"نریندر مودی کی مذہبی منافرت اور برتری کے خمار کا خطرناک انجام"
حال ہی میں ایک بھارتی تجزیہ کار کی جانب سے ترکی کو "جہنم میں بدل دینے" کی دھمکی اور اس کے جواب میں ترک تجزیہ نگار کا سخت اور مذہبی جذبات سے لبریز ردعمل سامنے آیا۔
یہ محض ایک ذاتی رائے نہیں بلکہ ایک گہرے، وسیع اور دیرینہ رجحان کا مظہر ہے — ایک ایسا رجحان جو نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی داخلی اور خارجی پالیسی کا ستون بنتا جا رہا ہے: مذہبی منافرت، اقلیت دشمنی، اور ہمسایہ ممالک کو نیچا دکھانے کی پالیسی۔
مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر آلود فضا
مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں، اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جو فضا پیدا کی گئی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گؤ رکھشا کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا قتل، مساجد پر حملے، مدارس اور علماء کے خلاف مہم، اور مسلم تاجروں و فنکاروں کا سماجی بائیکاٹ، سب کچھ ایک منظم پالیسی کے تحت کیا جا رہا ہے۔
یہ داخلی پالیسی اب بھارت کی خارجہ حکمت عملی میں بھی جھلکنے لگی ہے، جہاں ہر ہمسایہ ملک — چاہے وہ پاکستان ہو، چین ہو، نیپال ہو,بنگلہ دیسش ہو یا ترکی — کو دشمن کے طور پر پیش کر کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔
ترک ردعمل: ایک مذہبی و تہذیبی پیغام
ترک تجزیہ نگار کا ردعمل، اگرچہ سخت تھا، لیکن اسے جذباتی نہیں بلکہ علامتی جواب سمجھنا چاہیے۔ گائے، جسے ہندو عقیدہ میں مقدس مانا جاتا ہے، کا ذبح کرنا ایک مذہبی علامت کے طور پر استعمال ہوا — یہ ردعمل اس نفرت انگیز بیانیے کے خلاف آیا جو بھارت کی ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں پر مسلط کیا جا رہا ہے۔
یہ جواب صرف ترکی کی طرف سے نہیں تھا، بلکہ مسلم دنیا کے اجتماعی احساسات کی ترجمانی بھی کرتا ہے — ایک ایسا ردعمل جو مودی حکومت کی پالیسیوں کے باعث پروان چڑھ رہا ہے۔
سفارتی خطرہ یا خود ساختہ دشمنی؟
نتیجہ: منافرت کی فصل کبھی امن نہیں اگاتی
مودی حکومت کو سوچنا ہو گا کہ وہ بھارت کو کس سمت لے جا رہی ہے۔ اگر ملک کی شناخت کو صرف اکثریتی مذہب سے جوڑ دیا جائے، اور اقلیتوں کے جذبات کو بار بار روندا جائے، تو ردعمل صرف اندرون ملک نہیں بلکہ بیرونی دنیا سے بھی آئے گا — اور وہ ہمیشہ نرم نہیں ہوگا۔
بھارت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے، اپنی مذہبی اقلیتوں کو برابر کا شہری تسلیم کرے، اور ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر بات کرے، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اس برتری کے زعم میں بھارت سفارتی، اخلاقی، اور ثقافتی طور پر تنہا رہ جائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں