پیر، 3 دسمبر، 2018

تسخیر جنات 1

کسی زمانے میں ہندوستان میں روحانی علم کے کچھ بزرگوں کا اپنے اپنے علاقے میں بہت شہرہ تھاحضرت میاں محمد شیر صاحب پیلی بھیت میں نمایان شہرت کے مالک تھے تو حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آباد میں مشہور تھے، حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب کا طوطی دیوہ مین بولتا تھااور حضرت غوث علی شاہ صاحب پانی پت میں اپنے علم کے موتی بکھیراکرتے تھے۔خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضرت میاں محمد شیر صاحب کے بارے میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے 
لکھتے ہیں 

ْ میں نے سنا پیلی بھیت میں حضرت میاں محمد شیر صاحب تسخیر جنات اور ہمزاد کے بڑے عامل ہیں۔اس واسطے میں دہلی سے ریل میں سوار ہو کر پیلی بھیت گیا، جب اسٹیشن پر اترا تو میری جیب میں صرف چار پیسے تھے،میں نے سوچا بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جانا چاہیے۔اس لیے میں نے ایک پیسے کے امرود لیے اور شاہ صاحب کے پاس حاضر ہو گیا۔میں نے دیکھا کہ منڈھیا پر سانولے رنگ اور چھوٹے قد کے ایک بزرگ جن کی سفید لمبی داڑہی ہے اور سر پر نیلے گاڑھے کی پگڑی ہے بیٹھے ہیں ۔ میں نے جا کر سلام کیااور امرود ان کے قدموں مین رکھ دیے۔اور لوگوں کے ساتھ میں بھی بیٹھ گیا۔شاہ صاحب نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہو میان دہلی میں خیریت ہےْ 

عامل ، پیر اور روحانیت کے استادوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آنے والے کے بارے میں پیشگی طور پر جان لیتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے کہ میرے استاد ، جن کے پاس اکثر سائے والے مریض آتے ہیں ۔مریض کے آنے سے قبل ہی اس کے بارے میں معلومات اپنے ساتھیوں کو دے دیتے ہیں۔ دراصل ایسے افراد نے ایسی تمرین و مشق کی ہوتی ہے یا ایسے چلے کاٹے ہوتے ہیں کہ ان کو روحانی طاقتین حاصل ہو جاتی ہیں۔ ان روحانی طاقتوں میں مستقبل بینی، دوسرے کا ذہن پڑہنا اور مریض کی سوچ پر اثر انداز کی قوت شامل ہوتی ہے۔یہ طاقت ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے جو مشقیں کرنا پڑتی ہیں وہ ہر انسان کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ 

پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میرے استاد کے پاس ایک نوجوان آیاجو تسخیر جنات کا علم سیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی تعلیم ایف اے تھی۔اس کا سارا خاندان لندن میں جبکہ وہ اکیلا ضلع راولپنڈی کی اس وقت کی تحصیل کہوٹہ کے ایک شہر کلر سیداں کے پاس ایک گاوں میں رہتا تھا۔ والدین کی بنائی چار کنال کی کوٹھی میں مقیم تھا۔ دولت کی بھی کمی نہ تھی۔ مگر اس کے دماغ میں جنات کو قابو کرنے کا شوق سمایا ہوا تھا۔ استاد محترم نے اس کو ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر اس نے ایک سال سے زیادہ عرصہ منت سماجت کر کے استاد جی کو راضی کر ہی لیا۔ استاد جی نے اس کی قوت ارادی کا امتحان لینے کے لیے اسے ایک چلہ بتایا جو رات کے وقت پانی میں کھڑے ہو کر کرنا تھا۔ تسخیر جنات کے چلے کے دوران عامل بننے والے شخص کو ایک تو نڈر ہونا چاہیے دوسرے اپنے استاد کے بتائے ہوئے عمل اور وظیفے پر ہرحال میں کار بند رہنا چاہیے ۔ وہ نوجوان قوت ارادی کو مضبوط کرنے والی چند ایک مشقیں کامیابی سے کر چکا تھا۔اب اس نے رات کے وقت پانی میں کھڑے ہو کر ایک عمل کرنا تھا۔ استاد جی نے اس کو ممکنہ پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کر دیا تھااور یہ ہدائت بھی دی تھی کہ وہ کسی صورت اپنا وظیفہ نہ چھوڑے ورنہ وہ کسی دائمی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ یہ وظیفہ یا چلہ اکیس دن کا تھا۔نوجوان ہدایات اور عزم لے کر جانے لگا تو یہ بھی بتا گیا کہ وہ آنے والے اتوار کی رات سے چلہ شروع کرے گا۔ وہ دن منگل کا تھااور ستمبر کا مہینہ تھا۔ سوموار والے دن استاد جی نے بتایا کہ ْ انگلینڈیے ْ نے اپنے گھر میں ایک تالاب بنایا ہے اور اس میں کھڑے ہو کر رات والا وظیفہ کیا ہے۔ استاد جی کو یہ خبریں ان کے جنات دیتے تھے۔ اگلے منگل کو میں صبح کے وقت استاد جی کے پاس موجود تھا۔ انھوں نے بتایا رات کو ْ انگلینڈیا ْ ڈر گیا ہے ۔ بے ہوش ہے اور ابھی لوگ اسے یہاں لا رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد ایک گاڑی آ کر رکی۔ لوگوں نے بے ہوش نوجوان کو گاڑی سے نکالا۔ استاد جی کو بتایا گیا وہ رات کے کسی پہر چیخیں مارتا ہوا گلی میں بھاگ رہا تھا۔ پھر گر کر بے ہوش ہو گیا۔ رشتے دار صبح کے وقت اس کو کلر سیداں میں ایک ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ۔ ڈاکڑ نے بہت کوشش کی ۔ دو ٹیکے بھی لگائے مگر نوجوان کو ہوش نہ آیا۔ عقلمندی اس نے یہ کی تھی کہ چلہ شروع کرنے سے پہلے اپنے کچھ رشتے دار ساتھیوں کو اپنے چلے اور استاد کے بارے میں بتا دیا تھا۔اس کے رشتے دار اس کو اٹھا کر استاد جی کے پاس لے آئے تھے ۔ استاد جی کے پاس پہنچے کے ایک گھنٹے بعد اس کو ہوش آنا شروع ہوا ۔ اس دوران اس پر تین بار مخصوص دم شدہ پانی چھڑکا جاتا رہا۔ڈاکٹر کو بلایا گیا اور تیسرے دن اس کا بخار اترا۔ تسخیر جنات کا شوق بھی اتر چکا تھا۔ مگر خوف باقی تھا۔ استاد جی نے مجھے کہا دفتر سے تین دن کی چھٹی لو اور اس کے ساتھ رہو۔ جب میں اور اس کے رشتے دار گاوں پہنچے تو اس نے گھر جانے سے انکار کر دیا۔ اس کا ماموں ہمیں اپنے گھر لے گیا۔ دوسرے دن میں اس کے گھر وہ تالاب دیکھنے گیا مگر اس نے دن کے وقت بھی گھر جانے سے انکار کردیا۔ اس کے ماموں اور ان کے گھر والوں نے اس کی دیکھ بال کی ذمہ داری لی۔ میں واپس آگیا۔ چند دنوں کے بعد اس نے ماموں کے بیٹوں کے ساتھ گھر جانا شروع کر دیا۔ تالاب پاٹ دیا گیا۔اور اس کا خوف ختم ہو گیا۔ کئی ماہ بعد گرمیوں کے دن تھے کہ استاد جی نے ایک لڑکے کو ایک تعویز دے کر اس کے گاوں بھیجا اورجلدی پہنچنے کی تاکید کی۔استاد جی کا کہنا تھا ۔ اس کے گلے میں پڑا ہوا ان کا دیا ہوا تعویذ چشمے میں نہاتے ہوٗے اس کے گلے سے نکل گیا ہے۔ جب لڑکا واپس آیا تو نوجوان بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کو تعویذ کے گرنے کی خبر ہی نہیں ہوئی مگر وہ 
خود کو ہلکے بخار کی کیفیت میں محسوس کر رہا تھاکہ اس کو کمک مہیا کر دی گئی۔
سالوں بعد کئی بار کے میرے اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ واقعہ کیا پیس آیا تھا۔ 
ْ میں نے اپنی کوٹھی کے صحن میں پانچ فٹ گہرا تالاب بنوایا ۔ اس میں ٹنکر کے ذریعے چار فٹ پانی بھرا ۔ اتوار کی رات کو میں نے چلہ شروع کیا۔چوتھی رات کو مجھے کچھ غیر مانوس مخلوق کی موجودگی کا احسا س ہونا شروع ہو گیا۔لیکن میں نے توجہ پڑہائی پر رکھی ۔ اگلی رات کچھ صورتیں نظر آئیں جو مکروہ اور ڈراونی تھی مگر میں ان سے متاثر نہ ہوا۔ اگلی رات پھر ڈراونی آوازیں اور کریہہ چہرے والوں نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی ۔لیکن میں ڈرا نہ میں نے استاد جی کا بتایا ہوا وظیفہ چھوڑا۔ 
اس سے اگلی رات وہ ڈراونی صورتوں والی مخلوق تیزی سے میری طرف حملہ آور ہوتی مگر مجھے استاد جی نے بتایا ہوا تھا کہ وہ ڈرا سکتے ہیں مجھے کوئی نقصان نہیں پہچا سکتے۔ایک رات میں پانی میں کھڑا تھا ۔ گھر کی تمام بتیاں بجھی ہوئی تھیں ۔ میرا منہ اپنے گھر کے مین گیٹ کی طرف تھا۔ کہ میں نے دیکھا ایک آدمی نے تالا لگے گیٹ کو کھول لیا ۔ گیٹ کے دونوں پٹ کھول کر وہ ادمی باہر گیا ۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک رسی تھی۔ رسی اونٹ کی نکیل میں بندہی ہوئی تھی۔ اونٹ کے گلے میں بڑاسا گھنٹہ تھا۔ اونٹ پر ایک عورت سر پر چادر ڈالے منہ چھیائے بیٹھی تھی۔ اس کی گود میں ایک بڑا سا دیگچہ رکھا ہوا تھا۔ اور عورت کی پشت پر ایک معصوم سا ننگ دھڑنگ بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ آنے والا اونٹ سمیت گھر میں داخل ہوا۔تالاب کے کنارے اس نے اونٹ کو بٹھایا۔ ایک چٹائی بچھائی، جس پر وہ خود ، عور ت اور بچہ بھی بیٹھ گئے۔ عورت نے دیگچے کا ڈھکن اٹھایا اور تینوں نے مل کر اس میں جو کچھ بھی تھا کھا لیا۔ جب دیگچہ خالی ہو گیاتو عورت نے دیگچہ زور سے پھینکا جو میرے سرکے اوپر سے گذر کر دور ایک درخت سے زور دار آواز کے ساتھ ٹکرا کر نیچے گر گیا۔میں یہ تماشا دیکھ ہی رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ شائد ابھی یہ کوئی ڈراونی حرکت کریں گے۔ مجھے یاد تھا وہ مجھے کسی قسم کا نقصان نہیں پہچا سکتے اس لیے میں نے ساری توجہ وظیفے پر مرکوز کر دی۔ انھوں نے میرے ساتھ کوئی حرکت نہ کی جیسے وہ میری موجودگی ہی سے بے خبر ہوں۔ میری توجہ وظیفے پر تھی ۔اتنے میں میں نے سنا عورت مرد سے کہہ رہی ہے مجھے بھوک لگی ہے۔ مرد نے اونٹ کی طرف اشارہ کیا کہ اسے کھالو۔ اس عورت نے وہیں سے بیٹھے ہوئے دونوں ہاتھ بڑہائے اور زندہ اونٹ کو ٹکڑوں میں کر کے کھانا شروع کر دیا۔ چند لمحوں میں وہ سارا اونٹ کھا گئی۔میں سمجھ گیا یہ مجھے ڈرانے کے لیے ہو رہا ہے۔ میں نے دل کو مضبوط کیا کہ کچھ بھی کریں میں خوف زدہ نہیں ہوں گا۔کہ اتنی دیر میں عورت کی آواز سنائی دی وہ مرد سے کہہ رہی تھی اب کیا کھاوں ۔ مرد نے بچے کی طرف اچارہ کیا عورت نے بچے کے دو ٹکڑے کیے بچے کی چیخوں کی آواز نے گویا میرا دماغ ہی شل کر دیا۔ میرے دیکھتے دیکھتے وہ بچے کو کھا گئی۔ بچے کو کھاکر اس نے مرد سے پوچھا اب کس کوکھاوں۔ مرد نے میری طرف اشارہ کر کے کہا اپنے اس باپ کو کھاو جس کے لیے میں تمھیں یہاں لے کرآیا ہوں۔عورت اٹھی اس نے سر پر پڑی چادر اتار دی ۔ اس کا ڈروانا ، کریہہ، شیطانی چہرہ ایسا تھاکہ میرا جسم خوف سے کانپ گیا۔ عورت نے میری طرف ہاتھ بڑہائے میں خوف سے بھاگ کر تالاب کے گرد کھینچے دائرے سے باہر نکل گیا۔میں بھاگ نکلا مگر وہ ہاتھ میرا پیچھاکرتا رہا۔مجھے محسوس ہوا ہاتھ میرے گلے تک پہیچ گیا ہے ۔ اس کے بعد کیا ہوا ۔مجھے لوگوں نے بتایا تم گلی میں چیختے بھاگ رہے تھے ۔ پھر گر کر بے ہوش ہو گئے ْ 
مجھے معلوم ہے اس کو بچانے میں استاد جی کا ہاتھ تھا جو رات کو جاگ کر اپنے موکلوں کے ذریعے اس کا خیال رکھتے تھے۔میری ان تمام شوقین مزج لوگوں کو نصیحت ہے کہ وہ تسخیر جنات کا کوئی بھی عمل کسی استاد کامل کی سرپرستی کے بغیر نہ کریں۔ورنہ اس میں جان سے ہاتھ دہو بیٹھنے کا خطرہ ہے۔ 

جمعہ، 30 نومبر، 2018

نیا امتحان


اس سال 16 جنوری کو ایوان صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں ملک کے تمام مسالک ، وفاق ہائے مدارس کے نمائندے ، علماء کرام اور مشائخ عظام شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک اجتماعی بیان یا فتویٰ بھی جاری کیا تھامگر بوجہ اس کے متوقع نتائج سے قوم بہرہ مند نہ ہوسکی۔ اس کے بعد 19 نومبر کو چیف آف آرمی سٹاف نے بیان دیا تھا کہ ملک میں مذہبی، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی کوششوں کے خلاف ایک نئے بیانئے کی ضرورت ہے۔
ہم اس وقت جس تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، اس تقسیم کے بعد حکومت پاکستان کی حالت بے دست و پا ہونے جیسی ہے۔ معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اور دینی طبقہ وسوسوں کا شکار ہے۔ بے اعتمادی لوگوں کو مایوسی کی طرف لے جا رہی ہے۔مگرپاکستان میں ایک ایسا ادارہ بھی موجود ہے جس نے ہمیشہ تلخ اور جذباتی رویوں کو علمی حکمت وفراست سے تلخیوں کو اعتدال پر لانے میں اپنا کردار مثبت طور پر ادا کیا ہے۔مثال کے طور پر ایک وقت تھا جب مغربی تعلیم سے  متاثرہ لوگوں نے پاکستان میں شور بلند کرنا شروع کیا کہ کم عمر بچیوں کی شادی بنیادی انسانی آزادی کے خلاف ہے۔جبکہ مذہبی طبقے کا خیال تھا کہ یہ اسلامی روایات کا حصہ ہے یوں معاشرہ دو بیانیوں مین بٹنے لگا تو یہ ادارہ سامنے آیا۔ اس نے بتایا اسلامی معاشروں میں شادی دو مراحل پر مشتمل ہوتی ہے ایک مرحلے کا نام نکاح اور دوسرے مرحلے کا نام رخصتی ہے ۔
دو سال قبل عدالت کے سامنے یہ مسٗلہ درپیش تھا کہ ڈی این اے ٹسٹ کو بطور عدالتی ثبوت مانا جائے یا نہیں۔ اس پر بھی اس ادارے نے اپنی علمی رائے پیش کی جس کو فریقین نے تسلیم کیا ۔پاکستان میں ایک مقدمے میں ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے تولیدگی کے عمل پر بھی اس ادارے کی سفارشات کو خوشدلی سے قبول کیا گیا۔ اس ادارےکا نام اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔
پاکستان بنا تو ملک کو اُس کے اساسی نظریے یعنی اسلام پر اُستوارکرنے کی ضرورت پیش آئی،کیونکہ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ پاکستان کا دستوراِسلامی ہوگا،یاسیکولر ؟جس پر تحریک پاکستان کے وہ رہنمامتفکرہوئے ،جنہوں نے اسلام کے نام پر اِس نوزائیدہ ملک کی بنیادرکھی تھی۔اُن ہی کے ایماء پر لیاقت علی خان قراردادِ مقاصدکی تیاری پرقائل ہوئے اورماہرین نے دستورسازی کے راہنما اصول کے طورپر قراردادِمقاصدکا مسودہ تیارکیا۔جس میں پاکستان کو اسلامی ریاست قراردیتے ہوئے،اسلامی احکام اورقوانین کی معاشرہ میں ترویج اورعمل داری کا عہدکیاگیاتھا۔ قراردادِ مقاصدکو 7مارچ 1949کودستورسازاسمبلی میں پیش کیاگیا۔جسے کافی بحث وتمحیص کے بعد 12اپریل 1949کو اسمبلی نے منظورکرلیا۔ قرارداد مقاصد دستورِ پاکستان میں بالاتر حیثیت کی حامل رہی اور اس میں ضمانت دی گئی تھی کہ ملک کے دستور و قانون کی کوئی شق قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگی۔اس کے باوجود ملکی آئین وقوانین کو اسلامی صورت میں منتقل کرنے کا مستقل کوئی آئینی ادارہ موجود نہیں تھا ۔اس خلاکو پُرکرنے کے لیے 1962ء میں آئین کے ارٹیکل 204 کے تحت تشکیل دیے گئے اس ادارے کا نام اسلامی مشاورتی کونسل رکھا گیاتھا۔ 1973ءکے آئین میں اس کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔  قانون پر عمل درآمدکی غرض سے آئین کی دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے 20 اراکین پر مشتمل ایک آئینی ادارہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صدر، گورنر یا اسمبلی کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کا قرآن و حدیث کی روشنی میںجائزہ لے کر 15 دنوں کے اندراپنی سفارشات پیش کرنا ہوتا ہے۔ دستور کی شق نمبر 228 میں یہ کہا گیا کہ اس کے اراکین میں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ ممبران کی تعداد کم از کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 ہوگی جن کا انتخاب صدر پاکستان کریں گے۔ ممبران میں ایسے افراد شامل ہونگے جو اسلامی اصول و فلسفہ کی تعلیم اور معلومات رکھتے ہوں، وہ قرآن و سنت طیبہ ،معیشت اور قانونی و انتظامی امور اور پاکستان کے مسائل سے آگہی رکھتے ہوں۔ دو ممبران سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت اور چار کے لئے کم از کم 15 سال اسلامی تعلیمات و تحقیق کا تجربہ رکھنا لازمی ہے۔ ایک خاتون ممبربھی لازمی ہوگی۔ ممبران کی مدت تین سال رکھی گئی ہے۔
موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل 2016 میں سابق صرر ممنون حسین نے کی ہے جس کے چیرمیں پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب ہیں۔ اس کونسل کا 213 واں اجلاس 27 نومبر کو اسلام اباد میں ہوا جس میں پہلی دفعہ وزارت کے سطح کی دو حکومتی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
حکومت اس ادارے کو جو اپنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہے کو فعال کر کے اس بند گلی کو کھول سکتی ہے جس میں خود حکومت مزہبی طبقات اور پورا معاشرہ خود کو محصور تصور کرتا ہے۔
کچھ عرصہ سے یہ ادراک حقیقت بنتا جا رہا ہے کہ افراد کی بجائے اصولون کی اور شخصیات کی بجائے اداروں کو متحرک کیا جائے۔ قانون کی حکمرانی کی سمت یہ ایک مثبت اور قابل عمل قدم ہوگا اور وقت کے ساتھ ساتھ عوام بھی شخصیات کی
بجائے اداروں اور اصولوں کی پیروی شروع کر دے گی۔
البتہ یہ موجودہ حکومت کی فراست کا امتحان بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ عوام کی خواہش ہے کہ حکومت اس امتحان سے بھی سرخرو ہو نکلے تاکہ حکمران دلجمعی سے عوام کے اصل مسائل کی طرف توجہ دے سکیں 

پیر، 26 نومبر، 2018

تبلیغ

جناب پروفیسرڈاکٹر محمود علی انجم صاحب نے اپنی کتاب ْ نور عرفانْ میں یہ واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ ایک بار مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں کچھ شر پسند عناصر نے ہنگامہ برپا کر دیا، ہر طرف شور شرابہ برپا ہو گیا۔ جلسے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے چوٹی کے رہنماء موجود تھے۔رہنماوں نے سامعین کو چپ کرانے کی کوشش کی حتی ٰ کہ نہرو اور گاندہی بھی سامعین کو چپ کرانے میں ناکام رہے۔ جب سب رہنماء ناکام ہو گئے تو قائد اعظم محمد علی جناح سٹیج پر کھڑے ہوئے ، انھوں نے مجمع میں موجود سامعین پر طائرانہ نظر ڈالی اور اپنی شہادت والی انگلی بلند کر کے تحکمانہ لہجے میں بلند آواز سے کہا Silence
مجمع میں ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔

مجھے زندگی میں لا تعداد سیاسی رہنماوں، مذہبی مبلغین ، روحانی شخصیات ، سیلز کی دنیا کے ماہرین کو سننے کے مواقع ملے ہیں ان میں چند ہی لوگ ہیں جن کی باتیں اثر انگیز رہیں۔ ایک درگاہ کے باہر بیٹھا ملنگ ، جو سیف الملوک اس محویت سے پڑہا کرتا تھاکہ راہ چلتے لوگ اس کی ٓواز سن کر کھنچے چلے آتے تھے اس کی آواز میں خداد سحر کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ ملنگ میاں محمد بخش کی شخصیت میں کھو کران کی ذات کا تعارف حاصل کر چکا تھا۔
عوام میں ذات کا تعارف شخصیت کا وہ پہلو ہوتا ہے جو انسان کے اعمال کے بل بوتے پر بنتا ہے ۔ سیرت البنی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک ماں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ میرا بیٹا گڑ کھانے کا رسیا ہے اس کو نصیحت فرما دیں ۔ ارشاد ہوا کل بیٹے کو لانا۔ مان دوسرے دن بیٹے کو لے کر حاضر خدمت ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے گڑ نہ کھانے کی نصیحت کی تو ماں نے عرض کیا یہی بات آپ کل کہہ دیتے تو ارشاد ہوا کل خود میں نے گڑ کھایا ہوا تھا۔
نصیحت وہی کارگر ہوتی ہے جو ناصح کے یقین کا پرتو ہو۔اصل یہ ہے کہ تبلیغ وہی موثر ہوتی ہے جس پر مبلغ خود بھی عمل پیرا ہو۔عمل سے پہلے کے زینے کا نام ارادہ ہے ۔ ارادے کو عمل کی بنیاد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ارادہ مضبوط ہو گا تب ہی عمل کا روپ دھارے گا۔ارادے سے بھی پہلے خیال نام کا زینہ آتا ہے۔ دل میں پیدا ہونے والا خیال ارادہ تب ہی بنے گاجب اراد پختہ ہو گا۔ارادے کا اظہار زبان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ صادق زبان سے نکلے الفاظ کی ہیبت ہوتی ہے جو جلسوں میں شر پسندوں کو مرعوب کرتی ہے۔ صادق و امین زبان سے نکلے الفاظ قلوب کو متاثر کرتے ہیں۔ کسی کی ذات میں کھو جانے کے لیے اس ذات کا ملنگ بننا پڑتا ہے ۔ ناصح کی زبان کی زبان اثر پذیر ہونے کے لیے عمل میں استقامت کی متقاضی رہتی ہے۔ تبلیغ کے لیے مبلغ کو عمل کی سیف میان سے نکال کے رکھنا لازم ہے۔ 
شاعر نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے         (علامہ اقبال : جوب شکوہ)

اتوار، 25 نومبر، 2018

ہمارا بیانیہ

ہم ہی اعلی و ارفع ہیں کیلئے تصویری نتیجہ                                     
شجو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اس مرض کے شکار عام طور پر 15 سے 25 سال کی عمر کے نوجوان ہوتے ہیںیہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔
ہٹلر کے جرمنی میں گوئبلز نام کا ایک فرد ہوا کرتا تھاجو عام طور پر ناقابل یقین خبر یا واقعے کو افراد کے ذہن میں ڈالتا اور پھر اس خبر کو اس حد تک اچھالنے کا انتطام کرتا کہ لوگ اس پر گفتگو کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ گوئبلز نے جرمنی اور ہٹلر کے بارے میں لوگوں میں ایسی ایسی داستانیں پھیلا رکھی تھیں جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئیں۔البتہ اس عمل کو فن مانا گیا اور سیاست میں اس کا چلن چل نکلا۔اور اس کے شکار ہمیشہ نوجوان ہی رہے۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بارے میں، جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو عوام کو بڑی شد ومد کے ساتھ یہ  بتایا جاتا تھا کہ یہ شخص بھارتی ایجنسی "را" کا ایجنٹ اور ہندو ہے اور اس کا اصل نام گھنسی رام ہے اور پاکستان کے ایک سرکردہ صحافی کا یہ دعویٰ ریکارڈ پر موجود ہے۔
بھارت کے شہر ممبی میں مشہور زمانہ دہشت گردی کے ایک واقعے میں اجمل قصاب نامی دہشت گرد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بارے میں بھارت سے ہی یہ خبر چلی تھی کہ اس کا تعلق پاکستانی پنجاب سے ہے اور پھر پاکستان میں اس کا گاوں اور خاندان بھی دریافت ہو گیا مگر اب بھارت ہی سے خبریں آ رہی ہیں کہ ان کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ بھارت سے ہے۔اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں میڈیا کا کردار لوگوں کی ذہن سازی میں کس قدرموثر ہے۔اس واقعے سے ذہن سازی کے لیے میڈیا کے کردار کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات نے ٹی وی کے ایک پروگرام جرگہ میں کہا ْ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں میڈیا کابڑا کردار ہے ْ 
پاکستان میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے تک ، ٹی وی کھولتے تھے تو مخصوص وقت کے بعد طویل مدت کے اشتہارات چلا کرتے تھے۔ یہ اشتہار بین الاقوامی کمپنیوں کے مقبول عام برانڈ کے ہوا کرتے تھے ۔ وہ برانڈ اور اشیاء ا ب بھی موجود ہیں، کنزیومر بھی وہی ہیں مگر چند ماہ سے ٹی وی پر اشتہار غائب ہیں۔
ٹی وی کی آمدن کا بڑا ذریعہ اشتہارات ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر اطلاعات کے مطابق ْ ہماری میڈیا انڈسٹری جو 10 بلین روپے کی تھی اس کو35 بلین تک لے جایا گیا ْ پاکستان میں اشتہارات کے پیسے کو سیاست کے رخ کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا گیا۔ اور اس حقیقت سے ملک کی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن ۔ ریاستی ایجنسیاں اور خود ٹی وی کی انتظامیہ بھی باخبر تھی۔ مگر بہتی گنگا سے استفادہ نہ کرنا کسی کو بھی گوارا نہ ہوا۔عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد میڈیا سے پچیس بلین روپے کی یہ آمدن یکایک رک جانے کے بعد ہمارے اکثر میڈیا ہاوس مالی بد حالی کا شکار ہو گئے اور بہت سے نام ور اینکر پرسن اور تجزیہ کار میڈیا سے فارغ کیے جا رہے ہیں۔جس ذہن سازی کے لیے ایک بڑی رقم میڈیا انڈسٹری میں انڈیلی گئی تھی ۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اس سرمایہ کاری کو بند کر دیا گیاتو میڈیا انڈسٹری اپنی اصل اوقات پر آجانے کے بعدحکومت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے ان آنکھوں میں موجود سوال کو حکومت اچھی طرح سمجھتی ہے مگر ان کو میڈیا مینجمنٹ کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ میڈیا ہاوسز کو زندہ رہنے کے لیے خود کو نا پسندیدہ عناصر سے پاک کرنا ہوگا۔
ایک چاہت حکومت کی ہوتی ہے اور ایک چاہت عوام کی ہوتی ہے، پاکستان میں دونوں چاہتیں متوازی چلتی ہیں۔ البتہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ دونوں چاہتیں ساتھ ساتھ چلیں۔مگر ایسا بوجہ ہو نہیں پا رہا۔اور اس کے اسباب میں بڑا سبب ہمارے معاشرے میں موجود تقسیم شدہ رجحانات اور سوچ ہیں۔اکہتر سالوں میں جب عوام کو موقع ملتا ہے وہ پارلیمان اور وزیر اعظم لے آتے ہیں۔ جب مقتدر اداروں کو موقع ملتا ہے وہ صدارتی نظام کی بساط کی بچھا کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
ہماری نوجوان نسل جس کو بتایا گیا ہے ساٹھ کے عشرے میں پاکستان جرمنی کو قرض دیا کرتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ میں لاالہ الااللہ نے ہمیں فتح مبین سے ہمکنار کیا تھا۔ اکہتر میں ادہر ہم اور ادہر تم کے سیاسی نعرے نے ہمیں بے دست و پا کر دیا تھا۔ ورنہ ہم نے تو اقوام متحدہ کے ایوانوں میں قراں پاک کی تلاوت کو سربلند کر دیا تھا۔ ہمارا مقام یہ ہے کہ کعبہ میں نماز کے لیے کھڑے ہوں تو امام کعبہ ہمارے لیے اپنا مصلیٰ چھوڑ دیں۔ روس کو افغانستان میں شکست دینے والے ہم ہی ہیں۔امریکہ کو تگنی کا ناچ ہم ہی نچا رہے ہیں۔ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں وغیرہ وغیرہ
شجو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اور اپنے ایقان کی آخری حد تک اس کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔یہ بیماری عوام میں ہوا کرتی تھی مگر اب لگتا ہے حکمران بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ 

ہفتہ، 24 نومبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: سماع و وجد

اردو کالم اور مضامین: سماع و وجد: پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پ...