسگام وادی چین کے کنٹرول میں ہیں۔

2019 میں بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس کے بعد سے 85 ہزار سے زائد غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاری کیے گئے، جن میں زیادہ تر بھارتی فوج کے ریٹائرڈ اہلکار اور ہندو آبادکار شامل ہیں، جس سے آبادی کا تناسب بدلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

2024 کے انتخابات میں عمر عبداللہ کی حکومت قائم ہوئی، مگر عملی طور پر تمام اختیارات بھارتی فوج کے پاس ہیں۔ یہ جمہوریت صرف ایک دکھاوا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ہزاروں نوجوان جیلوں میں قید ہیں، اظہارِ رائے، مذہب اور اجتماع کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ احتجاج کو جرم بنا دیا گیا ہے، اور سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے۔ حملے کے بعد 8 ہزار سے زائد اکاؤنٹس بند کر دیے گئے، جن میں صحافیوں، کارکنوں اور عام شہریوں کے اکاؤنٹس شامل تھے۔

بھارت کشمیری مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیتا ہے، مگر اصل صورتحال کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ کشمیریوں کے لیے یہ صرف سیکورٹی کا معاملہ نہیں، بلکہ ان کی شناخت اور آواز کو دبانے کا عمل ہے۔

میڈیا، جو کبھی سچ کا ساتھی تھا، اب ریاستی پراپیگنڈا کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آزادانہ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو ہراساں یا گرفتار کیا جا رہا ہے۔

کشمیر اب صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں رہا، یہ ایک انسانی المیہ ہے جو دنیا کی خاموشی میں پروان چڑھ رہا ہے۔

جب تک دنیا اس المیے کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتی، کشمیر ظلم، جبر اور جنگ کی لپیٹ میں ہی رہے گا، اور کشمیری عوام ان سیاسی کھیلوں کی قیمت چکاتے رہیں گے جو ان کی سرزمین سے بہت دور کھیلے جا رہے ہیں۔

زمین کے ایک سائنسی و قرآنی مطالعہراز اور انسانی جستجو —

 



زمین کے ایک سائنسی و قرآنی مطالعہ راز اور انسانی جستجو


اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم حاصل کرنے اور کائنات پر غور و فکر کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ قرآن کریم ہمیں بار بار دعوت دیتا ہے کہ ہم زمین و آسمان کی تخلیق میں تدبر کریں، اور اللہ کی نشانیاں تلاش کریں:

"أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ، وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ، وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ، وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ"
(سورۃ الغاشیہ: 17-20)
"کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح پیدا کیا گیا؟ اور آسمان کی طرف کہ کیسے بلند کیا گیا؟ اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے گاڑے گئے؟ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی؟"

یہی آیات انسان کو زمین کے اندر جھانکنے کی دعوت بھی دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے: اگر ہم زمین میں مسلسل کھودتے جائیں تو کیا ہوگا؟

زمین کی گہرائیوں کی تلاش: ایک سائنسی کاوش

صدیوں سے انسان اس بات کا متجسس رہا ہے کہ زمین کے نیچے کیا ہے۔ جدید سائنس کے مطابق زمین مختلف تہوں پر مشتمل ہے:
کرسٹ (crust)، مینٹل (mantle)، آؤٹر کور، اور انر کور۔
زمین کا مرکز تقریباً 6,371 کلومیٹر کی گہرائی پر ہے، لیکن آج تک ہم اس کا صرف معمولی سا حصہ ہی کھود پائے ہیں۔

▪ کولا سوپر ڈیپ بورہول (Kola Superdeep Borehole) — روس

1970 کی دہائی میں سوویت یونین نے زمین کی گہرائی میں کھودنے کا ایک عظیم منصوبہ شروع کیا۔ وہ 12.2 کلومیٹر تک کھودنے میں کامیاب ہوئے — جو آج تک کی سب سے گہری کھدائی ہے۔

اہم دریافتیں:
  • غیر متوقع شدید گرمی (180°C)

  • چٹانیں جو دباؤ سے نرم پگھلی ہوئی پلاسٹک کی مانند ہو گئیں

  • دو ارب سال پرانے خوردبینی جرثومے

  • چٹانوں میں گہرائی سے پانی کا انکشاف

▪ جرمن KTB پروجیکٹ

1980 کی دہائی میں جرمنی نے 9.1 کلومیٹر تک کھدائی کی، تاکہ زلزلوں، فالٹ زونز اور زمینی ساخت کو سمجھا جا سکے۔

▪ جاپان کا چیکیُو منصوبہ

جاپان نے ایک تحقیقاتی جہاز کے ذریعے سمندر کی تہہ سے کھودنے کا آغاز کیا، اور اب تک 7.7 کلومیٹر کی گہرائی تک جا چکے ہیں۔ ان کا ہدف: زمین کی مینٹل تک پہنچنا اور زلزلوں و پلیٹ ٹیکٹونکس کو سمجھنا۔

▪ امریکہ کا پروجیکٹ موہول

1960 کی دہائی میں امریکہ نے سمندر کے نیچے مینٹل تک کھودنے کی کوشش کی، مگر فنڈز کی کمی کے باعث منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔

قرآنی روشنی میں زمین کی تہیں

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ"
(سورۃ الطلاق: 12)
"اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین سے بھی ویسی ہی (تہیں) پیدا کیں۔"

علماء کی رائے ہے کہ اس آیت سے زمین کی سات تہوں کی طرف اشارہ ہے، جو جدید سائنسی دریافتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں فرمایا:

"من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين"
(صحیح بخاری)
"جس نے ایک بالشت زمین ظلم سے لی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک پہنائے گا۔"

یہ سب واضح کرتے ہیں کہ زمین کے نیچے بھی تہ در تہ نظام موجود ہے، جس کی حقیقت مکمل طور پر صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔

سائنسی فائدے اور دینی سوچ

اگرچہ ہم زمین کے مرکز تک نہیں پہنچ سکے، لیکن ان سائنسی منصوبوں سے ہمیں یہ فائدے حاصل ہوئے:

  • زلزلوں اور پلیٹوں کی حرکت کو سمجھنا

  • گہرائی میں موجود خوردبینی مخلوقات کی دریافت

  • زمین کی گرمی اور اندرونی نظام کو جاننا

  • انسانی ٹیکنالوجی کی حدود کو آزمانا

یہ سب علم کی وہ شاخیں ہیں جنہیں اسلام تفکر و تدبر کی روشنی میں پسند کرتا ہے، بشرطے کہ انسان غرور میں مبتلا نہ ہو، اور علم کو اللہ کی نعمت سمجھے۔

اگر ہم زمین میں کھودتے جائیں، تو ہم زمین کے مرکز تک شاید نہ پہنچ پائیں، لیکن علم کے مرکز تک ضرور جا سکتے ہیں۔ زمین کے راز ہمیں اللہ کی تخلیق، اس کی حکمت، اور ہماری محدود علم کی حیثیت کا شعور عطا کرتے ہیں۔

قرآن کی رہنمائی اور سائنس کی تحقیق ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:

"وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ"
(سورۃ یوسف: 76)
"اور ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے

غربت کس کو کہتے ہیں



غربت کس کو کہتے ہیں

ہماری دوستی کالج کے دنوں میں پروان چڑھی۔ وہ ایک خاموش مزاج، سنجیدہ اور محنتی نوجوان تھا۔ زندگی نے اسے آسان راستے نہیں دیے تھے، مگر اس کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے۔ کالج کے دنوں میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا تعلق ایک نہایت کمزور مالی پس منظر سے ہے۔ اس کا والد دیہاڑی دار مزدور تھا، اور خاندان  کے باقی افراد اس قدر تنگ نظر تھے کہ رشتے داری تسلیم کرنے کو بھی تیار نہ تھے۔

میرا دوست نے بچوں کو ٹیوشن  پڑھاتااور روزی کا بندوبست کرتا۔ وہ دن رات محنت کرتا رہا۔ بی ایس سی کرنے کے بعداسے  ایک جاپانی کمپنی میں ملازمت ملی۔ قسمت نے بھی اس کی محنت کا ساتھ دیا اور کمپنی نے اپنے خرچ پر اسے جاپان اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ واپس آیا تو اس کی زندگی تبدیل ہو چکی تھی، مگر اس کے اصول وہی تھے: محنت، سادگی اور خودداری۔

ان سالوں میں اس نے صرف اپنی زندگی سنواری، بلکہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو بھی سہارا دیا۔ وہ سب ایک ایک کر کے تعلیم یافتہ اور خود مختار ہو گئے۔ مگر یہ سب کرنے کے باوجود وہ آج بھی کرائے کے گھر میں رہ رہا تھا۔

زندگی کا ایک اور موڑ اس وقت آیا جب 48 سال کی عمر میں اس نے اپنی کولیگ سے شادی کی۔ وہ خود بھی ایک اچھی ملازمت پر تھی اور پوش علاقے میں اس کا اپنا ذاتی گھر تھا۔ شادی کے بعد دونوں وہاں منتقل ہو گئے۔ اب ان کا طرزِ زندگی ایسا تھا جسے دیکھ کر رشک آتا تھا — ایک کنال کا گھر، تین ملازم، کمپنی کی گاڑیاں، اور مالی طور پر بظاہر ہر سہولت موجود۔

مگر ایک دن کی ملاقات نے میرے تمام اندازے بدل دیے۔

کافی دیر تک بات چیت کے بعد اس نے کہا:
"گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔"

میں چونک گیا۔ پوچھا: "آمدن کتنی ہے؟"

اس نے بتایا: "میری تنخواہ پانچ لاکھ سے زیادہ ہے، بیوی کی ساڑھے تین لاکھ ہے۔"

یعنی دونوں کی کل آمدن آٹھ لاکھ روپے ماہانہ۔ پھر بھی اخراجات پورے نہ ہونا؟ حیرت زدہ ہو کر میں خاموش ہو گیا۔

اس نے کہا:
"میری ماں کرائے کے گھر میں، نہایت کم آمدنی میں ہمیں کبھی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیتی تھی۔ آج ہم دونوں اتنا کما رہے ہیں، پھر بھی ہم احساسِ محرومی کے ساتھ زندہ ہیں۔"

پھر اس کی وہ بات، جو میرے دل پر نقش ہو گئی:
"غریب وہ نہیں ہوتا جس کی آمدن کم ہو، اصل غربت احساسِ محرومی ہے۔"

میرا کہنا ہے 

 "گھر میں ماں ہو یا بیوی اگر وہ احساس محرومی میں زندہ ہے تو پورا گھرانہ غریب ہی رہے گا "