زمین پر جنت کی نشانیاں
دلپزیر احمد جنجوعہ
انسان ہمیشہ سے جنت کے تصور میں گم رہا ہے۔ کبھی اس کی جستجو میں، کبھی اس کی تمنا میں، اور کبھی اس کے خواب آنکھوں میں سجا کر۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جنت کی چند نشانیاں تو رب نے ہماری اس زمین پر بھی بھیج دی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انہیں پہچانیں اور ان کی قدر کریں۔
اسلامی روایات اور احادیث میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بعض چیزیں جنت سے اس زمین پر نازل کی گئیں، جو آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ یہ چیزیں نہ صرف اللہ کی عظمت کی نشانیاں ہیں بلکہ ہمیں جنت کی یاد دلاتی ہیں اور اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ جنت کوئی خیالی تصور نہیں بلکہ ایک حقیقی مقام ہے۔
سب سے نمایاں نشانی حجرِ اسود ہے، جو خانہ کعبہ میں نصب ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت کے مطابق، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حجرِ اسود جنت سے نازل ہوا تھا اور ابتدا میں وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، مگر انسانوں کے گناہوں نے اُسے کالا کر دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک پتھر پر انسان کے گناہوں کا اثر اتنا گہرا ہو سکتا ہے، تو انسان خود گناہوں میں ڈوبا ہو تو اس کی حالت کیا ہوگی؟
دوسری بڑی نشانی کھجور کا درخت ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے مسلمان کی مثال قرار دیا۔ کہا جاتا ہے کہ کھجور حضرت آدمؑ کی مٹی کے بقیہ حصے سے پیدا ہوئی، جو جنت کی مٹی تھی۔ اس درخت کی پائیداری، برکت اور ہر موسم میں فائدہ دینا، سب کچھ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ایک سچا مومن بھی معاشرے میں اسی طرح فائدہ مند اور مستقل مزاج ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر آیا ہے، جو ساتویں آسمان پر موجود ہے۔ اگرچہ زمین پر موجود بیری کے درخت کو براہِ راست جنت سے نازل ہونے والی چیز کہنا درست نہیں، لیکن اس کی نسبت ضرور جنت کی اس عظیم الشان نشانی کی طرف کی جاتی ہے۔
اسی طرح دنیا میں موجود مشک کی خوشبو کو جنت کی خوشبو سے مشابہت دی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنتی انسانوں کا پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہوگا۔ یوں دنیا کی یہ خوشبو جنت کی یاد دلاتی ہے۔
حضرت آدمؑ اور حضرت حواءؓ کی زمین پر آمد بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی اصل ابتدا جنت سے ہوئی۔ اگر انسان اپنی اصل کو نہ بھولے تو وہ زمین پر رہ کر بھی جنت کے حصول کی تیاری کرتا رہے گا۔
آبِ زمزم، جسے دنیا کا بہترین پانی قرار دیا گیا، جنت کا پانی تو نہیں لیکن اس کی برکت اور اس میں شفا کی خاصیت ہمیں جنت کی نعمتوں کی یاد دلاتی ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں جنت کے پھلوں — جیسے انار، کھجور، انگور — کا ذکر موجود ہے، اور ان پھلوں کی موجودگی زمین پر جنت کی یادگار ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ان نشانیوں کے درمیان رہتے ہیں، مگر اکثر ان کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ حجرِ اسود کو دیکھ کر دل میں توبہ کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، کھجور کھاتے وقت ہمیں جنت کی تمنا یاد نہیں آتی، آبِ زمزم پیتے ہوئے شفا کا یقین کمزور ہو چکا ہے۔
یہ کائنات رب کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے، بس آنکھِ بینا کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں اور نشانیوں کی قدر کریں، ان سے سبق لیں، تو زمین پر رہتے ہوئے جنت کا راستہ ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔
اختتام اس دعا کے ساتھ
اللہ ہمیں جنت کی ان نشانیوں کو پہچاننے، ان کی قدر کرنے اور جنت کے حقیقی حقدار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں