وجود اور ماہیت — خیال اور حقیقت کا فرق
دنیا میں ہر چیز دو مرحلوں سے گزرتی ہے:
پہلے وہ خیال بنتی ہے، پھر حقیقت۔
فلسفے کی زبان میں خیال کو ماہیت
(Essence)
اور حقیقت کو وجود
(Existence)
کہا جاتا ہے۔
ماہیت — کسی چیز کا "کیا ہونا"
ماہیت دراصل کسی شے کی شناخت یا تصور ہے۔
یعنی یہ چیز کیا ہے؟
مثلاً:
گلاب کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "پھول" ہے۔
بلب کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "روشنی دینے والا آلہ" ہے۔
موبائل کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "رابطے کا ذریعہ" ہے۔
یہ سب خیالات انسان کے ذہن میں پہلے بنتے ہیں —
بالکل ایسے جیسے کسی انجینئر کے دماغ میں پل کا نقشہ بننے سے پہلے وہ پل زمین پر موجود نہیں ہوتا۔
وجود — کسی چیز کا "ہونا"
جب وہی خیال عملی صورت اختیار کرتا ہے تو وہ وجود میں آ جاتا ہے۔
جب گلاب زمین سے اگتا ہے تو وہ “موجود” ہو جاتا ہے۔
جب بلب جلتا ہے تو روشنی “وجود” میں آتی ہے۔
جب موبائل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتا ہے تو وہ “حقیقت” بن جاتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماہیت سوچ ہے، وجود اس سوچ کی عملی شکل۔
ابنِ سینا کی سادہ تشریح
ابنِ سینا نے کہا تھا:
"چیز کی اصل اس کی ماہیت ہے، اور وجود بعد میں اس پر آتا ہے۔"
یعنی پہلے خیال بنتا ہے، پھر وہ حقیقت میں بدلتا ہے۔
بالکل ایسے جیسے:
ایک ایپ یا ویڈیو گیم پہلے کمپیوٹر کوڈ کی شکل میں ذہن میں پیدا ہوتی ہے،
اور جب وہ اسکرین پر ظاہر ہوتی ہے تو “وجود” حاصل کر لیتی ہے۔
اختلاف کی جڑ — اصل کیا ہے؟
یہ بحث تب پیدا ہوئی جب لوگوں نے سوال اٹھایا:
کیا اصل حقیقت خیال (ماہیت) ہے یا اس خیال کی عملی شکل (وجود)؟
مثلاً:
ایک گیت اگر کسی کے ذہن میں ہے مگر گایا نہیں گیا —
کیا وہ گیت "موجود" ہے یا نہیں؟
کچھ کہیں گے نہیں، کیونکہ آواز نہیں نکلی۔
کچھ کہیں گے ہاں، کیونکہ خیال موجود ہے۔
یہی “وجود اور ماہیت” کا اختلاف ہے۔
جدید مثال — ڈیجیٹل دنیا
آج کی دنیا میں یہ فرق سب سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
جب آپ موبائل میں کوئی فائل بناتے ہیں —
اس کا "خیال" یا "ڈیزائن" آپ کے ذہن میں تھا (یہ ماہیت ہے)۔
جب آپ
“Save”
دباتے ہیں، تو وہ کمپیوٹر کی یادداشت میں “موجود” ہو جاتی ہے (یہ وجود ہے)۔
ہوسکتا ہے آپ اس فائل کو نہ دیکھ سکیں، مگر وہ پھر بھی وہاں ہے۔
اسی طرح کچھ چیزیں نظر نہیں آتیں مگر ان کا وجود حقیقتاً ہوتا ہے —
بالکل جیسے
Wi-Fi
کا سگنل، آواز کی لہریں، یا دل کی دھڑکن کے برقی سگنل۔
وجود کی شدت اور کمزوری
ہر وجود ایک جیسا نہیں ہوتا۔
کچھ چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں (جیسے میز یا درخت)،
اور کچھ محسوس کی جا سکتی ہیں (جیسے خوشبو، محبت یا وقت)۔
یہی فرق “شدت و ضعفِ وجود” ہے۔
جو چیز جتنی زیادہ پائیدار اور اثر رکھتی ہے، اس کا وجود اتنا ہی مضبوط ہے۔
مثلاً:
روشنی لمحاتی ہے، مگر اس کا اثر ہر سمت پھیلتا ہے۔
محبت نظر نہیں آتی، مگر دنیا کا نظام اس کے بغیر ادھورا ہے۔
مظاہر سے حقیقت کی پہچان
جو چیز دکھائی نہ دے، اسے اس کے اثرات سے پہچانا جاتا ہے۔
آپ ہوا کو نہیں دیکھ سکتے، مگر پتے ہلتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ ہوا ہے۔
آپ بجلی کو نہیں دیکھتے، مگر بلب کا جلنا بتاتا ہے کہ بجلی موجود ہے۔
بالکل اسی طرح، انسان کا وجود اس کے اعمال، الفاظ اور اثرات سے پہچانا جاتا ہے۔
جدید سائنس کا زاویہ
افلاطون نے کہا:
“وجود ہی علم کی بنیاد ہے۔”
اور آئن سٹائن نے کہا:
“کائنات کا وجود خود ایک عقلی معجزہ ہے۔”
آج کی سائنسی زبان میں یہ یوں سمجھیں کہ
کائنات کا ہر ذرہ ایک منظم نظام کا حصہ ہے —
ایک ایسا کوڈ، جسے کسی نے نہ صرف تخلیق کیا بلکہ مسلسل چلائے رکھا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی مثال
جب
یا
یا
کوئی روبوٹ مسئلہ حل کرتا ہے،
تو وہ دراصل انسان کے تخلیق کردہ خیال (ماہیت) کا عملی نتیجہ ہے — وجود۔
پروگرام کا خاکہ انسان نے سوچا (ماہیت)،
اور جب وہ کوڈ لکھا گیا اور چلنے لگا،
تو وہ "موجود" ہو گیا۔
یوں کہا جا سکتا ہے:
“ماہیت خیال کی دنیا میں جنم لیتی ہے،
اور وجود اسے حقیقت کی زمین پر اُتارتا ہے۔”
خلاصہ
ماہیت: خیال، تصور، یا نقشہ
وجود: اس خیال کی حقیقت یا عملی صورت
فرق: ایک ذہن میں رہتا ہے، دوسرا دنیا میں ظاہر ہوتا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ
“کائنات میں جو کچھ ہے — وہ کبھی کسی خیال کی ماہیت تھا،
اور آج اس خیال کا وجود بن کر ہمارے سامنے ہے۔”
اور اسی حقیقت کو یوں بیان کیا گیا:
"کُنْتُ كَنْزًا مَخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ"
"میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔"
یہی جملہ تمام فلسفے، تمام سائنس، اور تمام معرفت کا خلاصہ ہے —
وجود، دراصل خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔