خود ساختہ فیلڈ مارشل
پاکستان کی پُرآشوب سیاسی و عسکری تاریخ میں چند شخصیات ایسی ہیں جو ہمیشہ متنازعہ رہیں — ان میں سب سے نمایاں نام فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا ہے۔ ایک وقت میں “نجات دہندہ” اور “رہبرِ ترقی” کے طور پر پیش میراث خود پرستی، طاقت کی ہوس، اور ادارہ جاتی حدود کو روندنے کی علامت
کے علاوہ کچھ بھی نہ تھی۔
ابتدائی ترقی: سینئرز کو نظرانداز کر کے پروموشن
ایوب خان کی ترقی کی کہانی جنگی میدان سے نہیں بلکہ اقتدار کی راہداریوں سے شروع ہوتی ہے۔ 1951 میں، جب وہ راولپنڈی میں سب سے جونیئر جنرل تھے، انہیں اچانک کمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔ اس فیصلے پر کئی حلقوں میں حیرت اور تشویش کا اظہار ہوا۔
یہ فیصلہ اسکندر مرزا (سیکریٹری دفاع) اور وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے باہمی مشورے سے ہوا۔ ایوب خان کو وفادار اور غیر سیاسی سمجھ کر ترقی دی گئی — بدقسمتی سے یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔
قائدِاعظم کی پیش گوئی
خود ساختہ فیلڈ مارشل
1958
میں ایوب خان نے اپنے سیاسی سرپرستوں کو برطرف کر کے مارشل لا نافذ کیا اور خود کو صدر پاکستان بنا لیا۔ اگلے ہی سال، 1959 میں، انہوں نے خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی — نہ کوئی جنگ جیتی، نہ کوئی تاریخی عسکری کارنامہ۔
یہ ذاتی تمنا اور طاقت کے اظہار کا مظاہرہ تھا، نہ کہ کوئی فوجی ضرورت یا اعزاز۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بعد میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایوب نے خود کو اس لیے فیلڈ مارشل بنایا تاکہ وہ باقی جرنیلوں سے "اونچے" دکھائی دیں۔
سیاستدانوں اور مورخین کا ردعمل
سینئر سیاستدانوں نے اس اقدام کو غرور اور خود پرستی کا شاخسانہ قرار دیا، جبکہ ماہرینِ عسکریات نے اسے ادارے کے تقدس کی توہین سمجھا۔ ممتاز مورخین جیسے ڈاکٹر عائشہ جلال اور اسٹیفن کوہن نے اس عمل کو پاکستان میں عسکری سیاست کی بنیاد قرار دیا۔
فیلڈ مارشل کا لقب ایوب کے لیے باعزت رتبہ نہیں بلکہ مذاق بن گیا، خصوصاً جب 1965 کی جنگ میں ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جنگ کی قیادت جنرل موسیٰ خان نے کی، جبکہ ایوب خان پس منظر میں خاموش تماشائی بنے رہے۔
زوال: عوام نے آواز بلند کی
ایوب خان نے اپنی شخصیت کو ریاستی میڈیا، پوسٹرز، شاعری اور پروموشنز کے ذریعے "قومی رہنما" کے طور پر پیش کیا، مگر زمینی حقائق کچھ اور تھے۔ جنگ، مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی گھٹن نے عوام کو بغاوت پر مجبور کر دیا۔
1969
میں ملک گیر احتجاج اور ہنگاموں کے بعد ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے۔
خاموشی کا انجام
اپنی باقی زندگی ایوب خان نے خاموشی، گمنامی اور پچھتاوے میں گزاری۔ وہ اسلام آباد میں مقیم رہے، عوام میں شاذ و نادر ہی نظر آئے۔ 1974 میں ان کا انتقال ہوا — ایک ایسا شخص جس کی پرواز بلند تھی مگر انجام عبرتناک۔
نتیجہ: اقتدار کی خواہش کا سبق
ایوب خان کی کہانی صرف ایک شخص کی نہیں بلکہ اس سوچ کی نمائندہ ہے جو اقتدار کو ذات کی توسیع سمجھتی ہے۔ ان کا فیلڈ مارشل بننا فوجی عہدوں کی بے توقیری، اور جمہوری اداروں کی پامالی کی علامت بن چکا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں