نیگیو کے سنسان میدان میں، جہاں سورج بھی زخم دیتا ہے اور راتیں بھی بےرحم ہوتی ہیں، وہاں ایک جیل ہے – کیتسیوت۔ مگر یہ جیل عام نہیں، بلکہ وہ جگہ ہے جہاں قانون خاموش ہے اور ظلم مسلسل گونج رہا ہے۔
ہم اکثر سننے کے عادی ہو چکے ہیں کہ فلاں دہشت گرد پکڑا گیا، فلاں شدت پسند زیرِ حراست ہے، لیکن فلسطینی قیدیوں کی بڑی تعداد کو نہ کبھی جرم بتایا جاتا ہے، نہ عدالت بلاتی ہے۔ ان کے حصے میں صرف قید آتی ہے — وہ بھی صحرا کی دھول بھری جیل میں، جسے دنیا کی بدنام ترین جیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
جیل یا خیمہ بدبو کا؟
کیتسیوت جیل، جسے اسرائیل “Ketziot Prison” کے نام سے جانتا ہے، 1988 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ جیل اس قدر وسیع ہے کہ ہزاروں فلسطینی قیدی یہاں خیموں میں ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں جھلسا دینے والی تپش اور سردیوں میں ہڈیوں میں اترتی یخ بستگی — یہ قیدی ان دونوں موسموں سے بھی زیادہ اندرونی اذیت سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔
اسرائیل اسے سیکیورٹی جیل کہتا ہے، مگر یہاں قید بیشتر فلسطینی نوجوان، طلبہ، کسان اور عام شہری ہوتے ہیں، جن پر نہ کوئی فردِ جرم ہوتی ہے، نہ کوئی مقدمہ۔ یہ قید صرف ایک تحریری حکم پر قائم ہے — جسے "ایڈمنسٹریٹو ڈیٹنشن" کہتے ہیں۔
بغیر جرم کے قید — سچی داستانیں چیخ چیخ کر بولتی ہیں
محمود السرسک: فٹبالر جو 92 دن بھوکا رہا
"انہوں نے جسم تو توڑ دیا، پر میرے خواب نہیں چھین سکے۔"
خلیل عواد: لاٹھی کے سہارے چلنے والا قیدی
محمد عدنان: جسے باپ کا جنازہ نصیب نہ ہوا
قانون کی آنکھ بند، ضمیر کا سوال باقی
صحرا کی خاموشی، جو چیخ بن چکی ہے
کاش ہم سن سکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں