پیر، 13 اکتوبر، 2025

امن کی نئی صبح



 مشرقِ وسطیٰ میں امن کی نئی صبح

 شرم الشیخ میں آج ایک تاریخی بین الاقوامی امن اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔
یہ اجلاس غزہ میں جنگ بندی کو مستقل امن میں بدلنے، تعمیرِ نو کے منصوبے بنانے اور مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے نئے دور کے آغاز کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔

شرکت کرنے والے ممالک
اس اہم اجلاس میں  فلسطین، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ، اردن، بحرین، عمان، کویت، لبنان، عراق، شام، الجزائر، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، یمن، ایران، چین، روس، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، اسپین، نیدرلینڈ، یونان، ناروے، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور، جنوبی افریقہ، نائیجیریا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی یونین کے نمائندے شامل ہیں۔
البتہ اسرائیل اور حماس کو اجلاس میں باضابطہ طور پر مدعو نہیں کیا گیا، تاہم دونوں کے نمائندوں سے بالواسطہ رابطہ رکھا جا رہا ہے۔

اجلاس کے مقاصد
مصری ایوانِ صدر کے مطابق اجلاس کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی کو پائیدار بنانا، انسانی امداد کی فراہمی کو منظم کرنا، تعمیرِ نو کا جامع منصوبہ بنانا، اور طویل المدتی سیاسی استحکام کے لیے مؤثر لائحہ عمل طے  کرنا ہے۔
یہ اجلاس اس تین روزہ جنگ بندی کے فوراً بعد منعقد ہو رہا ہے جو مصر، قطر، ترکیہ، امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ سفارتی کوششوں سے ممکن ہوئی۔
تازہ معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی، خان یونس، رفح، بیت لحیا اور بیت حانون کے بعض حصوں سے جزوی انخلا شروع کیا ہے جبکہ پانچ سرحدی راستے انسانی امداد اور غذائی سامان کے لیے کھولے جا چکے ہیں۔

قیادت کے بیانات

صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنے خطاب میں کہا
“مصر اس یقین کے ساتھ یہ کانفرنس منعقد کر رہا ہے کہ امن ہی ترقی، انصاف اور انسانی خوشحالی کی بنیاد ہے۔ آج دنیا کو ایک متحد آواز میں ظلم کے خاتمے اور تعمیر کے آغاز کا پیغام دینا ہوگا۔”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا
“ہم مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئے دور میں داخل کر رہے ہیں — ایسا دور جہاں جنگ نہیں بلکہ تعاون ہوگا۔ امریکہ، مصر، قطر، ترکیہ اور پاکستان نے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا ہے جو غزہ میں امن کو پائیدار بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔”

عالمی تعاون اور وعدے
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے خصوصی فنڈ کے قیام کا اعلان کیا۔
قطر نے ایک بین الاقوامی ریلیف میکنزم کی تجویز دی جو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں چلے گا۔
ترکیہ نے فوری بحالی اور طبی نظام کی تعمیرِ نو میں عملی مدد کا وعدہ کیا۔
پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت ادویات، خوراک اور طبی عملہ بھجوانے کا اعلان کیا۔
چین اور روس نے اس بات پر زور دیا کہ امن صرف برابری، انصاف اور خودمختاری کے اصولوں پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔
یورپی ممالک — فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور یورپی یونین — نے تکنیکی و مالی تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

فلسطینی عوام کی امید
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس کو “امید کی کرن” قرار دیتے ہوئے کہا
“اگر عالمی برادری اپنے وعدوں کو عمل میں تبدیل کرے تو ریاستِ فلسطین کا قیام اب ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بن سکتا ہے۔”

شرم الشیخ امن اجلاس کو مشرقِ وسطیٰ میں امن، استحکام اور تعاون کے نئے دور کا نقطۂ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
اگر طے شدہ نکات عملی شکل اختیار کر گئے تو غزہ کی تباہ شدہ زمین ایک بار پھر زندگی، امید اور تعمیر کی علامت بن سکتی ہے۔
یہ اجلاس اس حقیقت کا مظہر ہے کہ دنیا کی طاقتیں اب جنگ نہیں، امن کی زبان بولنا چاہتی ہیں
اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن کا سورج طلوع ہونے جا رہا ہے۔

ہفتہ، 11 اکتوبر، 2025

شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا



شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا



دنیا کے سب سے باوقار اعزازات میں شمار ہونے والا نوبل امن انعام اس سال بھی عالمی سیاست کا مرکزِ نگاہ بنا رہا۔ مگر 2025 کا اعلان ایک غیر متوقع بحث کو جنم دے گیا — کیونکہ جنہیں سب سے زیادہ مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا، یعنی امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وہ یہ انعام حاصل نہ کر سکے۔

صدر ٹرمپ کو یقین تھا کہ اُن کے حالیہ امن اقدامات، خصوصاً غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اور مشرقِ وسطیٰ میں امن مذاکرات، اُنہیں عالمی سطح پر امن کا علمبردار بنا چکے ہیں۔ کئی تجزیہ کار اور ان کے حمایتی بھی یہ سمجھتے تھے کہ نوبل کمیٹی اس بار اُن کی کوششوں کو تسلیم کرے گی۔ لیکن جب اعلان ہوا تو یہ اعزاز وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کے حصے میں آیا۔

صدر ٹرمپ کا ابتدائی ردِعمل بظاہر پُر سکون تھا، مگر ان کے الفاظ میں مایوسی کی ہلکی جھلک صاف محسوس ہوئی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ماریا کورینا ماچادو نے انہیں ذاتی طور پر فون کر کے بتایا کہ وہ یہ انعام ’’صدر ٹرمپ کے اعزاز میں‘‘ قبول کر رہی ہیں۔ ٹرمپ نے کہا:

’’میں نے وہ کام کیے جو کئی دہائیوں سے کوئی نہیں کر سکا — امن، قیدیوں کی رہائی، اور دشمنوں کے درمیان مذاکرات — لیکن کچھ ادارے امن سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی نوبل کمیٹی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ سیاست کو امن پر ترجیح دینے کا ثبوت ہے‘‘۔
 صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی حلقے میں کہا کہ وہ ’’انعام کے بغیر بھی دنیا کے امن کے لیے کام جاری رکھیں گے‘‘، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ ’’نوبل کمیٹی نے موقع گنوا دیا‘‘۔

صدر کے حامیوں میں اس فیصلے کے بعد ایک طوفان مچ گیا۔ ریپبلکن رہنماؤں اور قدامت پسند حلقوں نے نوبل کمیٹی پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ سوشل میڈیا پر نوبل کمیٹی کے خلاف  مہم شروع ہو گئی۔

کئی سیاسی شخصیات نے طنزیہ انداز میں ’’ٹرمپ امن انعام‘‘ کے مجسمے اور تصویریں شیئر کیں۔ ایک سینیٹر نے لکھا:


’’اگر نوبل کمیٹی نے انصاف کیا ہوتا، تو آج امن کے انعام کے ساتھ امریکہ کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔‘‘

ٹرمپ کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ، کوریا اور افریقہ میں امن کے لیے جو اقدامات کیے، وہ کسی بھی عالمی رہنما سے زیادہ قابلِ تعریف ہیں۔ ان کے نزدیک نوبل کمیٹی نے ’’عالمی اشرافیہ کے دباؤ میں آ کر ایک سیاسی فیصلہ کیا۔‘‘


دنیا بھر میں اس فیصلے پر ردِعمل ملا جلا رہا۔

نوبل انعام حاصل کرنے والی ماریا کورینا ماچادو نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ یہ اعزاز ’’صدر ٹرمپ کے ساتھ شیئر کرتی ہیں‘‘ کیونکہ انہوں نے وینزویلا کی جمہوری تحریک کے لیے ’’اہم عالمی حمایت‘‘ فراہم کی۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹرمپ کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے عالمی سطح پر تنازعات کے حل کے لیے عملی کوششیں کیں‘‘۔
جبکہ نوبل کمیٹی نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتخاب خالصتاً میرٹ اور امن کے اصولوں پر مبنی تھا، کسی سیاسی دباؤ کے بغیر۔‘‘

امریکی میڈیا میں بھی بحث چھڑ گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق زیادہ تر امریکی ووٹرز کا خیال ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کے کچھ اقدامات قابلِ ذکر ہیں، مگر وہ نوبل انعام کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔


یہ پہلا موقع نہیں کہ صدر ٹرمپ نے عالمی اداروں کے فیصلوں کو ’’متعصب‘‘ قرار دیا ہو۔ لیکن اس بار معاملہ صرف ایک انعام کا نہیں بلکہ عالمی ساکھ اور امریکی بیانیے کا بھی ہے۔

ٹرمپ کے لیے نوبل انعام نہ ملنا شاید وقتی دھچکا ہو، مگر سیاسی طور پر یہ اُن کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے حامیوں نے اس فیصلے کو ایک نئے نعروں میں بدل دیا ہے 


’’امن کی خدمت، انعام کی نہیں۔‘‘

صدر ٹرمپ کے لیے یہ انعام شاید نہ سہی، لیکن عالمی توجہ، سیاسی فائدہ اور عوامی تاثر — یہ سب ابھی بھی ان کے پاس ہیں۔ اور بعض اوقات سیاست میں یہ سب کچھ نوبل انعام سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتا ہے۔
تحریر: دلپزیر  جنجوعہ

جمعہ، 10 اکتوبر، 2025

غزہ میں امن کی کرن






غزہ کی مساجد مین اب  بھی اذان کی صدا گونجتی ہے، یہ سرزمین محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایمان، قربانی اور استقامت کی علامت ہے۔ فلسطینی عوام کا اپنے وطن سے روحانی، مذہبی اور تاریخی تعلق اتنا گہرا ہے کہ سات دہائیوں کی آگ اور خون کی بارش بھی اسے کمزور نہ کر سکی۔

نو اکتوبر 2025، دوپہر دو بجے—دنیا نے ایک نیا منظر دیکھا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل اور خونی جنگ کے بعد ایک نازک مگر امید بھرا معاہدہ نافذ ہوا۔ اس کے تحت 400 ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہونے لگے، یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا، اور شہری آبادیوں سے اسرائیلی فوج کے انخلا کی خبریں آنے لگیں۔ برسوں کے بعد، ملبے کے درمیان کچھ چہروں پر زندگی کی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ غزہ کے لوگ جو بچ گئے، انہوں نے اس معاہدے کو امن کی پہلی سانس قرار دیا۔

لیکن امن کی یہ سانس کتنی نازک ہے، یہ صرف وہ جانتے ہیں جنہوں نے 724 دنوں تک موت کے سائے میں زندگی گزاری۔ دو برس سے زائد عرصے میں 92 فیصد اسکول تباہ ہو گئے، 63 یونیورسٹیاں مٹی کا ڈھیر بن گئیں، اور باقی تعلیمی ادارے بھی ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔۔ 62 فیصد لوگ اپنے گھروں اور زمینوں کے دستاویزی ثبوت کھو چکے ہیں۔ تین لاکھ سے زیادہ جانیں قربان ہو چکیں، اور 50 ہزار بچے بھوک اور بیماری کے ہاتھوں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں۔ یہ وہ چہرے ہیں جن پر کسی دنیاوی معاہدے کا نام تحریر نہیں، مگر ان کی خاموشی سب سے بڑا الزام ہے۔

سیاسی منظر بھی پیچیدہ ہے۔ نیتن یاہو کا دو ریاستی حل سے انکار عرب و مسلم دنیا میں اتحاد کی نئی لہر پیدا کر رہا ہے۔ ٹونی بلیر کے بارے میں عرب حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ "جنگی مجرم" ہے، ایک اسرائیلی وزیر نے کھلے عام کہا کہ "یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس کو ختم کر دیا جائے گا" — یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے پیچھے اب بھی انتقام کی آنچ باقی ہے۔

اس کے برعکس، بین الاقوامی منظرنامے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوداعتمادی اور آٹھ ممالک کی شمولیت نے اس معاہدے کو وقتی طور پر مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔  مگر اقوام متحدہ اور علمی برادری کا کہنا ہے کہ حقیقی امن انصاف اور جواب دہی کے بغیر ممکن نہیں۔ ماضی کے معاہدے دیرپا ثابت نہیں ہوئے، اس لیے دنیا کے لیے یہ ایک آزمائش ہے کہ کیا وہ اس بار انصاف کے ساتھ امن کو جوڑ سکتی ہے یا نہیں۔

غزہ کی داستان سیاست کی نہیں، انسانیت کی ہے۔ قحط نے جسم سوکھا دیے، مگر روح کو زندہ رکھا۔ انسان کا سر پھول جاتا ہے، ہڈیوں سے گوشت غائب ہو جاتا ہے، مگر بچے پھر بھی اپنے ٹوٹے کھلونوں سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی امید ہے، جو اس ملبے میں بھی زندہ ہے۔ حماس اور فلسطینی عوام نے معاہدہ قبول کیا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت صرف گولی سے نہیں، یقین سے جیتی جاتی ہے۔ یہ فتح تحفے میں نہیں ملی؛ یہ خون، صبر اور قربانی سے حاصل کی گئی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس فتح کو کیسے دیکھے گی؟ اگر انصاف نہ ہوا، اگر جنگی جرائم کی نشاندہی اور احتساب نہ کیا گیا، تو یہ امن محض وقتی خاموشی بن کر رہ جائے گا۔  اگر اس موقع کو انصاف، تعمیر نو اور انسانی وقار کے ساتھ جوڑا گیا، تو یہی معاہدہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

غزہ آج بھی سانس لے رہا ہے—زخمی، کمزور، مگر زندہ۔ وہاں کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ امید کو مارا نہیں جا سکتا۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی ایک روشنی باقی ہے، وہ روشنی جو ملبے کے بیچ سے پھوٹتی ہے، جو دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ امن صرف طاقت سے نہیں، انصاف سے قائم ہوتا ہے۔ اور جب انصاف قائم ہو جائے گا، تب شاید فلسطین کی زمین پر پہلی بار حقیقی امن کا سورج طلوع ہوگا۔

بدھ، 8 اکتوبر، 2025

تیسرا دن: شرم الشیخ میں امن مذاکرات میں پیش رفت






تیسرا دن: شرم الشیخ میں امن مذاکرات میں پیش رفت
مشرقِ وسطیٰ میں امن کے امکانات نے تیسری بار روشن کرن دکھائی جب شرم الشیخ میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے تیسرے دن ایک اہم پیش رفت سامنے آئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک غیر متعلقہ تقریب کے دوران اعلان کیا، “مجھے بتایا گیا ہے کہ ہم امن معاہدے کے بہت قریب ہیں۔”
صدر کے مطابق، یہ پیغام انہیں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے ہاتھ سے موصول ایک نوٹ میں ملا، جس میں لکھا تھا: “آپ کو فوراً ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کی منظوری دینی چاہیے تاکہ آپ پہلے امن معاہدے کا اعلان کر سکیں۔” اس لمحے ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے کہا، “ہم مشرقِ وسطیٰ میں امن کے بہت قریب ہیں۔”

شرم الشیخ مذاکرات: نیا موڑ
بدھ کے روز مصری بحیرہ احمر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی بات چیت میں مصری، قطری اور ترک ثالثوں نے حماس کے نمائندوں کے ساتھ سات گھنٹے طویل نشست کی۔ ذرائع کے مطابق بات چیت کا مرکز امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا، جس میں جنگ بندی، تمام مغویوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا غزہ کے کچھ حصوں سے انخلا شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ قیدیوں کی فہرستوں اور جنگ بندی کی ضمانتوں پر قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ حماس نے تمام اسرائیلی مغویوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کی ہے، جبکہ شہدا کی لاشوں کی حوالگی زمینی حالات بہتر ہونے پر کی جائے گی۔

امن منصوبے کے خدوخال
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق، غزہ میں فوری جنگ بندی کے ساتھ اسرائیل اپنے فوجی پیچھے ہٹائے گا اور انسانی امداد کا راستہ کھولا جائے گا۔ اس منصوبے میں ایک بین الاقوامی فورس — زیادہ تر عرب و مسلم ممالک کی — غزہ میں سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالے گی، جبکہ امریکا ایک بڑے تعمیرِ نو کے پروگرام کی قیادت کرے گا۔
اس منصوبے کا مقصد صرف جنگ بندی نہیں بلکہ ایک پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا،
“اس کا مطلب ہے کہ تمام مغوی بہت جلد رہا کیے جائیں گے، اسرائیلی افواج طے شدہ حد تک پیچھے ہٹیں گی، اور یہ ایک مضبوط، دیرپا اور حقیقی امن کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ تمام فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔”

اسرائیل اور فلسطین کا ردِعمل

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا، “خدا کے فضل سے ہم سب کو واپس گھر لائیں گے۔”
حماس نے اس بات کی تصدیق کی کہ معاہدے میں اسرائیلی فوج کے انخلا، امداد کے داخلے، اور قیدیوں کے تبادلے کی ضمانت شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق، حماس اس ہفتے کے اختتام تک تمام 20 زندہ مغویوں کو رہا کرے گی، جبکہ اسرائیلی افواج غزہ کے بیشتر حصوں سے انخلا شروع کریں گی۔


بین الاقوامی ثالث اور آئندہ مرحلہ
ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر بدھ کو شرم الشیخ پہنچے تاکہ معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے۔ اجلاس میں مصر، قطر اور ترکی کے اعلیٰ حکام کے علاوہ اسرائیلی وفد بھی شریک تھا۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی صدر ٹرمپ کو دعوت دی ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوں تو وہ معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک ہوں۔ اپنے خطاب میں السیسی نے کہا، “مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں، امید ہے تمام فریق اس موقع کو امن کے لیے استعمال کریں گے۔”

امن کا تیسرا موقع
یہ جنگ کے آغاز کے بعد تیسرا بڑا جنگ بندی معاہدہ ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوا، تو یہ نہ صرف دو سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

جیسے ٹرمپ نے کہا، “یہ صرف غزہ کا امن نہیں، یہ پورے مشرقِ وسطیٰ کا امن ہے۔”

ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ



شرم الشیخ میں امن مزاکرات کے بارے میں بہت کم خبریں باہر آرہی ہیں البتہ عرب میڈیا میں ایک ترمیم شدہ 20 نکاتی ٹرم پلان کا مسودہ گردش کر رہا ہے جو الجزیرہ ٹی وی کی ویب سایٹ پر بھی مجود ہے ۔ اپنے دوستوں کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش ہے

ترمیم شدہ 20 نکاتی منصوبہ: نوآبادیاتی شرائط سے آزاد ٹرمپ پلان


فلسطین اور اسرائیل دونوں ایسے دہشت گردی سے پاک ممالک ہوں گے جو اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ ہوں۔


فلسطین کو فلسطینی عوام کے فائدے کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جنہوں نے پہلے ہی بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔


اگر دونوں فریق اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی افواج قیدیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ حد تک پیچھے ہٹ جائیں گی، اور تمام فوجی کارروائیاں بند ہو جائیں گی۔


دونوں فریقوں کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی طور پر قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام مغوی — زندہ اور جاں بحق — واپس کر دیے جائیں گے۔


تمام مغویوں کی رہائی کے بعد، اسرائیل عمر قید یافتہ قیدیوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام فلسطینی قیدی بھی رہا کرے گا جنہیں 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔


جب تمام مغوی واپس کر دیے جائیں، تو ایسے حماس اراکین جو پُرامن بقائے باہمی پر آمادہ ہوں اور اپنے ہتھیار جمع کرائیں، انہیں عام معافی دی جائے گی۔ جو حماس اراکین غزہ چھوڑنا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔


اس معاہدے کی منظوری کے فوراً بعد مکمل انسانی امداد غزہ پٹی میں داخل کی جائے گی۔ کم از کم امدادی مقدار 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے مطابق ہوگی، جس میں بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، نکاسیٔ آب) کی بحالی، اسپتالوں اور تنور خانوں کی تعمیرِ نو، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری آلات کی فراہمی شامل ہے۔


غزہ میں امداد اور سامان کی تقسیم اقوام متحدہ، اس کی ایجنسیوں، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانب دار بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بغیر کسی مداخلت کے کی جائے گی۔ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں اسی طریقہ کار کے تحت کھولا جائے گا جو 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں نافذ کیا گیا تھا۔


فلسطین، جس میں غزہ ایک لازمی حصہ ہوگا، فلسطینی اتھارٹی (PA) کے تحت ہوگا۔ بین الاقوامی مشیر اس عمل میں مدد کر سکتے ہیں، لیکن خودمختاری صرف فلسطینیوں کی ہوگی۔


فلسطینی اتھارٹی عرب ماہرین اور منتخب بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے تعمیر نو اور ترقی کا منصوبہ تیار کرے گی۔ بیرونی تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن اقتصادی منصوبہ بندی عرب قیادت میں ہوگی۔


فلسطینی خصوصی اقتصادی زون قائم کر سکتے ہیں، جس کے محصولات اور تجارتی نرخ فلسطین اور شراکت دار ممالک کے درمیان طے پائیں گے۔


کسی بھی خودمختار فلسطینی علاقے سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا۔ جو جانا چاہے وہ آزادانہ جا سکتا ہے اور آزادانہ واپس آ سکتا ہے۔


حماس اور دیگر گروہوں کا حکومتی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ تمام فوجی و دہشت گردی کے ڈھانچے ختم کیے جائیں گے، جس کی تصدیق غیر جانب دار مبصرین کریں گے۔


علاقائی شراکت دار اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر گروہ معاہدے کی پابندی کریں، تاکہ غزہ اپنے ہمسایوں یا اپنے عوام کے لیے خطرہ نہ بنے۔


عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کی دعوت پر فلسطین میں 1 نومبر 2025 سے عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) تعینات کی جائے گی، جو فلسطینی سیکیورٹی کو تربیت و تعاون فراہم کرے گی۔ یہ فورس مصر اور اردن کے مشورے سے سرحدی حفاظت، عوامی تحفظ اور سامان کی تیز تر نقل و حرکت کو یقینی بنائے گی تاکہ تعمیر نو کا عمل تیز ہو۔


اسرائیل نہ تو غزہ اور نہ ہی مغربی کنارے پر قبضہ کرے گا یا اسے ضم کرے گا۔ اسرائیلی افواج 31 دسمبر 2025 تک تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے مکمل انخلا کر لیں گی، جب تک ISF اور فلسطینی سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیں۔


اگر حماس اس تجویز کو تاخیر کا شکار کرے یا مسترد کرے، تو امداد اور تعمیر نو کا عمل ان علاقوں میں جاری رہے گا جو ISF اور فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہوں گے۔


فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان برداشت اور پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے بین المذاہب مکالمے کا نظام قائم کیا جائے گا۔


یکم جنوری 2026 سے ریاستِ فلسطین اپنی مکمل خودمختار سرزمین پر حکومت کرے گی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 12 ستمبر کی قرارداد اور 2024 میں عالمی عدالتِ انصاف کی مشاورتی رائے کے مطابق۔


امریکہ ریاستِ فلسطین کو فوری طور پر ایک خودمختار، پُرامن ملک کے طور پر تسلیم کرے گا اور اسے اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت دی جائے گی، تاکہ وہ ریاستِ اسرائیل کے ساتھ امن سے رہ سکے۔