ہفتہ، 20 دسمبر، 2025

"را" کی حقیقت





را" کی حقیقت"

سڈنی کا بونڈی بیچ، جہاں سمندر کی لہریں ہمیشہ آزادی اور خوشی کا پیغام دیتی ہیں، اچانک گولیوں کی آواز سے لرز اٹھا۔ حملہ ہوا، لاشیں گریں، اور آسٹریلیا جیسے محفوظ ملک میں یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں آیا: کیا یہ محض ایک جنونی فرد کی کارروائی تھی، یا اس کے پیچھے کوئی منظم، سرحد پار نیٹ ورک سرگرم تھا؟

آسٹریلین فیڈرل پولیس کی کمشنر کریسی بیریٹ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کھلے عام کہا کہ بونڈی واقعہ ایک وسیع نیٹ ورک کا حصہ ہے، جس میں چار بھارتی شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب سوال اٹھا کہ یہ واقعہ صرف سڈنی تک محدود ہے یا یہ اسی خاموش جنگ کی کڑی ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے نیٹ ورک سے جوڑی جا رہی ہے۔

قبل ازیں کینیڈا میں سکھ رہنما ہارڈیپ سنگھ نِجّار کے قتل کے بعد کینیڈین وزیر اعظم نے واضح کیا کہ اس قتل کے تانے بانے بھارت کی سرکاری ایجنسی تک جا سکتے ہیں۔ امریکہ میں بھی ایک بھارتی شہری پر الزام لگا کہ وہ ایک سکھ رہنما کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، مبینہ طور پر "را" کے سابق اہلکار کی ہدایات پر۔

پاکستان کے اندر بھی صورتحال کم خطرناک نہیں۔ جعفر ایکسپریس کا سانحہ، بلوچستان میں بی ایل اے کی دہشت گردانہ کارروائیاں، اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر پاکستان مخالف گٹھ جوڑ—ہر جگہ ایک ہی سایہ دکھائی دیتا ہے: بھارت کی ریاستی سرپرستی میں چلنے والے نیٹ ورک کی سرحد پار کارروائیاں۔

بلوچستان میں مسافر ٹرینوں کو نشانہ بنانا، تعلیمی اداروں اور ترقیاتی منصوبوں پر حملے، اور عام شہریوں کا قتل—یہ سب وہ حربے ہیں جو کسی مقامی تحریک کے بس میں نہیں بلکہ سرکاری فنڈنگ، تربیت اور سرحد پار سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔ افغانستان میں بھارتی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کا کردار برسوں سے سوالیہ نشان رہا ہے۔ یہی ماڈل بھارت نے بار بار استعمال کیا: پراکسیز بناؤ، پیسہ فراہم کرو، اور بعد میں انکار کر دو۔

بھارت کا وطیرہ یہ رہا ہے کہ ریاستی سرپرستی میں جرم کروایا جائے اور الزام کسی ہمسائے کے سر ڈال دیا جائے۔ کبھی پاکستان، کبھی چین، کبھی کسی داخلی گروہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی حکمت عملی کو مغربی دنیا میں بھی آزمایا گیا، مگر وہاں پہلی بار یہ کھیل الٹ پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

ایک اور خطرناک پہلو ہے: بھارتی سوشل میڈیا وار مشینری۔ یہ صرف جذباتی اکاؤنٹس کا ہجوم نہیں بلکہ ایک منظم، سرکاری نگرانی میں چلنے والا نیٹ ورک ہے۔ جعلی بیانیہ، من گھڑت ویڈیوز اور جھوٹے الزامات—یہ سب عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں جیسے ہی کوئی دہشت گردی ہوتی ہے، چند منٹوں کے اندر بھارتی سوشل میڈیا پر مکمل بیانیہ تیار ہو جاتا ہے۔

اب صورتِ حال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بھارتی سرکاری سرپرستی میں چلنے والا دہشت گرد نیٹ ورک صرف ہمسائیوں یا خطے کے لیے خطرہ نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ سڈنی، اوٹاوا، واشنگٹن، ڈھاکا، کوئٹہ—ہر جگہ ایک ہی نام ابھرتا ہے: "را"۔

یہ وقت ہے کہ ریاستی دہشت گردی کو ایک عالمی جرم تسلیم کیا جائے، اور "را" جیسے نیٹ ورک کے غلاف کو چاک کیا جائے۔ اگر دنیا آج بھی آنکھیں بند رکھے تو کل یہ آگ صرف پاکستان یا جنوبی ایشیا تک محدود نہیں رہے گی۔

تاریخ گواہ ہے:
ریاستی دہشت گردی ہمیشہ آخرکار عالمی مسئلہ بن جاتی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں: