بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں جنوبی ایشیا ایک بار پھر کشیدگی، بداعتمادی اور جنگی جنون کی لپیٹ میں ہے۔ وہ ملک جو کبھی "روشن انڈیا" کے نعرے کے ساتھ خطے کے لیے ترقی، امن اور ٹیکنالوجی کی علامت بننے جا رہا تھا، آج جنگی اشتعال، سفارتی ناکامی اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آ رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھارتی مؤقف کی پذیرائی کم ہوتی جا رہی ہے۔
سفارتی محاذ پر ناکامی سامنے کی بات ہے
حال ہی میں خریدے گئے جدید جنگی طیاروں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ بھارتی فوج مہم جوئی سے گریز کا عندیہ دے رہی ہے، اور ایئر فورس خود اپنے وسائل اور تکنیکی کمی کا اعتراف کر چکی ہے۔
اس کے باوجود، بھارتی حکومت نے اپنی نااہلی کا بوجھ ہمسایوں پر ڈالنے کی روش اپنا لی ہے۔ سکھوں کو ریاستی اداروں سے کاٹ کر عضوِ معطل بنا دینا، پیشہ ور فوجی اور نیوی افسران کو برخاست کر کے گرفتار کرنا، اور عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے مذہبی جذبات ابھارنے کا سلسلہ مودی حکومت کی حکمت عملی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی جنون اس حد تک بڑھا کہ پاکستان پر میزائل حملے کیے گئے، جن میں نہ صرف سویلین آبادی نشانہ بنی بلکہ مساجد اور دیگر مذہبی مراکز کو بھی جان بوجھ کر ہدف بنایا گیا۔
پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد، جب 26 جانیں ضائع ہوئیں، پاکستان نے فوری مذمت کی، متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے انصاف کی فراہمی پر زور دیا، اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین نے بھی اسی موقف کی تائید کی۔ مگر بھارت میں جیسے پہلے ہی فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پاکستان پر الزام دھر کر فوری حملہ کیا جائے۔
یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب پاکستان کی فضاؤں میں درجنوں سول طیارے فضا میں موجود تھے۔ نہ صرف شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ عبادت گاہیں بھی میزائل حملوں کی زد میں آئیں۔ خواتین، بچے، بزرگ—سب اس بربریت کا نشانہ بنے۔ اس گھناؤنے اقدام کا نہ تو اخلاقی جواز ہے اور نہ ہی قانونی۔
پاکستان کی حکومت پر اب عوام کا دباو بڑھتا جا رہا ہے کہ اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ رات کو اپنے گھروں میں سوتے بچوں اور عورتوں کا قتل، مساجد میں عبادت گزاروں کی شہادت، یہ سب ایسے زخم ہیں جو کسی بھی قوم کو خاموش نہیں رہنے دیتے۔
"قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مودی نے اقتدار کے دوسرے دور میں ترقی، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے راستے کو چھوڑ کر "ہندوتوا کے انتہا پسند بیانیے کو اپنا لیا۔ "اکھنڈ بھارت" کا خواب ایک مخصوص ذہنیت کو ضرور لبھاتا ہے، مگر یہ خواب بھارت کے ان کروڑوں نوجوانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں جنہوں نے سیکولر بھارت کی بنیاد پر تعلیم حاصل کی اور دنیا میں بھارت کا روشن چہرہ پیش کیا۔ یہی نوجوان جب اس بیانیے کے خلاف بولے، تو "گودی میڈیا" نے جنم لیا، اور ایک ایسا طبقہ سامنے آیا جو اختلاف رائے کو دبا کر اپنے نظریے کو طاقت سے تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے معصوم شہریوں کے خون کو یونہی بہنے دے گا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، تو مظلوم خاموش نہیں رہتا۔ پاکستان پر بھارتی حملے نے ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ حکومت پر عوامی دباؤ لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کر رہا ہے کہ اس جارحیت کا جواب دیا جائے۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی متکبرانہ رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی کے لیے ترقی کا مطلب صرف اپنے ہمسایوں کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے، حالانکہ حقیقی ترقی تعلیم، صحت، سائنس اور معیشت میں برتری سے حاصل ہوتی ہے، جنگوں اور نفرت سے نہیں۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تکبر، چاہے فرد کا ہو یا قوم کا، بالآخر رسوائی ہی لاتا ہے۔ آج بھارت کے عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ ایک ایسے رہنما کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ رکھنا چاہتے ہیں جو مذہبی انتہا پسندوں کا کٹھ پتلی بن چکا ہے، اور جس کی پالیسیاں نہ صرف بھارت کو بلکہ پورے خطے کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں