بدھ، 23 اپریل، 2025

اللہ آخر چاہتا کیا ہے


عملی زندگی میں  فخر کی روش عام ہو چکی ہے۔ کسی کو اپنے لباس پر فخر ہے کسی کو معاشرت پر تو کوئی قبیلہ کو اپنا فخر سمجھتا ہے اب توسنتے ہیں ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ہے -  اسلامی تعلیمات کی روح اطاعت میں پوشیدہ ہے، فخر میں نہیں۔
دین کی اصل روح اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت ہے۔ اس کے برعکس، کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دین پر فخر کرو یا اس کی بنیاد پر دوسروں کو کمتر جانو۔
رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں فتح مکہ بڑا واقعہ تھا ۔ اس موقع پر کسی نے بھی فخر کا اظہار نہ کیا بلکہ سر سجدے میں تھے یہ منظر اس بات کی علامت ہے کہ طاقت، عزت اور اختیار بھی اگر مل جائے تو بندگی کا تقاضا جھکنا ہے، نہ کہ فخر کرنا۔
بدقسمتی سے آج امتِ مسلمہ کے اندر فخر اور تعصب نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔
بات لباس ، قبیلے ، سواری اور مسلک سے ہوتے ہوئے اسلام تک پہچ چکی ہے ۔ فخر ایک ایسا فریب ہے جو نہ صرف فرد کو حقیقت سے دور کرتا ہے بلکہ سماج کو انتشار اور نفرت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی فخر شیطان کا پہلا گناہ تھا، جس نے کہا: "أنا خير منه" (میں اس سے بہتر ہوں) — اور ہمیشہ کے لیے لعنت کا حقدار ٹھہرا۔
دوسری جانب اطاعت ایک ایسی خصلت ہے جو اللہ کی قربت کا راستہ ہے۔ یہ بندے کو اس کے اصل مقام، یعنی عبدیت، تک پہنچاتی ہے۔ یہی وصف ہمیں اللہ کے محبوب بندوں میں شامل کرتا ہے۔
اسلام کی سربلندی اس میں نہیں کہ ہم اس پر فخر کریں، بلکہ اس میں ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں۔  ہماری اطاعت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے نہ کہ زبانی فخر کہ ہم مسلمان ہیں ۔ فخر ایک خول ہے جس میں بند ہو کر انسان اپنے خیالات کا ہی اسیر رہتا ہے جبکہ اطاعت ایسا خیمہ ہے جو ہوا دار بھی ہے اور باران کی رجمت سے بھیگتا بے تو اس کی نمی اندر تک محسوس ہوتی ہے ۔


آپ اس نیت سےقرآن کا مظالعہ کریں کہ کہ 
"اللہ آخر چاہتا  کیا ہے" 
تو جواب ملے گا
"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ"
(النساء: 59)
یعنی ’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔‘
 فخر خود فریبی ہے
جبکہ اطاعت مقصد حیات ہے 

پیر، 21 اپریل، 2025

دو نظریے، دو راستے



آج کے فکری، سماجی اور مذہبی انتشار سے بھرپور ماحول میں یہ سوال اکثر ذہن میں گونجتا ہے: کیا ہم یقین پر ہیں یا تعصب پر؟ دونوں کی شکلیں بظاہر ایک سی لگتی ہیں، مگر ان کی بنیادیں، نتائج اور اثرات زمین آسمان کا فرق رکھتے ہیں۔ ایک روشنی کی طرف لے جاتا ہے، تو دوسرا اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔

یہ سوال صرف ایک فرد کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے — بلکہ پوری انسانیت کا۔

یقین کیا ہے؟

یقین سچائی پر مبنی اعتماد ہے۔ یہ تب پیدا ہوتا ہے جب انسان دلیل، مشاہدہ، علم، تجربہ اور شعور کی بنیاد پر کسی بات کو مانتا ہے۔ یقین ایک متحرک عمل ہے؛ یہ جمود نہیں لاتا بلکہ سوچنے، سیکھنے اور بہتر کرنے کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔

قرآن میں حضرت ابراہیمؑ کی مثال موجود ہے، جنہوں نے بچپن سے ہی سوال کیے:
"یہ میرا رب نہیں ہو سکتا، یہ تو ڈوب جاتا ہے..."
یہ یقین عقل کے ذریعے پیدا ہوا، اور خدا کی تلاش کا سفر اُنہیں توحید کی حقیقت تک لے گیا۔ ان کا یقین تقلیدی نہیں، تحقیقی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں "ابو الانبیاء" کا درجہ ملا۔

تعصب کیا ہے؟

تعصب، یقین کا بگڑا ہوا روپ ہے۔ یہ بغیر تحقیق، دلیل یا کھلے ذہن کے کسی رائے یا عقیدے کو محض جذبات، روایات یا وراثت کی بنیاد پر قبول کرنا ہے۔ تعصب کی جڑیں اکثر خوف، انا، یا شناخت کے عدم تحفظ میں پیوست ہوتی ہیں۔

تعصب کی ایک کلاسیکی مثال مکہ کے کفار کی ہے، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کو اس لیے رد کیا کہ وہ ان کے باپ دادا کے دین کے خلاف تھی۔
"ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں..."
یہی تعصب تھا جس نے انہیں حق سے محروم کر دیا۔

یقین اور تعصب: معاشرتی اثرات

یقین معاشروں کو جوڑتا ہے، علم کو فروغ دیتا ہے، اور انسانی رویوں میں برداشت اور محبت پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف تعصب نفرت، تفرقہ، جمود اور بربادی لاتا ہے۔

آج بھی مذہبی انتہا پسندی، نسل پرستی، سیاسی فرقہ واریت — یہ سب تعصب کی ہی شکلیں ہیں۔ سوشل میڈیا نے جہاں معلومات کو عام کیا ہے، وہیں تعصبات کو بھی کئی گنا تیز کر دیا ہے۔

ایک رائے رکھنے والا دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں۔ لوگ دلیل سے زیادہ جذبات پر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ صورتحال معاشرتی زوال کی علامت ہے۔

یقین: ترقی کی بنیاد

جب یقین سچائی اور تحقیق پر ہو، تو وہ علم کی نئی راہیں کھولتا ہے۔
ابنِ سینا، الرازی، جابر بن حیان — ان سب کے کارنامے یقین کی طاقت سے ہی ممکن ہوئے۔
یقین انسان کو سکون دیتا ہے، دل کی گہرائیوں میں اُترتا ہے، اور اسے اندرونی مضبوطی فراہم کرتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو صوفیا، اولیاء، اور محققین کی زندگیوں میں نظر آتی ہے۔

تعصب: خطرناک جمود  

تعصب نہ صرف فرد کو بند ذہن کا حامل بناتا ہے، بلکہ پورے معاشرے کو ذہنی غلامی میں جکڑ دیتا ہے۔

آج اگر ہم سچ کو تسلیم کرنے کے بجائے "یہ ہمارے نظریے کے خلاف ہے" کہہ کر رد کر دیتے ہیں، تو ہم علم کی نہیں، صرف اپنی ضد کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔

کیا ہم یقین پر ہیں یا تعصب پر؟

یہ سوال ہمیں خود سے روز پوچھنا چاہیے:

  • کیا میں دلیل سنتا ہوں؟

  • کیا میں اپنی رائے بدلنے کو تیار ہوں اگر سچ سامنے آئے؟

  • کیا میں اختلاف کو برداشت کرتا ہوں؟

  • کیا میں صرف اس لیے کسی بات کو مانتا ہوں کہ میرے بزرگ یا گروہ نے کہا ہے؟

اگر ان سوالات کے جواب "ہاں" میں ہیں — تو خوش آئند بات ہے، ہم یقین پر ہیں۔
اگر "نہیں" — تو ہمیں رک کر، سوچ کر، اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔


یقین انسان کو آزاد کرتا ہے، اور تعصب اسے قید کر دیتا ہے۔
یقین دل کو کھولتا ہے، تعصب دل کو بند کر دیتا ہے۔
یقین سچائی کا دروازہ ہے، تعصب صرف انا کی دیوار۔


سایوں کے پیچھے بھاگتی زندگی

 



ہم میں سے اکثر نے زندگی میں کبھی نہ کبھی کوئی ایسی شے محسوس کی ہے جو وہاں نہیں تھی— کوئی سایہ، کوئی آواز، کوئی ہیولا۔ اور پھر اس "محسوس شدہ حقیقت" کو ہم وہم کا نام دے کر یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں، یا پھر اس کے پیچھے ایک پوری کہانی بُن لیتے ہیں۔

وہم صرف ایک تصور نہیں، ایک کیفیت ہے— اور بعض اوقات ایک مکمل طرزِ زندگی بن جاتا ہے۔

میرے حلقہ احباب میں ایک صاحب نے حال ہی میں پریشان ہو کر بتایا کہ ان کے 22 سالہ بیٹے کو کئی دنوں سے اپنے کمرے میں اور کبھی کبھی گھر میں کوئی "ہیولا نما" شے دکھائی دیتی ہے۔ کبھی وہ انسانی شکل میں ہوتی اور کبھی کسی ناقابلِ بیان، مہیب صورت میں۔ والدین سخت پریشان تھے— دم درود سے لے کر ماہر نفسیات تک ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے تھے، لیکن افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔

تب ہمارے ایک تجربہ کار دوست نے بڑی سادہ سی بات کی۔ کہنے لگے: "اس نوجوان کو چاہیے کہ وہ رات کو 9 بجے ہر حال میں سوجائے، اور جو بھی کام رات کو کرتا ہے وہ صبح کر لیا کرے۔" بظاہر یہ مشورہ سادہ لگا، لیکن اس پر عمل ہوتے ہی نوجوان کے ہیولے غائب ہو گئے۔

یہ کوئی جادو نہ تھا، بلکہ انسانی دماغ کا کمال تھا۔ نیند کی کمی، مسلسل تنہائی، اور دماغ پر سکرینز کی روشنی— یہ سب مل کر ایسے "وہم" پیدا کر دیتے ہیں جو انسان کو سچ سے زیادہ حقیقی لگنے لگتے ہیں۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے وہم کو اکثر روحانیت، عاملوں اور جنات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی کو بخار ہو تو نظرِ بد، کسی کی ترقی رک جائے تو بندش، اور اگر کوئی نوجوان چپ چاپ بیٹھا ہو تو "کچھ تو ہے۔"
یہی کچھ تاریخ میں بھی ہوتا آیا ہے۔ سیلم (Salem) کی چڑیلوں کی مشہور مہم ہو، یا قدیم بادشاہوں کا اپنے مشیروں کو شک کی بنیاد پر قتل کر دینا— ہر جگہ وہم نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ آلود کر دیا۔

اسلام ہمیں وہم سے بچنے کا واضح درس دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔" (سورہ الحجرات: 12)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔"

وہم صرف ایک سوچ نہیں، ایک زنجیر ہے جو انسان کے اعتماد کو جکڑ لیتی ہے۔ ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ان کی وجہ کسی "غیبی" قوت کو دے دیتے ہیں، اور یوں خود کو عمل سے بری الذمہ سمجھنے لگتے ہیں۔

اگر وہ نوجوان رات کو جلد سونے سے ٹھیک ہو سکتا ہے، تو ہم سب بھی سادہ، متوازن زندگی اپنا کر بہت سے ذہنی سایوں سے نجات پا سکتے ہیں۔

وہم کا علاج فلسفہ یا عملیات میں نہیں، بلکہ نظم، علم، نیند، سادہ زندگی اور اللہ پر یقین میں ہے۔ ہم جتنا جلد یہ سیکھ لیں، اتنا بہتر۔

61 ہارلے صتریٹ راولپنڈی



 "تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی" — یہ جملہ جب بھی ذہن میں آتا ہے، تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نام بے اختیار ذہن پر دستک دیتا ہے: آغا محمد یحییٰ خان۔ یہ وہ جرنیل تھا جس نے ایک خودمختار قوم کی باگ ڈور سنبھالی اور بدترین سیاسی ناپختگی، ذاتی کمزوریوں اور اقتدار کے نشے میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان صرف ایک جغرافیائی سانحہ نہ تھا، بلکہ یہ ہماری اجتماعی سوچ، رویے اور حکمرانی کی ناکامی کا اعتراف بھی تھا۔ یحییٰ خان نے اقتدار جنرل ایوب خان سے 1969 میں سنبھالا۔ ابتدا میں یوں لگا جیسے وہ واقعی ایک راست باز جرنیل ہے، جو پاکستان کو جمہوری عمل کی طرف لے جائے گا۔ 1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات کروانا یقیناً ایک بڑا فیصلہ تھا۔ مگر اصل آزمائش اُس وقت شروع ہوئی جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کی، اور یحییٰ خان کے لیے اقتدار کی قربانی دینا مشکل ہو گیا۔ یحییٰ خان نے اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپنے کے بجائے بندوق کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ آپریشن سرچ لائٹ کے نام پر ہزاروں بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ لاکھوں افراد نے اپنی جان، مال اور عزت گنوائی۔ بنگالیوں کے لیے یحییٰ خان کا نام آج بھی ظلم، جبر اور استبداد کی علامت ہے۔ وہ اسے ایک ایسا مغرور اور بے رحم حکمران مانتے ہیں، جس نے عوامی مینڈیٹ کو کچل کر پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ یہی نہیں، بلکہ حمود الرحمٰن کمیشن نے بھی یحییٰ خان کو اس قومی المیے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ رپورٹ کے مطابق وہ ایک اقتدار پرست، غیر سنجیدہ اور بدعنوان شخص تھا۔ کمیشن نے اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی، مگر افسوس! طاقتور حلقوں کے درمیان حساب کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یحییٰ خان کی شخصیت کا تضاد یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر چین اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات قائم کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا، مگر اندرونِ ملک وہ ایک ناکام حکمران، بے سمت لیڈر اور اخلاقی دیوالیہ پن کی مثال ثابت ہوا۔ بنگلہ دیش میں آج بھی تعلیمی نصاب اور عوامی بیانیے میں یحییٰ خان کو ایک ظالم فاتح اور جمہوریت کش آمریت کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انہیں یاد آتا ہے تو آنکھوں میں نفرت اور دل میں درد اُمڈ آتا ہے۔ یحییٰ خان کا انجام بھی عبرت ناک تھا — اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے ہی گھر 61 ہارلے سٹریٹ میں نظر بندی، عوامی بے زاری، اور بالآخر خاموشی سے موت۔ نہ عزت، نہ معافی، نہ دفاع۔ یہ ایک جنرل کی کہانی ہے، جو سپاہی تو اچھا تھا، مگر حکمران بننے کی صلاحیت اس میں نہ تھی۔ آج جب ہم جمہوریت، آئین اور اداروں کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ ماضی کے ان کرداروں کا جائزہ لیں جن کی شخصی غلطیوں نے قومی زخموں کو جنم دیا۔ یحییٰ خان کی کہانی ہمارے لیے آئندہ کے لیے ایک عبرت ہے، شرط صرف یہ ہے کہ ہم سبق لینا چاہیں۔

سُمیترا سنگھ کی حیران کن کہانی



1968 

کے قریب، ضلع اٹاوہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں انگد کا نگلا میں سُمیترا سنگھ پیدا ہوئیں۔ والد کا سایہ نہ تھا، ماں کا بھی جلد انتقال ہو گیا، سو سُمیترا نے بچپن کزن کے ساتھ گزارا اور وہیں سے کچھ پڑھنا لکھنا سیکھا۔

تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی شریف پورہ کے جگدیش سنگھ سے ہوئی۔ تین سال بعد ایک بیٹا پیدا ہوا، مگر اسی دوران سُمیترا پر عجیب کیفیت طاری ہونے لگی۔ وہ بے ہوش ہو جاتیں، آنکھیں الٹی ہو جاتیں، دانت بھینچ لیتیں اور کبھی خود کو "سنتوشی ماتا" یا کسی دوسری روح کا حامل بتاتیں۔ علاج کی ہر کوشش ناکام رہی۔

پھر 19 جولائی 1985 کو ایک ایسا لمحہ آیا جس نے سب کو چونکا دیا۔ سُمیترا اچانک بے ہوش ہو گئیں، سانس اور نبض بند، چہرہ زرد۔ سب نے سمجھا وہ مر چکی ہیں۔ مگر چند منٹ بعد وہ زندہ ہو گئیں—مگر اب وہ "سُمیترا" نہیں تھیں۔ ہوش میں آتے ہی خود کو "شیوا تریپاٹھی" کہنے لگیں، ایک ایسی خاتون جسے ان کے سسرالیوں نے قتل کیا تھا۔

نئی شناخت، نئی یادداشت

سُمیترا نہ اپنے شوہر کو پہچانتی تھیں، نہ بیٹے کو۔ البتہ وہ شیوا کے خاندان، دوستوں، بچوں اور یہاں تک کہ روزمرہ تفصیلات تک سے واقف تھیں—جیسے شیوا کی زرد ساڑھی، ہاتھ کی گھڑی، محلے کے نام اور حتیٰ کہ اسکول کا پتہ۔

ان کی شخصیت، بول چال، لباس، عادات سب بدل گئے۔ وہ اپنے اصل شوہر کو کمتر سمجھتیں، اور صرف "شیوا" کہلانا پسند کرتیں۔ بعد میں انہوں نے جگدیش اور اپنے بیٹے کو قبول تو کیا، مگر شیوا ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں چھوڑا۔

تحقیقات اور حیران کن انکشافات

یہ غیر معمولی کیس محققین ایان اسٹیونسن اور ڈاکٹر ستونت پاسریچا کی نظر میں آیا۔ انہوں نے 1985 سے 1987 تک دونوں خاندانوں، علاقوں اور گواہوں سے کئی بار ملاقات کی، اور نتیجہ یہ نکالا کہ سُمیترا نے کم از کم 19 ایسی باتیں کہیں جو شیوا کے قریبی لوگوں کے سوا کوئی نہیں جان سکتا تھا۔

مزید تحقیق میں انکشاف ہوا کہ سُمیترا نے واقعے سے پہلے کبھی مکمل ہندی نہیں سیکھی تھی، مگر اب وہ رواں دستخط اور تحریریں لکھنے لگی تھیں، بالکل شیوا کی طرح۔

مابعد زندگی کا بیان

سُمیترا کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد انہیں یم راج کے دربار میں لے جایا گیا، جہاں دیوی سنتوشی ماتا کی مداخلت پر انہیں سات سال کے لیے واپس زمین پر بھیجا گیا—شیوا کی روح کے ساتھ۔

علمی و نفسیاتی بحث

ماہرین اس واقعے کو "ری پلیسمنٹ ری انکارنیشن" یعنی بغیر موت کے روح کی تبدیلی کہتے ہیں۔ کچھ نے اسے نفسیاتی کیفیت یا ممکنہ طور پر سماجی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش بھی قرار دیا۔ تاہم تحقیقات اس بات پر متفق تھیں کہ سُمیترا نے کبھی بھی یہ دعویٰ ترک نہیں کیا کہ وہ شیوا ہیں۔

خاتمہ

سُمیترا 1998 میں اور ان کے شوہر 2008 میں وفات پا گئے۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو—جنم نو یا قبضہ؟—آج بھی انسانی شعور، روح اور زندگی کے بعد کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

جو لوگ مزید تفصیل جاننا چاہیں ۔ اس لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں

https://psi-encyclopedia.spr.ac.uk/articles/sumitrashiva-replacement-reincarnation-case