مفاد کا سراب
پاکستان میں صحافت کبھی سچ کی روشنی تھی، آج وہ کئی حوالوں سے دھندلا سا عکس بن چکی ہے۔ جس قلم کو صداقت کا آئینہ ہونا چاہیے تھا، وہ اب مفاد کا آئینہ خانہ بنتا جا رہا ہے۔ چند صحافی حضرات نے صحافت کو محض ایک "ٹرانزٹ ویزہ" بنا لیا ہے—ایک ایسا راستہ جو انہیں مغربی اداروں کی رکنیت، کانفرنسوں کی چمک، یا فیلوشپ کے نام پر ملنے والی داد و دہش تک پہنچا دے۔
پھر آتے ہیں اعزاز سید صاحب، جن کی رپورٹنگ میں تحقیق کم اور تاثر زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کئی حساس نوعیت کی رپورٹس میں واقعات کو اس انداز سے پیش کیا کہ ان کی سچائی پس منظر میں چلی گئی اور مغرب پسند بیانیہ نمایاں ہو گیا۔ یوٹیوب پر ان کا اندازِ گفتگو، ویڈیوز کا انتخاب، اور اصطلاحات کا استعمال بھی اکثر ایسا ہوتا ہے جو بآسانی مغربی تھنک ٹینکوں کے فریم میں فِٹ آتا ہے۔
مبشر زیدی جیسے سینئر صحافی کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ان کی تنقید اکثر ریاستی اداروں اور مذہبی و تہذیبی اقدار کے گرد گھومتی ہے، اور ان کی تحریریں بیرونی اداروں کے لیے ایک سازگار حوالہ بن جاتی ہیں۔
سیرل المیڈا کی ڈان لیکس رپورٹ نے تو گویا ریاست کے اندر موجود فاصلوں کو سرخیوں میں بدل دیا۔ ایک رپورٹ نے قومی سلامتی کو عالمی تماشہ بنا دیا، اور نتیجہ؟ مغرب میں آزادیٔ صحافت کے ایوارڈز اور اندرونِ ملک اداروں پر انگلیاں۔
یہ سب مثالیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کی صحافت کے کچھ کردار اپنی "منزلِ مقصود" سے بھٹک چکے ہیں۔ جب خبر کا مقصد سچ بتانا نہیں بلکہ کسی ایوارڈ کے لیے بیانیہ تراشنا ہو، تو صحافت نہیں رہتی، لابنگ بن جاتی ہے۔
یہ درست ہے کہ صحافی کو آزاد ہونا چاہیے، مگر آزادی کے نام پر مفاد پرستی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سچ کی تلاش ضرور کیجیے، مگر اپنی شناخت، اپنے وطن، اور اپنے اداروں کو بے بنیاد الزامات کی بھینٹ نہ چڑھائیے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں