پیر، 21 جولائی، 2025

منفی سوچ




منفی سوچ

ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سی ناکامیاں اور رشتوں کی شکست و ریخت ایسی ہوتی ہیں، جن کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، خود ہم ہوتے ہیں۔ ہماری "ضد"، "انا پرستی" اور "منفی سوچ" وہ خاموش دشمن ہیں، جو ہمارے عزائم، خواب اور صلاحیتوں کو بے دردی سے نگل جاتے ہیں۔
یہ بات صرف اخلاقی نصیحت نہیں، بلکہ تاریخ اور حالیہ زندگی کی حقیقت بھی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں یہ عوامل کیسے انسان کو بربادی کی طرف لے جاتے ہیں۔
 ضد — فیصلہ کن تباہی کا پہلا قدم
ضد وہ رویہ ہے جو انسان کو حقائق سے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چاہے سب کچھ تباہ ہو جائے، مگر ضدی انسان اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتا۔
 مثال
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کے کئی ادوار میں ضد نے ٹیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ورلڈ کپ 2011 کے بعد اُنہوں نے کھلاڑیوں کے ساتھ ضد کی بنیاد پر اختلافات بڑھائے، خود فیصلے کیے، اور ٹیم کی باہمی ہم آہنگی ختم کر دی۔ نتیجتاً وہ نہ صرف کپتانی سے محروم ہوئے بلکہ ٹیم کے اندرونی تنازعات کا شکار ہو گئے۔
 انا پرستی — خودفریبی کی بلند دیوار
انا پرستی وہ بیماری ہے جس میں انسان اپنے آپ کو سب سے برتر سمجھتا ہے اور دوسروں کی رائے کو اپنے وقار کے خلاف مانتا ہے۔
 مثال
پاکستانی سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کی مثال لیجیے۔ اُن کی جماعت مسلم لیگ (ق) نے 2008 کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کے کئی مواقع گنوائے، محض اس لیے کہ قیادت پر سمجھوتہ ان کی انا کو گوارا نہ تھا۔ نتیجتاً پارٹی تنزلی کا شکار ہوئی اور آج صرف علامتی حیثیت رکھتی ہے۔

قابل غور
"انا وہ پردہ ہے جو سچائی کو چھپا دیتا ہے۔"
"جھکنے والے پہاڑ بھی عبور کر لیتے ہیں، اَڑنے والے راستے کھو بیٹھتے ہیں۔"
 منفی سوچ — کامیابی کی راہ کا کانٹا
منفی سوچ وہ نظریہ ہے جو ہر موقع میں خطرہ دیکھتا ہے، ہر امید میں ناکامی اور ہر تبدیلی میں بگاڑ۔
 مثال
مشہور بھارتی مصنفہ ارُندھتی رائے نے 1990 کی دہائی میں جب ناول 
"The God of Small Things"
 پر کام شروع کیا تو اُنہیں ہر طرف سے یہ کہا گیا کہ لوگ ایسے منفرد اسلوب کو نہیں سمجھیں گے۔ اُنہیں بارہا مایوسی کی خبریں سنائی گئیں۔ مگر اُنہوں نے منفی سوچ کو پسِ پشت ڈال کر تخلیقی سفر جاری رکھا، اور نتیجتاً اُنہیں بُکر پرائز ملا۔
دوسری طرف، پاکستان میں بے شمار باصلاحیت نوجوان صرف اس لیے میدان سے باہر ہو گئے کہ اُنہیں بچپن سے ہی یہ سکھایا گیا کہ "یہ نظام تمہیں کچھ نہیں دے گا"۔

قابل غور
"مایوس انسان وہ ہوتا ہے جس نے ہارنے سے پہلے کوشش چھوڑ دی ہو۔"
"مثبت سوچ نہ صرف راستہ دکھاتی ہے بلکہ منزل کا دروازہ بھی کھولتی ہے۔"

خود احتسابی کا عمل شروع کریں
ہر روز خود سے پوچھیں، کیا میرے فیصلے میں ضد یا انا شامل ہے؟ کیا میں صرف منفی پہلو سوچ کر پیچھے ہٹ رہا ہوں؟
مشورے کو دل سے سنیں
قائداعظم محمد علی جناح جیسا عظیم لیڈر بھی اپنی کابینہ سے مشورہ لیتا تھا، تو ہم کیوں نہ سیکھیں؟
معافی کو عظمت سمجھیں
برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے اپنی ایک تقریر میں شہزادی ڈیانا کے معاملے پر عوام سے معذرت کی، حالانکہ وہ دنیا کی سب سے طاقتور خاتون تھیں۔ یہ معافی نہیں، بلکہ حکمت اور عاجزی کی مثال تھی۔
مثبت لوگوں سے تعلق رکھیں
نیلسن منڈیلا، جنہوں نے تنقید، مایوسی اور مخالفت کے ماحول میں بھی مثبت سوچ کو نہیں چھوڑا۔
قابل غور
ضد، انا اور منفی سوچ انسان کو صرف اندر سے کھوکھلا نہیں کرتیں، بلکہ اُس کی صلاحیتوں، خوابوں، اور رشتوں کو بھی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ کامیابی اُس شخص کی ہم سفر بنتی ہے جو اپنی ضد کو دلیل سے بدلتا ہے، انا کو عاجزی سے توڑتا ہے، اور مایوسی کو امید سے بدل دیتا ہے۔
قرآن کا فرمان ہے
"اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
"مایوسی کفر ہے، اور عاجزی عظمت کی نشانی"
آئیے — ہم خود سے یہ عہد کریں کہ ضد، انا اور منفی سوچ کو پیچھے چھوڑ کر عقل، عاجزی اور مثبت طرزِ  آفکر کے ساتھ زندگی گزاریں

ہفتہ، 19 جولائی، 2025

تاثر کی جنگ





مشہور مصری فلم ساز مصطفیٰ العقاد کی ہالی وڈ میں بنائی گئی شہرہ آفاق فلم "The Message" 
 اسلامی تاریخ پر مبنی ایک شاہکار ہے۔ اس فلم میں ایک نہایت پُراثر مکالمہ ہے، جو آج بھی عالمی سیاست کی روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ مکالمہ کچھ یوں ہے:
"کیا ہم واقعی غلط تھے؟ ہم تو ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ طاقت ہمیشہ حق پر ہوتی ہے…"
یہ الفاظ ابو سفیان کی بیوی ہند اپنے شوہر سے کہتی ہے۔ سوال سادہ ہے مگر معنویت میں گہرا —
کیا صرف طاقتور ہونا حق پر ہونے کی دلیل ہے؟
آج بھی یہی سوال دنیا کے کونے کونے میں گونج رہا ہے۔
کیا وہی قوم حق پر ہے جس کے پاس جدید ہتھیار، اتحادی طاقتیں اور میڈیا کا کنٹرول ہے؟
یا وہ جو مظلوم ہے مگر ثابت قدم، بےسروسامان مگر بااصول ہے؟
اسرائیل اور طاقت کا زعم
گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے غزہ پر جو قیامت ڈھائی ہے، وہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہزاروں بچوں کو شہید کیا گیا، لاکھوں افراد لاپتہ یا معذور ہو چکے، اور اسپتالوں، اسکولوں و پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اسرائیل دنیا کے سامنے مظلوم بننے کی اداکاری کرتا ہے، اور الٹا دوسرے ممالک کو دھمکاتا ہے۔
کیوں؟
کیونکہ اس کے پیچھے ایک تاثر ہے — ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر۔
مگر جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور ایران نے منہ توڑ جواب دیا، تو طاقت کے اس تاثر میں دراڑ پڑ گئی۔
دنیا نے دیکھا کہ وہ ایران جسے برسوں سے تنہا کرنے کی کوششیں جاری تھیں، پوری خوداعتمادی سے جواب دے رہا ہے — اور تاثر کی بساط پلٹ رہا ہے۔
بھارت کا بھرم کیسے ٹوٹا؟
بھارت جنوبی ایشیا میں اپنی عسکری طاقت، خلائی پروگرام اور سفارتی اثر و رسوخ پر فخر کرتا ہے۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی طاقت کے زعم میں وہ پاکستان کے خلاف قدم بڑھاتا ہے، اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
10
 مئی 1998 کو پاکستان نے کامیاب جوابی ایٹمی دھماکے کیے اور بھارت کا "تنہا ایٹمی طاقت" ہونے کا تاثر ریزہ ریزہ ہو گیا۔
پھر 27 فروری 2019 کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، تو پاکستان نے دو بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ تاثر اور حقیقت کا فرق کیا ہوتا ہے۔
طاقت صرف ہتھیاروں کا نام نہیں — اعصاب، حکمت اور اصول بھی طاقت ہوتے ہیں۔
امریکہ کی "عالمی طاقت" کا زوال
پچھلی صدی میں امریکہ نے ویت نام، افغانستان، عراق اور دیگر کئی ممالک پر حملے کیے۔ ہر بار نتیجہ وہی نکلا:
ویت نام: دنیا کی مہنگی ترین جنگ، مگر شرمناک پسپائی
افغانستان: 20 سال کی لڑائی کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں
عراق: تباہی، خانہ جنگی، داعش کی پیدائش اور خطے میں عدم استحکام
دنیا نے تسلیم کر لیا:
امریکہ جنگ چھیڑ سکتا ہے، مگر امن قائم نہیں رکھ سکتا۔
نئی امید: ایران اور پاکستان
آج اسلامی دنیا دو ایسے ممالک کو دیکھ رہی ہے جو کم وسائل، اندرونی مسائل اور عالمی دباؤ کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں — ایران اور پاکستان۔
جب پاکستان نے کہا:
"ایران سو سال تک جنگ لڑ سکتا ہے"
تو یہ صرف اظہارِ یکجہتی نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کے حوصلے کی نئی علامت بن گیا۔
ایران کی مجلسِ شوریٰ میں پاکستان کے حق میں "تشکر" کا نعرہ لگا —
یہ محض سفارتی کلمات نہیں، بلکہ اس نئے تاثر کا اعلان تھا کہ:
"بھارت معاہدے کر کے پیچھے ہٹ جاتا ہے، جبکہ پاکستان مشکل وقت میں ساتھ کھڑا رہتا ہے۔"
تاثر سازی کی اصل جنگ
دنیا آج تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اب صرف ہتھیار نہیں، بلکہ بیانیہ اور تاثر قوموں کی طاقت کی پہچان بن رہا ہے۔
طاقت کا زعم ٹوٹ رہا ہے
سچائی کی بازگشت بلند ہو رہی ہے
اور مظلوم اقوام سر اٹھا کر بات کر رہی ہیں۔
اب وہی طاقتور ہے:
جو حق پر ہو
جو صبر سے جواب دے
جو اتحاد و انصاف کا علمبردار ہو
اور یہی کردار آج ایران و پاکستان ادا کر رہے ہیں۔
یہ صرف دشمن کو چیلنج نہیں کر رہے، بلکہ امت مسلمہ کو نئے اتحاد، نئے شعور اور نئی امید کا پیغام دے رہے ہیں۔

خوبصورت آنکھوں والی خواتین

 خوبصورت آنکھیں عورت کی شخصیت اور حسن کا سب سے مؤثر پہلو سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا کی فلمی، ادبی اور ثقافتی تاریخ میں کئی ایسی خواتین گزری ہیں جن کی آنکھیں ان کی پہچان بن گئیں — چاہے وہ رنگ، گہرائی، تاثرات یا کشش کے اعتبار سے ہوں۔

یہ رہی کچھ معروف خواتین کی فہرست جنہیں خوبصورت آنکھوں والی خواتین کے طور پر جانا جاتا ہے:


🌟 خوبصورت آنکھوں والی خواتین کی فہرست

1. ایشوریا رائے بچن (Aishwarya Rai Bachchan) — بھارت

  • نیلی سبز آنکھیں

  • 1994 میں "مس ورلڈ" کا تاج

  • بالی ووڈ میں "خوبصورتی کی دیوی" کہی جاتی ہیں

2. ایلیزبتھ ٹیلر (Elizabeth Taylor) — امریکہ

  • نایاب جامنی آنکھیں (Violet Eyes)

  • ہالی وڈ کی مشہور ترین خوبصورتی

3. انجلینا جولی (Angelina Jolie) — امریکہ

  • گہری، پرکشش اور پراثر آنکھیں

  • ان کی آنکھوں نے ان کے کرداروں میں جذبات بھر دیے

4. کترینہ کیف (Katrina Kaif) — بھارت

  • بھوری اور بڑی آنکھیں

  • نرم اور دلکش تاثر رکھنے والی

5. ڈیبورا این وول (Deborah Ann Woll) — امریکہ

  • نیلی، شفاف اور روشن آنکھیں

  • ان کی آنکھیں ان کی شخصیت کا مرکزی پہلو ہیں

6. زینت امان — بھارت

  • ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ان کی آنکھوں کی گہرائی نے سب کو دیوانہ بنایا

7. پریانکا چوپڑا — بھارت

  • بڑی، سیاہ اور گہری آنکھیں

  • آنکھوں کے ذریعے جذبات ادا کرنے میں ماہر

8. سعاد حسنی (Soad Hosny) — مصر

  • عربی دنیا کی مشہور اداکارہ

  • دلکش، معصوم اور پراثر آنکھیں

9. لیزا ری (Lisa Ray) — کینیڈا/بھارت

  • ہیزل (hazel) آنکھوں والی ماڈل و اداکارہ

  • آنکھوں کی چمک اور پرکشش نگاہوں کی وجہ سے معروف

10. مہوش حیات — پاکستان

  • پاکستانی اداکارہ، بڑی اور جاذب نظر آنکھوں والی


🧕 قدیم اور روایتی مثالیں:

حضرت یوسف علیہ السلام کی تعریف کرنے والی مصری خواتین

"فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ" — سورہ یوسف
ان عورتوں کی خوبصورتی بھی مصری دربار میں مشہور تھی، خاص طور پر زلیخا، جن کی آنکھوں کی کشش روایات میں بیان کی گئی ہے۔


📌 نوٹ:

خوبصورت آنکھیں صرف رنگ یا سائز کا نام نہیں، بلکہ تاثر، گہرائی، معصومیت، شرارت، جذبات اور روح کی جھلک بھی آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہے۔

اگر آپ چاہیں تو مخصوص ملک، دور یا شعبے (مثلاً پاکستانی فلم انڈسٹری، ترک ڈرامے، یا شاعری) کی خوبصورت آنکھوں والی خواتین کی الگ فہرست بھی دی جا سکتی ہے۔

پیر، 14 جولائی، 2025

یہودی اور بنی اسرائیل میں فرق

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں بہت سے ایسے معروف یہودی لیڈر، سیاستدان اور دانشور موجود ہیں جو خود کو "بنی اسرائیل" اور "یہودی قوم" کا نمائندہ قرار دیتے ہیں، مگر تاریخی و تحقیقی شواہد کے مطابق ان کی نسلی جڑیں بنی اسرائیل یا حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے نہیں ملتیں۔
ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اُس "خزر" قوم سے ہے جس نے 8ویں صدی عیسوی میں اجتماعی طور پر یہودیت قبول کی، جبکہ وہ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی ترک نسل کی قوم تھی اور ان کا بنی اسرائیل سے کوئی نسلی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔ مشرقی یورپ، روس اور امریکہ میں آباد اکثریتی اشکنازی یہودی اسی نسل سے جُڑے سمجھے جاتے ہیں۔
چند مشہور یہودی لیڈرز اور شخصیات جو نسلی طور پر بنی اسرائیل نہیں، مگر خود کو یہودی یا بنی اسرائیل کہتے ہیں:
1. ڈیوڈ بین گوریان
اسرائیل کا پہلا وزیراعظم
پیدائش: پولینڈ میں، اشکنازی یہودی خاندان میں
تاریخی شواہد کے مطابق ان کے آباؤ اجداد کا بنی اسرائیل سے کوئی خالص نسلی تعلق ثابت نہیں، بلکہ وہ خزر نسل یا مشرقی یورپی اشکنازی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔
2. گولڈا مئیر
اسرائیل کی چوتھی وزیراعظم
پیدائش: کیف، یوکرین میں، اشکنازی خاندان میں
مشرقی یورپ کی وہ کمیونٹی جس میں نسلی خلوص کا دعویٰ کمزور ہے، مگر مذہبِ یہودیت کے ماننے کی بنیاد پر وہ بنی اسرائیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
3. بنجمن نیتن یاہو
اسرائیل کے کئی بار منتخب وزیراعظم
ان کے آباؤ اجداد پولینڈ اور لتھوانیا کے یہودی تھے، جن کا تعلق اشکنازی نسل سے ہے۔
اشکنازی یہودیوں کی اکثریت خزر قوم سے منسوب کی جاتی ہے، نہ کہ خالص بنی اسرائیل نسل سے۔
4. شمعون پیریز
اسرائیل کے سابق صدر اور وزیراعظم
پولینڈ میں پیدا ہوئے، اشکنازی نسل کے یہودی
ان کا تعلق بھی مشرقی یورپ کے اُس گروہ سے ہے جس کے بارے میں خالص بنی اسرائیل نسل ہونے پر تحقیق میں اختلاف ہے۔
5. موشے دیان
اسرائیلی فوج کے مشہور جنرل اور دفاعی وزیر
فلسطین میں پیدا ہوئے، مگر ان کے خاندان کی جڑیں مشرقی یورپ کی اشکنازی کمیونٹی سے ملتی ہیں۔
6. جارج سوروس
دنیا کے مشہور سرمایہ دار، فلاحی اداروں کے بانی
ہنگری میں پیدا ہونے والے اشکنازی یہودی
یہودی عقیدے سے وابستگی رکھتے ہیں، مگر ان کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی نسلی بنی اسرائیل سے کمزور سمجھا جاتا ہے۔
خزر قوم کا پس منظر:
8ویں صدی میں قفقاز، بحیرہ اسود اور وسط ایشیا میں آباد خزر سلطنت کی پوری قوم نے سیاسی و معاشرتی مفادات کے پیش نظر یہودیت قبول کی۔ ان کا تعلق ترک نسل، قفقازی اور وسط ایشیائی اقوام سے تھا، نہ کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے۔
موجودہ اشکنازی یہودیوں کی بڑی تعداد، جو دنیا کے طاقتور یہودیوں، اسرائیل کے لیڈروں اور مغربی یہودی کمیونٹیز میں غالب ہے، انہی خزر قوم کی نسل سے مانی جاتی ہے۔
نتیجہ:
آج بہت سے ایسے یہودی لیڈر، سیاستدان اور سرمایہ دار خود کو "بنی اسرائیل" کہتے ہیں، مگر ان کا حقیقی نسلی تعلق بنی اسرائیل کی خالص اولاد سے نہیں ہے بلکہ مذہبِ یہودیت قبول کرنے یا خزر نسل کی بنیاد پر وہ یہودی کہلاتے ہیں۔
لہٰذا، یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ "یہودی" ہونا اور "بنی اسرائیل" کی اصل نسل سے ہونا، دونوں میں فرق موجود ہے۔ اسلام اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق اصل معیار نسب نہیں بلکہ ایمان، کردار اور عمل ہے۔

اسرائیل کا وجود






کیا اسرائیل امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟

دنیا کی سیاسی بساط پر اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ضرور ہے، مگر عالمی طاقتوں کی سرپرستی نے اسے اتنی اہمیت اور تحفظ دے رکھا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ناقابلِ نظرانداز حقیقت بن چکا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ اور یورپی ممالک اپنی سیاسی، عسکری اور معاشی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں تو کیا اسرائیل اپنا وجود، طاقت اور اثرورسوخ برقرار رکھ سکے گا؟

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ہی مغربی طاقتوں کی سرپرستی سے رکھی گئی تھی۔ 1917 میں برطانوی بالفور اعلامیہ اور 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 مغربی حمایت کی واضح مثالیں ہیں۔ آج بھی، اسرائیل کی سلامتی اور ترقی میں امریکہ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ اب تک امریکہ اسرائیل کو مختلف شکلوں میں 150 billion ڈالر سے زائد کی امداد دے چکا ہے، جس میں عسکری، اقتصادی اور تکنیکی تعاون شامل ہے۔

یورپی ممالک اگرچہ دفاعی میدان میں امریکہ جتنے سرگرم نہیں، مگر اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی منڈی یورپ ہی ہے۔ EU-Israel Association Agreement کے تحت اسرائیلی مصنوعات کو یورپ میں خصوصی رسائی حاصل ہے، جبکہ امریکہ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں کی بدولت اسرائیل کی معیشت مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔

لیکن اسرائیل کی کامیابی صرف مغربی مدد پر نہیں بلکہ اس کی اپنی اندرونی صلاحیتوں پر بھی ہے۔ اسرائیل کو "Start-Up Nation" کہا جاتا ہے، اس کی ٹیکنالوجی، زراعت اور دفاعی صنعت دنیا میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ آئرن ڈوم میزائل سسٹم اور مرکاوہ ٹینک اس کی دفاعی خود انحصاری کی علامت ہیں، مگر ان کی تیاری اور ترقی میں بھی امریکہ کی مالی اور تکنیکی مدد شامل ہے۔ امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 billion ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے، جس کے بغیر اسرائیل کی دفاعی برتری قائم رکھنا ممکن نہیں۔

سفارتی سطح پر اگر امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو نہ کرے تو اسرائیل کو عالمی پابندیوں، قانونی کارروائیوں اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایران، حزب اللہ اور حماس جیسے دشمن پہلے ہی اسرائیل کی کمزوری کی تاک میں ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد اسرائیل کے لیے ڈھال کا کام دیتی ہے۔

اسرائیل کے پاس مبینہ طور پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اس کی معیشت مستحکم ہے، فی کس آمدنی کئی مغربی ممالک کے برابر ہے، اور اس کی فوج تجربہ کار اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ مغربی ممالک کی مدد کے بغیر برقرار رکھا جا سکتا ہے؟

ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مغربی ممالک کی حمایت ختم ہونے کی صورت میں اسرائیل کو سخت چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ اسرائیل کی برآمدات متاثر ہوں گی، غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو جائے گی، عسکری برتری خطرے میں پڑ جائے گی اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں اسرائیل تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔

کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل خود کفالت کی طرف بڑھ سکتا ہے، مگر اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں اور یہ راستہ آسان نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات میں اسرائیل کی معاشی، عسکری اور سفارتی طاقت بڑی حد تک امریکہ اور یورپی ممالک کی مرہونِ منت ہے۔

لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل اپنی بقا کی جنگ خود ضرور لڑ سکتا ہے، مگر کامیابی، سلامتی اور عالمی اثرورسوخ کے لیے اسے امریکہ اور یورپی ممالک کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ اسرائیل کی اصل طاقت اس کے ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ واشنگٹن اور برسلز کی سیاسی حمایت ہے، اور یہ حمایت ختم ہوتے ہی اسرائیل کو اپنی بقاء کے سوال کا عملی جواب ڈھونڈنا پڑے گا۔
اسرائیل اگرچہ عسکری اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط نظر آتا ہے، مگر امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد کے بغیر   
اس کی عالمی حیثیت، سلامتی اور ترقی کا موجودہ نقشہ برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ 
صرف ایران ہی اسے چند ہفتوں میں دنیا کے نقشے سے مٹا دینے کیا اہلیت رکھتا ہے
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ