بدھ، 10 ستمبر، 2025

انقلاب — زندہ باد



انقلاب — زندہ باد
انقلاب ہمیشہ انسانی تاریخ کا وہ موڑ رہا ہے جو تہذیبوں کو بدل دیتا ہے۔ جب حالات ناقابلِ برداشت ہو جائیں، جب بھوک اور ناانصافی کا بوجھ حد سے بڑھ جائے، اور جب عوام کو اپنی آواز سنانے کا کوئی راستہ نہ ملے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ یہی بغاوت جب اجتماعی شعور کے ساتھ ابھرتی ہے تو انقلاب کہلاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب سے اصل فائدہ عوام کو ہوتا ہے یا نئے حکمرانوں کو؟

1789  فرانسیسی انقلاب دنیا کے بڑے سیاسی واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ عوام بھوک، مہنگائی اور شاہی فضول خرچی سے تنگ تھے۔ انہوں نے قلعہ باستیل پر دھاوا بولا، جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کی، اور شاہی خاندان کے اقتدار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ یہ انقلاب "آزادی، مساوات اور بھائی چارے" کے نعرے سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قربانیاں عوام نے دیں اور فائدہ بورژوا طبقے  نے اٹھایا۔ یوں ایک ظالم طبقہ ختم ہوا لیکن طاقت اور وسائل ایک نئے طبقے کے ہاتھ میں چلے گئے۔

1949 چینی انقلاب بھی کسانوں اور مزدوروں کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ جاگیرداری نظام اور غیر ملکی قبضے نے عوام کو غلام بنا رکھا تھا۔ ماؤ زے تنگ اور کمیونسٹ پارٹی نے اس بغاوت کو قیادت دی اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کا خاتمہ کیا۔ ابتدا میں زمینوں کی تقسیم، تعلیم اور صحت کی سہولتوں نے عوام کو ریلیف دیا، مگر جلد ہی اقتدار مکمل طور پر پارٹی اور نئی بیوروکریسی کے ہاتھ میں آگیا۔ عوام کی قربانیوں کا ثمر انہیں سیاسی آزادی کی صورت میں نہ مل سکا، بلکہ سخت ریاستی کنٹرول ان کا مقدر بنا۔

آج کے دور میں انقلاب کا تصور سوشل میڈیا کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ فیس بک، ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارمز عوامی ذہن سازی کے سب سے بڑے ہتھیار بن چکے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید انقلابات اکثر ملک کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے پلان کیے جاتے ہیں۔
ذہن سازی کے لیے بیرونی ایجنسیاں اور تھنک ٹینک سرگرم رہتے ہیں۔
مخصوص گروہوں کو وسائل اور سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے۔
پھر جلاؤ گھیراؤ، خونریزی اور خانہ جنگی کے ذریعے ایک ملک کو عدم استحکام کا شکار کر دیا جاتا ہے۔

چند سال قبل "عرب بہار" کے نام سے تحریکیں مشرقِ وسطیٰ میں چلیں۔ تیونس، مصر، یمن، شام اور لیبیا اس کے بڑے مراکز تھے۔ سب سے بڑا اور ڈرامائی انقلاب لیبیا میں آیا، جہاں معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ قذافی کو ایک "ڈکٹیٹر" کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن حقائق یہ ہیں کہ اس کے دور میں:
بچہ پیدا ہوتا تو حکومت اس کا وظیفہ مقرر کرتی تھی۔
صحت اور تعلیم بالکل مفت تھیں۔
شادی، مکان اور کاروبار کے لیے حکومتی امداد دستیاب تھی۔
لیکن قذافی کے جانے کے بعد لیبیا میں نہ صرف خانہ جنگی نے جنم لیا بلکہ ملک ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ آج لیبیا کا کوئی بھی شہری بتا سکتا ہے کہ "انقلاب" کے نام پر اسے کیا ملا؟ تباہ شدہ ادارے، برباد معیشت اور گرتا ہوا سماجی ڈھانچہ۔

اسی طرز کے انقلابات کی تازہ جھلکیاں نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں سڑکوں پر عوامی ہجوم تو موجود ہوتا ہے مگر اصل کھیل کہیں اور کھیلا جاتا ہے۔ نتیجہ وہاں بھی وہی نکلتا ہے جو عرب دنیا میں نکلا — عوام کا خون، ٹوٹے ادارے اور کمزور معیشت۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انقلاب عوام کے نام پر آتا ہے، عوام ہی قربانیاں دیتے ہیں، لیکن اقتدار اور فائدہ ہمیشہ کسی اور کے حصے میں جاتا ہے۔
پرانے انقلابات (فرانس اور چین) عوامی طاقت پر کھڑے تھے، مگر آخرکار نئے حکمرانوں کو فائدہ ہوا۔
جدید انقلابات زیادہ تر بیرونی منصوبہ بندی کے تحت ہوتے ہیں، اور ان کا انجام خانہ جنگی اور معاشی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔
عوام ہر دور میں ایک ہی سوال کرتے ہیں:
"انقلاب کے نام پر ہمیں کیا ملا؟"
اور اکثر جواب یہی ملتا ہے:
"لاشیں، بربادی، تقسیم اور نئے حکمرانوں کی طاقت۔"



منگل، 9 ستمبر، 2025

خوف زدہ حکمران


خوف زدہ حکمران

انیس سو چوراسی کا واقعہ ہے۔ ایک مذہبی فرقے کے عمائدین اپنے گاؤں سے راولپنڈی میں اپنے بڑے فرقہ باز مولانا کے پاس پہنچے۔ انہوں نے مولانا کو بتایا کہ مخالف فرقے کے لوگ ان کی نو تعمیر شدہ مسجد پر قبضہ کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔ مولانا نے ان کی بات تحمل سے سنی اور پوچھا: “تم لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟”
آنے والوں نے کہا کہ ہمیں عملی مدد درکار ہے۔ ہمارے فرقے کے لوگ تعداد میں کم ہیں اور دوسرے زیادہ ہیں۔ اس لیے کچھ لوگ بھیجے جائیں جو ہماری مسجد میں درسِ قرآن منعقد کریں اور ڈنڈے سوٹوں کے ساتھ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں، کیونکہ گاؤں کے لوگ اجتماع روکنے کی کوشش کریں گے اور جھگڑا ہونا لازمی ہے۔
مولانا نے ان کی بات سنی اور کہا: “ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر جھگڑا ہوا تو ہمارے لوگ تمہارے دفاع میں شامل ہوں گے اور ان کی تعداد تمہاری توقع سے بھی زیادہ ہوگی۔ لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلا مقابلہ تم لوگ خود کرو گے۔ میرے آدمی تمہاری مدد کے لیے ہوں گے، مگر لڑائی کا بوجھ مقامی لوگوں کو ہی اٹھانا ہوگا۔”

یہ بات صرف ایک فرقے کی کہانی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا المیہ ہے۔ آج بھی اصل سوال یہی ہے: پہلا قدم کون اٹھائے گا؟
جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا دفاع خود ایرانیوں نے کیا۔ ان کے دوست اور اتحادی بھی مدد کو آئے، مگر عملی مزاحمت کا آغاز خود ایران نے کیا تھا۔ ایران نے محض بیانات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی جواب دیا۔ اس کے برعکس لبنان اور شام کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں عملی جواب نہ دینے کی وجہ سے تباہی کے سائے گہرے سے گہرے ہوتے چلے گئے۔
فلسطینی تو نہتے ہیں، لیکن دنیا کی سیاست بدل کر رکھ دی۔ وجہ صرف ایک ہے — وہ کھڑے ہیں، اپنے دفاع میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ قطر کے سامنے بھی یہی سوال ہے کہ کیا صرف زبانی احتجاج کرنا ہے یا عملی قدم بھی اٹھانا ہے۔ قطر کا رقبہ، وسائل اور اسلحہ بہرحال فلسطینیوں سے بہتر ہے۔ لیکن مشکل فیصلہ یہی ہے کہ کیا قطر کھڑا ہوگا یا نہیں؟

تاریخ گواہ ہے کہ برا وقت آئے تو دوست ساتھ آ ہی جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ سب سے پہلے مقامی لوگ کھڑے ہوں۔ آج مسلمان حکمرانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ خدا سے ڈرنے والے ہیں یا خدا سے نہ ڈرنے والے  ظالموں سے خوفزدہ ہیں۔

فیصلہ بہرحال قطر نے خود کرنا ہے۔ لیکن کیا فیصلہ ہوگا؟ قارئین کرام اندازہ کر سکتے ہیں 

فرانسیسی وزیرِاعظم کی سبکدوشی اور فلسطین


فرانسیسی وزیرِاعظم کی سبکدوشی اور فلسطین

فرانسیسی سیاست ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہے۔ وزیرِاعظم کے اچانک استعفے نے صدر ایمانوئل میکرون کو نہ صرف اندرونی دباؤ کا سامنا کروا دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کے فیصلوں کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہ استعفیٰ ایسے وقت میں آیا ہے جب میکرون نے ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے—ایک ایسا اعلان جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں زلزلے کے مترادف ہے۔

میکرون کے نزدیک دو ریاستی حل ہی اسرائیل-فلسطین تنازع کا واحد راستہ ہے۔ وہ اسے صرف انصاف نہیں بلکہ اسرائیل کے لیے سلامتی کا راستہ بھی قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت، یہ اعلان یورپ کی خودمختاری کو اجاگر کرتا ہے، گویا فرانس یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ امریکی پالیسی کا محض پیروکار نہیں رہا۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اس فیصلے کو سختی سے رد کر دیا ہے۔ ان کے مطابق فلسطینی ’’ساتھ رہنے نہیں بلکہ جگہ لینے‘‘ کے خواہاں ہیں۔ اس مؤقف کے پیچھے اسرائیلی لابی کا وہ دباؤ ہے جو یورپ اور امریکہ دونوں میں موجود ہے اور ہر اُس ملک کے خلاف استعمال ہوتا ہے جو فلسطینی ریاست کی حمایت کرے۔
امریکہ اور برطانیہ دونوں زبانی طور پر دو ریاستی حل کے حامی ہیں، مگر عملی سیاست میں اسرائیل ہی کو فوقیت دیتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنا سب سے بڑا اتحادی سمجھتا ہے جبکہ برطانیہ واشنگٹن کے ساتھ قدم ملانے میں ہی عافیت جانتا ہے۔ اس تناظر میں فرانس کا اعلان ایک جرات مندانہ قدم ہے جس نے یورپی صفوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے برسوں سے واضح کر رکھا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات ممکن نہیں۔ یہ موقف جزوی طور پر کامیاب ہوا ہے، کیونکہ اب اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ تاہم، حتمی کامیابی ابھی باقی ہے کیونکہ اسرائیل کی ضد اور مغربی طاقتوں کی مصلحت پسندی اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

وزیرِاعظم کے استعفے نے میکرون کے لیے اندرونی مشکلات ضرور پیدا کر دی ہیں۔ اپوزیشن اور اسرائیل نواز حلقے اس موقع کو استعمال کر کے میکرون کے فیصلے کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دوسری جانب، میکرون اپنی خارجہ پالیسی کو سیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف اخلاقی فیصلہ ہے بلکہ انہیں یورپ کا قائد اور عالمی سیاست کا فعال کھلاڑی بھی بنا سکتا ہے۔

اگر میکرون ڈٹ گئے تو فرانس یورپ میں ایک نئی قیادت کا کردار ادا کرے گا اور مزید ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
اگر میکرون دباؤ کے آگے جھک گئے تو یہ فیصلہ محض ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ جائے گا اور اسرائیل کو سفارتی برتری حاصل ہو گی۔
اگر یورپ متحد ہو گیا تو امریکہ اور برطانیہ پر دباؤ بڑھے گا اور اسرائیل عالمی سطح پر مزید تنہا ہو سکتا ہے۔
اگر عرب دنیا نے سخت مؤقف اپنایا تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید تاخیر کا شکار ہوں گے اور مغربی طاقتوں کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔

یہ مرحلہ صرف فرانس کے لیے نہیں بلکہ عالمی سیاست کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ اب دنیا دیکھے گی کہ میکرون داخلی دباؤ اور خارجی مزاحمت کے باوجود تاریخ کا درست فیصلہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔


جمعرات، 4 ستمبر، 2025

ایدھی اور مدر ٹریسا: لاحاصل بحثوں کا زہر




ایدھی اور مدر ٹریسا: لاحاصل بحثوں کا زہر

کچھ روز پہلے ایک عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین سے سوال پوچھا گیا:
“کیا مدر ٹریسا جنت میں جائے گی؟”

سوال سننے میں سادہ ہے مگر دراصل یہ ایک ایسی لاحاصل بحث ہے جو ہمیں اصل مقصد سے بھٹکا دیتی ہے۔ جنت اور دوزخ کا فیصلہ انسانوں کے ہاتھ میں نہیں۔ یہ صرف ربِ کائنات کا اختیار ہے۔ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کے ساتھ کہاں کھڑے ہیں؟
بغداد کی الم ناک یاد

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بغداد پر تاتاری لشکر حملہ آور تھے، اس وقت شہر کے بڑے بڑے علماء اس بات پر مناظرے کر رہے تھے کہ کوے کا گوشت حلال ہے یا حرام۔ دشمن شہر کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا، مگر اہلِ علم لاحاصل بحثوں میں الجھے رہے۔ انجام یہ نکلا کہ دنیا کی عظیم لائبریریاں راکھ ہو گئیں اور علم و تہذیب کے مینار زمین بوس ہو گئے۔
اسلام آباد کا المیہ

صدیوں بعد آج ہم بھی ویسی ہی اندھی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کبھی گدھے کے گوشت کے حلال و حرام پر مناظرے ہوتے ہیں، اور کبھی مدر ٹریسا یا عبدالستار ایدھی کے جنتی یا دوزخی ہونے پر۔ یہ بحث بغداد کے علماء سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ وہاں بات ایک پرندے تک محدود تھی، یہاں ہم مرے ہوئے انسانوں کے انجام پر فیصلہ صادر کر رہے ہیں۔
اندر کے دشمن

ہم نے اپنی ہی تاریخ کے ہیروز کو گروہوں میں بانٹ لیا ہے۔ کوئی ایک ہستی کو اپنا پرچم بناتا ہے، تو کوئی دوسری کو اپنا ہتھیار۔ یوں تاریخ سبق کے بجائے ہتھیار میں بدل گئی۔

بغداد کا دشمن باہر سے آیا تھا، ہمارا دشمن ہمارے اندر ہے۔ یہ دشمن ہمیں مذہب کے نام پر بانٹتا ہے، سیاست کے نام پر لڑاتا ہے، تاریخ کے نام پر گمراہ کرتا ہے اور معیشت کے نام پر تقسیم کرتا ہے۔
اصل پیغام

یاد رکھیں، ہر وہ وعظ، تقریر یا تحریر جو دل میں دوسرے انسان کے لیے نفرت پیدا کرے، وہ گمراہ کن ہے۔ دین کا اصل پیغام محبت، عدل اور ہمدردی ہے۔

مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی جنت میں جائیں گے یا نہیں، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مگر یہ حقیقت اٹل ہے کہ دونوں کی زندگی انسانیت کی خدمت، محبت اور قربانی کی علامت تھی—نفرت اور تقسیم کی نہیں۔
سبق آج کے لیے

انسان نے ابتدا سے محنت، علم اور ہمدردی کے ذریعے ترقی کی ہے۔ تہذیبیں تعمیر اسی وقت ہوتی ہیں جب عقل اور محبت کو رہنما بنایا جائے۔ اور تہذیبیں ٹوٹتی اسی وقت ہیں جب قومیں لاحاصل بحثوں، نفرت اور تفرقے میں کھو جائیں۔

اے انسان! دوسروں کی جنت یا دوزخ پربحث کرنے کے بجائے اپنی جنت کے لیے عمل کر۔
کیونکہ روزِ محشر تیرے ساتھ تیرے اپنے اعمال ہوں گے، نہ مدر ٹریسا، نہ ایدھی، نہ کوئی دوسرا۔

منگل، 26 اگست، 2025

خوابیدہ لوگوں خواب




تاریخ میں کچھ واقعات اور خواب ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں تک عوامی شعور میں گردش کرتے رہتے ہیں، اور ان کی تعبیرات وقت کے ساتھ کئی رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ "شہنشاہ جارج اور تاج" سے متعلق ہے، جو روحانیت، سیاست، اور استعمار کی تاریخ کے سنگم پر کھڑا ہے۔
یہ واقعہ برصغیر میں برطانوی حکومت کے ابتدائی دور میں مشہور ہوا۔ خواب کے مطابق ایک بزرگ کو روحانی طور پر دکھایا گیا کہ شہنشاہ جارج پنجم 
 جس نے 1911ء میں دہلی دربار میں شرکت کر کے ہندوستان کا باقاعدہ تاج پہنا، اس کے سر سے تاج اتار دیا گیا۔ تاہم، جب وہ بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا تو وہاں سے حکم ہوا کہ "تاج واپس اس کے سر پر رکھ دو۔" اس خواب کی تعبیر اس طرح کی گئی کہ انگریز راج کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے وقتی طور پر "روحانی اجازت" حاصل ہو چکی ہے۔
یہ خواب سب سے زیادہ حضرت مولانا غلام محمد سیالویؒ (1293ھ/1876ء – 1383ھ/1963ء) سے منسوب کیا جاتا ہے، جو کہ حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑوی (1837–1937ء) کے ہم عصر بزرگ تھے۔ بعض روایتوں میں اس خواب کو سید احمد شہید بریلویؒ یا دیگر اولیاء کے حوالے سے بھی نقل کیا گیا ہے، مگر مقبولیت اور استناد کے لحاظ سے یہ روایت سب سے زیادہ سیال شریف کے بزرگوں سے منسوب ہو کر سامنے آتی ہے۔
یہ خواب نہ صرف عوامی محافل اور مذہبی بیانیے میں بیان کیا جاتا رہا ہے بلکہ کئی خطباء، صوفی شخصیات، اور غیر رسمی دینی حلقے اس واقعے کو انگریز حکومت کی "روحانی حیثیت" کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔ تاہم، اس روایت کی کوئی متفق علیہ سند یا مضبوط حوالہ روایتی کتبِ سیرت، تاریخ یا تصوف میں دستیاب نہیں۔ معروف محقق مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس واقعے کو عوامی روایت قرار دیتے ہیں اور اس پر تائید یا تردید سے گریز کرتے ہیں، البتہ اسے کسی شرعی دلیل یا عقیدہ سازی کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ انگریز راج نے برصغیر میں اپنی حکومت کو صرف فوجی قوت سے نہیں، بلکہ مذہبی و روحانی تائید حاصل کر کے بھی مستحکم کیا۔ ایسے خواب اور روایات، جن میں انگریز حکومت کو خدائی تقدیر کا حصہ دکھایا جائے، دراصل نوآبادیاتی ذہنیت کی سادہ لوح عوام پر ایک نفسیاتی برتری قائم کرنے کی کوشش کا حصہ بھی سمجھے جا سکتے ہیں۔
کچھ دانشوروں اور محققین کا ماننا ہے کہ ایسے خوابوں کا فروغ استعمار کے اس بیانیے کا حصہ تھا جس کے تحت وہ خود کو "خیر کا نمائندہ" اور "مہذب حاکم" ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ چنانچہ جہاں ایک طرف انگریزوں نے علما کو دبایا، وہیں کچھ خانقاہی حلقوں کے ذریعے روحانی تائید حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔