بدھ، 25 جون، 2025

پاکستان، مشرق وسطیٰ اور عالمی امن





پاکستان، مشرق وسطیٰ اور عالمی امن 

پاکستان کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ، جو دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے، کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے پر بعض حلقوں نے بلاوجہ شور مچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی یہ نامزدگی محض کسی شخصیت کی حمایت نہیں بلکہ عالمی امن کی مسلسل کوششوں کا تسلسل ہے، جس میں سعودی عرب، چین اور پاکستان مشترکہ کردار ادا کر رہے ہیں۔
چین نے نہ صرف خطے بلکہ مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے اور امن کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی ہو یا فلسطین کے مسئلے پر بیک چینل سفارت کاری، چین، پاکستان اور سعودی عرب کی کوششیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
پاکستان نے سفارتی محاذ پر بار بار دنیا کو باور کروایا کہ جنگ اور نفرت کی سیاست کے بجائے امن، محبت اور ترقی کی راہ اپنائی جائے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں مشرق وسطیٰ میں جو مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں، ان میں چین کی سفارت کاری اور پاکستان کی قائل کرنے کی صلاحیت کا نمایاں حصہ ہے۔
اگر اسرائیل، عالمی دباؤ اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں غزہ میں ظلم بند کرتا ہے، فلسطینیوں کو بنیادی حقوق ملتے ہیں اور خطے میں مستقل امن قائم ہوتا ہے تو اس کا کریڈٹ صرف ٹرمپ کو نہیں بلکہ محمد بن سلمان کو بھی جاتا ہے۔ دونوں نے براہِ راست اور بالواسطہ ایسے اقدامات کیے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں مستقل امن کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
دنیا میں اب واضح تقسیم ہے۔ ایک طرف جنگ، نفرت اور توسیع پسندی کی سوچ رکھنے والے عناصر ہیں، دوسری طرف چین، پاکستان، سعودی عرب اور دیگر امن پسند ممالک ہیں جو دنیا کو ترقی، استحکام اور انسان دوستی کی راہ پر لانا چاہتے ہیں۔
اگر عالمی برادری نے بروقت درست فیصلے نہ کیے تو اسرائیل اور بھارت جیسے انتہا پسندانہ پالیسیاں رکھنے والے ممالک دنیا کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلیں گے۔ لیکن اگر امن کی کوششیں کامیاب ہوئیں تو نوبل امن انعام صرف ایک شخص نہیں بلکہ اُن تمام قوتوں کا حق ہے جنہوں نے نفرت کی جگہ محبت اور جنگ کی جگہ مذاکرات کو ترجیح دی۔


خامنہ ای کو اندہ نہیں رہنے دین گے




خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے، مگر اس بار حالات کا رخ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایران، جو ہمیشہ سے اپنی خودمختاری اور عزتِ نفس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتا، ایک بار پھر دنیا کو اپنی طاقت کا احساس دلانے میں کامیاب ہوا ہے۔
چند روز قبل ایران نے قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے کو میزائلوں کا نشانہ بنایا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق، ان حملوں میں تین میزائل انتہائی اہم اہداف پر لگے، جن کے نتیجے میں امریکہ کے بڑے اثاثے تباہ ہوئے۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، مگر امریکہ کی دفاعی طاقت اور اثاثوں کو جو دھچکا پہنچا، اس نے واشنگٹن کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
اس تمام صورتحال کے پیچھے اسرائیل کی اشتعال انگیزی اور نیتن یاہو کی جنگ پسندی سب کے سامنے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل نے قیام کے دن سے اب تک اپنے ہی مانے ہوئے 78 سے زائد جنگ بندی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو آج بھی خطے کو خون میں نہلا رہی ہے۔ نیتن یاہو نہ صرف فلسطین بلکہ ایران میں بھی بدامنی اور بغاوت کی سازشیں کررہا ہے۔
تہران میں اس نے اس جیل کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، جہاں حکومت مخالف افراد قید ہیں، تاکہ ایران کو اندر سے کمزور کیا جائے۔ خوش قسمتی سے یہ سازش ناکام رہی۔ نیتن یاہو کا اصل مقصد ایران میں "رجیم چینج" کی راہ ہموار کرنا ہے، تاکہ اسرائیل کی اجارہ داری قائم رہے۔
گزشتہ دنوں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا سربراہ مارا گیا، جس نے نیتن یاہو کو مزید بے چین کردیا ہے۔ اس کا غصہ اب کھلم کھلا امن معاہدوں کو توڑنے اور خطے میں جنگ کا بازار گرم رکھنے پر مرکوز ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس صورتحال پر ایران اور اسرائیل دونوں کو تنبیہ کی ہے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اسرائیل سے زیادہ ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔
ادھر غزہ میں انسانی المیہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ساٹھ افراد شہید ہو چکے ہیں، مگر اس سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تین لاکھ اسی ہزار لاپتہ افراد کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ غزہ اس وقت جدید کربلا کا منظر پیش کررہا ہے۔ پانی، خوراک اور ادویات غزہ کی سرحدوں کے باہر موجود ہیں، مگر اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کو بھوک اور پیاس سے مارنے کی ٹھان رکھی ہے۔
ایران کے سابق بادشاہ کے وارث رضا پہلوی اس وقت اسرائیل میں پناہ لیے بیٹھے ہیں اور ایران میں اقتدار کا خواب دیکھ رہے ہیں، مگر ایران کی عوام اور اس کی افواج نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ بیرونی سازشوں کے آگے جھکنے والے نہیں۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع نے بھی اس کشیدہ صورتحال میں امن کی امید جگاتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ رکنے کا امکان پیدا ہو رہا ہے۔ مگر جب تک نیتن یاہو جیسی سوچ خطے میں موجود ہے، امن محض ایک نعرہ ہی رہے گا۔
ایران نے ایک بار پھر دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ نہ صرف دشمنوں کے وار سہنے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ بروقت اور مؤثر جواب دینا بھی جانتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل اور نیتن یاہو کی امن دشمن سوچ پورے خطے کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کی دوغلی پالیسیوں اور مسلسل معاہدہ شکنی کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔


منگل، 24 جون، 2025

طلم کی گلیمرائیزیشن




دنیا میں مظلومیت کو کیمرے کی آنکھ سے خوبصورت دکھانے کا فن آج کی سب سے بڑی منافقت بن چکا ہے، اور اگر اس کی سب سے تکلیف دہ مثال تلاش کی جائے تو وہ فلسطین ہے۔ غزہ کی گلیوں میں بکھری لاشیں، ملبے تلے دبی مائیں، چیختے بلکتے بچے اور بمباری میں اجڑتے گھر — یہ سب کچھ اب عالمی میڈیا کے لیے محض فوٹیج کا مواد ہے۔ خون میں لت پت جسموں کو خبری شہ سرخی بنایا جاتا ہے، بچوں کی چیخیں بریکنگ نیوز میں سجائی جاتی ہیں، اور شہداء کی جنازہ گاہیں لائیو کوریج کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ فلسطین میں ہونے والا ظلم اور بربادی اب عالمی ضمیر کے لیے صرف ایک تماشا ہے۔ اصل سوالات، اصل مجرم اور اصل حل کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت ہر روز غزہ کی گلیوں میں موت بانٹ رہی ہے، مگر دنیا صرف کیمروں کے زاویے تبدیل کر کے تصویریں نشر کر رہی ہے۔ عالمی تنظیمیں محض اجلاس بلاتی ہیں، قراردادیں پاس ہوتی ہیں، سیاسی رہنما بیانات دیتے ہیں، مگر زمین پر نہ بمباری رُکتی ہے، نہ مظلومیت کم ہوتی ہے، اور نہ فلسطینیوں کو انصاف ملتا ہے۔

غزہ کا ہر دن، ہر رات قیامت بن چکی ہے۔ اسپتال تباہ، اسکول ملبے کا ڈھیر، بازار کھنڈر اور بستیاں قبرستان بن گئی ہیں۔ بجلی بند، پانی ناپید، دوائیاں ختم اور خوراک تک رسائی محدود — مگر دنیا ان سب کو "دل چُھونے والی تصاویر" کہہ کر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔

فلسطینی بچے جن کی عمریں کھیلنے کی تھیں، اب وہ یا تو لاشوں میں شامل ہیں، یا خوف اور بھوک کے سائے میں زندہ ہیں۔ ماں باپ کی آنکھیں اپنے ہی بچوں کے جنازے اٹھاتے ہوئے پتھر کی ہو چکی ہیں۔ مگر عالمی میڈیا اور طاقتور ممالک کے لیے یہ سب محض جذباتی خبریں ہیں، جنہیں دکھا کر ریٹنگ بڑھائی جاتی ہے اور پھر اگلے دن نئی خبر کی تلاش میں سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔

ظلم، بربادی اور انسانی المیے کی یہ گلیمرائزیشن درحقیقت دنیا کے ضمیر کا جنازہ ہے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کو اگر صرف تصاویر، ویڈیوز اور جذباتی خبروں تک محدود رکھا گیا، تو یہ زخم کبھی نہیں بھر سکیں گے۔ جب تک دنیا، خصوصاً مسلم دنیا، مظلوم کی مدد محض بیانات سے نہیں، عملی میدان میں نہیں کرے گی، غزہ کی گلیاں خون میں نہاتی رہیں گی اور فلسطینی بچے اپنی معصوم آنکھوں سے دنیا کی منافقت دیکھتے رہیں گے۔

دنیا کی نئی کروٹ




دنیا کی حالیہ سیاست کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ محض واقعات کی ایک لڑی نہیں بلکہ ایک گہری اور شعوری تبدیلی کی داستان نظر آتی ہے۔ اس تبدیلی کی سب سے نمایاں علامت امریکہ ہے — وہی امریکہ، جو کبھی دنیا کا واحد سپر پاور کہلاتا تھا، اب تنہا ہوتا جا رہا ہے اور اس کی عالمی ساکھ تماشا بن چکی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی سفارتی سمت گویا اُلٹ گئی۔ انتخابی مہم میں جو لب و لہجہ اور غیر روایتی طرزِ عمل دنیا نے دیکھا، وہ اقتدار میں آنے کے بعد عملی پالیسیوں میں بھی نمایاں رہا۔ ٹرمپ نے پہلا وار اپنے قریبی پڑوسیوں پر کیا۔ میکسیکو کے ساتھ دیوار کا منصوبہ، کینیڈا کے ساتھ تجارتی معاملات میں سخت گیری، اور شمالی امریکہ کی سیاسی فضا میں تناؤ نے واضح کر دیا کہ 'سب سے پہلے امریکہ' کی پالیسی کا مطلب 'سب کے خلاف امریکہ' بننے جا رہا ہے۔

پھر یورپ کی باری آئی۔ نیٹو جیسے دہائیوں پرانے اتحاد پر کھلے عام تنقید، یورپی ممالک کو 'مفت خور' کہہ کر پکارنا، اور یوکرین جنگ کے معاملے پر غیر سنجیدہ اور متضاد بیانات نے یورپی قیادت کو سخت اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ جرمنی، فرانس اور دیگر اتحادی امریکہ کی قیادت پر نہ صرف شکوک کا شکار ہوئے بلکہ بظاہر پہلی بار کھل کر واشنگٹن کی پالیسیوں سے فاصلہ اختیار کرنے لگے۔

ٹرمپ نے محض فوجی یا سیاسی محاذ پر نہیں بلکہ تجارتی میدان میں بھی دشمن بنائے۔ ٹیرف کی شکل میں چین سے تجارتی جنگ کا آغاز، یورپ، ترکی، حتیٰ کہ اپنے اتحادی جاپان تک کو نشانہ بنایا گیا۔ عالمی معیشت میں بے یقینی کی لہر دوڑی، اسٹاک مارکیٹس لرز گئیں، اور عالمی اداروں نے کھلے عام متنبہ کرنا شروع کر دیا کہ دنیا کس خطرناک معاشی راہ پر چل نکلی ہے۔

سب سے زیادہ ڈرامائی صورتحال مشرقِ وسطیٰ میں دیکھنے کو ملی۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کیا، پھر اس کی طرف دوستی کا اشارہ دیا، ساتھ ہی سخت پابندیاں لگائیں۔ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ خطے میں جارحیت کرے۔ یہاں تک کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ میں امریکہ نے اتنے یوٹرن لیے کہ خود مذاق بن گیا۔ کبھی جنگ کی دھمکیاں، کبھی امن کی باتیں، کبھی حملے کی تیاریاں، کبھی مذاکرات کی پیشکش۔ دنیا نے دیکھا کہ واشنگٹن اب کوئی باوقار اور مستحکم قیادت نہیں رہا، بلکہ ایک الجھا ہوا، متضاد اور ناقابلِ پیشگوئی کردار بن چکا ہے۔

اس سب کے نتیجے میں امریکہ کی وہ عالمی ساکھ، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد بنی تھی، ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔ روس، چین، ترکی، ایران، لاطینی امریکہ، افریقی یونین، حتیٰ کہ یورپی یونین میں بھی امریکہ مخالف جذبات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ آج اسرائیل اور بھارت کے علاوہ کوئی بڑا ملک ایسا نہیں جو کھل کر امریکہ کی اخلاقی حمایت پر آمادہ ہو۔

اب امریکہ نے تمام اخلاقی جواز پسِ پشت ڈال کر ایران پر براہِ راست حملہ کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ محض ایک اتفاق ہے؟ کیا دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقت کی قیادت واقعی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آ سکتی ہے جو مسخرہ، مکار اور ناعاقبت اندیش ہو؟

یہاں ایک گہری حکمت اور قدرت کی چال چھپی نظر آتی ہے۔ میرے اللہ کا کھلا اعلان ہے کہ "سب سے بہتر چال چلنے والا وہی ہے۔" (القرآن)

چین کے صدر شی جن پنگ کی وہ مشہور بات یاد رکھنی چاہیے کہ:
"دنیا امریکہ کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔"

اور آج حالات بتا رہے ہیں کہ دنیا واقعی اس سمت بڑھ رہی ہے۔ روس اور چین کی قیادت میں برِکس اتحاد مضبوط ہو رہا ہے، ڈالر کی بالادستی کو چیلنج کیا جا رہا ہے، نئی تجارتی راہیں، متبادل سفارتی پلیٹ فارمز اور سٹریٹیجک معاہدے ہو رہے ہیں۔

یہ وقت صرف تماشائی بن کر دیکھنے کا نہیں بلکہ اپنی پالیسی، سمت اور صف بندی درست کرنے کا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کو ہوش کے ساتھ اپنی جگہ بنانی ہوگی۔ دنیا ایک نئے عالمی نظام کی دہلیز پر کھڑی ہے — اور شاید یہ وہی وقت ہے جس کی خبر قرآن اور دانشمندوں نے دی تھی کہ طاقت اور قیادت ہمیشہ ایک ہاتھ میں نہیں رہتی۔


پیر، 23 جون، 2025

ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی



ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی

ڈونلڈ ٹرمپ جب دوسری بار امریکی صدارتی دوڑ میں کامیاب ہوا تو اس نے امریکی عوام کو امید دلا کر ووٹ لیے کہ اب امریکہ دنیا میں امن کا علمبردار بنے گا، امریکی فوج کو لاحاصل جنگوں سے نکالا جائے گا، اور معاشی خوشحالی کا راستہ کھلے گا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی طاقت کو صرف امریکہ کی سرحدوں تک محدود رکھے گا اور غیر ملکی مداخلتوں کا سلسلہ ختم ہوگا۔

لیکن اقتدار سنبھالتے ہی جو منظر دنیا نے دیکھا، اس نے ثابت کر دیا کہ ٹرمپ نہ امن کا پیامبر ہے اور نہ کوئی اصولی سیاستدان بلکہ وہ بھی صیہونی اسلحہ سازوں اور اسرائیلی مفادات کے ہاتھوں میں کھیلنے والا ایک اور مہرہ ہے۔

دنیا کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے سب سے پہلے اس نے معاشرے کے سب سے کمزور طبقے، غیر قانونی تارکین وطن کو نشانہ بنایا۔ امریکہ میں لاکھوں خاندانوں کو تقسیم کیا گیا، بچوں کو والدین سے جدا کر کے حراستی کیمپوں میں ڈال دیا گیا، اور یہ باور کرایا گیا کہ دنیا کی واحد سپر پاور اگر چاہے تو نہتے، بے بس اور کمزور لوگوں کو روند کر اپنی برتری ثابت کر سکتی ہے۔

لیکن طاقت کا مظاہرہ صرف اتنا کافی نہیں تھا۔ فلسطین میں، امریکہ کے اسلحے، مالی امداد اور سیاسی پشت پناہی سے اسرائیل نے عورتوں اور بچوں کو محصور کر کے غزہ کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ خاموش رہا بلکہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی ویٹو پاور کا بے دریغ استعمال کرتا رہا۔

پھر باری آئی کمزور ریاستوں کی۔ یمن، صومالیہ، عراق اور شام کو پراکسی جنگوں کے ذریعے کمزور کیا گیا۔ کہیں امریکہ براہِ راست حملہ آور ہوا، کہیں اسرائیل اور اس کے دوسرے اتحادیوں کو آگے بڑھایا گیا۔ ہر جگہ خون، بارود اور تباہی نے یہ پیغام دیا کہ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی تباہ کن قوت ہے۔

روس جیسی بڑی فوجی طاقت کے خلاف بھی امریکہ نے سازشوں کا دائرہ بڑھایا۔ یوکرین کی جنگ میں نیٹو اور امریکی مداخلت نے روس کو اشتعال دلایا اور یہاں تک نوبت آئی کہ روس کے اندر ہوائی اڈوں پر کھڑے جنگی طیارے تباہ کیے گئے۔ امریکہ نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ دشمن کے گھر کے اندر گھس کر مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن اس بار اسرائیل اور امریکہ نے جنگی تھیٹر میں بھارت کو شامل کیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی شدت بڑھائی اور پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا کر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستان نے نہ صرف سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھارت کو جواب دیا بلکہ عسکری سطح پر بھی بھارت کی جارحیت کو ناکام بنا دیا۔ یوں بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ چال ناکام ہوئی اور پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور امریکی سازشوں کے باوجود اس کی سرحدیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔

جب ایران پر اسرائیل نے حملہ کر کے اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا تو ایران نے نہایت محتاط انداز میں جواب دیا۔ اسرائیل پر میزائل برسے اور امریکہ کو اندازہ ہوا کہ ایران کوئی عام ملک نہیں، نہ اسے لبنان یا شام سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا تو امریکہ کے پاس جنگ بندی کا ڈھونگ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔ یوں دنیا کو بتایا گیا کہ جنگ ختم ہو گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف وقتی خاموشی ہے۔

شام میں ایک نئی چال چلی گئی۔ اسرائیل کی شہہ پر ایک مسیحی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مذہبی بنیاد پر شام میں نئی خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ فی الحال اس واقعے کو میڈیا سے چھپا لیا گیا ہے لیکن ہر ذی شعور جانتا ہے کہ شام کی سرزمین کو امریکہ اور اسرائیل جب چاہیں جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔

ٹرمپ، جو اپنے آپ کو امن کا سفیر کہتا تھا، آج ثابت کر چکا ہے کہ وہ درحقیقت اسرائیل کے اشاروں پر چلنے والا ایسا جوکر ہے جو ہر گھنٹے بعد اپنا بیان بدلتا ہے، جو وعدے کرتا ہے مگر ان پر کبھی عمل نہیں کرتا۔ نیتن یاہو جیسے بچوں کے قاتل اور انسانیت کے دشمن کی کٹھ پتلی بن کر، ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگا دیا ہے۔

اقوام عالم کے سامنے دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے صدر کی شخصیت کا پول کھل چکا ہے ۔ کیا امریکی عوام کو بھی یہ ادراک ہو گیا ہے کہ ان کا نمائندہ امریکہ کے صدر کی بجائے ، نیتن یاہوجیسے جنگی مجرم کی کٹھ پتلی کا کرادار ادا کر رہا ہے ۔