جمعہ، 19 دسمبر، 2025

روح بے چاری



"روح  ---"بے چاری

 انسان جب دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کوئی یادداشت نہیں ہوتی، مگر اس کے اندر ایک عجیب سی بے چینی ضرور ہوتی ہے۔ جدید نفسیات اسی بے چینی کو انسانی فطرت کا بنیادی سوال قرار دیتی ہے۔ مذہب اسے یادِ الست کہتا ہے اور نفسیات اسے innate awareness یا existential drive کا نام دیتی ہے۔ دونوں کی زبان الگ ہے، مگر اشارہ ایک ہی حقیقت کی طرف ہے۔

جدید نفسیاتی مطالعات بتاتے ہیں کہ انسان کچھ رجحانات سیکھ کر نہیں بلکہ لے کر آتا ہے۔ مثال کے طور پر خیر و شر کا ابتدائی احساس، انصاف کی جبلّت، اور کسی بالاتر معنی کی تلاش۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ بغیر کسی تربیت کے ناانصافی پر ردِعمل دکھاتا ہے۔ یہ رویہ اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ انسانی شعور خالی تختی نہیں بلکہ ایک پہلے سے نقش شدہ ذہنی ساخت کے ساتھ وجود میں آتا ہے۔ یوں یومِ الست کا وعدہ نفسیاتی زبان میں ایک pre-conscious imprint بن جاتا ہے۔

لیکن دنیا میں آ کر انسان پر دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جدید نفسیات کہتی ہے کہ ماحول، سماج اور مسلسل محرکات انسان کی اصل فطرت پر تہہ در تہہ پردے ڈال دیتے ہیں۔ سگمنڈ فرائیڈ اسے نفس کی کشمکش کہتا ہے، کارل یونگ اسے شعور اور لاشعور کی جنگ قرار دیتا ہے، اور وجودی نفسیات اسے انسان کی “اصل سے بیگانگی” کا نام دیتی ہے۔ یوں روح بے بس نہیں ہوتی، بس مسلسل مصروف کر دی جاتی ہے۔

آج کا انسان کسل کا شکار ہے، اور یہ کسل محض جسمانی نہیں بلکہ فکری اور روحانی ہے۔ جدید نفسیات اسے mental fatigue اور existential numbness کہتی ہے۔ ہر وقت کی دوڑ، کامیابی کا دباؤ، اسکرینوں کی روشنی اور خواہشات کی بھرمار انسان کو سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اندر کی وہ آواز، جو کبھی “ألست بربکم” کا جواب تھی، مدھم پڑ جاتی ہے۔ یہ مجبوری نہیں، یہ غفلت ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید نفسیاتی تھراپی بھی بالآخر انسان کو “اپنے اصل” کی طرف واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ mindfulness، self-awareness، اور meaning-centered therapy دراصل اسی بھولی ہوئی مرکزیت کو بحال کرنے کی مشقیں ہیں۔ مذہبی اصطلاح میں یہی عمل “ذکر” کہلاتا ہے۔ فرق صرف الفاظ کا ہے، منزل ایک ہی ہے۔

یوں دیکھا جائے تو روح دنیا میں آ کر وعدہ تو نہیں بھولتی، انسان اسے سننے کی فرصت کھو دیتا ہے۔ کسل دراصل اسی فراموشی کی علامت ہے۔ جب انسان رک کر اپنے اندر جھانکتا ہے تو جدید نفسیات اور قدیم وحی ایک ساتھ یہ گواہی دیتی ہیں کہ سچ کہیں باہر نہیں، وہ انسان کے اندر پہلے سے موجود ہے—بس دب گیا ہے، مٹا نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں: