دوہزار اٹھارہ
کا سال تھا، پاکستان تحریکِ انصاف اقتدار کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ عمران خان، جو خود کو تبدیلی کا علمبردار اور کرپشن کے خلاف سب سے بڑا سپاہی قرار دے چکے تھے، اس وقت کے اہم سیاسی رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو "پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو" قرار دے رہے تھے۔ اسی تسلسل میں عمران خان نے باقاعدہ ایک درخواست قومی احتساب بیورو (نیب) اور اسٹیٹ بینک کو دی، جس میں پرویز الٰہی اور ان کے بھائی پر 240 ملین روپے کا قرض سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے معاف کروانے کا الزام تھا۔ یہ قرض پنجاب شوگر ملز کے نام پر لیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر چوہدری خاندان کی ملکیت تھی۔
عمران خان کا مؤقف بڑا واضح تھا: کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ اپنا ہو یا پرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہی "پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو" نہ صرف ان کا اتحادی بنا بلکہ پنجاب اسمبلی کا اسپیکر اور بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب بھی تحریکِ انصاف کے تعاون سے منتخب ہوا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے:
اگر پرویز الٰہی واقعی کرپشن میں ملوث تھے، تو پھر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی گئی؟
اور اگر وہ بے قصور تھے، تو پھر انہیں "ڈاکو" کیوں کہا گیا؟
یہ تضاد صرف ایک شخص یا ایک معاملے تک محدود نہیں۔ یہ اس بڑے تضاد کی علامت ہے جو عمران خان کی سیاست اور ان کے احتسابی بیانیے میں شروع سے چلا آ رہا ہے۔ احتساب کا نعرہ ایک دلکش سیاسی داؤ ضرور تھا، لیکن عمل کے میدان میں وہ نعرہ کہیں پیچھے رہ گیا۔
عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد جس احتساب کی امید عوام کو دلائی گئی تھی، وہ جلد ہی سیاسی جوڑ توڑ، مفادات اور وقتی اتحادوں کی نذر ہو گئی۔ وہی لوگ جو کل تک کرپشن کی علامت تھے، آج حکومت کا حصہ بنے نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں یہ تاثر گہرا ہوتا گیا کہ عمران خان کا احتسابی بیانیہ دراصل ایک سیاسی ہتھیار تھا — اصولی مؤقف نہیں۔
پرویز الٰہی کیس صرف ایک مثال ہے، لیکن یہ مثال ایک بہت بڑی سچائی کی نشاندہی کرتی ہے:
"نعرے ہمیشہ اصولوں پر نہیں، بلکہ وقتی فائدوں پر لگائے جاتے ہیں۔"
عمران خان کے احتسابی بیانیے نے اس ملک کے نوجوانوں کو خواب دکھائے، لیکن جب خواب حقیقت سے ٹکرائے، تو سچ یہ سامنے آیا کہ احتساب صرف ایک سیاسی نعرہ تھا — نہ کوئی مکمل احتساب ہوا، نہ کسی بڑے مافیا کو انجام تک پہنچایا گیا۔
عمران خان اگر واقعی احتساب کو اصول بناتے، تو پرویز الٰہی جیسے کردار کبھی اقتدار کے سنگھاسن پر نہ بیٹھتے۔ مگر افسوس، تبدیلی کے نعرے صرف جلسوں تک محدود رہے اور عملی سیاست میں وہی پرانے چہرے، وہی پرانے کھیل جاری رہے۔
عوام اب سوال پوچھ رہے ہیں:
کیا احتساب صرف سیاسی مخالفین کے لیے ہوتا ہے؟
کیا اتحادیوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں؟
کیا "نیا پاکستان" محض ایک خواب تھا؟
وقت گواہ ہے کہ جو لوگ احتساب کی بات کرتے ہیں، ان کے عمل ہی اصل گواہی ہوتے ہیں۔
اور بدقسمتی سے عمران خان کے عمل نے خود ان کے نعرے کی نفی کی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں