منگل، 24 جون، 2025

طلم کی گلیمرائیزیشن




دنیا میں مظلومیت کو کیمرے کی آنکھ سے خوبصورت دکھانے کا فن آج کی سب سے بڑی منافقت بن چکا ہے، اور اگر اس کی سب سے تکلیف دہ مثال تلاش کی جائے تو وہ فلسطین ہے۔ غزہ کی گلیوں میں بکھری لاشیں، ملبے تلے دبی مائیں، چیختے بلکتے بچے اور بمباری میں اجڑتے گھر — یہ سب کچھ اب عالمی میڈیا کے لیے محض فوٹیج کا مواد ہے۔ خون میں لت پت جسموں کو خبری شہ سرخی بنایا جاتا ہے، بچوں کی چیخیں بریکنگ نیوز میں سجائی جاتی ہیں، اور شہداء کی جنازہ گاہیں لائیو کوریج کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ فلسطین میں ہونے والا ظلم اور بربادی اب عالمی ضمیر کے لیے صرف ایک تماشا ہے۔ اصل سوالات، اصل مجرم اور اصل حل کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت ہر روز غزہ کی گلیوں میں موت بانٹ رہی ہے، مگر دنیا صرف کیمروں کے زاویے تبدیل کر کے تصویریں نشر کر رہی ہے۔ عالمی تنظیمیں محض اجلاس بلاتی ہیں، قراردادیں پاس ہوتی ہیں، سیاسی رہنما بیانات دیتے ہیں، مگر زمین پر نہ بمباری رُکتی ہے، نہ مظلومیت کم ہوتی ہے، اور نہ فلسطینیوں کو انصاف ملتا ہے۔

غزہ کا ہر دن، ہر رات قیامت بن چکی ہے۔ اسپتال تباہ، اسکول ملبے کا ڈھیر، بازار کھنڈر اور بستیاں قبرستان بن گئی ہیں۔ بجلی بند، پانی ناپید، دوائیاں ختم اور خوراک تک رسائی محدود — مگر دنیا ان سب کو "دل چُھونے والی تصاویر" کہہ کر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔

فلسطینی بچے جن کی عمریں کھیلنے کی تھیں، اب وہ یا تو لاشوں میں شامل ہیں، یا خوف اور بھوک کے سائے میں زندہ ہیں۔ ماں باپ کی آنکھیں اپنے ہی بچوں کے جنازے اٹھاتے ہوئے پتھر کی ہو چکی ہیں۔ مگر عالمی میڈیا اور طاقتور ممالک کے لیے یہ سب محض جذباتی خبریں ہیں، جنہیں دکھا کر ریٹنگ بڑھائی جاتی ہے اور پھر اگلے دن نئی خبر کی تلاش میں سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔

ظلم، بربادی اور انسانی المیے کی یہ گلیمرائزیشن درحقیقت دنیا کے ضمیر کا جنازہ ہے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کو اگر صرف تصاویر، ویڈیوز اور جذباتی خبروں تک محدود رکھا گیا، تو یہ زخم کبھی نہیں بھر سکیں گے۔ جب تک دنیا، خصوصاً مسلم دنیا، مظلوم کی مدد محض بیانات سے نہیں، عملی میدان میں نہیں کرے گی، غزہ کی گلیاں خون میں نہاتی رہیں گی اور فلسطینی بچے اپنی معصوم آنکھوں سے دنیا کی منافقت دیکھتے رہیں گے۔

دنیا کی نئی کروٹ




دنیا کی حالیہ سیاست کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ محض واقعات کی ایک لڑی نہیں بلکہ ایک گہری اور شعوری تبدیلی کی داستان نظر آتی ہے۔ اس تبدیلی کی سب سے نمایاں علامت امریکہ ہے — وہی امریکہ، جو کبھی دنیا کا واحد سپر پاور کہلاتا تھا، اب تنہا ہوتا جا رہا ہے اور اس کی عالمی ساکھ تماشا بن چکی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی سفارتی سمت گویا اُلٹ گئی۔ انتخابی مہم میں جو لب و لہجہ اور غیر روایتی طرزِ عمل دنیا نے دیکھا، وہ اقتدار میں آنے کے بعد عملی پالیسیوں میں بھی نمایاں رہا۔ ٹرمپ نے پہلا وار اپنے قریبی پڑوسیوں پر کیا۔ میکسیکو کے ساتھ دیوار کا منصوبہ، کینیڈا کے ساتھ تجارتی معاملات میں سخت گیری، اور شمالی امریکہ کی سیاسی فضا میں تناؤ نے واضح کر دیا کہ 'سب سے پہلے امریکہ' کی پالیسی کا مطلب 'سب کے خلاف امریکہ' بننے جا رہا ہے۔

پھر یورپ کی باری آئی۔ نیٹو جیسے دہائیوں پرانے اتحاد پر کھلے عام تنقید، یورپی ممالک کو 'مفت خور' کہہ کر پکارنا، اور یوکرین جنگ کے معاملے پر غیر سنجیدہ اور متضاد بیانات نے یورپی قیادت کو سخت اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ جرمنی، فرانس اور دیگر اتحادی امریکہ کی قیادت پر نہ صرف شکوک کا شکار ہوئے بلکہ بظاہر پہلی بار کھل کر واشنگٹن کی پالیسیوں سے فاصلہ اختیار کرنے لگے۔

ٹرمپ نے محض فوجی یا سیاسی محاذ پر نہیں بلکہ تجارتی میدان میں بھی دشمن بنائے۔ ٹیرف کی شکل میں چین سے تجارتی جنگ کا آغاز، یورپ، ترکی، حتیٰ کہ اپنے اتحادی جاپان تک کو نشانہ بنایا گیا۔ عالمی معیشت میں بے یقینی کی لہر دوڑی، اسٹاک مارکیٹس لرز گئیں، اور عالمی اداروں نے کھلے عام متنبہ کرنا شروع کر دیا کہ دنیا کس خطرناک معاشی راہ پر چل نکلی ہے۔

سب سے زیادہ ڈرامائی صورتحال مشرقِ وسطیٰ میں دیکھنے کو ملی۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کیا، پھر اس کی طرف دوستی کا اشارہ دیا، ساتھ ہی سخت پابندیاں لگائیں۔ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ خطے میں جارحیت کرے۔ یہاں تک کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ میں امریکہ نے اتنے یوٹرن لیے کہ خود مذاق بن گیا۔ کبھی جنگ کی دھمکیاں، کبھی امن کی باتیں، کبھی حملے کی تیاریاں، کبھی مذاکرات کی پیشکش۔ دنیا نے دیکھا کہ واشنگٹن اب کوئی باوقار اور مستحکم قیادت نہیں رہا، بلکہ ایک الجھا ہوا، متضاد اور ناقابلِ پیشگوئی کردار بن چکا ہے۔

اس سب کے نتیجے میں امریکہ کی وہ عالمی ساکھ، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد بنی تھی، ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔ روس، چین، ترکی، ایران، لاطینی امریکہ، افریقی یونین، حتیٰ کہ یورپی یونین میں بھی امریکہ مخالف جذبات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ آج اسرائیل اور بھارت کے علاوہ کوئی بڑا ملک ایسا نہیں جو کھل کر امریکہ کی اخلاقی حمایت پر آمادہ ہو۔

اب امریکہ نے تمام اخلاقی جواز پسِ پشت ڈال کر ایران پر براہِ راست حملہ کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ محض ایک اتفاق ہے؟ کیا دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقت کی قیادت واقعی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آ سکتی ہے جو مسخرہ، مکار اور ناعاقبت اندیش ہو؟

یہاں ایک گہری حکمت اور قدرت کی چال چھپی نظر آتی ہے۔ میرے اللہ کا کھلا اعلان ہے کہ "سب سے بہتر چال چلنے والا وہی ہے۔" (القرآن)

چین کے صدر شی جن پنگ کی وہ مشہور بات یاد رکھنی چاہیے کہ:
"دنیا امریکہ کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔"

اور آج حالات بتا رہے ہیں کہ دنیا واقعی اس سمت بڑھ رہی ہے۔ روس اور چین کی قیادت میں برِکس اتحاد مضبوط ہو رہا ہے، ڈالر کی بالادستی کو چیلنج کیا جا رہا ہے، نئی تجارتی راہیں، متبادل سفارتی پلیٹ فارمز اور سٹریٹیجک معاہدے ہو رہے ہیں۔

یہ وقت صرف تماشائی بن کر دیکھنے کا نہیں بلکہ اپنی پالیسی، سمت اور صف بندی درست کرنے کا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کو ہوش کے ساتھ اپنی جگہ بنانی ہوگی۔ دنیا ایک نئے عالمی نظام کی دہلیز پر کھڑی ہے — اور شاید یہ وہی وقت ہے جس کی خبر قرآن اور دانشمندوں نے دی تھی کہ طاقت اور قیادت ہمیشہ ایک ہاتھ میں نہیں رہتی۔


پیر، 23 جون، 2025

ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی



ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی

ڈونلڈ ٹرمپ جب دوسری بار امریکی صدارتی دوڑ میں کامیاب ہوا تو اس نے امریکی عوام کو امید دلا کر ووٹ لیے کہ اب امریکہ دنیا میں امن کا علمبردار بنے گا، امریکی فوج کو لاحاصل جنگوں سے نکالا جائے گا، اور معاشی خوشحالی کا راستہ کھلے گا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی طاقت کو صرف امریکہ کی سرحدوں تک محدود رکھے گا اور غیر ملکی مداخلتوں کا سلسلہ ختم ہوگا۔

لیکن اقتدار سنبھالتے ہی جو منظر دنیا نے دیکھا، اس نے ثابت کر دیا کہ ٹرمپ نہ امن کا پیامبر ہے اور نہ کوئی اصولی سیاستدان بلکہ وہ بھی صیہونی اسلحہ سازوں اور اسرائیلی مفادات کے ہاتھوں میں کھیلنے والا ایک اور مہرہ ہے۔

دنیا کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے سب سے پہلے اس نے معاشرے کے سب سے کمزور طبقے، غیر قانونی تارکین وطن کو نشانہ بنایا۔ امریکہ میں لاکھوں خاندانوں کو تقسیم کیا گیا، بچوں کو والدین سے جدا کر کے حراستی کیمپوں میں ڈال دیا گیا، اور یہ باور کرایا گیا کہ دنیا کی واحد سپر پاور اگر چاہے تو نہتے، بے بس اور کمزور لوگوں کو روند کر اپنی برتری ثابت کر سکتی ہے۔

لیکن طاقت کا مظاہرہ صرف اتنا کافی نہیں تھا۔ فلسطین میں، امریکہ کے اسلحے، مالی امداد اور سیاسی پشت پناہی سے اسرائیل نے عورتوں اور بچوں کو محصور کر کے غزہ کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ خاموش رہا بلکہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی ویٹو پاور کا بے دریغ استعمال کرتا رہا۔

پھر باری آئی کمزور ریاستوں کی۔ یمن، صومالیہ، عراق اور شام کو پراکسی جنگوں کے ذریعے کمزور کیا گیا۔ کہیں امریکہ براہِ راست حملہ آور ہوا، کہیں اسرائیل اور اس کے دوسرے اتحادیوں کو آگے بڑھایا گیا۔ ہر جگہ خون، بارود اور تباہی نے یہ پیغام دیا کہ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی تباہ کن قوت ہے۔

روس جیسی بڑی فوجی طاقت کے خلاف بھی امریکہ نے سازشوں کا دائرہ بڑھایا۔ یوکرین کی جنگ میں نیٹو اور امریکی مداخلت نے روس کو اشتعال دلایا اور یہاں تک نوبت آئی کہ روس کے اندر ہوائی اڈوں پر کھڑے جنگی طیارے تباہ کیے گئے۔ امریکہ نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ دشمن کے گھر کے اندر گھس کر مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن اس بار اسرائیل اور امریکہ نے جنگی تھیٹر میں بھارت کو شامل کیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی شدت بڑھائی اور پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا کر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستان نے نہ صرف سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھارت کو جواب دیا بلکہ عسکری سطح پر بھی بھارت کی جارحیت کو ناکام بنا دیا۔ یوں بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ چال ناکام ہوئی اور پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور امریکی سازشوں کے باوجود اس کی سرحدیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔

جب ایران پر اسرائیل نے حملہ کر کے اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا تو ایران نے نہایت محتاط انداز میں جواب دیا۔ اسرائیل پر میزائل برسے اور امریکہ کو اندازہ ہوا کہ ایران کوئی عام ملک نہیں، نہ اسے لبنان یا شام سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا تو امریکہ کے پاس جنگ بندی کا ڈھونگ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔ یوں دنیا کو بتایا گیا کہ جنگ ختم ہو گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف وقتی خاموشی ہے۔

شام میں ایک نئی چال چلی گئی۔ اسرائیل کی شہہ پر ایک مسیحی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مذہبی بنیاد پر شام میں نئی خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ فی الحال اس واقعے کو میڈیا سے چھپا لیا گیا ہے لیکن ہر ذی شعور جانتا ہے کہ شام کی سرزمین کو امریکہ اور اسرائیل جب چاہیں جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔

ٹرمپ، جو اپنے آپ کو امن کا سفیر کہتا تھا، آج ثابت کر چکا ہے کہ وہ درحقیقت اسرائیل کے اشاروں پر چلنے والا ایسا جوکر ہے جو ہر گھنٹے بعد اپنا بیان بدلتا ہے، جو وعدے کرتا ہے مگر ان پر کبھی عمل نہیں کرتا۔ نیتن یاہو جیسے بچوں کے قاتل اور انسانیت کے دشمن کی کٹھ پتلی بن کر، ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگا دیا ہے۔

اقوام عالم کے سامنے دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے صدر کی شخصیت کا پول کھل چکا ہے ۔ کیا امریکی عوام کو بھی یہ ادراک ہو گیا ہے کہ ان کا نمائندہ امریکہ کے صدر کی بجائے ، نیتن یاہوجیسے جنگی مجرم کی کٹھ پتلی کا کرادار ادا کر رہا ہے ۔  

ٹرمپ… امن کے داعی سے جارح کا مہرہ




دنیا کی تاریخ میں طاقتور عہدے کبھی کبھی کمزور اور غیر سنجیدہ افراد کے ہاتھ آ جاتے ہیں، جن کے فیصلے نہ صرف ان کے ملک بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور قیادت اسی افسوسناک مثال کا عملی روپ ہے، جو اپنے متضاد بیانات، غیر مستقل مزاجی اور سیاسی کمزوری کے باعث نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کو ایک سنگین بحران کی جانب دھکیل چکے ہیں۔

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑی بڑی باتیں کیں۔ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ امریکہ کو غیر ضروری جنگوں سے نکالیں گے، مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کریں گے، اور عالمی سیاست میں سفارت کاری کو ترجیح دیں گے۔ مگر اقتدار میں آتے ہی ان کے تمام وعدے دھوئیں میں اُڑ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری، فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی حمایت، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا متنازع فیصلہ، اور عرب دنیا میں عدم استحکام — یہ سب نیتن یاہو کی دیرینہ خواہشات تھیں جو ٹرمپ کی کمزور قیادت کے سائے میں عملی جامہ پہن گئیں۔

دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جیسے ہی پندرہ جون کو ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی امید پیدا ہوئی، اسرائیل نے تیرہ جون کو ایران پر حملہ کر دیا۔ ٹرمپ کا سیز فائر کا وعدہ ایک مذاق بن کر رہ گیا اور اگلے ہی دن ٹرمپ خود جنگ میں کود گئے۔ یہ واضح پیغام تھا کہ امریکہ اب آزاد ریاست کم اور اسرائیل کی سیاسی چالوں کا آلۂ کار زیادہ بن چکا ہے۔

یہ حقیقت صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں روس اور یوکرین کی جنگ بھی شدت اختیار کرتی گئی۔ جہاں توقع تھی کہ امریکہ ایک غیر جانب دار ثالثی کردار ادا کرے گا، وہاں روس نے امریکی مداخلت کا الزام لگا کر اپنے تباہ شدہ جنگی جہازوں کی ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی۔ ٹرمپ کی کمزور حکمت عملی کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ مزید متاثر ہوئی۔

جنوبی ایشیا کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی نے خطرناک اثرات مرتب کیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، اور پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ شک جڑ پکڑتا گیا کہ بھارت کو اسرائیل کی خفیہ مدد حاصل ہے۔ اور اسرائیل، امریکہ کی آشیر باد کے بغیر کسی خطے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ ماضی میں بھی بھارت اور اسرائیل کی دفاعی شراکت داری رہی ہے، مگر ٹرمپ کے دور میں اس تعاون کو غیر معمولی وسعت ملی، جس نے خطے میں طاقت کا توازن مزید بگاڑ دیا۔

ٹرمپ کی شخصیت میں نہ سیاسی بلوغت ہے، نہ عالمی سطح کی سمجھ بوجھ۔ ان کے فیصلے محض ذاتی مفادات اور وقتی سیاسی فائدے کے گرد گھومتے ہیں۔ نیتن یاہو جیسے چالاک سیاست دانوں نے ٹرمپ کی اسی کمزوری کو خوب استعمال کیا اور امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مہرہ بنا کر رکھ دیا۔

فلسطینیوں کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی وعدہ خلافیاں ایک بار پھر کھل کر سامنے آئیں۔ انیس سو سینتالیس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ، انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیلی قبضہ، ہر دور میں فلسطینی عوام سے فریب اور دھوکہ، اور اب ٹرمپ کے دور میں ان کے تمام حقوق روند ڈالنے کی کھلی اجازت — یہ سب دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ ٹرمپ کمزور صدر ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اتنی سادہ لوح ہے کہ یہ حقیقت نظر انداز کرے کہ امریکہ اب ایک خود مختار سپر پاور نہیں رہا بلکہ اسرائیل کی چالاکیوں کا آلۂ کار بن چکا ہے؟

دنیا میں جب بھی کوئی طاقتور ملک کمزور قیادت کے ہاتھ آتا ہے تو اس کے اثرات صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری دنیا اس کی قیمت چکاتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ، روس اور یوکرین کی کشیدگی، جنوبی ایشیا میں بڑھتا ہوا تناؤ، اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی — یہ سب ٹرمپ کی کمزوریوں اور اسرائیل کی چالاکیوں کا نتیجہ ہے۔


اتوار، 22 جون، 2025

ایران






ایران پر حالیہ امریکی حملے نے مشرقِ وسطیٰ کی فضا کو ایک بار پھر بارود آلود کر دیا ہے۔ یہ حملہ اچانک نہیں تھا، بلکہ ایک منظم منصوبے کا تسلسل ہے جس کا آغاز پہلے اسرائیلی اشتعال انگیزی سے ہوا، پھر یورپی یونین کے نام نہاد سفارتی مشوروں سے، اور آخر میں امریکہ کی کھلی عسکری جارحیت سے۔

ایران کو پہلے مذاکرات کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ یورپی یونین نے ثالثی کا لبادہ اوڑھ کر ایران کو جھوٹی امیدوں میں الجھائے رکھا۔ اسی دوران اسرائیل مسلسل اشتعال انگیز اقدامات کرتا رہا، ایرانی سائنسدانوں کے قتل، شام میں ایرانی تنصیبات پر حملے، اور پراکسی جنگوں کا میدان گرم رکھ کر تہران کو مسلسل دفاعی پوزیشن میں دھکیلتا رہا۔ ایران نے پھر بھی تحمل کا راستہ اختیار کیا اور دنیا کو یقین دلایا کہ وہ جنگ نہیں، امن کا خواہاں ہے۔

مگر امن کی امید اس وقت کرچی کرچی ہو گئی جب امریکہ نے فوردو، نطنز اور اصفہان جیسے ایران کے تین حساس ترین جوہری مراکز پر حملہ کر دیا۔ ان حملوں کا مقصد نہ صرف ایران کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب لگانا تھا بلکہ یہ ایران کو عالمی سطح پر کمزور کرنے کی ایک کوشش بھی تھی۔

حیرت انگیز طور پر، ایران کی نیشنل نیوکلیئر سیفٹی سسٹم سینٹر نے اعلان کیا کہ ان حملوں کے باوجود کسی قسم کی تابکار آلودگی یا جوہری مواد کا اخراج نہیں ہوا، کیونکہ حساس مواد پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ اعلان نہ صرف ایران کی تکنیکی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ اس کے اس دیرینہ دعوے کو بھی تقویت دیتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

ایران نے حملے کے فوری بعد جوابی کارروائی سے گریز کیا، مگر یہ گریز کمزوری نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ ایرانی قیادت عوام کے جذبات سے آگاہ ہے اور انہیں اس بات پر مطمئن کیا گیا ہے کہ ردِعمل ضرور ہوگا، مگر اپنے وقت اور طریقے سے۔ آبنائے ہرمز کی بندش، امریکی اڈوں کی فہرست، اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری، سب کچھ ایران کی میز پر موجود ہے — بس انگلیاں ٹرگر پر نہیں رکھیں گئیں، ابھی۔

امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اگر ایران نے امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا تو وہ "ناقابلِ برداشت قیمت" چکائے گا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ حملہ پہلے امریکہ نے کیا ہے۔ ایران پر الزامات لگانے سے پہلے واشنگٹن کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ وہ خود ایک جارح ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے کیوں آ رہا ہے۔

ایرانی مؤقف بالکل واضح ہے: جب اس کے حساس مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، تو اب اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی بھی قدم اٹھائے۔ عراق، شام، قطر، بحرین، اور خلیج کی دیگر امریکی تنصیبات اب اس خطرے کی زد میں ہیں، جسے ایران وقتی طور پر روک رہا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔

چین اور روس نے اگرچہ اب تک صرف "تحمل" کی اپیل کی ہے، مگر سفارتی محاذ پر ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے اشارے دے رہے ہیں۔ یہ عالمی قوتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے — اگر اب بھی انصاف اور توازن کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو یہ تنازع ایک عالمی بحران میں بدل سکتا ہے۔

ایرانی عوام نے اپنی حکومت پر اعتماد ظاہر کیا ہے، خاص طور پر اس بات پر کہ بروقت حساس مواد کو محفوظ بنا کر ایک ممکنہ تباہی سے بچا لیا گیا۔ اب حکومت نہ صرف اپنے داخلی استحکام میں مضبوط ہے بلکہ اس کے پاس اخلاقی جواز بھی موجود ہے کہ وہ امریکہ کی اس کھلی جارحیت کا جواب دے۔

یہ سب کچھ ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: ایران کو دیوار سے لگانے کی کوششیں اب ناکام ہونے والی ہیں۔ نہ اسرائیلی چالیں کارگر ہوئیں، نہ یورپی سفارت کاری، اور اب امریکی میزائل بھی ایران کے عزم کو نہیں جھکا سکے۔ ایران نے جنگ شروع نہیں کی، مگر اگر اس پر جنگ مسلط کی گئی تو وہ اسے ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے — چاہے قیمت کوئی بھی ہو۔
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ