جمعہ، 17 اکتوبر، 2025

وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت (1)



 وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت (1)
وجود — حقیقت کی اساس
وجود کی چار اقسام
فلسفے میں "وجود" کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عام طور پر وجود کی چار بنیادی اقسام بیان کی جاتی ہیں:
پہلی قسم : جس کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں
یہ واجب الوجود ہے
دوسری قسم: جس کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ممکن ہیں
— اسے ممکن الوجود کہتے ہیں،
جس کا ہونا ممکن ہی نہیں
— یہ ممتنع الوجود ہے،
جس کا ہونا اور مٹ جانا دونوں ممکن ہیں
— یہ حادث الوجود کہلاتا ہے،

 وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت
سائنس کہتی ہے کہ ہر شے "توانائی" کی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
یہ توانائی کبھی ذرّے میں قید ہوتی ہے، کبھی روشنی بن کر سفر کرتی ہے،
اور کبھی نظامِ حیات میں حرکت اور شعور کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
یہی “توانائی کا تسلسل” دراصل وجود کی سائنسی تعبیر ہے۔
انسان کی عقل جب وجود کی حقیقت کو سمجھنے نکلتی ہے تو اسے وجود کی چار بنیادی جہتیں نظر آتی ہیں —
بالکل ایسے ہی جیسے طبیعیات میں مادہ چار حالتوں میں ظاہر ہوتا ہے: ٹھوس، مائع، گیس اور پلازما۔

 1. وہ وجود جو مٹ ہی نہیں سکتا — واجب الوجود
کائنات کے تمام قوانین ایک مرکزی مستقل حقیقت پر قائم ہیں۔
سائنس اسے 
Universal Constant
 یا 
Law of Conservation
 کہتی ہے —
جس کے مطابق “توانائی نہ پیدا کی جا سکتی ہے نہ فنا کی جا سکتی ہے، صرف ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتی ہے۔”
یہی وہ ابدی اصول ہے جس کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
اگر یہ اصول لمحہ بھر کے لیے ٹوٹ جائے تو کائنات کا توازن ختم ہو جائے۔
اسی کو فلسفہ "واجب الوجود" کہتا ہے — وہ حقیقت جو ہر شے کے وجود کی بنیاد ہے۔

2. وہ وجود جو ہو بھی سکتا ہے اور نہ بھی — ممکن الوجود
یہ وہ دائرہ ہے جہاں خلقت، ارتقا اور انتخاب کا عمل جاری ہے۔
ایک بیج زمین میں ہو تو درخت بن سکتا ہے، نہ ہو تو مٹی میں مل جاتا ہے۔
ایک انسانی جنین ڈی این اے کے ایک معمولی تغیر سے پیدا ہوتا ہے — اگر وہ تغیر نہ ہو تو وجود ممکن نہیں رہتا۔
یہی “ممکن الوجود” کی سائنسی صورت ہے:
جس کے ہونے کے لیے شرائط لازم ہیں،
اور نہ ہونے کے لیے کمی کافی۔

 3. وہ وجود جو عقلاً یا طبعاً ممکن ہی نہیں — ممتنع الوجود
فطرت میں کچھ تصورات ایسے ہیں جو منطقی یا طبیعی قوانین کے منافی ہیں۔
مثلاً:
روشنی سے زیادہ تیز سفر کرنا
Relativity 
کی خلاف ورزی
Absolute zero
 سے نیچے درجہ حرارت حاصل کرنا
یا بیک وقت کسی ذرّے کا دو متضاد سمتوں میں موجود ہونا بغیر کسی کوانٹم سپرپوزیشن کے۔
یہ سب ناممکن الوجود ہیں —
یعنی وہ تصورات جنہیں نہ توانائی قبول کرتی ہے، نہ منطق۔

3. وہ وجود جو پیدا بھی ہوتا ہے اور فنا بھی — حادث الوجود
یہ وجود “وقت” کے تابع ہے۔
ستارے پیدا ہوتے ہیں، توانائی ختم ہوتی ہے،
انسان جنم لیتا ہے، بڑھتا ہے، اور مٹی میں لوٹ جاتا ہے۔
فزکس کی زبان میں یہ 
Entropy
کا دائرہ ہے —
جس میں ہر نظام آہستہ آہستہ اپنی ابتدائی ترتیب کھو کر
انتشار 
(disorder)
 کی طرف بڑھتا ہے۔
یہی “حادث الوجود” ہے —
جس کا ہونا بھی ممکن ہے، اور مٹ جانا بھی لازم۔

فلسفہ وجود کو لفظوں میں بیان کرتا ہے،
اور سائنس اسے توانائی، وقت، اور نظمِ کائنات کے اصولوں میں ناپتی ہے۔
دونوں مل کر بتاتے ہیں کہ
“وجود نہ صرف حقیقت کی بنیاد ہے، بلکہ وہ مسلسل حرکت میں رہنے والی توانائی ہے،
جو کبھی ظاہر ہو جاتی ہے، کبھی اوجھل رہتی ہے، مگر کبھی فنا نہیں ہوتی۔”

وجود، خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔(2)

وجود، خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔(2)



وجود اور ماہیت — خیال اور حقیقت کا فرق
دنیا میں ہر چیز دو مرحلوں سے گزرتی ہے:
پہلے وہ خیال بنتی ہے، پھر حقیقت۔
فلسفے کی زبان میں خیال کو ماہیت
(Essence)
اور حقیقت کو وجود
(Existence)
کہا جاتا ہے۔


ماہیت — کسی چیز کا "کیا ہونا"
ماہیت دراصل کسی شے کی شناخت یا تصور ہے۔
یعنی یہ چیز کیا ہے؟
مثلاً:
گلاب کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "پھول" ہے۔
بلب کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "روشنی دینے والا آلہ" ہے۔
موبائل کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "رابطے کا ذریعہ" ہے۔
یہ سب خیالات انسان کے ذہن میں پہلے بنتے ہیں —
بالکل ایسے جیسے کسی انجینئر کے دماغ میں پل کا نقشہ بننے سے پہلے وہ پل زمین پر موجود نہیں ہوتا۔

وجود — کسی چیز کا "ہونا"
جب وہی خیال عملی صورت اختیار کرتا ہے تو وہ وجود میں آ جاتا ہے۔
جب گلاب زمین سے اگتا ہے تو وہ “موجود” ہو جاتا ہے۔
جب بلب جلتا ہے تو روشنی “وجود” میں آتی ہے۔
جب موبائل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتا ہے تو وہ “حقیقت” بن جاتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماہیت سوچ ہے، وجود اس سوچ کی عملی شکل۔

ابنِ سینا کی سادہ تشریح
ابنِ سینا نے کہا تھا:
"چیز کی اصل اس کی ماہیت ہے، اور وجود بعد میں اس پر آتا ہے۔"
یعنی پہلے خیال بنتا ہے، پھر وہ حقیقت میں بدلتا ہے۔
بالکل ایسے جیسے:
ایک ایپ یا ویڈیو گیم پہلے کمپیوٹر کوڈ کی شکل میں ذہن میں پیدا ہوتی ہے،
اور جب وہ اسکرین پر ظاہر ہوتی ہے تو “وجود” حاصل کر لیتی ہے۔

اختلاف کی جڑ — اصل کیا ہے؟
یہ بحث تب پیدا ہوئی جب لوگوں نے سوال اٹھایا:
کیا اصل حقیقت خیال (ماہیت) ہے یا اس خیال کی عملی شکل (وجود)؟
مثلاً:
ایک گیت اگر کسی کے ذہن میں ہے مگر گایا نہیں گیا —
کیا وہ گیت "موجود" ہے یا نہیں؟
کچھ کہیں گے نہیں، کیونکہ آواز نہیں نکلی۔
کچھ کہیں گے ہاں، کیونکہ خیال موجود ہے۔
یہی “وجود اور ماہیت” کا اختلاف ہے۔
جدید مثال — ڈیجیٹل دنیا
آج کی دنیا میں یہ فرق سب سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
جب آپ موبائل میں کوئی فائل بناتے ہیں —
اس کا "خیال" یا "ڈیزائن" آپ کے ذہن میں تھا (یہ ماہیت ہے)۔
جب آپ
“Save”
دباتے ہیں، تو وہ کمپیوٹر کی یادداشت میں “موجود” ہو جاتی ہے (یہ وجود ہے)۔
ہوسکتا ہے آپ اس فائل کو نہ دیکھ سکیں، مگر وہ پھر بھی وہاں ہے۔
اسی طرح کچھ چیزیں نظر نہیں آتیں مگر ان کا وجود حقیقتاً ہوتا ہے —
بالکل جیسے
Wi-Fi
کا سگنل، آواز کی لہریں، یا دل کی دھڑکن کے برقی سگنل۔


وجود کی شدت اور کمزوری
ہر وجود ایک جیسا نہیں ہوتا۔
کچھ چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں (جیسے میز یا درخت)،
اور کچھ محسوس کی جا سکتی ہیں (جیسے خوشبو، محبت یا وقت)۔
یہی فرق “شدت و ضعفِ وجود” ہے۔
جو چیز جتنی زیادہ پائیدار اور اثر رکھتی ہے، اس کا وجود اتنا ہی مضبوط ہے۔
مثلاً:
روشنی لمحاتی ہے، مگر اس کا اثر ہر سمت پھیلتا ہے۔
محبت نظر نہیں آتی، مگر دنیا کا نظام اس کے بغیر ادھورا ہے۔

مظاہر سے حقیقت کی پہچان
جو چیز دکھائی نہ دے، اسے اس کے اثرات سے پہچانا جاتا ہے۔
آپ ہوا کو نہیں دیکھ سکتے، مگر پتے ہلتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ ہوا ہے۔
آپ بجلی کو نہیں دیکھتے، مگر بلب کا جلنا بتاتا ہے کہ بجلی موجود ہے۔
بالکل اسی طرح، انسان کا وجود اس کے اعمال، الفاظ اور اثرات سے پہچانا جاتا ہے۔

جدید سائنس کا زاویہ
افلاطون نے کہا:
“وجود ہی علم کی بنیاد ہے۔”
اور آئن سٹائن نے کہا:
“کائنات کا وجود خود ایک عقلی معجزہ ہے۔”
آج کی سائنسی زبان میں یہ یوں سمجھیں کہ
کائنات کا ہر ذرہ ایک منظم نظام کا حصہ ہے —
ایک ایسا کوڈ، جسے کسی نے نہ صرف تخلیق کیا بلکہ مسلسل چلائے رکھا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی مثال
جب 
یا
یا
 کوئی روبوٹ مسئلہ حل کرتا ہے،
تو وہ دراصل انسان کے تخلیق کردہ خیال (ماہیت) کا عملی نتیجہ ہے — وجود۔
پروگرام کا خاکہ انسان نے سوچا (ماہیت)،
اور جب وہ کوڈ لکھا گیا اور چلنے لگا،
تو وہ "موجود" ہو گیا۔
یوں کہا جا سکتا ہے:
“ماہیت خیال کی دنیا میں جنم لیتی ہے،
اور وجود اسے حقیقت کی زمین پر اُتارتا ہے۔”

خلاصہ
ماہیت: خیال، تصور، یا نقشہ
وجود: اس خیال کی حقیقت یا عملی صورت
فرق: ایک ذہن میں رہتا ہے، دوسرا دنیا میں ظاہر ہوتا ہے

اور حقیقت یہ ہے کہ
“کائنات میں جو کچھ ہے — وہ کبھی کسی خیال کی ماہیت تھا،
اور آج اس خیال کا وجود بن کر ہمارے سامنے ہے۔”
اور اسی حقیقت کو  یوں بیان کیا گیا:
"کُنْتُ كَنْزًا مَخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ"
"میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔"
یہی جملہ تمام فلسفے، تمام سائنس، اور تمام معرفت کا خلاصہ ہے —
وجود، دراصل خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔

بدھ، 15 اکتوبر، 2025

تحریک لبیک اور مستقبل کا سوال (3)

تحریک لبیک اور مستقبل کا سوال (3)
تحریک لبیک پاکستان آج اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ذرا سی بے توجہی اس کے اصل مشن — عشقِ رسول ﷺ، امن اور اخلاق — کو مٹانے کا سبب بن سکتی ہے۔ سیاست کے شور اور جذبات کے طوفان میں ایمان کی روشنی اور نظم و ضبط ہی وہ طاقت ہیں جو کسی بھی تحریک کو بقا عطا کرتی ہیں۔ جب جذبات عقل پر حاوی ہو جائیں تو نعرے ایمان کے بجائے نفرت کی علامت بننے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب قیادت کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔
نظم و ضبط کی اہمیت
پاکستان میں احتجاج کی منظم روایت سب سے پہلے جماعت اسلامی نے قائم کی۔ ان کے اجتماعات میں اسلحہ نہیں بلکہ تربیت، نظم اور مکالمہ ہوتا ہے۔ یہی سیاسی بصیرت کئی بار ملک کو تصادم سے بچاتی رہی۔ اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت نے اختلافات کے باوجود اعتدال اور فہمِ سیاست کو اپنایا۔ یہ جماعتیں یاد دلاتی ہیں کہ مذہبی سیاست کی اصل طاقت شور نہیں بلکہ شائستگی اور حکمت ہے۔
خادم حسین رضوی کا دور
علامہ خادم حسین رضوی کے دور میں تحریک لبیک صرف ایک مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی تحریک بن کر ابھری۔ ان کا علم، توکل اور عشقِ رسول ﷺ کا پیغام عوام کے دلوں میں اتر گیا۔ ان کے اجتماعات میں ایمان کی حرارت بھی تھی اور نظم کی قوت بھی۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک لبیک کا وہ فکری تسلسل، تنظیمی مرکزیت اور قیادت کا توازن آہستہ آہستہ ماند پڑتا گیا۔
قیادت کا بحران اور فکری انتشار
آج کی تحریک لبیک اندرونی اختلافات، غیر واضح فیصلوں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ کارکنان اور ہمدرد محسوس کرتے ہیں کہ تحریک کا بیانیہ کمزور ہو گیا ہے۔ جذبات باقی ہیں مگر سمت غائب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی اعتماد میں کمی اور فکری انتشار کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ربوہ، مریدکے واقعات کا بوجھ
ربوہ اور مریدکے کے واقعات نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی تحریک لبیک کو سخت دباؤ میں لا کھڑا کیا ہے۔ خلیجی ممالک استحکام اور گفت و شنید پر زور دے رہے ہیں، امریکہ نے حفاظتی وارننگز جاری کیں، اور یورپی ممالک — خصوصاً اسپین اور اٹلی — میں عدالتی کارروائیوں نے یہ ظاہر کیا کہ شدت پسندی عالمی تشویش کا موضوع بن چکی ہے۔ ایسے میں تحریک لبیک کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ ربوہ واقعے پر وضاحت نہ دینا، اسپین و اٹلی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرنا — یہ رویہ بگلے کو ریت میں چھپانے کے مترادف ہے۔
پروپیگنڈہ اور بیانیے کی کمزوری
اسی دوران ملکی و غیر ملکی میڈیا نے تحریک کے دفاتر اور گھروں سے برآمد ہونے والی رقوم کو بھارتی ایجنسی را، تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے، خیبرپختونخوا کی تبدیلی، اور افغانستان میں سرگرم فتنۂ خوارج سے جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ تمام ابواب دراصل اسی صیہونی مافیا کی کتاب کے مختلف عنوانات ہیں جو پاکستان کے وجود، اس کی عسکری قوت اور اسلامی تشخص سے خوفزدہ ہیں۔ بھارتی میڈیا اور مغربی تجزیہ کار اس بیانیے کو مزید ہوا دے رہے ہیں تاکہ دنیا کو یقین دلایا جا سکے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ افسوس کہ تحریک لبیک کی جانب سے اب تک کوئی مؤثر تردید یا وضاحتی موقف سامنے نہیں آیا۔
سوشل میڈیا پر نئی مہمات اور اندرونی خاموشی
ملک کے اندر یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ بھارت، تحریک انصاف کے علیحدگی پسند، فتنۂ خوارج، فتنۂ ہند، اور تحریک لبیک ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ یہ مہمات تنظیمی خاموشی کے سبب تقویت پا رہی ہیں۔ نہ مجلسِ شوریٰ متحرک ہے، نہ میڈیا سیل فعال۔ یہ وہ وقت ہے جب قیادت کی حکمت، شوریٰ کی بصیرت اور کارکنان کی نظم و تربیت سب سے زیادہ درکار ہیں۔
نعرے اور پیغام
وقت آ گیا ہے کہ تحریک لبیک اپنے نعروں اور اندازِ احتجاج پر نظرِ ثانی کرے۔
وہ نعرے جو کبھی ایمان کی علامت تھے، اب اشتعال کی پہچان بن چکے ہیں۔ “سر تن سے جدا” جیسے نعرے دشمنوں کے ہاتھ میں ہتھیار بن گئے ہیں، جبکہ “صدقے یا رسول اللہ ﷺ” اور “لبیک یا رسول اللہ ﷺ” جیسے عقیدت آمیز نعرے اسلام کے محبت و رحمت والے پیغام کو زندہ رکھتے ہیں۔
اسلام کا پیغام نفرت نہیں، رحمت ہے۔
فیصلہ کن موڑ
تحریک لبیک کے لیے اب وقت احتجاج کا نہیں، احتساب اور اصلاح کا ہے۔
اگر قیادت نے تعلیم یافتہ، مکالمہ پسند اور بصیرت افروز رویہ اپنایا تو یہ جماعت دوبارہ عوامی اعتماد حاصل کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک جذباتی داستان بن کر تاریخ میں دفن ہو جائے گی۔ قیادت کا کمال یہ نہیں کہ ہجوم جمع کر لے، بلکہ یہ ہے کہ ہجوم کو نظم، عقل اور امن کی راہ پر ڈال دے۔
اگر تحریک لبیک نے عشقِ رسول ﷺ کے پیغام کو سیاست کی تلخیوں سے نکال کر اخلاق، امن اور محبت کے سانچے میں ڈھال لیا، تو یہ تحریک ایک بار پھر قوم کے ایمان، اخلاق اور اتحاد کی علامت بن سکتی ہے۔

علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)


علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)
تحریک لبیک پاکستان کی کہانی دراصل عشقِ رسول ﷺ کے جذبے سے شروع ہوئی تھی۔ علامہ خادم حسین رضویؒ نے اس تحریک کو عشق، ایمان، اور اخلاق کے سنگم پر کھڑا کیا۔ ان کے خطابات میں جہاں جوش ہوتا، وہاں تہذیب بھی ہوتی؛ جہاں غیرتِ ایمانی دکھائی دیتی، وہاں احترامِ انسانیت بھی جھلکتا تھا۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک ایک ایسے موڑ پر آ گئی جس نے اس کے اخلاقی اور فکری وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اختلافات کی بازگشت
خادم حسین رضویؒ کے انتقال کے فوراً بعد پارٹی کے اندر قیادت کے تعین پر اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ تحریک کے کچھ بانی اراکین کا مؤقف تھا کہ قیادت کے لیے صرف نسب کافی نہیں، بلکہ دینی علم، سیاسی بصیرت اور اخلاقی پختگی بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ: “تحریک ایک جذباتی طوفان ہے، اگر اسے تجربہ کار ہاتھ نہ سنبھالیں تو یہ اپنے ہی خوابوں کو توڑ دے گی۔” اس اختلاف کے باوجود، مرکزی شوریٰ نے سعد رضوی کو نیا امیر مقرر کر دیا۔ یہ فیصلہ جذباتی احترام میں تو درست محسوس ہوا، مگر تنظیمی لحاظ سے کئی سوالات اٹھ گئے - ان سوالات میں ایک سوال ایک بانی کارکن کا بھی تھا “جو شخص کسی کو محض قرابت یا دوستی کی بنیاد پر ذمہ داری دے، وہ اللہ اور رسول ﷺ سے خیانت کرتا ہے۔”
(سنن بیہقی، ج5، ص65)
بانی اراکین کی خاموش رخصتی
علامہ صاحب کے چند قریبی رفقا، جو تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے، نے یا تو خاموشی اختیار کر لی یا نظریاتی اختلاف کے باعث خود کو الگ کر لیا۔ان میں بعض وہ تھے جو خادم رضویؒ کے ابتدائی جلسوں، احتجاجوں اور تنظیمی خاکے کے معمار تھے۔ان کے نزدیک تحریک کا رخ آہستہ آہستہ عوامی اصلاح سے زیادہ سیاسی مفاد کی طرف مڑ رہا تھا۔
ایک سابق ضلعی ناظم نے کہا: “اب تحریک کے اندر رائے دینا گناہ سمجھا جاتا ہے، اور سوال اٹھانا بغاوت۔”
اخلاقی گراوٹ
تحریک کا سب سے بڑا نقصان اخلاقی سطح پر ہوا۔علامہ خادم رضویؒ کی زندگی میں کارکنوں کو "زبان کی پاکیزگی" پر سختی سے تاکید کی جاتی تھی۔ ان کا فرمان ریکارڈ پر ہے “زبان بندہ کا آئینہ ہے، اگر زبان خراب ہو گئی تو دل سیاہ ہو جاتا ہے۔” (بیان فیضِ رضوی، لاہور اجتماع 2017)
لیکن آج تحریک کے کارکنان اور رہنما اکثر غلیظ زبان، طنز اور گالی کو دلیل سمجھ بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے لیے بلکہ اصلاحی ناقدین کے بارے میں ایسے جملے استعمال ہوتے ہیں جن کا ذکر بھی شرمناک ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں عشق کا بیانیہ اخلاقی زوال میں بدل گیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی یہ زوال خطرناک ہے
قرآن مجید فرماتا ہے: “اور اپنے قول میں نرمی اختیار کرو، بے شک شیطان تمہارے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔”
(سورۃ الاسراء، آیت 53)
جب عشق نفرت میں بدل جائے
تحریک کی اصل بنیاد محبت، ادب، اور عشقِ رسول ﷺ تھی۔
مگر اب جلسوں اور تقاریر میں جذباتی ردعمل، ذاتی حملے، اور بد زبانی کا رنگ غالب رہنے لگآ جو تحریک عشقِ نبی ﷺ کے نام پر اُٹھی تھی، وہ رفتہ رفتہ نفرت کے اظہار کا ذریعہ بن گئی۔ اور جب محبت نفرت میں بدل جائے تو سنجیدہ لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خادم رضویؒ کے زمانے کے کئی سنجیدہ مذہبی علما، صوفیا، اور فکری ہمدرد اب اس تحریک سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں۔
نا تجربہ کاری
سعد رضوی کی جوانی اور بے تجربگی کے باعث تنظیمی نظم ڈھیلا پڑ گیا۔
نوجوان قیادت کا جوش، دانائی کے بغیر، اکثر شدت میں بدل گیا۔ کئی بار تحریک کے بیانات اور پالیسی فیصلے ملک کے اندر سیاسی بحران کا سبب بنے۔
یہ سب وہ اشارے ہیں جن سے لگتا ہے کہ پارٹی فکری کمزوری اور اخلاقی بحران دونوں کا شکار ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: “جو شخص تجربے سے خالی ہو، وہ خود اپنی رائے کا قیدی بن جاتا ہے۔”
(نہج البلاغہ)
تحریک کی بقا اخلاقی اصلاح میں ہے
تحریک لبیک اگر واقعی خادم حسین رضویؒ کے مشن کو زندہ رکھنا چاہتی ہے، تو اسے تنظیمی اصلاح، اخلاقی تربیت، اور قیادت میں بہتری لانا ہو گی۔ محبت اور ادب کے بغیر مذہبی بیانیہ، صرف نعروں کا شور بن جاتا ہے۔
اور نعروں کا شور سیاسی پارتی کا تو ممکن ہے مگر مزہبی پارٹی پر سوال اتھ جایا کرتے ہین اور یہ سوال باہر سے نہیں تحریک لبیک کے ابدر سے اتھ رہے ہیں
اگر تحریک نے خود احتسابی نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب عشقِ رسول ﷺ کا نعرہ بھی سیاست کی گرد میں دب جائے گا۔
(جاری ہے )

علامہ خادم حسین رضوی (1)




عنوان: عاشقِ رسولؐ علامہ خادم حسین رضوی — علم، عشق اور توکل کی ایک داستان

 دلپزیر احمد جنجوعہ

دینِ اسلام کی تاریخ ایسے رجالِ کار سے بھری پڑی ہے جنہوں نے عشقِ رسول ﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ انہی عاشقانِ مصطفی ﷺ میں ایک نام علامہ خادم حسین رضوی کا بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک عالمِ باعمل، نڈر مقرر، اور باوقار قائد تھے بلکہ عشقِ رسول ﷺ کے ایسے دیوانے کہ اپنی جان، مال اور آرام سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم

خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو ضلع اٹک کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسے سے حاصل کی اور بعدازاں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ قرآن و حدیث پر گہری نظر، عربی و فارسی پر عبور اور فقہ و سیرت کی گہری فہم نے انہیں کم عمری ہی میں ممتاز بنا دیا۔
علم اور خطابت کا سفر

خادم حسین رضوی کا اصل تعارف ان کی دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی خطابت تھی۔ لاہور کے منبر سے لے کر کراچی اور پشاور کے اجتماعات تک، جب وہ زبان کھولتے تو دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی آگ بھڑک اٹھتی۔ ان کی گفتگو میں علم، درد، اور عقیدت کا ایسا امتزاج ہوتا کہ سننے والے دیر تک مسحور رہ جاتے۔
توکل اور زہد کی جھلک

حادثے کے باعث زندگی بھر وہیل چیئر پر رہنے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ان کی زندگی فقیرانہ انداز، قناعت، اور اللہ پر کامل توکل کی مثال تھی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے:


“میں نے اللہ کے دین کے لیے قلم اٹھایا ہے، اس کا نتیجہ وہی لکھے گا جو بہتر ہوگا۔”

دنیاوی آسائشوں سے بے نیاز، وہ سادہ لباس، معمولی کھانے، اور کم سامانِ زیست پر قناعت کرتے تھے۔ مگر دل  
عشقِ رسول ﷺ سے مالا مال تھا۔
میں نے ان کی زبان سے سنا "ایک روٹی اور اچار کی دو ڈلیاں" میرے لیے کافی ہیں
عشقِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت کا دفاع

علامہ خادم حسین رضوی کا سب سے نمایاں پہلو ان کا عشقِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کا عزم تھا۔ وہ کسی بھی سطح پر گستاخیِ رسول ﷺ کے خلاف آواز بلند کرتے اور لاکھوں دلوں میں عشق کی حرارت پیدا کر دیتے۔ ان کے جلسوں میں نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک، سب کے دل عشق و ایمان سے لبریز ہوتے۔
اخلاص اور عوامی مقبولیت

خادم حسین رضوی نے اقتدار کی نہیں بلکہ عقیدت کی سیاست کی۔ ان کے جلسے کسی سیاسی شو سے زیادہ روحانی اجتماع کا منظر پیش کرتے۔ ان کے چاہنے والے انہیں “مجاہدِ ناموسِ رسالت ﷺ” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
انتقال اور عوامی سوگ

انیس  نومبر 2020 کو جب ان کے انتقال کی خبر پھیلی تو پورا ملک غم میں ڈوب گیا۔ لاکھوں لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ ان کے چاہنے والوں کے چہروں پر آنسو اور زبانوں پر درود و سلام تھا۔ یہ محبت، یہ عقیدت اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ دلوں پر راج کرنے والے انسان تھے۔

علامہ خادم حسین رضوی کی زندگی ایک پیغام تھی
علم کے ساتھ عمل، عشق کے ساتھ ادب، اور قیادت کے ساتھ توکل۔
ان کی یاد آج بھی اس بات کی علامت ہے کہ عشقِ رسول ﷺ اگر خلوص کے ساتھ ہو تو انسان کے جسم کی معذوری بھی روح کے عزم کو روک نہیں سکتی۔
نوٹ: یہ مضمون تین قسطوں پر محیط ہے ۔ )
  (یہ پہلی قسط ہے