ہفتہ، 20 دسمبر، 2025

کیا تاریخ خود کو دھرا رہی ہے






یہودیوں پر مظالم کے بنیادی اسباب کیا بیان کیے جاتے رہے


دوسرے مذاہب، ریاستوں اور معاشروں نے خود ان مظالم کے جواز کے طور پر کون سے دلائل پیش کیے


تاریخی طور پر ظلم کرنے والوں کی سوچ اور بیانیہ کیا تھا

یہ اضافہ کسی الزام تراشی کے بجائے تاریخی تجزیہ (historical analysis) کے اصول کے تحت کیا گیا ہے۔
یہودیوں پر مظالم کے اسباب: تاریخی تجزیہ اور ظلم کرنے والوں کا بیانیہ

یہودیوں پر ہونے والے مظالم محض اچانک نفرت یا وقتی غصے کا نتیجہ نہیں تھے، بلکہ ان کے پیچھے مذہبی تعبیرات، سیاسی ضرورتیں، معاشی مفادات اور سماجی خوف جیسے گہرے عوامل کارفرما رہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تقریباً ہر دور میں ظلم کرنے والوں نے اپنے اعمال کے لیے کوئی نہ کوئی اخلاقی، مذہبی یا سیاسی جواز پیش کیا۔
1. مذہبی تعصب اور عقائد کی غلط تعبیر

قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں عیسائی کلیساؤں کے زیرِ اثر یہ تصور عام کیا گیا کہ:

یہودی حضرت عیسیٰؑ کے قتل کے ذمہ دار ہیں


یہودی ”خدا کے نافرمان“ اور ”لعنت یافتہ قوم“ ہیں


یہودی مسیحی معاشروں کے لیے روحانی خطرہ ہیں

یہ نظریہ Church Doctrine کے ذریعے عام لوگوں میں پھیلایا گیا۔ چنانچہ جب یہودیوں پر حملے کیے گئے تو حملہ آور خود کو خدا کے غضب کا آلہ سمجھتے تھے، نہ کہ مجرم۔

➡️ Rhineland Massacres (1096) میں حملہ آور صلیبیوں کا مؤقف یہی تھا کہ


“جب تک مسیح کے قاتل زندہ ہیں، مقدس جنگ مکمل نہیں ہو سکتی۔”
2. وباؤں، آفات اور اجتماعی خوف کا الزام

جب معاشرے سائنسی شعور سے محروم تھے، تو وبائیں اور قدرتی آفات الٰہی سزا سمجھی جاتی تھیں۔

Black Death (1347–1351) کے دوران


یہودیوں پر کنوؤں میں زہر ملانے کا الزام لگایا گیا


اعترافات زبردستی تشدد کے ذریعے لیے گئے

➡️ Basel Massacre (1349) میں یہودیوں کو زندہ جلانے والوں کا مؤقف تھا کہ


“ہم شہر کو خدا کے عذاب سے پاک کر رہے ہیں۔”

یہ دراصل اجتماعی خوف (mass hysteria) کا مظہر تھا، جس میں اقلیت کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
3. معاشی رقابت اور حسد

یہودیوں کو اکثر:

زمین رکھنے سے روکا گیا


سرکاری عہدوں سے محروم رکھا گیا

نتیجتاً وہ تجارت، مالیات اور قرض کے شعبوں تک محدود ہوئے۔

جب ریاستوں اور عوام کو:

قرض معاف کرنا ہوتا


یہودی املاک ضبط کرنی ہوتیں


یا معاشی بحران کا الزام ڈالنا ہوتا

تو یہودیوں کو نشانہ بنایا جاتا۔

➡️ 1492 Expulsion from Spain کے وقت شاہی مؤقف تھا کہ:


“یہودی سلطنت کی مذہبی و معاشی وحدت کے لیے خطرہ ہیں۔”

حقیقت میں یہ قرضوں کی معافی اور املاک پر قبضے کا ذریعہ بھی تھا۔
4. قومی شناخت اور “غیر ملکی” کا تصور

یہودی چونکہ:

اپنی مذہبی شناخت برقرار رکھتے


الگ رسوم و رواج رکھتے


اکثریتی ثقافت میں مکمل طور پر مدغم نہیں ہوتے

اس لیے انہیں اکثر “اندرونی دشمن” (Internal Other) کہا گیا۔

➡️ جدید قوم پرست تحریکوں میں یہ دلیل دی گئی کہ:


“یہودی وفادار شہری نہیں بلکہ عالمی سازش کا حصہ ہیں۔”

یہی سوچ نازی جرمنی میں انتہائی شکل اختیار کر گئی۔
5. نازی بیانیہ: نسل، سائنس اور ریاستی پروپیگنڈا

ہولوکاسٹ کے دوران نازیوں نے ظلم کو محض نفرت نہیں بلکہ سائنسی اور ریاستی نظریے کے طور پر پیش کیا:

یہودیوں کو “کمتر نسل” قرار دیا گیا


یورپ کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا


انہیں جراثیم (parasites) سے تشبیہ دی گئی

➡️ نازی مؤقف کے مطابق:


“یہودیوں کا خاتمہ انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔”

یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے کہ ریاستی طاقت جب تعصب سے مل جائے تو نسل کشی جنم لیتی ہے۔
6. مسلم دنیا اور جدید دور کے فسادات

کچھ جدید فسادات (جیسے Tripoli Pogrom 1967 یا Thrace Pogroms 1934) میں:

اسرائیل–عرب تنازع کو مقامی یہودیوں سے جوڑ دیا گیا


ریاستی کمزوری یا قوم پرستی نے تشدد کو ہوا دی

ظلم کرنے والوں کا بیانیہ تھا:


“یہودی دشمن ریاست کے نمائندے ہیں۔”

حالانکہ مقامی یہودی نسلوں سے ان معاشروں کا حصہ تھے۔
نتیجہ: تاریخ کا سبق

یہودیوں پر ہونے والے مظالم ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ:

تعصب ہمیشہ کسی نہ کسی اخلاقی جواز کے ساتھ آتا ہے


ظلم کرنے والا خود کو مجرم نہیں، نجات دہندہ سمجھتا ہے


جب علم، مکالمہ اور انصاف ختم ہو جائیں تو اقلیت سب سے پہلے نشانہ بنتی ہے

یہ تاریخ کسی ایک مذہب یا قوم کے خلاف نہیں بلکہ انسانی کمزوریوں کے خلاف گواہی ہے۔






کوئی تبصرے نہیں: