زندگی کی کہانی: غلام ابن غلام: میرے یہاں آنے کا مقصد اس قبر پر فاتحہ پڑہنے اور روحانی فیض حاصل کرنے کا تھا جس میں بلال بن رباح نامی ایک صحابی محو استراحت ہیں۔ ...
ہفتہ، 7 اپریل، 2018
جمعہ، 30 مارچ، 2018
عوام پوچھتے ہیں
اکیسویں صدی کے اٹھارویں سال میں ہم ججوں کی زبانی سنتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔دوسرے چینل پر ایک ایسے شخص کا انٹرویو نشر ہوتاہے جس پر عدالت کے حکم سے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔وہ عدالت کے بارے صاف بتاتا ہے کہ فلاں جرنیل نے عدالت پر اثر انداز ہو کر اس کے حق میں عدالت کو مجبور کیا ہے۔مشرف جھوٹاہے یا جج سچے ہیں ۔یہ سوال ہے مگر جواب میں کہا جاتا ہے کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو نظر بھی آئے ۔محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹر شائد مسعود کے مقدمے میں فرمایا ہوا ہے کہ آج کے دن معافی کا موقع ہے ۔آج کے بعد یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔شاید اس کیس میں انصاف ہوتا ہوا لوگوں کو نظر آ جائے۔مگر عوام کا انصاف پر اعتماد قائم ہے البتہ راو انور کیس میں مجرم کے سامنے ججوں کی بے بسی نے عوام کے ججوں پر اعتماد کو شدید مجروع کیا ہوا ہے۔
دوسری طرف سیاست دانوں کا ایک گروہ ہے ۔ جس کوججوں نے سیسلین مافیا بتایا ہوا ہے۔ اور اس گروہ کے رہنماء کی رہبری پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے شاعری کے اعلیٰ ذوق اور انگریزی ناول کے ایسے کردار کا انتخاب کیا گیا ہے ۔جس کا نام سن کرحکومتیں لرز جاتی ہیں مگر پاکستان میں عوام نے جوتا مار کر ان سیستدانوں کی بے بسی کو اجاگر کر دیا ہے ۔
ہمارے ایک مقتدر ادارے کے سربراہ کا بیان معنی خیز ہے جب انھوں نے افغانستان میں موجود طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے تناطر میں کہا کہ کسی منظم فوج کو شکست دینے کی نسبت ذہن میں راسخ ہوئے نظریات کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔مسٗلہ یہ ہے کہ ایسے بیانات صرف امریکہ ہی میں نہیں ملک کے اندر بھی پڑہے جاتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا بیان صرف ہمسائے کے لیے ہے ؟
ہفتہ، 17 مارچ، 2018
پشتون تحفظ مومنٹ
پشتون تحفظ مومنٹ سے خوفزدہ ریاست کا المیہ
ابھی گذشتہ جمعرات کی بات ہے فون پر ایک برخور دار نے سلام کے بعد پوچھا، ’لالا پشتون کلچر ڈے کب ہے؟‘ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا ’کیوں؟‘، بولا ’ایسے ہی‘۔میں جان گیا کہ ہو نہ ہو یہ تین مارچ کو بلوچ کلچر ڈے کے جواب میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
آخر صوبہ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون اسی مقصد کے لیے تو ساتھ باندھے گئے ہیں تاکہ ایک حرکت کرے تو دوسرے کو تکلیف ہو اور دوسرا کھجلی بھی کرے تو اگلا بھی جواباً کھجلی شروع کردے۔
ان کے سیاسی اور ثقافتی پیچ اس انداز میں کسے گئے ہیں کہ تہذیبی اور سیاسی عمل کی ساری توانائی اس امر پر صرف ہوتی رہے کہ بلوچستان سٹڈی سنٹر میں لٹکا ہوا مشکیزہ بلوچ کا ہے یا پشتون کا۔
بہر حال میں نے کہا کہ جناب پشتون کلچر ڈے میں ابھی آٹھ ماہ باقی ہیں۔یہ 23 ستمبر کو ہوگا تاہم اس سال اسی روز کو محرم کی نویں بھی ہے، لہٰذا کلچر ڈے کا کوئی جواز نہیں۔پھر بولے کہ آپ دیکھ لیں نو مارچ کو پشتونوں نے اگر۔۔۔ میں نے جملہ مکمل کرتے ہوئے کہا کہ’ کوئی تیر مارا ہو‘، بولے ’ہاں ہاں‘۔میں نے جنتری نکالی، کوئی تیر نہیں مارا تھا دیگر سیکڑوں دنوں کی طرح یہ بھی ایک خالی دن تھا۔
بعد میں پتہ چلا کہ ژوب میں یکایک نو مارچ کو ایف سی کی جانب سے ’پشتون کلچر ڈے‘ کا اہتمام کیا گیا ہے۔مجھے زرا سا عجیب لگا۔ادھر ادھر کھنگالا اور سوشل میڈیا پر آوارہ گردی کی تو پتہ چلا کہ منطور پشتین اسی دن ژوب میں اپنے قبائلی قافلے سمیت پہنچ رہے ہیں اور یہاں پر جلسہ کرنے والے ہیں۔
اسی دن فیس بک پر ’مدظلہ‘ زاہد حامد نے منظور پشتون کو ’این ڈی ایس‘ اور ’را‘ کا ایجنٹ، محمود خان اچکزئی کا چیلہ اور جیو ٹی وی کو اس طاغوتی قوت کا ہمنوا بتایا۔
یہ دیکھ کر میری دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔پتہ چلا کہ پشتون کلچر ڈے کے اس بے برگ و بہار صحرا میں کوئی پھول نہ کھل سکا، تو ژوب کو فٹ بال ٹیموں کو دوستانہ میچ کھیلنے کے لیے اسی میدان میں بلا لیا گیا جہاں منظور پشتون کے لیے سٹیج سجایا گیا تھا۔
شومئی قسمت یہاں بھی تمام تر سٹار فٹ بالروں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان میں اترنے سے انکار کردیا۔یوں 9 مارچ کو منظور پشتون کے جلسے میں ژوب جیسے دیہی ضلعے میں کم و بیش 10 ہزار لوگوں نے شرکت کی۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مکمل بلیک آوٹ کے باوجود دسیوں نوجوانوں نے کھڑے ہوکر لائیو ویڈیوز چلائیں جنہیں بیک وقت لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور مرکزی دھارے کے میڈیا پر خوب لعن طعن کی۔
جب یہی قافلہ ژوب سے ڈیڑھ، دو سو کلومیٹر کی مسافت پر قلعہ سیف اللہ جیسے چھوٹے میں قصبے میں پہنچا تو یہاں بھی ہزاروں لوگوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں بچیوں اور خواتین نے بھی جلسے میں شرکت کی۔
عین جلسے کے وسط میں تھری جی کا رابطہ ’منقطع‘ ہوگیا۔واللہ عالم عجیب ’تکنیکی خرابی‘ تھی جو جلسہ ختم ہوجانے کے بعد ٹھیک ہوگئی۔
اس کے بعد یہ قافلہ آگے خانوزئی کی جانب بڑھا، جو کہ قلعہ سیف اللہ سے بھی چھوٹا قصبہ ہے۔یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ یہاں تو سرے سے کوئی تھری جی کا تکلف ہی نہیں۔مقامی افراد بتاتے ہیں کہ گذشتہ نو مہنے سے ان کے سیل فون کسی انٹرنیٹ کنکشن سے’آلودہ‘ نہیں ہوئے ہیں۔
اب جب 11 مارچ کو کوئٹہ میں ایک گرینڈ جلسہ ہونے جارہا ہے، میڈیا کی اندھی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے۔ان کے کانوں میں روئی ٹھونس دی گئی اور ان کی زبانوں پر جھوٹ اُگلنے کا معجون مرکب رکھ دیا گیا۔
فون اور انٹرنیٹ کے بند ہونے کی نوید بھی سنادی گئی تو مجھے زرا سا گمان ہوا کہ بقول زاہد حامد کے اس ایجنٹ کے پٹاری میں آخر کس طرح کا سانپ چھپا ہوا ہے جس سے زہد و ریا کے سارے سانپ اور ان کے تخلیق کار ڈر رہے ہیں۔
میں نے ان کی تحریک کا مطالعہ شروع کیا۔منظور کی کئی تقاریر سنیں اور پھر یہی نتیجہ نکالا کہ منظور کی دل کو چھو لینے والی، سادہ اور بر محل باتوں کی پُرکاری واقعی اتنی سحر انگیز ہے جو باآسانی کذب و ریا کے مصنوعی بیانیوں کو نگل سکتی ہے۔
منظور پشتون اور ان کی ’پشتون قومی تحریک‘ کا بیانیہ اور ان کے مطالبات انتہائی سادہ ہیں۔
انہیں نہ تو سی پیک میں سے کوئی شاہراہ چاہیے، نہ ہی بجلی کی رائلٹی، نہ میڈیکل سیٹوں کا کوٹہ ان کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اپنے ہاں کسی یونیورسٹی کے کھولے جانے کے طلب گار ہیں۔
وہ زندگی کے بنیادی حق کا مطالبہ کرر ہے ہیں، وہ حق جو ریاست پاکستان اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت تمام انسانوں کو حاصل ہے۔
وہ تو اپنے ہی ملک کے اداروں سے استدعا کرر ہے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے گھروں سے بے دخل کر دیے جانے کے بعد گارڈر، سریا، لکڑی، دروازے، دریچے اور اینٹیں کہاں گئیں؟کیا ان کے جانے کے بعد کوئی ایسی مخلوق نازل ہوئی تھی جس کی خوراک لکڑی، لوہا اور پتھر تھی؟
’آپ کی اس ’خوشخبری‘ کے بعد کہ علاقہ صاف ہوچکا ہے، ہم واپس اپنے علاقوں میں لوٹنے لگے تو پتہ چلا کہ قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھی ہیں، جن سے اب تک 80 بچے معذور ہوچکے ہیں۔
جب جنگجوؤں کے ساتھ تعلق کے شبہے میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ عسکری زعما تو جیل سے رہا ہوکر گھر بھی پہنچ گئے لیکن جنہیں شک کی بنیاد پر اٹھایا گیا ان کا کیا بنا؟؟؟
راؤ انوار اور اس کی طرح کے کئی بھیڑیوں کو گرفتار نہ کرکے ریاستی ادارے کیا تاثر دینا چاہتے ہیں؟
قدم قدم پر چیک پوسٹیں بنا کر اور روزانہ لاکھوں لوگوں کو تنگ کرنے سے کس طرح کے امن کا آتا ہے؟مقامی معدنیات پر قبضوں سے کس طرح کے بھائی چارے کی فضا قائم کیا جارہا ہے؟‘ وغیرہ وغیرہ۔
یہ سارے ایسے سوالات ہیں جو آج سے پہلے پاکستان میں رہنے والی دیگر محکوم قوموں نے بھی پوچھے تھے۔
آج مقتدر حکام سے ایک بار پھر یہی سوال پوچھے جارہے ہیں جن کا خاطر خواہ جواب دینے کے لیے ریاست کی داخلہ اور خارجہ پالیسی از سر نو ترتیب دینا ہوگی۔
اگرچہ گذشتہ سال پاکستان میں بیانیے کی جنگ جیتنے کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن منظور اور ان کے ہزاروں لاکھوں ساتھیوں اور مداحوں کی عدم تشدد پر مبنی تحریک کی حرارت اور حرکت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ کوئی علٰحیدگی پسند تنظیم یا تحریک نہیں، پاکستان کے آئینی ضابطوں میں رہتے ہوئے، حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر کسی کو کیا اعتراض ہے؟
ریاستی ادارے جعلی کلچر ڈے اور فٹ بال میچ کا باسی چورن بیچنے، نیٹ بند کرنے، فون کے روابط کاٹنے اور جعلی قسم کے پشتون قوم پرستی کے ترانے الاپنے کے بجائے مکالمے، برداشت اور تحمل سے کام لیں۔ان پر زمین تنگ کرنے کی بجائے ان کے ساتھ فراخ دلی سے معاملہ کریں۔آخر کو ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔
چند بدقسمت ریاستیں سانپ کی طرح اپنے ہی بچوں کو نگلنے کی جبلت پر کاربند رہتی ہیں۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ بچوں کو اپنے سائے میں لینا ہے یا ۔۔۔
بدھ، 14 مارچ، 2018
مسکراتے لیڈر
فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ سول ادارے اور پولیس ان کو جان کا تحفظ دینے میں ناکام ہوئی ہے اور عسکری اداروں نے دہشت اور خوف کو قابو کر کے کامیابی کو اپنے قدم چومنے پر مجبور کیا ہوا ہے ۔ آسمان ابھی تک صاف نہیں ہے ،دہشت کے سائے اور خوف کے کالے بادل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انسانی جان کو اپنے تحفظ کا یقین نہیں ہے۔ جب انسان کی جان پر بنی ہوتو اس کی بھوک مفقود اورنیند عنقا ہو جایا کرتی ہے۔ ذائقے اور نرم بسترے بھی اسی وقت راحت بخشتے ہیں جب انسانی جان کو تحفظ دستیاب ہو۔متذکرہ علاقوں سے عسکری چھتری کو ہٹا کر حالات کا تصور کریں تو انسانی خون سڑکوں پر بہتا دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں جمہوری تسلسل کو بحال رکھنے کے لئے موجودہ سینٹ کے انتخاب کے نتائج کو دیکھیں تو ان علاقوں سے منتخب ہونے والے افراد ، ان کا کردار ، جان کی خوف کا ڈر اور جان کے تحفظ کی قیمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اوپر بیان کی گئی حالت کو اگر یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ بہت سی آسائشوں کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ حکمرانی ایسا نشہ ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لیے اپنے شہریوں کو فروخت کرنے کا ذکر ہمارے سابقہ نہ ڈرنے والے حکمران کی کتاب میں موجود ہے۔انسانوں کو عمارتوں کے اندر بند کر کے جلا دینا، جسم کو جلا دینے والے بارود سے بے ضرر بچیوں کو بھون دینا حکمرانی کے کھیل گردانے جاتے ہیں۔ دنیا میں آنکھوں پر پٹی صرف دو لوگوں کی آنکھوں پر بندھی دکھائی دیتی ہے ایک طاقت کی طمع کے حریص حکمران اور دوسرے انصاف کا میزان برابر رکھتے جج۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے حکمران کئی آنکھوں سے دیکھتا اور کئی کانوں سے سن رہا ہوتا ہے تو یہی حال جج کا ہوتا ہے کو ایک قاتل کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے کئی آنکھوں سے واقعات کو دیکھتا اور کئی کانوں سے حالات کو سنتا ہے۔
حکمرانی کو قائم رکھنے طریقے دو ہیں ایک طریقہ وہ ہے جو عمر بن خطاب نے اختیار کیا تھا مگر وہ مشکل اور کانٹوں بھری راہ ہے ۔ صرف کفار ہی اس کو اپنانے میں اپنی بقا پاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو پاکستان میں ستر سالوں سے کامیابی سے جاری و ساری ہے ۔ اس طریقہ کو اپنانے کے لیے راکٹ سائنس کا ماہر ہونا لازمی نہیں ہے ۔ سادہ سا فارمولا ہے اور فارمولا بھی ایسا کہ مساوات کے دائیں رکھو یا بائیں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ اور فارمولا یہ ہے کہ عوام کو تعلیم سے دور رکھو۔
جان کا خطرہ درٓمدی اورنیا ہے مگر کارگر ہے۔ فاٹا و بلوچستان میں ہی نہیں کراچی میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ جمہوریت کے متوالوں کو جان کی امان پا کر کرسی پر براجمان مسکراتے رہنماء مبارک ہوں ۔
اتوار، 11 مارچ، 2018
میاں رضا ربانی
گومیاں رضا ربانی نے لاہورمیں ارائیں خاندان میں ۱۹۵۳ میں انکھ کھولی تھی مگر ان کی پرورش اورتعلیم کراچی ہی میں ہوئی۔ اور انھوں نے قانون کی ڈگری جیل میں رہ کر حاصل کی۔ انھوں نے بطور وکیل پریکٹس کی مگر ان کا اصلی کام سوشلزم پر مقالہ ہے۔پیپلز پارٹی کے گہرے وفادار او ر اصولوں کے پکے رضا ربانی کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں نامزد کیا گیا تھا مگر انھوں آمر سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔بے نظیر بھٹو نے انھیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنایا اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر، وزیر مملکت ، وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کے مشیر کے عہدوں سے ہوتے ہوئے ۲۰۰۵ میں سینٹ کے بلا مقابلہ چیرمین منتخب ہوئے۔
بطور چیرمین سینت انھوں نے چیف جسٹس جمالی صاحب کو ہاوس میں بلایا اور پاکستان کے طاقتور آرمی چیف کو ہاوس میں خوش آمدید کہنے والے پہلے چیرمین سینٹ ہیں۔ انھوں نے اپنی الوداعی تقریر میں خود کو درویش بتایا۔ کرشنا کوہلی کو سینیٹر بنوانے میں اسی درویش کا ہاتھ تھاتوآغاز حقوق بلوچستان میں بھی اس درویش نے اپنا حصہ اپنے جثے سے بڑھ کر ڈالا۔ بے نظیر کے چہیتے رضا ربانی کو بلاول بھٹو زرداری ہی نہیں تمام پاکستانی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے بڑا خراج تحسین کیا ہو سکتا ہے کہ قانونی طور پر نااہل اور عوامی طور پر مقبول نواز شریف نے کہا کہ اگر میاں رضا ربانی کو ان کی پارٹی دوبارہ چیرمین کے عہدے کے لیے نامزد کرے تو وہ ان کی حمائت کریں گے ۔پاکستان کی سیاست میں ایسی عزت آج تک کسی دوسرے سیاستدان کے حصے میں نہیں آئی ہے۔ہلال امتیاز جیسا تمغہ قوم پہلے ہی ان کے گلے میں ڈال چکی ہے۔
ان کی شخصیت میں ٹھہراو، سوچ میں گہرائی، کردار کی بلندی اور صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے حکومت کے خلاف ۷۳ رولنگ پاس کرائیں مگر انفرادی عزت اور سینٹ کے وقار پر کسی کو لب کھولنے کی جرات نہ ہوئی۔۔انھوں نے کسی پر لعنت ملامت کرنے کی بجائے جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی توانیوں کو استعمال کیا۔ان پر ایران کے ساتھ خفیہ تعلقات رکھنے کا الزام نادیدہ قوتوں کی طرف سے لگایا گیا ، ان کے شیعہ ہونے پر پھبتی کسی گئی، کچھ لوگوں نے بے دین ہونے کا طعنہ دیا ، کسی نے ان کو فوج کا دشمن بتایا ۔ مگر انھوں نے پاکستان کے سب سے اونچے جمہوری ادارے میں جنرل باجوہ کا استقبال کر کے ان تما م سطحی الزامات لگانے والوں کو خاموش ہو جانے پر مجبور کر دیا۔
اپنی ماں کی تعریف کرنا عجب بات نہیں ہے مگر جب انھوں نے اپنی الوداعی تقریر میں بے نظیر بھٹو کو سیاسی ماں کہا تو ہاوس میں تالیاں بجانے والوں میں بے نظیر کے مخالفین بھی شامل تھے۔ یہ ان کی ذات کا سحر ہے جو ایوان بالا میں سر چڑھ کر بولتا رہا۔ ان کا یہ جملہ دیر تک یاد رہے گا کہ ْ کردار اور اصول باقی رہتے ہیں ْ
انھوں نے اپنا تجربہ بھی بیان کیا اور آنے والے چیرمین کو کچھ مشورے بھی دیے ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آنے والے چیرمین کو پاکستان کے چیف جسٹس سے مکالمہ کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں سیاسی شخصیات کے الوداع کے موقع پر کلمہ خیر کہنے کی ابتداء ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ازلی حریف جماعت اسلامی کے امیر نے بہرحال اس روائت کی بنیا د رکھی ہے کہ ان کے الفاظ ہیں ْ میاں رضا ربانی نے اپنے اسلوب اور بہتر کارکردگی سے سب کو متاثر کیا ہے اور پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے ْ
ان کی رخصتی صرف بطور چیرمین سینٹ ہو رہی ہے۔ ساتویں مرتبہ سینٹ کے ممبر منتخب ہونے والے , عطا ربانی ( قائد اعظم کے اے ڈی سی ) کے بیٹے ، رضا ربانی اس وقت کامیابی کا استعارہ ہیں۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)