دوستی اور دھوکہ
پاکستان کی تاریخ میں فوجی آمروں کو عمومی طور پر منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے، لیکن بعض اوقات تجربے کی بھٹی سے گزرے ہوئے ان کرداروں کی زبان سے ایسے جملے ادا ہو جاتے ہیں جو دہائیوں بعد بھی عالمی سیاست کی نبض کو چھوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک قول جنرل محمد ضیاء الحق سے منسوب ہے:
"امریکہ کے دوستوں کو امریکہ سے ڈرنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے دشمنوں سے بعد میں اور دوستوں سے پہلے نمٹتا ہے۔"
یہ جملہ پاکستان کے امریکی تجربے کی تلخ میراث کا نچوڑ ہے۔
اس سے بھی پہلے "بابائے آمریت" مانے جانے والے جنرل ایوب خان نے اپنی خودنوشت کا نام رکھا تھا "Friends Not Masters"
(دوست، آقا نہیں)
— ایک فکری اعلان تھا کہ پاکستان اب امریکی بالادستی کو تسلیم نہیں کرے گا۔
یہ تمہید اس لیے نہیں کہ ہم آمریت کو تقدیس دیں، بلکہ یہ سمجھنے کے لیے کہ پاکستان، دوستوں کے بھیس میں آئے "ماسٹروں" کو پہچاننے کا تجربہ رکھتا ہے۔ یہی تجربہ آج بھارت کو درکار ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا حالیہ بیان اور پرانی یادیں
حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ — وہی سابق سینیٹر جن پر ماضی میں بھارت نے خاصا "چمکایا " تھا — نے بیان دیا کہ بھارت کو "ہلگام واقعہ" کی تحقیقات کرنی چاہیے، اور پاکستان کو ان تحقیقات میں تعاون کرنا چاہیے۔
یہ وزیر خارجہ وہی ہیں جنہوں نے بطور سینیٹر ایک بل کی حمایت کی تھی، جس کے تحت اگر بھارت کشمیر میں کسی کارروائی کو پاکستان سے جوڑ دے، تو امریکہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگا سکتا ہے — اور یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک پاکستان خود کو "معصوم" ثابت نہ کر دے!
مودی سرکار کی یہ غلط فہمی رہی ہے کہ امریکہ اب ان کا "دیرینہ دوست" ہے، اور واشنگٹن اب دہلی کے ہر اشارے پر چلے گا۔ مگر بھارت نے شاید وہ سبق نہیں سیکھا جو پاکستان نے دہائیوں پہلے سیکھ لیا تھا — کہ امریکہ کبھی کسی کا مستقل دوست نہیں ہوتا، وہ صرف اپنے مفادات کا وفادار ہے۔
پاکستان کا سبق، بھارت کی بھول
پاکستان نے 1980 کی دہائی میں افغانستان کی جنگ لڑی، امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا، لاکھوں مہاجرین کو سنبھالا، مگر جنگ کے بعد وہی امریکہ تھا جس نے پاکستان پر ایٹمی پابندیاں لگا دیں۔ دوست بن کر آیا، مگر آقا بن کر برتاؤ کیا۔
آج بھارت امریکی اسلحہ خریدتا ہے، اس کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرتا ہے، اور چین کے خلاف واشنگٹن کی بیانیہ جنگ میں اس کا "اسٹریٹجک پارٹنر" بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر امریکہ کی اس دوستی کی حقیقت تب سامنے آئے گی جب کوئی بڑا بحران سر اٹھائے گا — اور وہی بھارت جسے آج امریکہ دفاعی سہارا دیتا نظر آ رہا ہے، کل کو اس پر بھی کڑی شرائط عائد کرے گا۔
امریکہ کی دوستی بظاہر سنہری دکھتی ہے، مگر اندر سے لوہے کی زنجیروں جیسی ہے — جو وقت آنے پر جکڑ بھی لیتی ہے اور چھوڑ بھی دیتی ہے۔ بھارت کو اب سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک اس خوش فہمی میں رہے گا کہ امریکہ صرف اس کا ہے۔
پاکستان نے اس دوستی کو بھگتا ہے، اور اس لیے آج بھی امریکی سفارتکاری کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ بھارت کو یہ سبق اگر آج نہیں ملا، تو کل شاید بہت مہنگا پڑے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں