کیا اسرائیل امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟
دنیا کی سیاسی بساط پر اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ضرور ہے، مگر عالمی طاقتوں کی سرپرستی نے اسے اتنی اہمیت اور تحفظ دے رکھا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ناقابلِ نظرانداز حقیقت بن چکا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ اور یورپی ممالک اپنی سیاسی، عسکری اور معاشی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں تو کیا اسرائیل اپنا وجود، طاقت اور اثرورسوخ برقرار رکھ سکے گا؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ہی مغربی طاقتوں کی سرپرستی سے رکھی گئی تھی۔ 1917 میں برطانوی بالفور اعلامیہ اور 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 مغربی حمایت کی واضح مثالیں ہیں۔ آج بھی، اسرائیل کی سلامتی اور ترقی میں امریکہ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ اب تک امریکہ اسرائیل کو مختلف شکلوں میں 150 billion ڈالر سے زائد کی امداد دے چکا ہے، جس میں عسکری، اقتصادی اور تکنیکی تعاون شامل ہے۔
یورپی ممالک اگرچہ دفاعی میدان میں امریکہ جتنے سرگرم نہیں، مگر اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی منڈی یورپ ہی ہے۔ EU-Israel Association Agreement کے تحت اسرائیلی مصنوعات کو یورپ میں خصوصی رسائی حاصل ہے، جبکہ امریکہ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں کی بدولت اسرائیل کی معیشت مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔
لیکن اسرائیل کی کامیابی صرف مغربی مدد پر نہیں بلکہ اس کی اپنی اندرونی صلاحیتوں پر بھی ہے۔ اسرائیل کو "Start-Up Nation" کہا جاتا ہے، اس کی ٹیکنالوجی، زراعت اور دفاعی صنعت دنیا میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ آئرن ڈوم میزائل سسٹم اور مرکاوہ ٹینک اس کی دفاعی خود انحصاری کی علامت ہیں، مگر ان کی تیاری اور ترقی میں بھی امریکہ کی مالی اور تکنیکی مدد شامل ہے۔ امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 billion ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے، جس کے بغیر اسرائیل کی دفاعی برتری قائم رکھنا ممکن نہیں۔
سفارتی سطح پر اگر امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو نہ کرے تو اسرائیل کو عالمی پابندیوں، قانونی کارروائیوں اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایران، حزب اللہ اور حماس جیسے دشمن پہلے ہی اسرائیل کی کمزوری کی تاک میں ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد اسرائیل کے لیے ڈھال کا کام دیتی ہے۔
اسرائیل کے پاس مبینہ طور پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اس کی معیشت مستحکم ہے، فی کس آمدنی کئی مغربی ممالک کے برابر ہے، اور اس کی فوج تجربہ کار اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ مغربی ممالک کی مدد کے بغیر برقرار رکھا جا سکتا ہے؟
ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مغربی ممالک کی حمایت ختم ہونے کی صورت میں اسرائیل کو سخت چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ اسرائیل کی برآمدات متاثر ہوں گی، غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو جائے گی، عسکری برتری خطرے میں پڑ جائے گی اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں اسرائیل تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔
کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل خود کفالت کی طرف بڑھ سکتا ہے، مگر اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں اور یہ راستہ آسان نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات میں اسرائیل کی معاشی، عسکری اور سفارتی طاقت بڑی حد تک امریکہ اور یورپی ممالک کی مرہونِ منت ہے۔
لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل اپنی بقا کی جنگ خود ضرور لڑ سکتا ہے، مگر کامیابی، سلامتی اور عالمی اثرورسوخ کے لیے اسے امریکہ اور یورپی ممالک کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ اسرائیل کی اصل طاقت اس کے ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ واشنگٹن اور برسلز کی سیاسی حمایت ہے، اور یہ حمایت ختم ہوتے ہی اسرائیل کو اپنی بقاء کے سوال کا عملی جواب ڈھونڈنا پڑے گا۔
اسرائیل اگرچہ عسکری اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط نظر آتا ہے، مگر امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد کے بغیر
اس کی عالمی حیثیت، سلامتی اور ترقی کا موجودہ نقشہ برقرار رکھنا ممکن نہیں۔
صرف ایران ہی اسے چند ہفتوں میں دنیا کے نقشے سے مٹا دینے کیا اہلیت رکھتا ہے
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں