آخرکار، 10 مئی 2025 کی سہ پہر وہ اعلان ہوا جس نے توپوں کی گرج کو خاموش کر دیا، سرحدوں پر سکوت طاری ہو گیا، اور یوں محسوس ہوا جیسے خود وقت نے بھی سانس روک لی ہو۔ جنگ بندی کا اعلان ہو چکا تھا۔ مگر یہ خاموشی راحت کا پیغام نہیں، بلکہ سوالوں سے بھرا ایک نوحہ تھی۔
یہ جنگ کوئی دفاعی مجبوری نہ تھی۔ نہ یہ اصولوں کی لڑائی تھی، نہ نظریات کی۔
یہ محض انا کا ٹکراؤ تھا — ایک شخص کی ضد، ایک قوم کی جھوٹی برتری کا خواب، اور ہندوتوا کے بگولےکی وہ آگ جس نے دو ارب انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیا
پاکستان نے کئی بار، بار بار، کھلے دل سے کہا:
"ہم جنگ نہیں چاہتے، ہماری معیشت کمزور ہے، ہمیں سنبھلنے دیں۔"
مگر ہماری بات کو کمزوری سمجھا گیا۔ برداشت کو بزدلی جانا گیا۔
اور پھر حد ہو گئی — جب پاکستان کے دل پر وار کیا گیا۔
بے گناہ بچے، معصوم خواتین — سب خون میں نہلا دیے گئے۔
جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، تو ردِعمل لازم ہو جاتا ہے۔
پاکستان خاموش ضرور تھا، کمزور نہیں۔
اور پھر وہی ہوا — آپریشن بنیان مرصوص "۔
ہمارے جوان، ہمارے پائلٹ، ہمارے افسر — سب نے وہ کر دکھایا جو قومیں صدیوں تک یاد رکھتی ہیں۔
ہمارے ہوا بازوں نے آسمان پر وہ مہارت دکھائی کہ دشمن کے ریڈار بھی تھرّا اٹھے۔
ہمارے سپاہیوں نے زمین پر وہ حوصلہ دکھایا کہ بندوقیں بھی فخر سے جھک گئیں۔
مگر پھر بھی، یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے:
کیا یہ سب روکا نہیں جا سکتا تھا؟
کیا دہشتگردی کے جھوٹے الزام، پہاگام جیسے واقعے کو بنیاد بنا کر ایک پوری قوم کو سزا دینا درست تھا؟
کیا "ثبوت نہیں، بس الزام کافی ہے" کا اصول اپنایا جا سکتا ہے؟
پاکستان نے جنگ جیتی، میدان بھی، وقار بھی۔
مگر ہم جیتنے کے لیے نہیں لڑے تھے —
ہم تو امن چاہتے تھے۔
اب تاریخ بھارتی قیادت سے سوال کرے گی:
کیا اب بھی آنکھیں کھولو گے؟
یا اگلی جنگ تک یہی کھیل جاری رکھو گے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں