بہشتی دروازہ
روایت کے مطابق یہ دروازہ سال میں مخصوص ایام میں کھولا جاتا ہے اور لاکھوں افراد اس دروازے سے گزرنے کے لیے دور دور سے یہاں آتے ہیں۔ صدیوں سے یہ عقیدہ عام ہے کہ جو شخص اس دروازے سے گزر جائے، اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔
یہ روایت، جو صوفی بزرگ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی نسبت سے منسوب ہے، برصغیر پاک و ہند کی صوفیانہ تاریخ اور عوامی عقائد میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دینِ اسلام میں اس نوعیت کی نجات اور مغفرت کی ایسی مخصوص 'زمینی علامت' یا 'مخصوص راستہ' کوئی شرعی بنیاد رکھتا ہے؟ اور اگر نہیں، تو ایسی روایات اور عقائد کا مقام اور دائرہ کار کیا ہونا چاہیے؟
یہ آیت ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ مغفرت ایک ذاتی روحانی کیفیت اور رب کی بارگاہ میں انکساری کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی مخصوص دروازے یا علامت کے گزرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
بلاشبہ، روحانی مقامات، بزرگانِ دین کی نسبتیں، اور صوفی روایات ہمارے معاشرتی اور روحانی ورثے کا حصہ ہیں، لیکن جب ان روایات کو دین کے بنیادی اصولوں سے بلند کر کے لازمی عقائد یا بخشش کی یقینی ضمانت بنا دیا جاتا ہے تو یہاں سوالات جنم لیتے ہیں۔
مسجد الحرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس جیسے مقدس ترین مقامات کے دروازوں میں بھی ایسی کوئی روایت یا عقیدہ موجود نہیں کہ محض ان کے نیچے سے گزرنے سے گناہ معاف ہو جائیں۔ اگر دنیا کے مقدس ترین مقامات پر ایسی سہولت موجود نہیں تو پھر صوفیانہ محبت اور عقیدت کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسی باتوں کو مذہب کے مسلمہ اصولوں کا درجہ دینا دین کی سادہ روح کے ساتھ ناانصافی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بہشتی دروازے پر ہر سال انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ ۲۰۲۱ میں پیش آنے والا سانحہ، جس میں ۲۷ افراد اپنی جان سے گئے، اس بات کی عملی مثال ہے کہ جب عقیدہ، غیر ضروری ہجوم، اور حفاظتی تدابیر کی کمی یکجا ہو جائیں تو نتیجہ المیہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
سوال پھر وہی ہے کہ دین اور روایت میں توازن کہاں ہے؟ عقیدت اور عمل میں فرق کیسے واضح کیا جائے؟ اور سب سے بڑھ کر، قوم کو کیسے یہ شعور دیا جائے کہ جنت کسی دروازے یا مخصوص رسم کا محتاج نہیں، بلکہ نیت، تقویٰ، حقوق العباد اور اللہ کی رضا کی طلب سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ بحث جذبات سے نہیں، شعور اور علم کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ عقیدت قابلِ احترام ہے، لیکن جب عقیدت عقل پر حاوی ہو جائے تو معاشرہ استحصال، جہالت اور اندھی تقلید کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں