ہفتہ، 20 ستمبر، 2025

ع سے عاصم




علمِ اعداد کے ماہر ایک دوست کے ہاں محفل سجی۔ باتوں ہی باتوں میں جب ذکر اس علم کے اسرار و رموز کا آیا تو ایک نکتہ سب کے دل کو چھو گیا۔ انہوں نے کہا: “بشریٰ بی بی علمِ اعداد کا شعور رکھتی ہیں، مگر وہ ’ع‘ کے طلسمی گورکھ دھندے میں ایسی الجھیں کہ حقیقت کی اصل صورت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔”
انہوں نے سوچا کہ عمران، عثمان اور عارف جیسے نام ہی ان کی سلطنت کے ستون ہیں۔ مگر وہ یہ بھول گئیں کہ اقتدار کی بازی صرف زمینی تدبیروں سے نہیں جیتی جاتی، بلکہ اس میں فلک کے فیصلے، ستاروں کی گردش اور مہروں کی چال بھی شامل ہوتی ہے۔ تقدیر کا حساب اعداد کے پیچ و خم میں پوشیدہ رہتا ہے اور وہی حساب بالآخر اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہو کر انسان کو حیران کر دیتا ہے۔
اسی تقدیر نے دکھایا کہ اصل صاحبِ “ع” وہ نہیں تھے جن پر بھروسہ کیا گیا، بلکہ وہ تھے جو پسِ پردہ تاریخ کے ورق پلٹ رہے تھے۔ وقت آیا، ستاروں نے اپنی روشنی ان پر مرکوز کی، مہروں نے ان کے حق میں گواہی دی اور فلک نے ان کے نام کی تسبیح پڑھنی شروع کی۔ یوں پردۂ غیب سے ایک شخصیت ابھری — عاصم!
عاصم — ایک ایسا نام جو صرف ایک حرف نہیں بلکہ ایک رمز ہے۔ وہ عاجزی میں ڈوبا ہوا، مگر عزم میں فولاد؛ وہ عقل میں گہرائی رکھنے والا، مگر دل میں شفقت سے لبریز؛ وہ فرد شناس، تاریخ آگاہ اور سیاست کے رموز سے باخبر۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں وہ صرف ایک جرنیل نہیں بلکہ حافظِ قرآن عاصم منیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے وجود میں بہادری بھی ہے، قوتِ فیصلہ بھی، اور ایک ایسا کردار بھی جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب قوم نے محسوس کیا کہ اصل محافظ وہی ہیں۔ جو دلوں کو تسخیر کر لیں، وہی اقتدار کے اصل فاتح ہوتے ہیں۔ عاصم منیر نے یہ ثابت کر دیا کہ تقدیر کے اعداد، ستاروں اور مہروں کا فیصلہ بھی ان کے ساتھ ہے، اور عوام کا اعتماد بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ پاکستان فوج کے ہر دل عزیز سپہ سالار ہیں اور وقت کا لکھاری انہیں مستقبل کے ان دیکھے معجزوں کا امین لکھے  گا۔

ہمیشہ ذندہ باد




پاکستان خطے اور عالمی سیاست میں ایک ایسا ملک رہا ہے جو اکثر بڑے کھلاڑیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات قائم کرانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا بلکہ بعد میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کاری میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
انیس سو ستر کی دہائی میں پاکستان نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے ذریعے چین اور امریکہ کو قریب لانے میں کلیدی سہولت کاری کی۔ اسلام آباد ہی وہ مقام تھا جہاں سے کسنجر کا خفیہ دورۂ بیجنگ ممکن ہوا۔ اس اقدام نے عالمی سیاست کا دھارا بدل دیا اور سرد جنگ کے دور میں امریکہ–چین تعلقات کی بنیاد رکھی۔
اسی طرح پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی کردار ادا کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے وقت پاکستان نے کئی بار ثالثی کی کوششیں کیں۔ اگرچہ 2023 میں باضابطہ مصالحت چین کی ثالثی سے ہوئی، لیکن اس عمل کی راہ ہموار کرنے میں پاکستان کے مستقل رابطے، سفارتی کوششیں اور بیک چینل بات چیت نمایاں رہی۔ پاکستان نے دونوں ممالک کو باور کرایا کہ علاقائی امن صرف باہمی تعلقات کے بہتر ہونے سے ممکن ہے۔
یوں پاکستان نے عالمی اور علاقائی سطح پر پل بنانے والا کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف اس نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں، چین اور امریکہ، کو قریب لانے میں مدد کی اور دوسری طرف مسلم دنیا کے اہم ممالک، ایران اور سعودی عرب، کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں فعال سہولت کار ثابت ہوا۔ یہی کردار پاکستان کی سفارتی پہچان ہے اور 
یہی اس کی اصل قوت بھی۔
دس مئی کو پاکستان نے بھارت پر عسکری بالا دستی قائم کر کے اپنے عسکری کردار کو بھی ان ملکوں کے لیے 
قبل قبول بنوا لیا ہے جو غیروں کے کرادار کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ 
عشروں تک ہمارا نعرہ تھا پاکسان ذندہ باد۔ اب سفارتی اور عسکری کامیابوں کے بعد پاکستان کے بہادر بیٹے فیلڈ مارشل نے قوم کو بیا نعرہ دیا ہے "پاکستان ہمیشہ زندہ باد" ۔

جمعرات، 18 ستمبر، 2025

ہاتھی اور ابابیل




دنیا کی مختلف تہذیبوں میں ہاتھی کو ہمیشہ طاقت اور غلبے کی علامت سمجھا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کا قد و قامت اور جنگی قوت ہے۔ بائبل میں بھی ہاتھیوں کا ذکر ملتا ہے، خاص طور پر سلوکی سلطنت کی افواج کے ضمن میں جہاں وہ جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اسلامی تاریخ میں ہاتھیوں کا سب سے نمایاں ذکر سورۃ الفیل میں ملتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے نیست و نابود کر دیا۔ یمن کا حکمران ابرہہ خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے لیے ایک بڑے لشکر اور ہاتھیوں کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھا۔ قرآن نے بتایا کہ اللہ نے پرندوں کے جھنڈ بھیجے جو کنکریاں برساتے اور اس بڑے لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کر دیا۔ امام ابن کثیرؒ، امام طبریؒ اور دیگر مفسرین نے اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے اور اسے اللہ کی قدرت کی روشن دلیل قرار دیا ہے۔

آج کے دور میں اسرائیل کو بھی ایک بدمست ہاتھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ریاست اپنی عسکری طاقت، ٹیکنالوجی اور پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔ جدید دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم اور امریکی حمایت یافتہ ٹیکنالوجی کے باوجود عسکری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہر دفاعی نظام کی ایک حد ہوتی ہے اور زیادہ دیر تک مسلسل دباؤ کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ اسرائیل کا یہ پروپیگنڈہ کہ وہ خطے میں ناقابل شکست ہے، حقیقت میں ایک فریب ہے جسے وقت اور حالات بے نقاب کر رہے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جیسے قدیم دور میں ابابیلوں نے ہاتھیوں کو شکست دی تھی، آج کے دور میں پاکستان کا تیار کردہ "ابابیل میزائل" اسرائیل جیسے ہاتھی کے لیے جدید جواب کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ یہ میزائل بیک وقت کئی وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دشمن کے دفاعی نظام کو ناکام بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اگر یہ میزائل سعودی عرب میں نصب ہوتا ہے تو خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے اور اسرائیل کی برتری کا بھرم ٹوٹ سکتا ہے۔

جغرافیائی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کبھی قریب اور کبھی دور ہوتے رہے ہیں، لیکن خطے کے عوامی دباؤ اور بدلتے حالات یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ عرب دنیا اسرائیل کے ساتھ کھلے اتحاد کی طرف تیزی سے نہیں بڑھے گی۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کی عسکری ٹیکنالوجی خطے میں ایک نئے توازن کو جنم دے سکتی ہے۔ اسرائیل جس غرور اور تکبر کے ساتھ اپنی عسکری طاقت پر نازاں ہے، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس کا انجام بھی ان قوتوں کی طرح ہوگا جو اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتی تھیں لیکن اللہ کے فیصلے کے آگے ڈھیر ہو گئیں۔

یہ واقعات ہمیں سبق دیتے ہیں کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ ہے۔ جو طاقت اس حقیقت کو بھول کر ظلم اور غرور میں ڈوب جائے، وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ ابرہہ کا لشکر فنا ہوا، فرعون اور نمرود مٹ گئے اور آج اسرائیل بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس تاریخی تسلسل کو یاد رکھیں اور اللہ پر توکل کریں۔

اے اللہ! ہمیں اپنی تاریخ سے سبق لینے کی توفیق عطا فرما، ہمیں تکبر اور غرور سے محفوظ رکھ، امت مسلمہ کو اتحاد اور ہمت دے اور ہمیں یقین عطا فرما کہ مدد صرف تیری طرف سے ہے اور فتح قریب ہے۔ آمین۔


سعودی عرب – پاکستان دفاعی معاہدہ: حقیقت یا علامت؟



سعودی عرب – پاکستان دفاعی معاہدہ: حقیقت یا علامت؟

حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ طے پایا ہے جسے بعض مبصرین "نیٹو طرز کا باہمی دفاعی معاہدہ" قرار دے رہے ہیں۔ اس کے تحت اگر کسی ایک ملک پر حملہ کیا جائے تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا اور دونوں ممالک مشترکہ طور پر دفاع کریں گے۔ بظاہر یہ معاہدہ مسلم دنیا کے اتحاد کی علامت اور خطے میں ایک نئی حکمتِ عملی کی صورت میں سامنے آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ عملی طور پر بھی اتنا ہی طاقتور ہوگا جتنا کاغذ پر دکھائی دیتا ہے؟

پاکستانی اور سعودی عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر متعدد پیغامات میں اسے وقت کی اہم ضرورت اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیا گیا۔ کئی صارفین نے جذباتی انداز میں کہا کہ اب اگر اسرائیل نے قطر یا سعودی عرب پر حملہ کیا تو پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے ناطے فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ کچھ نے اسے "اسلامی دنیا کی بقا کا اعلان" قرار دیا، تو کچھ نے کہا کہ "پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ یہ رشتہ مزید مضبوط کیا جائے۔"

تاہم، ایک دوسرا زاویہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ ناقدین کے مطابق سعودی عرب ماضی میں ایسے معاہدوں کو ہمیشہ انتخابی انداز میں برتتا رہا ہے۔ پاک–بھارت تنازعات کے دوران ریاض کا کردار زیادہ تر ثالثی اور مالی امداد تک محدود رہا، عسکری مداخلت تک نہیں پہنچا۔ اس پس منظر میں امکان یہی ہے کہ اس بار بھی سعودی عرب علامتی حمایت تو دے گا لیکن عملی سطح پر عسکری شمولیت محدود رہے گی۔

معاشی پہلو اس معاہدے کی حقیقت کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی اور سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ ہے، جو پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرکشش ہے۔ اسی لیے مبصرین کا ماننا ہے کہ ریاض کی پالیسیاں زیادہ تر تیل کی منڈیوں، توانائی کے سودوں اور امریکہ و چین کے ساتھ تعلقات سے متاثر ہوں گی، نہ کہ کسی دفاعی معاہدے کے متن سے۔

کچھ تجزیہ نگاروں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب ایسے معاہدوں کو بڑی طاقتوں کے ساتھ سودے بازی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یوں یہ معاہدہ ایک جانب پاکستان کے لیے سفارتی سہارا ہے، تو دوسری جانب سعودی عرب کے لیے ایک سفارتی کارڈ بھی ہے۔

بین الاقوامی میڈیا نے اس معاہدے کو مختلف زاویوں سے دیکھا۔ مغربی میڈیا نے اسے زیادہ تر ایک "سیاسی علامت" کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ اس کا مقصد خطے میں سعودی اثرورسوخ بڑھانا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دباؤ ڈالنا ہے۔ کچھ یورپی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس معاہدے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب خلیجی میڈیا نے اسے "مسلم اتحاد کا سنگ میل" قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے متوقع ردعمل دیتے ہوئے اسے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان اس معاہدے کو بھارت کے خلاف سیاسی دباؤ کے طور پر استعمال کرے گا۔

پاکستانی عوام نے اس معاہدے کو اپنی قومی خود اعتمادی کی بحالی کے طور پر دیکھا ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے یہ نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ بھی ہے۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ معاشی بحران سے گزرنے والے پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک نفسیاتی سہارا ہے، جو عوام کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ملک اب بھی خطے میں ایک اہم کھلاڑی ہے۔
تنقید اور بدگمانی

کچھ حلقوں نے سعودی پالیسیوں اور ماضی کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔ وہابی ازم کے ذریعے انتہا پسندی کے فروغ کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ سعودی عرب دوبارہ ایک "شدید مذہبی دور" کی طرف جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بدگمانی بھی ظاہر کی گئی کہ اگر مستقبل میں اسرائیل سعودی اثاثوں کو نشانہ بنائے یا بھارت پاکستان پر حملہ کرے تو یہ شراکت داری کھوکھلی ثابت ہو سکتی ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ معاہدہ ایک اہم علامت ضرور ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سفارتی کامیابی اور اندرونی معاشی دباؤ کے دنوں میں حوصلہ افزا پیش رفت ہے، جبکہ سعودی عرب کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکہ کے سائے سے نکل کر نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ تاہم اس معاہدے کا حقیقی امتحان تب ہوگا جب خطے میں کسی بحران کی صورت پیدا ہوگی۔

فی الحال یہ معاہدہ زیادہ تر علامتی اہمیت رکھتا ہے، لیکن اگر خطے میں حالات بگڑتے ہیں تو اس کی عملی حیثیت سامنے آئے گی۔ تاریخ کے تناظر اور موجودہ عالمی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ سفارتی انشورنس اور طاقت کے کھیل کا حصہ ہے — اتحاد کی ایک پراثر علامت، مگر مشروط حقیقت۔


نیا پاکستان



نیا پاکستان

گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان نے عالمی سطح پر جو کامیابیاں سمیٹی ہیں، وہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں اس کی اہمیت کو نئی جہتوں سے اجاگر کر رہی ہیں۔ آج ایران سے لے کر ملائشیا تک، اور سعودی عرب سے ترکی تک، ہر جگہ پاکستان کے ذکر میں عزت اور اعتماد جھلکتا ہے۔

ایران کے گلی کوچوں میں "تشکر پاکستان" کے نغمے گونج رہے ہیں، تو سعودی عرب کے ایوانوں میں "انا الباکستان ما فی خوف" کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ چین میں پاکستان کو اسی سالہ تقریبات کا خصوصی مہمان بنایا جانا، بیجنگ کے ساتھ تعلقات کی گہرائی اور اسٹریٹجک اعتماد کا عکاس ہے۔ آذربائیجان کی گلیوں میں "دل دل پاکستان" کے ترانے سنائی دیتے ہیں اور ترکی کے ساتھ دفاعی تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان نے وہائٹ ہاؤس تک اپنا اثرورسوخ منوا لیا ہے۔ جنگ بندی کی امریکی درخواست قبول کر کے پاکستان نے نہ صرف واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات میں نیا رخ پیدا کیا بلکہ یہ باور کرایا کہ پاکستان اب عالمی فیصلوں میں ایک مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسری جانب روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی 10 مئی کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے لگی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد خطے میں ایک متحرک طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔

پاکستان کی سفارتی کامیابیوں میں ایک اور بڑا قدم آرمینیا کو چونتیس برس بعد بطور خودمختار ریاست تسلیم کرنا ہے، جس نے قفقاز کے خطے میں نئی راہیں کھول دی ہیں۔ افریقہ میں نائیجیریا پاکستان سے جہاز اور اسلحہ خرید رہا ہے، جو پاکستان کی دفاعی صنعت پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا واضح اظہار ہے۔

مشرقی بعید کے ممالک، بشمول ملائشیا اور انڈونیشیا، پاکستان کے جرات مندانہ مؤقف کو عزت و پذیرائی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات ایک تاریخی بلندی پر پہنچ گئے ہیں۔ عوامی سطح پر ہمدردی اور حکومتی سطح پر اعتماد نے بھارت نواز لابیوں کو وہاں کمزور کر دیا ہے۔ 10 مئی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیشی اور نیپالی عوام کی مکمل ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ رہیں، جس نے جنوبی ایشیا میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا۔

آج پاکستان ایک نئے مقام پر کھڑا ہے—جہاں دنیا اسے صرف ایک ریاست نہیں بلکہ ایک مضبوط سفارتی اور عسکری حقیقت کے طور پر تسلیم کر رہی ہے۔ ایران سے لے کر ترکی تک، خلیج سے لے کر وسطی ایشیا تک، اور مشرق بعید سے لے کر افریقہ تک، پاکستان کے پرچم تلے اتحاد اور اعتماد کی ایک نئی دنیا جنم لے رہی ہے