ہفتہ، 13 دسمبر، 2025

پاکستان میں استحکام


پاکستان میں استحکام

ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں تقریباً ہر قومی مسئلے کی جڑ ماضی کے کسی نہ کسی زخم میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہو، ادارہ جاتی کشمکش، عوامی بداعتمادی یا معاشرے میں پھیلتا ہوا غصہ—ہر طرف ایک ہی سوال گردش کرتا ہے کہ معاملات یہاں تک کیوں اور کیسے پہنچے۔ مسئلہ معلومات کی کمی نہیں، اصل مسئلہ اجتماعی سطح پر سچ سے گریز ہے۔ ہم سب کچھ جانتے ہیں، مگر تسلیم کرنے کا حوصلہ کم ہی دکھاتے ہیں۔

ہماری قومی روایت یہ رہی ہے کہ مشکل اور غیر آرام دہ سوالات کو ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر مؤخر کر دیا جائے، اور کڑوی حقیقت کو حب الوطنی کے خلاف قرار دے دیا جائے۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ سچ بوجھ بنتا چلا گیا اور جھوٹ سہارا۔ حالانکہ قومیں سہارا لے کر نہیں، سچ کو قبول کر کے آگے بڑھتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں 

Truth & Reconciliation Commission 

کی ضرورت محض ایک خیال نہیں بلکہ وقت کی ناگزیر پکار بن جاتی ہے۔

یہ کمیشن کسی فرد، جماعت یا ادارے کے خلاف انتقامی فورم نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی مقصد سزا دینا نہیں بلکہ سچ کو باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ بنانا، غلطیوں کے اعتراف کا راستہ ہموار کرنا، اور متاثرہ افراد کو سنا جانا ہے۔ جب ریاست خود یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کر لیتی ہے کہ ہاں، یہاں غلطیاں ہوئیں، تب ہی قوم میں یہ اعتماد جنم لیتا ہے کہ آئندہ ان غلطیوں کو دہرایا نہیں جائے گا۔

بدقسمتی سے ہم ہر بحران کا حل نئے نعروں، وقتی صف بندیوں اور عارضی مفاہمتوں میں تلاش کرتے رہے ہیں، جبکہ اصل مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ جب تک ماضی واضح نہیں ہوگا، حال شکوک میں گھرا رہے گا اور مستقبل خوف سے آزاد نہیں ہو سکے گا۔ ایسے میں یہ کمیشن اسی دھند کو چھانٹنے کا ایک مہذب، پُرامن اور سنجیدہ راستہ فراہم کر سکتا ہے۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سچ بولنے سے ریاست کمزور نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔ طاقت کا اصل سرچشمہ بند فائلیں اور خاموشیاں نہیں، بلکہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔ جب شہری دیکھتے ہیں کہ ان کے دکھ، ان کے سوال اور ان کی شکایات ریاستی سطح پر سنی جا رہی ہیں، تو قانون کی بالادستی ایک محض نعرے کے بجائے عملی حقیقت بننے لگتی ہے۔

یقیناً اس راستے میں مزاحمت ہوگی۔ طاقتور حلقے ہمیشہ سچ سے خائف رہتے ہیں، کیونکہ سچ ان کے گھڑے ہوئے بیانیوں کو چیلنج کرتا ہے۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں نے سچ کو دباکر استحکام حاصل کرنا چاہا، انہیں کبھی حقیقی اور دیرپا امن نصیب نہیں ہوا۔ وقتی خاموشی ممکن ہے، مگر پائیدار استحکام نہیں۔

اگر یہ کمیشن واقعی خودمختار ہو، اس کی تشکیل شفاف ہو، اور اس کی سفارشات محض کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہیں، تو یہ قدم ملک کو انتقام، نفرت اور بداعتمادی کے دائروں سے نکال سکتا ہے۔ شاید اسی عمل کے ذریعے ہم یہ سیکھ سکیں کہ قوم بننے کے لیے سب سے پہلا اور سب سے مشکل قدم خود سے سچ بولنا ہوتا ہے۔

ممکن ہے یہی وہ موڑ ہو جہاں زوال کی کہانی تھم جائے اور بہتری کی سمت سفر کا آغاز ہو۔ کیونکہ تاریخ میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو اپنے ماضی کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں—اور شاید ہمارے لیے بھی استحکام کی طرف پہلا قدم یہی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: