جمعرات، 31 جولائی، 2025

قید میں سسکتی انسانیت



قید میں سسکتی انسانیت
کبھی سوچا ہے، وہ قیدی کیسا جیتا ہو گا جس پر کوئی مقدمہ نہیں؟
وہ بچہ کیسا سوتا ہو گا جو صرف احتجاج کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا ہو؟
وہ ماں کیسی تڑپتی ہو گی جس کا بیٹا برسوں سے کسی اذیت گاہ میں لاپتہ ہے؟
اگر آپ نے کبھی یہ سوال نہیں سوچے، تو شاید آپ بھی اس دنیا کی اس خاموش اکثریت میں شامل ہیں جو ظلم دیکھتی ہے، مگر آنکھیں پھیر لیتی ہے۔
آج اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی انسان صرف قیدی نہیں، وہ مظلوم انسانیت کی زندہ مثالیں ہیں — مگر افسوس، دنیا کے کانوں تک ان کی چیخیں نہیں پہنچتیں۔
جولائی 2025 تک اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 11,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں شامل ہیں:
350 سے زائد بچے 21 خواتین اور 3,400 سے زیادہ قیدی جنہیں بغیر فردِ جرم یا عدالتی کارروائی کے صرف شک کی بنیاد پر میں رکھا گیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر نہ الزام ثابت ہوا، نہ مقدمہ چلا، نہ رہائی ملی — بس قید ہے، اندھی قید۔
انتظامی حراست کا مطلب ہے کسی کو بغیر مقدمے کے، صرف خفیہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر جیل میں ڈال دینا۔ اس قانون کا سہارا لے کر اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کو برسوں تک جیل میں بند رکھتا ہے، بغیر کسی عدالت، وکیل یا صفائی کے حق کے۔
یہ انصاف کا نہیں، انصاف کے نام پر استبداد کا بدترین نمونہ ہے۔
اکتوبر 2023 سے جون 2025 تک 73 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جو بیمار تھے، مگر انہیں دوا نہ ملی۔
کئی وہ تھے جنہوں نے بھوک ہڑتال کی — مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔
خضر عدنان نے 87 دن بھوک ہڑتال کی، انصاف مانگا — جواب میں اسرائیل نے انہیں موت دے دی۔
یہ وہ موت ہے جو خاموش ہوتی ہے، مگر اندر سے پوری انسانیت کو کھا جاتی ہے۔
جنوبی اسرائیل کا Sde Teiman کیمپ قیدیوں کے لیے جیل نہیں، اذیت گاہ ہے۔ وہاں قیدیوں کو:
برہنہ کر کے جانوروں کی طرح باندھا جاتا ہے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے
کھانے کے بجائے گالیاں دی جاتی ہیں اور انسان کے بجائے صرف ایک سیریل نمبر سمجھا جاتا ہے یہ کیمپ انسانیت کے چہرے پر وہ داغ ہے جو شاید صدیوں تک نہ مٹے۔
اسرائیلی جیلوں میں اس وقت 350 سے زائد بچے قید ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے نہ بندوق چھوئی، نہ بم دیکھا — ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ فلسطینی ہیں۔
انہیں تنہائی میں رکھا جاتا ہے والدین سے ملاقات کا حق چھین لیا جاتا ہے
اور ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ وہ بچپن ہے جو قید میں جوان ہو رہا ہے، اور شاید قید میں ہی دفن ہو جائے۔
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی میڈیا — سب کو علم ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں کیا ہو رہا ہے۔لیکن سب خاموش ہیں۔ کیوں؟
کیوں کہ اسرائیل ایک طاقتور ریاست ہے۔
کیوں کہ مظلوم کا نام "فلسطینی" ہے۔
کیوں کہ دنیا کے ضمیر پر سیاسی مصلحتوں کی دبیز چادر پڑ چکی ہے۔
اتنا بھی نہیں کہا جاتاکہ
اگر قیدی مجرم ہیں، تو مقدمہ کیوں نہیں؟
اگر بے گناہ ہیں، تو رہا کیوں نہیں؟
اور اگر انسان ہیں، تو انسانوں جیسا سلوک کیوں نہیں؟
فلسطینی قیدیوں کی حالت دیکھ کر جو سب سے زیادہ اذیت ناک چیز محسوس ہوتی ہے، وہ قید نہیں — بلکہ دنیا کی خاموشی ہے۔
یہ وہ خاموشی ہے جو ظالم کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور مظلوم کی آواز دبا دیتی ہے۔
قید اگر جسم کی ہو تو روح آزاد رہتی ہے، مگر جب ضمیر قید ہو جائے، تو پوری انسانیت مر جاتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم بولیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم لکھیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم دنیا کو جھنجھوڑیں —
یہ وہی اسرائیلی ہیں جو ہٹلر کے یہودیوں پر ڈھائے گئے ظلم کے نام پر دنیا بھر سے ہمدردی سیٹتے ہیں مگر ان کا خود کا کردار ہٹلر کے کردار سے بڑھ کر ظالمانہ ہے ۔ فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، بھوک ، اذیت اورطلم ہے مگر اج کا مہذب انسان سب دیکھ کر بھی ،سن کر، پڑھ کر بھی خا،وش ہے کیا یہ خاموشی طلم نہیں

کوئی تبصرے نہیں: