اسلام بمقابلہ جدید فکری بحران
جدید دنیا ایک عجیب فکری بحران سے گزر رہی ہے۔ معلومات کی فراوانی ہے مگر حکمت نایاب، آزادی کے نعرے ہیں مگر انسان اندر سے بے سمت، اور عقل کی بالادستی کا دعویٰ ہے مگر خود عقل اضطراب کا شکار ہے۔ انسان نے کائنات کو مسخر تو کر لیا ہے، مگر اپنے وجود کے سوال کا جواب کھو بیٹھا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جہاں اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک فکری متبادل کے طور پر سامنے آتا ہے۔
جدید فکری بحران کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم کو اخلاق سے، عقل کو وحی سے، اور آزادی کو ذمہ داری سے الگ کر دیا گیا ہے۔ جدید انسان سب کچھ جاننا چاہتا ہے مگر یہ طے نہیں کر پایا کہ جاننے کے بعد جینا کیسے ہے۔ فلسفہ شک سکھاتا ہے، سائنس طاقت دیتی ہے، مگر یہ نہیں بتاتیں کہ اس طاقت کو کہاں اور کیوں استعمال کیا جائے۔ نتیجتاً انسان ذہنی طور پر ترقی یافتہ مگر اخلاقی طور پر منتشر نظر آتا ہے۔
اسلام اس بحران کا آغاز ہی سے مختلف زاویے سے جواب دیتا ہے۔ وہ عقل کو رد نہیں کرتا بلکہ اسے وحی کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ اسلام میں عقل سوال کرتی ہے، مگر وحی سمت دیتی ہے۔ یہی توازن جدید دنیا میں مفقود ہے۔ یہاں یا تو عقل کو مطلق بنا دیا گیا ہے، یا مذہب کو عقل دشمن سمجھ کر دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ اسلام اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔
اس فکری مکالمے کے مرکز میں رسولِ اکرم ﷺ کی ذات کھڑی ہے۔ جدید دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں علم پڑھانے والے بہت ہیں مگر نمونہ بننے والے کم۔ نظریات گھڑے جاتے ہیں مگر ان پر جینے کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔ اس کے برعکس رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ایسی واحد مثال ہے جہاں تعلیم اور عمل کے درمیان کوئی خلا نہیں۔ انہوں نے جو کہا، پہلے خود کیا؛ جو سکھایا، خود جیا؛ اور جو دعوت دی، اس کی عملی تصویر بن کر دکھایا۔
افراد کی تعلیم کچھ اور کہتی ہے، اورعمل بعض اوقات کچھ اور۔ یہی وہ نفاق ہے جو جدید انسان کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ ہم اقدار پر لیکچر دیتے ہیں مگر خود ان کے بوجھ سے بھاگتے ہیں۔ اس کے مقابل رسول اللہ ﷺ وہ واحد استاد ہیں جن کی تعلیم لفظاً، حرفاً، عملاً اور نیتاً ایک ہی حقیقت کا اظہار تھی۔ یہی چیز انہیں محض مذہبی رہنما نہیں بلکہ انسانیت کا سب سے بڑا معلم بناتی ہے۔
جدید فکری بحران کا ایک اور پہلو آزادی کا غلط تصور ہے۔ آج آزادی کو ہر حد سے بے نیاز ہو جانا سمجھا جاتا ہے، جبکہ اسلام آزادی کو شعور، اخلاق اور جواب دہی کے ساتھ جوڑتا ہے۔ قرآن انسان کو اختیار دیتا ہے—ایمان لانے یا انکار کرنے کا اختیار—مگر اس اختیار کے ساتھ ذمہ داری کا شعور بھی عطا کرتا ہے۔ یہ توازن جدید فلسفہ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اسلام اور جدید دنیا کے درمیان اصل تصادم سائنس یا عقل پر نہیں، بلکہ انسان کے تصور پر ہے۔ جدید فکر انسان کو محض ایک حیاتیاتی وجود یا معاشی اکائی بنا دیتی ہے، جبکہ اسلام اسے اخلاقی، روحانی اور باشعور ہستی قرار دیتا ہے۔ یہی فرق جدید انسان کی بے چینی کو جنم دیتا ہے۔ وہ سب کچھ ہونے کے باوجود مطمئن نہیں، کیونکہ اس نے اپنے مقصدِ وجود کو نظرانداز کر دیا ہے۔
اسلام اس فکری بحران کا جواب کسی جذباتی نعروں سے نہیں بلکہ ایک زندہ نمونے کے ذریعے دیتا ہے—اور وہ نمونہ محمد ﷺ ہیں۔ ان کی سیرت یہ بتاتی ہے کہ علم کیسے جیا جاتا ہے، طاقت کیسے قابو میں رکھی جاتی ہے، اختلاف کیسے اخلاق کے دائرے میں رہتا ہے، اور آزادی کیسے بندگی کے ساتھ ہم آہنگ
کی جاتی ہے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر کی کتاب سے ماخوذ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں