غزہ سے بہنے والی معصوم لہو کی دھار صدیوں کی بے حسی، سیاسی منافقت، اور عالمی ضمیر کی موت کا نوحہ بن چکی ہے۔ ہر دن، ہر لمحہ، ایک نئی قیامت وہاں کے نہتے باسیوں پر ٹوٹتی ہے۔ وہ جن کے پاس کوئی ہتھیار نہیں، ان کا ایک ہی ہتھیار رہ گیا ہے: ماتم، بین، آہ و فغاں، اور سینہ کوبی۔بھارتی پائلٹس جدید جنگی جہازوں کی ٹریننگ لینے کےلئے روس گئے، روس کا انسٹرکٹر دوران ٹریننگ بتا رہا تھا کہ "اس بٹن کو دبانے سے طیارہ اوپر جائے گا اور اس بٹن کو دبانے سے طیارہ دائیں مڑے گا اور اس بٹن کو دبانے سے طیارہ بائیں مڑے گا"۔
غزہ آج کی جدید تاریخ میں مظلومیت کا سب سے سچا استعارہ بن چکا ہے۔ وہاں کی سرزمین، ہر روز معصوم خون سے رنگین ہو رہی ہے، مگر عالمی ضمیر کا دل مردہ ہو چکا ہے۔ مغرب میں عام انسان اب بھی ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہے، سڑکوں پر نکلتا ہے، نعرے لگاتا ہے، لیکن ان کی اشرافیہ، ان کے حکمران، شاید اپنی روح بیچ چکے ہیں۔ مشرق کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہاں کی عوام جذباتی ہے، دکھ پر روتی ہے، احتجاج کرتی ہے، لیکن ان کی اشرافیہ محض اقتدار اور ذاتی مفادات کی پجاری ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر ہوں، جنگ کے عالمی قوانین ہوں، یا انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے – سب غزہ میں لاگو ہونا بھول چکے ہیں۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں پر جو آگ و آہن برسا جا رہا ہے، اسے صرف کاغذ پر لکھا جا سکتا ہے، محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جن دلوں میں احساس کی رمق باقی تھی، وہ بھی اب مردہ ہو چکے۔
ہٹلر کے ظلم کی داستانیں تاریخ میں درج ہیں، مگر جو کچھ آج فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کے سامنے وہ سب واقعات بھی ماند پڑ گئے ہیں۔ چند کلومیٹر کے رقبے میں سمٹی یہ بستی روز اپنی نسل، اپنی تہذیب، اپنے خوابوں کو دفن ہوتے دیکھتی ہے۔ اخلاق، روداری، انسانیت، ہمدردی، یہ سب الفاظ اب صرف کتابوں کی زینت بن چکے ہیں۔
ہمیں یاد ہے، او آئی سی کے قیام کا بنیادی محرک مسجد اقصیٰ کی حفاظت تھا۔ مگر آج وہ ادارہ یوں خاموش ہے جیسے کسی نے نشہ دے کر سلا دیا ہو۔ اقوامِ متحدہ صرف بیانات دیتی ہے، ایک رسمی سا اظہارِ افسوس، مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ آئین، قانون، ادارے، سب اپنی بے بسی کا ماتم کر رہے ہیں۔
وہ وقت دور نہیں جب دنیا کو ’’گلوبل ویلج‘‘، ’’امن کا گہوارہ‘‘، ’’انسانیت کی معراج‘‘ جیسے خواب دکھائے جاتے تھے۔ مگر اب خواب دیکھنے والے بھی معدوم ہو رہے ہیں۔ فلسطینی اس وقت بھوک، پیاس، لاچارگی، اور درندگی کا نشان بن چکے ہیں۔ اسرائیل نے ظلم، بربریت، اور غرور میں اپنی ایک الگ شناخت بنا لی ہے، جس پر شاید اب شیطان بھی شرما جائے۔
آخر یہ کب رکے گا؟ کب دنیا جاگے گی؟ کب انسانیت کا ضمیر بیدار ہو گا؟ شاید جب غزہ کا آخری بچہ بھی خاموش ہو جائے، تب دنیا کو اندازہ ہو کہ وہ کس بڑے سانحے کی گواہ بنی، مگر کچھ کر نہ سکی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں