پاکستان کے ہاتھوں فوجی شکست کے بعد، بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی گرفت مزید سخت کر دی ہے۔ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے، گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا اور کئی بستیاں ملیا میٹ کر دی گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کشمیری لڑکیوں اور خواتین کو فوجی کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ وادی، جسے کبھی ایشیا کی سوئٹزرلینڈ کہا جاتا تھا، اب ایک محصور جنگی زون کا منظر پیش کر رہی ہے۔
صحافیوں کا داخلہ بند ہے، اور انٹرنیٹ تک رسائی صرف چُنے گئے افراد کو دی گئی ہے۔ جو خبریں باہر آ رہی ہیں وہ ظلم اور ریاستی جبر کی سنگین تصویر پیش کرتی ہیں۔
22 اپریل کو پہلگام کے قریب ایک سیاحتی مقام پر حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے فوراً الزام پاکستان اور ایک غیر معروف گروپ "دی ریزسٹنس فرنٹ" پر عائد کیا، مگر گروپ نے اس کی تردید کی۔ اس واقعے نے ایک بار پھر الزامات اور جوابی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
چند دنوں بعد بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، جس میں خواتین اور بچے جاں بحق ہوئے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور ان بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جہاں سے میزائل داغے گئے تھے۔ بھارت نے درجنوں لڑاکا طیارے، جن میں فرانسیسی ساختہ رافیل بھی شامل تھے، حملے کے لیے روانہ کیے، مگر پاکستان نے ان میں سے پانچ طیارے مار گرائے۔ بعد ازاں، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت پر جنگ بندی ہوئی۔
کشمیر ہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا سبب رہا ہے۔ 1947 میں تقسیم کے وقت ریاست جموں و کشمیر کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں شامل ہو۔ اکثریتی مسلم آبادی کے باوجود ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا، جسے کشمیری عوام نے مسترد کر دیا اور موجودہ آزاد کشمیر کو آزاد کروایا۔
آج کشمیر تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: وادی، جموں اور لداخ بھارت کے زیرِ انتظام؛ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ انتظام؛ جبکہ اکسائی چن اور شکسگام وادی چین کے کنٹرول میں ہیں۔
2019 میں بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس کے بعد سے 85 ہزار سے زائد غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاری کیے گئے، جن میں زیادہ تر بھارتی فوج کے ریٹائرڈ اہلکار اور ہندو آبادکار شامل ہیں، جس سے آبادی کا تناسب بدلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
2024 کے انتخابات میں عمر عبداللہ کی حکومت قائم ہوئی، مگر عملی طور پر تمام اختیارات بھارتی فوج کے پاس ہیں۔ یہ جمہوریت صرف ایک دکھاوا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ہزاروں نوجوان جیلوں میں قید ہیں، اظہارِ رائے، مذہب اور اجتماع کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ احتجاج کو جرم بنا دیا گیا ہے، اور سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے۔ حملے کے بعد 8 ہزار سے زائد اکاؤنٹس بند کر دیے گئے، جن میں صحافیوں، کارکنوں اور عام شہریوں کے اکاؤنٹس شامل تھے۔
بھارت کشمیری مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیتا ہے، مگر اصل صورتحال کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ کشمیریوں کے لیے یہ صرف سیکورٹی کا معاملہ نہیں، بلکہ ان کی شناخت اور آواز کو دبانے کا عمل ہے۔
میڈیا، جو کبھی سچ کا ساتھی تھا، اب ریاستی پراپیگنڈا کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آزادانہ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو ہراساں یا گرفتار کیا جا رہا ہے۔
کشمیر اب صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں رہا، یہ ایک انسانی المیہ ہے جو دنیا کی خاموشی میں پروان چڑھ رہا ہے۔
جب تک دنیا اس المیے کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتی، کشمیر ظلم، جبر اور جنگ کی لپیٹ میں ہی رہے گا، اور کشمیری عوام ان سیاسی کھیلوں کی قیمت چکاتے رہیں گے جو ان کی سرزمین سے بہت دور کھیلے جا رہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں