بدھ، 11 جون، 2025

سورہ البلد ایت 13


سورہ البلد ایت 13

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
انسانی تاریخ کے ماتھے پر غلامی وہ بدنما داغ ہے، جو ہزاروں سال بعد بھی پوری طرح مٹا نہیں۔ مصر کی تہذیب ہو یا روم کی سلطنت، یونان کی دانش گاہیں ہوں یا عرب کی ریتلی بستیوں کا معاشرہ — ہر جگہ انسان نے انسان کو زنجیروں میں جکڑا، بازاروں میں بیچا، اور طاقتور کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

ایسے تاریک دور میں قرآن مجید نے وہ جملہ اتارا، جس نے غلامی کو ختم کرنے کی بنیاد رکھی۔
"فَكُّ رَقَبَةٍ"
(گردن چھڑانا، غلام کو آزاد کرنا)
یہ محض نیکی کا بیان نہیں تھا، بلکہ سماجی انقلاب کا آغاز تھا۔ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف غلاموں کو آزادی کی تلقین کی، بلکہ ان کے ساتھ برابری اور عزت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ اسلام کی تدریجی حکمت عملی نے آہستہ آہستہ غلامی کی بنیادیں ہلا دیں۔
اسلام کے صدیوں بعد مغرب نے بھی غلامی کی تباہ کاریوں کو تسلیم کیا:
اٹھارہ سو سات: برطانیہ نے غلاموں کی تجارت پر پابندی لگائی
اٹھارہ سو تینتیس: برطانیہ میں غلامی کا قانونی خاتمہ
اٹھارہ سو تریسٹھ: امریکہ میں Emancipation Proclamation
اٹھارہ سو پینسٹھ: تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے امریکہ میں غلامی کا اختتام
انیس سو اکیاسی: موریتانیہ، دنیا کا آخری ملک، جہاں غلامی کے خلاف قانون بنا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قانون بدلتے رہے، غلامی کی شکلیں بدلتی رہیں — اب یہ سیاسی جبر، معاشی استحصال اور جنگی قبضوں کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔

اگر آج کوئی پوچھے کہ غلامی کی سب سے خوفناک شکل کہاں ہے؟ تو جواب ہے: فلسطین کا علاقہ غزہ۔
یہاں کے بائیس لاکھ انسان اپنی زمین پر قید ہیں۔ دو ہزار سات سے جاری اسرائیلی محاصرہ، جس میں:
پانی، خوراک، ادویات اور بجلی بند
اسکول، اسپتال اور رہائشی علاقے جنگی ہتھیاروں کی زد میں
روزگار کے مواقع ناپید
ہر نیا دن موت، معذوری اور بربادی کا پیغام لے کر آتا ہے
غزہ میں پیدا ہونے والا بچہ محاصرے میں سانس لیتا ہے، جوان بھوک، بے بسی اور خوف میں پلتا ہے، اور بوڑھا قبر میں اترتا ہے — یہ سب جدید غلامی کی وہ شکل ہے جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو چیلنج دے رکھا ہے۔

دو ہزار تئیس کے اواخر اور دو ہزار چوبیس کے آغاز میں اسرائیلی حملوں میں اڑتیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید، جن میں اکثریت بچے اور خواتین شامل
پچاسی فیصد عمارتیں ملبے کا ڈھیر
اسپتال بند، امدادی قافلے روکے گئے
دس لاکھ سے زائد افراد شدید غذائی قلت کا شکار

اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، سب کاغذی بیانات اور مذمتوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ فلسطینیوں کی قبریں کھودتے وقت، ان کے معصوم بچوں کے جنازے اٹھاتے وقت، دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف رپورٹس مرتب کرتی ہیں، عملی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتیں۔

"فَكُّ رَقَبَةٍ" صرف غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم نہیں، بلکہ ہر اس انسان کی رہائی کی دعوت ہے جو جبر، خوف، بھوک اور قید میں جکڑا ہوا ہے۔
غزہ کے قیدی انسان پوری دنیا کے ضمیر کا امتحان ہیں۔ ان کے لیے خاموشی جرم ہے، حمایت فرض ہے، اور آزادی انسانیت کا تقاضا ہے۔

طاق اور دیا



 

1980 

کی سخت گرم مئی کا مہینہ تھا، اور ملک تھا کویت، جہاں درجہ حرارت کی گرمی انسان کو عاقبت یاد دلا دیتی تھی۔ میرے دوست عبدالباسط نے مجھ سے سوال کیا، "کل کون مرا ہے؟"

میں نے جواب دیا: "ٹیٹو" – (یعنی مارشل ٹیٹو، یوگوسلاویہ کا صدر)

انہوں نے دوسرا سوال کیا: "کیا وہ مسلمان تھا؟"
میں نے بتایا کہ "اس کی ساری زندگی کمیونزم کے نفاذ کی جدوجہد میں گزری ہے۔"
عبدالباسط نے سرد آہ بھری، "إنا لله وإنا إليه راجعون" پڑھا۔
میں نے حیرت سے پوچھا: "آپ کو ٹیٹو کے مرنے کا دکھ ہے؟"
ان کا جواب آج تک میرے دل میں نقش ہے:
"میں ٹیٹو کو نہیں جانتا، مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ایک پڑھے لکھے شخص تک میں اسلام کی حقانیت کا پیغام نہ پہنچا سکا۔"

یہ ایک سادہ مگر بہت بڑی بات تھی۔ ایک سچا عالم ایسا ہی حساس دل رکھتا ہے – وہ علم کو صرف کتب میں نہیں، انسانوں کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ناکامی کو دنیاوی معیار پر نہیں، دعوتِ دین کے تقاضوں پر پرکھتا ہے۔

لیکن افسوس کہ آج علم کا معیار بدل چکا ہے۔ معاشرے میں ایسے "علماء" بھی پائے جاتے ہیں جو علم کو اللہ کی امانت نہیں بلکہ شہرت و دولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا مقصد دلوں کی اصلاح نہیں بلکہ مجمع جمع کرنا، سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھانا، یا کسی سیاسی یا مسلکی طاقت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں نرمی نہیں، لہجہ میں تکبر ہوتا ہے، اور دل میں اخلاص کی جگہ خودنمائی۔

ایسے اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کے اندر عاجزی نہیں آتی، بلکہ تعصب، تنگ نظری اور دوسروں پر تنقید کی عادت پروان چڑھتی ہے۔ ان کے علم سے روحانی پیاس نہیں بجھتی، بلکہ دل مزید خشک ہو جاتا ہے۔ جب علم، دولت کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو وہ بوجھ بن جاتا ہے – نہ وہ عالم خود نجات پاتا ہے، نہ دوسروں کو نجات کی راہ دکھا سکتا ہے۔

معاشرے کے لیے سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ علم کی کرسی پر وہ لوگ براجمان ہو جائیں جو علم کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ جب کردار سے خالی عالم، قوم کی رہنمائی کرے، تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

اس کے برخلاف، سچے علما ہمیشہ حق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہوتی ہے، چہرے پر نور ہوتا ہے، اور کردار میں ایسا خلوص کہ لوگ ان کی محفل سے بدل کر نکلتے ہیں۔ ان کا دکھ بھی حقیقی ہوتا ہے – جیسا عبدالباسط نے مارشل ٹیٹو کے لیے محسوس کیا۔ وہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی ایک دل تک بھی اسلام کی روشنی نہ پہنچا سکے۔

علم ایک نور ہے عالم کے دل میں اترتا ہے البتہ عالم وہی ہے جس کو سن کر، پڑھ کر یا اس کی صحبت میں بیٹھ کر علم اور اخلاق میں بہتری آئے 


منگل، 10 جون، 2025

دانت ٹوٹنے کے بعد بھی ۔۔۔





دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت اب ایک ایسے ملک میں بدل چکا ہے جس کا اصل چہرہ ’’دکھانے والے دانتوں‘‘ سے بالکل مختلف ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو باہر سے قانون، انسانیت، کثرتیت اور جمہوریت کی بات کرتا ہے، مگر اندر سے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے جہنم بن چکا ہے۔
ہندوتوا کا نظریہ اور RSS کی پالیسی
بھارت کا ریاستی بیانیہ اب مکمل طور پر ہندوتوا کے زہر میں ڈوبا ہوا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کے نظریہ ساز، ایم ایس گولوالکر نے لکھا تھا:
"ہندوؤں کے سوا باقی سب کو، یا تو ہندو بننا ہو گا، یا بھارت چھوڑنا ہو گا۔"
— We or Our Nationhood Defined (1939)
آج یہی نظریہ بھارتی سیاست، میڈیا، اور عدالتوں میں جھلکتا ہے۔ بی جے پی حکومت اسی فلسفے پر کاربند ہے۔
مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف ریاستی اور سماجی مظالم
▪ دہلی فسادات (2020)
بی جے پی رہنماؤں کی تقاریر کے بعد منظم مسلم کش فسادات ہوئے۔ 53 افراد مارے گئے، درجنوں مسجدیں جلائی گئیں۔
نریندر مودی کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ریاست گجرات میں 2,000 سے زائد مسلمان قتل ہوئے۔
شہریت ترمیمی قانون مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا۔
 NRC 
کی آڑ میں آسام اور بنگال میں لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔
▪ مساجد پر حملے، اذان پر پابندیاں، لو جہاد کا جھوٹا پروپیگنڈا
مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ اتر پردیش میں درجنوں مسلمان جوڑوں پر ’لو جہاد‘ کے تحت جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔
بھارتی میڈیا آج حکومت کا ہتھیار بن چکا ہے۔ وہ جو جرم خود کرتا ہے، اس کا الزام پاکستان، بنگلہ دیش، یا کسی مسلمان فرد پر لگا دیتا ہے۔
پلوامہ حملہ 
(2019)
 اس کی مثال ہے جہاں جھوٹے الزامات کے بعد پاکستان پر جنگی دباؤ بڑھایا گیا، حالانکہ بعد میں خود بی جے پی رہنماں نے تسلیم کیا کہ "انتخابی فائدے" کے لیے یہ سب کیا گیا۔
بھارت نے ایک بار پھر اپنے غرور میں پاکستان پر حملے کی کوشش کی، مگر مئی 2025 کی جنگ میں اسے عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جدید پاکستانی دفاعی حکمتِ عملی اور عوامی اتحاد کے آگے بھارتی فوج بوکھلا گئی۔
بھارت نے پہلے غرور سے حملہ کیا، اور پھر ترکی، سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ کی منتیں کیں کہ "جنگ بندی" کرائی جائے۔ مگر جنگ بندی کے فوراً بعد، یہی بھارت اقوامِ عالم کو آنکھیں دکھانے لگا، گویا اسے شکست ہوئی ہی نہیں۔
یہ اس کی پرانی عادت ہے:
’’طاقتور کے قدموں میں جھک جانا، کمزور کو گلے سے دبوچ لینا۔‘‘
وہی بھارت جو دنیا کے سامنے للکار کر بولتا ہے، بند کمروں میں گڑگڑا کر اپنے مخالف کے پاؤں پکڑتا ہے۔ جنگ کے بعد اقوامِ متحدہ کی میٹنگز میں بھارت نے جھوٹ پر جھوٹ بولا کہ اس نے "فتح حاصل کی ہے"، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے کئی طیارے تباہ ہوئے، بارڈر پر پسپائی ہوئی، اور عالمی سطح پر رسوائی الگ۔
آج کا بھارت:
مسجدیں گراتا ہے، مندر بناتا ہے۔
اقلیتوں کو شہریت سے محروم کرتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلاتا ہے۔
دنیا سے جھوٹ بولتا ہے، اور اپنے عوام کو دھوکہ دیتا ہے۔
جنگ میں شکست کھا کر بھی "جیت" کے بینر چھاپتا ہے۔
دنیا کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کے ’’دکھانے والے دانت‘‘ کچھ اور ہیں، اور کاٹنے والے دانت کچھ اور۔ یہ ملک صرف جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر اقلیتوں کو کچلنے، پروپیگنڈا پھیلانے، اور اپنے جرائم کا الزام دوسروں پر ڈالنے میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین الاقوامی میڈیا اس ’’دکھاوے‘‘ کو پہچانے۔ بھارت کا اصل کردار بے نقاب ہو چکا ہے، مگر اس پر خاموشی جاری رہی، تو دنیا کو "جمہوریت کے لبادے میں فاشزم" کا سامنا ہو گا۔

طریقِ ہجرت

 

طریقِ ہجرت – نبی کریم ﷺ کے مقدس سفر کی یادگار

اسلامی تاریخ کا وہ لمحہ جس نے دنیا کے نقشے پر ایک انقلابی تبدیلی کی بنیاد رکھی، ہجرتِ نبوی ﷺ ہے۔ یہ صرف ایک سفر نہ تھا بلکہ صبر، ایمان، قربانی، اور اللہ پر مکمل بھروسے کی علامت تھا۔ جب مکہ مکرمہ میں اسلام دشمن قوتیں نبی اکرم ﷺ اور آپ کے جانثار صحابہؓ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگیں، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی ﷺ نے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی۔ یہی مقدس راستہ آج "طریقِ ہجرت" کے نام سے تاریخ کے اوراق سے نکل کر ایک زندہ و جاوید حقیقت بن رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں گورنر مدینہ، سلمان بن سلطان، نے طریقِ ہجرت کے عظیم منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ یہ جدید سڑک 470 کلو میٹر طویل ہو گی اور دو رویہ ہوگی تاکہ زائرین اور سیاحوں کو آسانی سے اس روحانی سفر کا تجربہ حاصل ہو سکے۔

یہ سڑک محض ایک سفری سہولت نہیں بلکہ ایک مکمل تاریخی اور روحانی تجربہ ہے۔ اس منصوبے کا سب سے اہم پہلو وہ 41 مقامات ہیں جہاں سیرت سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ یہ سینٹر نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے مختلف مراحل، پیش آنے والے واقعات، اور صحابہ کرامؓ کی قربانیوں کو جدید ذرائع کے ذریعے زائرین کے سامنے پیش کریں گے۔ ان سینٹرز میں تصویری گیلریاں، مجسمے، دستاویزی فلمیں، اور سمعی و بصری ذرائع سے سیرتِ نبوی ﷺ کو اجاگر کیا جائے گا۔

نبی کریم ﷺ کی ہجرت کا راستہ پہاڑوں، وادیوں اور صحراؤں سے گزرتا ہے۔ غارِ ثور کی رات، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ہمراہی، دشمنوں کی تلاش، اور اللہ کی غیبی مدد—یہ سب واقعات آج بھی مسلمانوں کے دلوں کو روشنی عطا کرتے ہیں۔ اب یہی مقامات زائرین کو نہ صرف تاریخی آگاہی دیں گے بلکہ ان کے ایمان کو تازگی بھی بخشیں گے۔

طریقِ ہجرت کے قیام سے نہ صرف مسلمانوں کو سیرتِ نبوی ﷺ کو قریب سے جاننے کا موقع ملے گا بلکہ یہ منصوبہ بین الاقوامی سطح پر اسلامی تہذیب اور تاریخ کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ مدینہ اور مکہ کے درمیان یہ راستہ اب عقیدت، تاریخ اور جدید ترقی کا حسین امتزاج ہوگا۔

War Hysteria: How Modi Is Using Fear to Mask Failure

War Hysteria: Modi Government’s Tactic to Distract from Its Failures



India today finds itself trapped in a deep economic, social, and political quagmire. To escape it, the country needs serious reforms, national unity, and a leadership focused on public welfare. But instead, the path chosen by Narendra Modi’s government is not only misguided—it is dangerously deceptive.

Unemployment is at record highs. Millions of citizens struggle for basic sustenance. Educational institutions are crumbling, and healthcare is woefully inadequate. The youth are slipping into frustration, despair, and sometimes violence. Yet instead of addressing these urgent challenges, the government has chosen to promote a narrative rooted in war, hostility, and fear.

The Modi regime persistently pushes the idea that India’s poverty and deprivation will end only when it defeats its neighboring countries—Pakistan, Bangladesh, and Nepal. By portraying these nations as enemies, it sells the illusion that regional dominance is the key to national prosperity. It’s an emotional, but deeply unrealistic message being drilled into the public consciousness.

The reality is stark: no military pressure on neighbors can cure India’s internal decay. War cries will not turn slums into homes, nor fill the stomachs of the hungry. They will not improve schools, nor stock empty hospitals with medicine.

This narrative is an old political ploy: when a government fails to deliver, it invents external enemies to divert attention from domestic problems. Modi’s government is doing precisely this—keeping the public occupied with manufactured threats while real issues go unaddressed.

The critical question is:
Will defeating Pakistan fix India’s economy?
Will pressuring Bangladesh generate jobs for India’s unemployed millions?

The answer is obvious—no.

The Indian public must come to terms with this truth: the real war is not against its neighbors, but against poverty, ignorance, injustice, and corruption. And if India invests its resources in social welfare instead of military bravado, it might actually rise as a prosperous and respected nation.

Otherwise, the current path leads only to destruction, not only for india but for her neighbourers.