قرآن – ایک بند دروازہ یا کھلا راستہ؟
کبھی آپ نے سوچا کہ ہم قرآن سے کیسا رشتہ رکھتے ہیں؟
کیا وہ صرف الماریوں میں لپٹا ہوا ایک مقدس کاغذی صحیفہ ہے؟
یا وہ واقعی ہماری زندگی کی کتاب ہے؟
قرآن ہمارے گھروں میں موجود ہے، مگر ہماری زندگیوں سے دور۔ رمضان میں اسے چوم کر پڑھ لیا جاتا ہے، مگر دلوں میں اس کی روشنی کم ہی اترتی ہے۔ ہم اسے حفظ تو کر لیتے ہیں، مگر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا ارادہ شاذ و نادر ہی رکھتے ہیں۔
کیا قرآن صرف ثواب کی نیت سے پڑھنے کے لیے نازل ہوا تھا؟
نہیں!
یہ کتاب آئی تھی سوئے ہوئے انسان کو جگانے کے لیے، گرتی ہوئی انسانیت کو سنبھالنے کے لیے، اندھیروں میں چراغ جلانے کے لیے۔
یہ وہ کتاب ہے جس نے بکریاں چرانے والوں کو دنیا کے امام بنا دیا۔ جس نے غلاموں کو سردار، اور جاہلوں کو استاد بنا دیا۔ جس نے عورت کو عزت، مظلوم کو حق، اور انسانیت کو وقار دیا۔
قرآن کی آیات زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں پکارتی ہیں:
"اے انسان! تجھے تیرے ربِ کریم نے کس چیز نے دھوکے میں ڈالا؟" (سورہ الانفطار)
لیکن افسوس، ہم جواب دینے کے بجائے نظریں چُرا لیتے ہیں۔
قرآن صرف نماز کی تلاوت نہیں، یہ فیصلہ ہے!
یہ کتاب صرف قبر کے لیے نہیں، زندگی کے لیے بھی ہے!
یہ صرف مرنے کے بعد نہیں، جیتے جی بھی رہنمائی کرتی ہے۔
ہم نے اپنی زندگی کے فیصلے میڈیا، معاشرے، اور مادیت پرستی کے حوالے کر دیے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ سچ بولو، ہم کہتے ہیں "چالاکی کرو"۔
قرآن تو کہتا ہے عدل کرو، ہم کہتے ہیں "کام نکالو"۔
یقین کریں، اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیں تو ہر آیت ہمیں خود سے مخاطب لگے گی۔
ہمیں لگے گا جیسے اللہ ہم سے بات کر رہا ہے۔
آج بھی دیر نہیں ہوئی۔
قرآن کا دروازہ آج بھی کھلا ہے۔
بس ہم نے دل کے بند دروازے کھولنے ہیں۔
آئیے، قرآن کو زندگی میں اتاریں۔ صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے پڑھیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن قرآن ہم سے کہے:
"اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا!"(سورہ الفرقان: 30)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں