بدھ، 11 جون، 2025
سورہ البلد ایت 13
طاق اور دیا
1980
کی سخت گرم مئی کا مہینہ تھا، اور ملک تھا کویت، جہاں درجہ حرارت کی گرمی انسان کو عاقبت یاد دلا دیتی تھی۔ میرے دوست عبدالباسط نے مجھ سے سوال کیا، "کل کون مرا ہے؟"
میں نے جواب دیا: "ٹیٹو" – (یعنی مارشل ٹیٹو، یوگوسلاویہ کا صدر)
یہ ایک سادہ مگر بہت بڑی بات تھی۔ ایک سچا عالم ایسا ہی حساس دل رکھتا ہے – وہ علم کو صرف کتب میں نہیں، انسانوں کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ناکامی کو دنیاوی معیار پر نہیں، دعوتِ دین کے تقاضوں پر پرکھتا ہے۔
لیکن افسوس کہ آج علم کا معیار بدل چکا ہے۔ معاشرے میں ایسے "علماء" بھی پائے جاتے ہیں جو علم کو اللہ کی امانت نہیں بلکہ شہرت و دولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا مقصد دلوں کی اصلاح نہیں بلکہ مجمع جمع کرنا، سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھانا، یا کسی سیاسی یا مسلکی طاقت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں نرمی نہیں، لہجہ میں تکبر ہوتا ہے، اور دل میں اخلاص کی جگہ خودنمائی۔
ایسے اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کے اندر عاجزی نہیں آتی، بلکہ تعصب، تنگ نظری اور دوسروں پر تنقید کی عادت پروان چڑھتی ہے۔ ان کے علم سے روحانی پیاس نہیں بجھتی، بلکہ دل مزید خشک ہو جاتا ہے۔ جب علم، دولت کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو وہ بوجھ بن جاتا ہے – نہ وہ عالم خود نجات پاتا ہے، نہ دوسروں کو نجات کی راہ دکھا سکتا ہے۔
معاشرے کے لیے سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ علم کی کرسی پر وہ لوگ براجمان ہو جائیں جو علم کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ جب کردار سے خالی عالم، قوم کی رہنمائی کرے، تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
اس کے برخلاف، سچے علما ہمیشہ حق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہوتی ہے، چہرے پر نور ہوتا ہے، اور کردار میں ایسا خلوص کہ لوگ ان کی محفل سے بدل کر نکلتے ہیں۔ ان کا دکھ بھی حقیقی ہوتا ہے – جیسا عبدالباسط نے مارشل ٹیٹو کے لیے محسوس کیا۔ وہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی ایک دل تک بھی اسلام کی روشنی نہ پہنچا سکے۔
علم ایک نور ہے عالم کے دل میں اترتا ہے البتہ عالم وہی ہے جس کو سن کر، پڑھ کر یا اس کی صحبت میں بیٹھ کر علم اور اخلاق میں بہتری آئے
منگل، 10 جون، 2025
دانت ٹوٹنے کے بعد بھی ۔۔۔
طریقِ ہجرت
طریقِ ہجرت – نبی کریم ﷺ کے مقدس سفر کی یادگار
اسلامی تاریخ کا وہ لمحہ جس نے دنیا کے نقشے پر ایک انقلابی تبدیلی کی بنیاد رکھی، ہجرتِ نبوی ﷺ ہے۔ یہ صرف ایک سفر نہ تھا بلکہ صبر، ایمان، قربانی، اور اللہ پر مکمل بھروسے کی علامت تھا۔ جب مکہ مکرمہ میں اسلام دشمن قوتیں نبی اکرم ﷺ اور آپ کے جانثار صحابہؓ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگیں، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی ﷺ نے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی۔ یہی مقدس راستہ آج "طریقِ ہجرت" کے نام سے تاریخ کے اوراق سے نکل کر ایک زندہ و جاوید حقیقت بن رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں گورنر مدینہ، سلمان بن سلطان، نے طریقِ ہجرت کے عظیم منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ یہ جدید سڑک 470 کلو میٹر طویل ہو گی اور دو رویہ ہوگی تاکہ زائرین اور سیاحوں کو آسانی سے اس روحانی سفر کا تجربہ حاصل ہو سکے۔
یہ سڑک محض ایک سفری سہولت نہیں بلکہ ایک مکمل تاریخی اور روحانی تجربہ ہے۔ اس منصوبے کا سب سے اہم پہلو وہ 41 مقامات ہیں جہاں سیرت سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ یہ سینٹر نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے مختلف مراحل، پیش آنے والے واقعات، اور صحابہ کرامؓ کی قربانیوں کو جدید ذرائع کے ذریعے زائرین کے سامنے پیش کریں گے۔ ان سینٹرز میں تصویری گیلریاں، مجسمے، دستاویزی فلمیں، اور سمعی و بصری ذرائع سے سیرتِ نبوی ﷺ کو اجاگر کیا جائے گا۔
نبی کریم ﷺ کی ہجرت کا راستہ پہاڑوں، وادیوں اور صحراؤں سے گزرتا ہے۔ غارِ ثور کی رات، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ہمراہی، دشمنوں کی تلاش، اور اللہ کی غیبی مدد—یہ سب واقعات آج بھی مسلمانوں کے دلوں کو روشنی عطا کرتے ہیں۔ اب یہی مقامات زائرین کو نہ صرف تاریخی آگاہی دیں گے بلکہ ان کے ایمان کو تازگی بھی بخشیں گے۔
طریقِ ہجرت کے قیام سے نہ صرف مسلمانوں کو سیرتِ نبوی ﷺ کو قریب سے جاننے کا موقع ملے گا بلکہ یہ منصوبہ بین الاقوامی سطح پر اسلامی تہذیب اور تاریخ کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ مدینہ اور مکہ کے درمیان یہ راستہ اب عقیدت، تاریخ اور جدید ترقی کا حسین امتزاج ہوگا۔
War Hysteria: How Modi Is Using Fear to Mask Failure
War Hysteria: Modi Government’s Tactic to Distract from Its Failures
India today finds itself trapped in a deep economic, social, and political quagmire. To escape it, the country needs serious reforms, national unity, and a leadership focused on public welfare. But instead, the path chosen by Narendra Modi’s government is not only misguided—it is dangerously deceptive.
Unemployment is at record highs. Millions of citizens struggle for basic sustenance. Educational institutions are crumbling, and healthcare is woefully inadequate. The youth are slipping into frustration, despair, and sometimes violence. Yet instead of addressing these urgent challenges, the government has chosen to promote a narrative rooted in war, hostility, and fear.
The Modi regime persistently pushes the idea that India’s poverty and deprivation will end only when it defeats its neighboring countries—Pakistan, Bangladesh, and Nepal. By portraying these nations as enemies, it sells the illusion that regional dominance is the key to national prosperity. It’s an emotional, but deeply unrealistic message being drilled into the public consciousness.
The reality is stark: no military pressure on neighbors can cure India’s internal decay. War cries will not turn slums into homes, nor fill the stomachs of the hungry. They will not improve schools, nor stock empty hospitals with medicine.
This narrative is an old political ploy: when a government fails to deliver, it invents external enemies to divert attention from domestic problems. Modi’s government is doing precisely this—keeping the public occupied with manufactured threats while real issues go unaddressed.
The critical question is:
Will defeating Pakistan fix India’s economy?
Will pressuring Bangladesh generate jobs for India’s unemployed millions?
The answer is obvious—no.
The Indian public must come to terms with this truth: the real war is not against its neighbors, but against poverty, ignorance, injustice, and corruption. And if India invests its resources in social welfare instead of military bravado, it might actually rise as a prosperous and respected nation.
Otherwise, the current path leads only to destruction, not only for india but for her neighbourers.