کمزور ہوتا دل…
کبھی دل کی کمزوری بڑھاپے کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ وقت گزرتا، جسم تھکتا، زندگی کے سفر میں الجھتے الجھتے انسان کی سانسیں مدھم ہوتیں اور پھر کہیں جا کر دل جواب دیتا تھا۔ مگر اب منظر نامہ بدل چکا ہے۔
آج وہ دن ہیں کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے لڑکے، خوابوں کی وادیوں میں اڑان بھرنے والی لڑکیاں… اچانک دل تھامے گر رہے ہیں۔ کبھی کھیل کے میدان میں، کبھی دفتر کی کرسی پر اور کبھی راہ چلتے زندگی کا دھاگہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں… اور پھر خاموشی سے حیرت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔
کیا واقعی یہ حیرت کی بات ہے؟
یا یہ سب ہماری اپنی بے احتیاطیوں، غفلتوں اور ترجیحات کا نتیجہ ہے؟
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں:
نیند کا وہ سکون جو فطرت نے ہماری تھکن اتارنے کے لیے عطا کیا تھا، ہم نے اسے موبائل کی روشنی اور بے حساب اسکرین ٹائم کی نذر کر دیا۔
جو خوراک ہمیں صحت دے سکتی تھی، ہم نے اسے زہریلے مصالحوں، فاسٹ فوڈ اور بازاری ذائقوں میں ڈبو دیا۔
ذہن کبھی کسی الجھن سے آزاد نہیں رہتا، ہر لمحہ اضطراب، موازنہ، حسد اور غیر ضروری فکر میں الجھا رہتا ہے۔
جسم… جو محنت اور مشقت چاہتا ہے، اسے ہم نے سہل پسندی، آرام طلبی اور بے حرکتی میں گم کر دیا۔
اور دل… وہ دل جو سکون، امید اور حوصلے کا مرکز تھا، خالی خالی سا لگتا ہے، بوجھل، بیزار اور الجھا ہوا۔
ہم نے خوشیوں کی قیمت پر دکھ خریدے، سکون کی جگہ شور خریدا، اور صحت کی جگہ بیماری کو گلے لگا لیا۔
فاسٹ فوڈ جسم کو کھا رہا ہے، سگریٹ، ویپ اور نشے کی لت روح کو جھلسا رہی ہے، اور اسٹریس دل کو دباتا چلا جا رہا ہے۔
پھر تعجب کیسا کہ دل کمزور ہو گیا؟
یہ کمزوری محض طبی نہیں، روحانی اور ذہنی کمزوری کی شکل میں پورے وجود پر چھا گئی ہے۔
دل کی دھڑکنوں کو قرار، روح کو سکون اور جسم کو تازگی تب ہی مل سکتی ہے جب انسان اپنے اندر کی خالی جگہ کو اللہ کی یاد سے بھر لے۔
کیونکہ سچ یہی ہے کہ سکون، طاقت اور قرار… بازاروں میں نہیں بکتا، سکرینز میں نہیں چھپا، اور فیشن کی چمک دمک میں نہیں ملتا… یہ صرف اس ذات کی قربت میں ملتا ہے، جو انسان کی رگِ جاں سے بھی قریب ہے۔
ہمیں خود سے، اپنی زندگی سے، اپنے رب سے ایک بار پھر تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے… کیونکہ جب دل ہی کمزور پڑ جائے… تو زندگی کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں