جمعرات، 5 جون، 2025

Field Marsha Asim Munir



 In a landmark decision that will be remembered in Pakistan’s military and political history for years to come, General Asim Munir has been promoted to the highest military rank of Field Marshal—a rare and symbolic honor. The move was initiated by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif, approved by the federal cabinet, and formally endorsed by the President of Pakistan, Asif Ali Zardari. This unanimous act of state reflects a powerful message of unity, national pride, and deep appreciation for military leadership.

The entire country witnessed this moment with respect and admiration. The Pakistan Army celebrated the promotion as a symbol of continuity, strength, and stability. Among civilians, the sentiment was no different—streets, homes, and digital spaces echoed with pride as people recognized the elevation of a General who has never shied away from duty or sacrifice.

Field Marshal Asim Munir, known for his calm yet resolute demeanor, did not take the occasion as a personal victory. In a humble and deeply touching statement, he said, "This promotion is not for me, but an appreciation of the sacrifices made by our military and civilian martyrs." He further declared, "A thousand Asims will sacrifice for Pakistan," a statement that has since captured the hearts of millions. These words carry the power of inspiration—reminding every soldier and citizen that the spirit of sacrifice and love for the motherland is eternal.

In recent years, Pakistan has faced multiple regional and global challenges. Whether it is the looming threat from across the eastern border or international diplomatic pressure, Field Marshal Asim Munir has stood his ground with dignity and resolve. His ability to take timely, bold decisions and stay at the war front alongside his troops has not gone unnoticed.

Where many choose to lead from behind, he chose to lead from the front, showing the courage and confidence of a true commander. His Command  has sent a strong message to adversaries: Pakistan may face a force ten times larger, but it will never bend, never break.

In Field Marshal Asim Munir, the nation sees the return of something it had long yearned for: a man who speaks clearly, acts decisively, and embodies the will of the people and the soldier alike. His rise is not just a military promotion—it is a revival of faith in leadership, strategy, and national defense.

His words have stirred the soul of a nation, his actions have strengthened the resolve of the armed forces, and his presence has reminded the Muslim world what it looks like when a general stands with unwavering will and a clean heart.

This historic promotion has not only strengthened the morale of the military but also brought a renewed sense of unity and confidence to the people. For the first time in years, Pakistanis across the board feel that the state has recognized a General who leads with vision and loyalty, not for personal gain but for the cause of the nation.

At this proud moment, the people of Pakistan salute this decision taken by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif and President Asif Ali Zardari. Their act has not only strengthened the institution of the Army but also demonstrated the power of democracy working in harmony with national defense.

: بھارت – ایک ابھرتی ہوئی دہشت گرد ریاست

خصی بکرا، آنڈو بکرا




ایک روز گاؤں کے اسکول میں شاگرد نے استاد سے بڑا سنجیدہ سوال پوچھ لیا:
"استاد جی، خصی بکرا اور آنڈو بکرے میں کیا فرق ہوتا ہے؟"

استاد نے مونچھوں کو تاؤ دیا، گلا کھنکارا اور ایسا جواب دیا کہ پورا گاؤں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا:
"وہی فرق ہوتا ہے جو آپریشن سندور سے پہلے اور بعد والے نریندرا مودی میں ہے!"

یہ بات سنتے ہی شاگرد کی آنکھیں پھیل گئیں، جیسے گویا پہلا فلسفیانہ نکتہ سمجھ آیا ہو۔
استاد نے بات آگے بڑھائی:
"بیٹا، جیسے گاؤں میں بکرے کو خصی کرنے والے ماہر قصائی ہوتے ہیں، ویسے ہی دنیا کے بڑے ملکوں کے وزیراعظموں کو خصی کرنے والے عالمی سیاست کے قصائی یعنی سپر پاورز ہوتے ہیں۔"

اب ذرا مودی بابا کی سن لیجیے۔ کبھی آنکھوں میں آگ، ہاتھ میں ڈنڈا، اور زبان پر "دیش بچاؤ" کا نعرہ لیے دندناتے پھرتے تھے۔ پھر اچانک امریکہ جیسے طاقتور ملک کے صدر کی نگاہِ خاص پڑی۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ اصل آپریشن نیتن یاہو نے کروایا۔ مودی کو ہتھیار دے کر بہلایا پھسلایا، پھر کہا،
"بس اب ذرا لکڑی کے پھٹے پر لیٹ جاؤ، درد تھوڑا ہوگا، پر سٹریٹیجک پارٹنرشپ بڑھے گی۔"

بس، مودی جھٹ سرینڈر مودی بن گئے اور لکڑی کے پھٹے پر آرام سے لیٹ گئے۔
خصی ہونے کی خبر جب بھارت پہنچی تو عوام بولی:
"ہمیں تو پتا ہی نہ تھا کہ ہمارا شیربالا اتنا نرم و نازک نکلے گا۔"

اب مودی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ عوام خود کر رہی ہے۔ کبھی سوشل میڈیا پر meme، کبھی بی جے پی کے جلسے میں سوالات، اور کبھی ووٹ کا چھرا!

اب آئیے دوسرے بکرے کی طرف، جس کا نام ہے زیلنسکی۔
جی ہاں، وہی یوکرین والا اداکار، جو اچانک صدر بن گیا۔ اس کا پھٹہ تیار کرنے میں یورپی ممالک نے بڑا خلوص دکھایا۔ اسے بھی یہی کہا گیا:
"بس تھوڑا سا لیٹ جاؤ، روس کو روکنا ہے۔"

بیچارہ زیلنسکی بھی ہتھیاروں کے لالچ میں لیٹ گیا۔ مگر خصی کرنے والے جو ماہر نکلے، وہ روسی تھے!
اب حال یہ ہے کہ زیلنسکی منظر سے ہی غائب ہو چکا ہے، اور روسی آنکھیں یورپ کو دکھا رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں:
"ایک بکرا تو چلا گیا، اب تم لوگ بھی سنبھل جاؤ!"

آخر میں استاد جی نے نتیجہ اخذ کیا:
"بیٹا، بکرے آنڈو ہوں یا خصی، قصائی کی چھری سب پر چلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ بکرے سینہ تان کر قربانی دیتے ہیں، اور کچھ پُھس ہو کر بھی ڈھول بجواتے ہیں!"

واہ رے سیاست ، تیرا کمال!

بدھ، 4 جون، 2025

زندگی کی بہترین دوائیں





زندگی کی بہترین دوائیں 

صبح سویرے اٹھ جانا محض ایک عادت نہیں، بلکہ یہ ایسی دوا ہے جو روح کو تازگی اور دل کو سکون دیتی ہے۔ ہر روز باقاعدگی سے غسل کرنا صرف جسم کی صفائی نہیں بلکہ یہ ذہن کو ہلکا کرنے والی دوا ہے۔ وقت پر ناشتہ کرنا معدے کے لیے مفید تو ہے ہی، لیکن یہ دن بھر کے نظم و ضبط کی بنیاد بھی ہے۔

روزانہ تھوڑی سی ورزش، بدن کو توانائی ہی نہیں دیتی بلکہ دل و دماغ کو یکسو رکھتی ہے—یہ بھی ایک خاموش دوا ہے۔ مسکرانا، چاہے بے وجہ ہی کیوں نہ ہو، ایک ایسی دوا ہے جو نہ صرف اپنے دل کو خوش کرتی ہے بلکہ سامنے والے کے دل کو بھی نرم کر دیتی ہے۔

صبح کی سیر خالص ہوا میں سانس لینے کا ذریعہ ہے، جو دل و دماغ دونوں کو تازگی بخشتی ہے۔ گھر کے سکون بھرے ماحول میں اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا، ایک ایسی دوا ہے جو رشتوں کو مضبوط کرتی ہے۔

گہری اور پُرسکون نیند وہ دوا ہے جو کسی قیمتی نسخے سے کم نہیں۔ خاموشی، جب بے وجہ شور سے دامن بچایا جائے، تو وہ دوا بن جاتی ہے جو انسان کو اندر سے سنوارتی ہے۔

اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی بات سننا، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا، دل کی وہ دوا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کسی کی مدد کر دینا، چاہے وہ چھوٹا سا کام ہو، انسان کے اندر ایک روشنی پیدا کرتا ہے۔

اچھا اخلاق، نرمی، برداشت، اور خوش اخلاقی—یہ سب ایسی دوائیں ہیں جو انسان کو محبوب بناتی ہیں۔ اور دوستوں سے رابطہ میں رہنا، ان کی خیریت معلوم کرتے رہنا، ایک ایسا تعلق ہے جو دل کو صحت مند رکھتا ہے۔

اصل سکون دواخانوں میں نہیں، بلکہ ان چھوٹی چھوٹی عادتوں میں چھپا ہوتا ہے، جو زندگی کو جینے کے قابل بناتی ہیں۔

معاشرتی دوغلاپن




پاکستانی معاشرہ روایات، مذہب، اور قانون کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے۔ اس امتزاج میں ایک ایسا ادارہ بھی شامل ہے جو بظاہر محبت، ہم آہنگی اور رفاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے — یعنی "شادی"۔ مگر جب اس ادارے کے پردے ہٹتے ہیں تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے: عورت کو آج بھی ایک مکمل انسان، برابری کے حقدار فریق اور خودمختار شریکِ حیات تسلیم نہیں کیا جاتا۔
اسلام نے واضح طور پر مرد و عورت دونوں کو برابری کی بنیاد پر مقام دیا۔ قرآن مجید میں بدکاری کے جرم میں مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں سزا مقرر کی گئی ہے:
"الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ"
(سورۃ النور، آیت 2)
لیکن ہمارے ہاں جرم کی تلوار صرف عورت کی گردن پر چلتی ہے۔ اس کی عصمت پر سوال اٹھتا ہے، اس کی تربیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں، اور بدنامی صرف اس کے حصے میں آتی ہے۔ مرد بچ نکلتا ہے، جیسے وہ اس معاشرتی کھیل کا نگران ہو۔
صدر ایوب کے دور میں جب مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 نافذ ہوا، تو امید بندھی کہ شاید اب معاشرہ قانون کی سمت بڑھے گا۔ اس قانون میں 16 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی پر پابندی لگائی گئی اور مرد کو دوسری شادی کے لیے اجازت نامہ لازم قرار دیا گیا۔ لیکن آج، 60 سال بعد بھی ان قوانین پر مکمل عمل نہیں ہو سکا۔ گویا رسم و رواج کا راج قانون پر حاوی ہے۔
اکثر سنتے ہیں کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو ازدواجی زندگی کی تربیت دی جانی چاہیے۔ مگر یہ بات صرف تقریروں میں زندہ ہے۔ نہ اسکولوں میں کوئی نصاب ہے، نہ دینی مدارس میں کوئی شعور۔ مغرب کو ہم کافر کہہ کر رد کر دیتے ہیں، مگر وہاں شادی سے پہلے تربیت لازمی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں شادی زندگی کی پہلی اور آخری بڑی تبدیلی ہے — اور سب کچھ خود سیکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جیسے تجربہ گنیہ پگھلا دے گا۔
ایک اور تضاد دیکھیے: مرد کو گھر کا سربراہ کہا جاتا ہے، خواہ وہ مالی طور پر صفر ہو اور عورت کے ہاتھوں سے ہی چولہا جلتا ہو۔ قرآن کہتا ہے:
"الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَي النِّسَاءِ بِمَا أَنْفَقُوا..."
(سورۃ النساء، آیت 34)
مگر ہم نے قوامیت کو "حاکمیت" میں بدل دیا۔ مرد کی جنسی، مالی اور نفسیاتی ضروریات کو اولیت دی جاتی ہے۔ عورت کا وجود صرف اس کی "عفت" سے وابستہ کر دیا گیا ہے، اور اسے گھر کی عزت کا ستون بنا دیا گیا — چاہے مرد خود بے راہ روی کا شکار ہو۔
شادی کو بھی دو دلوں کا بندھن نہیں بلکہ دو خاندانوں، ذات برادریوں، اور سماجی طبقات کا "معاہدہ" بنا دیا گیا ہے۔ جہیز، رسم، رواج، وٹہ سٹہ، خاندان کی عزت — یہ سب شادی کے اصل مقصد سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔
کیا عورت مکمل انسان نہیں؟ کیا اس کی خواہشات، رائے، اور خودمختاری بے معنی ہیں؟ کیا ہم اپنی بیٹیوں کو صرف پردے، حیا اور شرم کے اصولوں سے آراستہ کریں گے، یا انہیں شعور، تعلیم اور فیصلہ سازی کا حق بھی دیں گے؟
ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ہم کس راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی اصل تعلیمات کے مطابق؟ یا اس سماجی سانچے کے مطابق جو مرد کو خدا اور عورت کو گناہ سمجھتا ہے؟
یہ سوال صرف عورتوں کے لیے نہیں، بلکہ ایک بہتر معاشرے کے لیے ہے۔
شادی اگر برابری، محبت اور شعور پر مبنی ہو، تو یہ زندگی کا حسین ترین تجربہ بن سکتی ہے۔ ورنہ یہ ایک جبر کا نظام ہے — جس سے صرف ظالم کو سکون ہے، 
مظلوم کو نہیں۔
تحریر: دلپزیر

شادی کی عمر کے بارے میں ملک میں جاری بحث میں چند بنیادی حقائق کوپس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ اس کالم میں ان ہی پوشیدہ حقائق کو منظر عام پر لانا مقصود ہے