اتوار، 1 جون، 2025

دعوے سے عمل تک







دعوے سے عمل تک

"نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کسی اور نے کیا تھا
لیکن
 نیا پاکستان بنا کے دکھایا شہباز شریف نے۔"


آج پاکستان نہ صرف سفارتی محاذ پر باوقار انداز میں سامنے آ رہا ہے، بلکہ معاشی اور انتظامی میدان میں بھی واضح پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔ جو مخالفین کل تک صرف تنقید کرتے تھے، آج وہ بھی خاموشی سے انجوائے کر رہے ہیں — چاہے وہ آدھے بل ہوں، سستی سبزیاں ہوں یا عالمی سطح پر پاکستان کا اُبھرتا ہوا امیج۔
اب یہ ماننا پڑے گا کہ ملک سنبھل رہا ہے، اور قیادت اگر سنجیدہ، محنتی اور باصلاحیت ہو تو خواب حقیقت بن جاتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی سفارتکاری ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اب ہم امداد کے طلبگار نہیں بلکہ اعتماد کے ساتھ معاہدے کرنے والے فریق بن چکے ہیں:
روس، جو ماضی میں بھارت کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا رہا، آج پاکستان میں 2.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادہ ہے۔
آذربائیجان نہ صرف 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا بلکہ 4.25 ارب ڈالر کے پاکستانی جہاز خریدنے پر بھی آمادہ ہے۔
ڈنمارک سے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی خبر ایک نئے تعلقات کا اشارہ ہے۔
سعودی عرب 56 ارب روپے کے موٹروے منصوبے میں 76 فیصد سرمایہ دے رہا ہے (مانسہرہ تا مظفرآباد موٹروے)۔
یہ سرمایہ کاری صرف رقوم کا تبادلہ نہیں، بلکہ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے نوکریاں، چھوٹے تاجروں کے لیے مواقع اور عام شہری کے لیے خوشحال مستقبل کا دروازہ ہے۔
جہاں پاکستان عالمی سطح پر آگے بڑھ رہا ہے، وہیں بھارت کی کوششیں مسلسل ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں۔
حالیہ مثال ڈنمارک کی ہے، جہاں مودی کا قریبی حواری روی شنکر پاکستان کے خلاف لابنگ کرنے پہنچا تھا، لیکن اوورسیز پاکستانیوں نے ایسا جواب دیا کہ اسے تقریب ادھوری چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
یہ محض واقعہ نہیں بلکہ ثبوت ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں پاکستانیوں کا نکتہ نظر بدلا ہے — اب ہم دفاعی نہیں، جارحانہ سفارتکاری پر یقین رکھتے ہیں۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے 2026 سے 2035 تک کی مدت میں 40 ارب ڈالر کی تاریخی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔
یہ اعلان دراصل عالمی اداروں کے اس اعتماد کا مظہر ہے جو شہباز شریف کی حکومت کی پالیسیوں پر کر رہے ہیں۔
جہاں ایک وقت میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی قسط بھی مشروط ہوتی تھی، آج وہاں ہمیں 10 سال کا اقتصادی روڈمیپ مل رہا ہے۔
یہ تبدیلی صرف بیانات تک محدود نہیں۔ عوام کی زندگی میں عملی تبدیلی آ رہی ہے:
باجوہ، فیض، ثاقب نثار، جاوید اقبال، طاہر القادری، پرویز الٰہی، ملک ریاض اور یہاں تک کہ "طارق جمیل" جیسے کردار — سب بے نقاب ہو رہے ہیں۔
شہباز شریف نے مشکل ترین حالات میں ریاست کو کمزور ہونے نہیں دیا، اداروں سے ٹکر نہیں لی، بلکہ نظام کو بچایا۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران شہباز شریف کا طرزِ عمل ایک سنجیدہ سٹیٹس مین کی جھلک دیتا ہے۔
جب جنگی ماحول گرم تھا، وہ تب بھی محتاط، متوازن اور قومی مفاد میں سوچتے دکھائی دیے۔
لیکن آج کا پاکستان، شہباز شریف کی قیادت میں، وہ ملک ہے جس نے بھارت جیسے بڑے دشمن کو 6 گھنٹے میں خاموشی پر مجبور کر دیا۔
پاکستان آگے بڑھ رہا ہے — آہستہ، مگر مضبوطی سے۔
ایسے میں ہمیں چاہیے کہ انتشار پھیلانے والے بیانیے کو رد کریں، اور ترقی و استحکام کے سفر میں شریک ہوں۔
پاکستان اس وقت سنجیدہ طبقے سے متقاضی ہے کہ سیاسی ؐمخالفت کو جاری رکھیں مگر پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے اس کا ادراک کریں

Charm, Diplomacy, and Whispered Myths: Jacqueline Kennedy and Ayub Khan



In the annals of Cold War diplomacy, few visits stirred as much fascination—and rumor—as Jacqueline Kennedy’s 1962 tour of Pakistan. The elegant First Lady of the United States, adored globally for her poise and grace, arrived in South Asia on a goodwill mission. By the time she left, tongues were wagging—not just about the intricacies of U.S.-Pakistan relations, but about her visible chemistry with Pakistan’s then-President, Field Marshal Ayub Khan.

Their interactions, especially a now-iconic horse ride in Lahore, were widely publicized. Ayub Khan, known for his Westernized outlook and commanding presence, seemed at ease beside the world’s most photographed woman. To the public eye, their connection was warm, perhaps even unusually so for a diplomatic engagement.

It didn’t take long for rumor mills to stir. Whispers emerged of Ayub Khan’s admiration for Jacqueline—some going so far as to suggest he harbored romantic interest, and even outlandish claims of a marriage proposal following President Kennedy’s assassination. These tales were never substantiated. In fact, they likely say more about public fascination with glamour and power than they do about historical truth.

What is real, however, is the context. The 1960s were a pivotal time. Pakistan and the U.S. were strategic allies. Ayub Khan had already received a red-carpet welcome in Washington in 1959 and developed a strong working relationship with John F. Kennedy. Jacqueline’s 1962 tour was designed to strengthen soft diplomacy, and she carried it out with her trademark charm and elegance.

Both Ayub and Jacqueline were symbols of modern leadership in their respective countries—he, the military ruler with Western leanings; she, the cultural icon reshaping the image of First Ladies. Their cordiality made for captivating images and headlines, but not necessarily for scandal.

Ayub Khan, in his memoir Friends Not Masters, spoke fondly of the Kennedys but made no reference to any personal feelings toward Jacqueline. She, too, maintained her characteristic grace, never fueling or addressing the rumors.

In the end, what we’re left with is a snapshot in history: two influential figures sharing a brief moment in time, woven into the fabric of diplomatic history, then wrapped in speculation. But behind the headlines and whispers, the reality remains grounded—built on politics, respect, and the soft power of charm.

As is often the case, the myths may be more tantalizing than the truth. But the truth itself was more than enough to make history.


شیوَنگی سنگھ کی کہانی



 شیوَنگی سنگھ کی کہانی

چھ اور سات

 مئی 2025 کی شب سے بھارتی فضائیہ کی واحد خاتون رافیل پائلٹ، اسکواڈرن لیڈر شیوَنگی سنگھ، اپنی سرکاری اور عوامی نظر سے غائب ہیں۔ یہ وہی دن تھا جب پاک فضائیہ نے بھارتی طیاروں کو تباہ  کیے، جن میں جدید رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ پاکستان کی جانب سے کئی بار واضح کیا گیا ہے کہ ان کی تحویل میں کوئی خاتون پائلٹ نہیں، اور جنگی قیدیوں کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی عسکری اور سول انتظامیہ نے جو شفاف رویہ اختیار کیا ہے، وہ بین الاقوامی معیاروں کے عین مطابق ہے۔ جنگی قیدیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے انسانی ہمدردانہ سلوک کی یقین دہانی، پاکستان کو ایک ذمہ دار عالمی کھلاڑی کے طور پر پیش کرتی ہے۔

 ISPR

 کی جانب سے جو وضاحت سامنے آئی، اس نے عالمی برادری کو پیغام دیا کہ پاکستان کسی قسم کی افواہوں پر عمل نہیں کرتا اور حقائق کی بنیاد پر بات کرتا ہے۔

یہ شفافیت، خاص طور پر ایسے حساس اور پیچیدہ حالات میں، پاکستان کی اخلاقی برتری کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے برعکس، بھارت کی جانب سے مسلسل خاموشی نے شبہات کو جنم دیا ہے کہ کہیں وہ سچائی چھپانے کی کوشش تو نہیں کر رہا۔

عام طور پر، بھارت اپنی دفاعی کامیابیوں کو بڑے جوش و خروش سے میڈیا میں پیش کرتا ہے، خاص طور پر جب بات خواتین پائلٹس کی ہو، جنہیں قومی فخر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ شیوَنگی سنگھ کی اچانک گمشدگی اور اس پر سرکاری اور میڈیا کا مکمل سکوت، کئی سوالات کو جنم دیتا ہے:

  • کیا بھارت اپنے ایک ایسے واقعہ کو چھپانا چاہتا ہے جسے عوام کی نظر میں ایک طاقتور علامت سمجھا جاتا ہے؟

  • کیا یہ خاموشی ممکنہ طور پر بھارت کی فوجی یا سیاسی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے؟

  • اگر شیوَنگی سنگھ محفوظ ہیں تو انہیں فوراً عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو؟

یہ خاموشی ایک ایسا دھندلا پردہ ہے جو بھارتی حکومت کے موقف اور داخلی چیلنجز کو چھپانے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔

یہ واقعہ صرف دو ملکوں کے درمیان عسکری جھڑپ کا موضوع نہیں ہے بلکہ عالمی قوانین، انسانی حقوق، اور جنگی ضوابط کے تناظر میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی برادری اس معاملے پر پاکستانی موقف کو سراہ رہی ہے، جس نے شفافیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ دوسری طرف، بھارت کی غیر واضح پوزیشن اور خاموشی اس کے سفارتی تشخص کو متاثر کر رہی ہے۔

اگر بھارت نے شیوَنگی سنگھ کی موجودگی یا حالات پر روشنی نہیں ڈالی تو یہ عالمی سطح پر بھارت کے خلاف منفی تاثر پیدا کرے گا، خاص طور پر اس وقت جب عالمی ادارے اور انسانی حقوق کے گروپ ایسے معاملات پر سخت نگرانی کر رہے ہیں۔

شیوَنگی سنگھ بھارت کی فضائیہ کی واحد خاتون رافیل پائلٹ تھیں، جو نہ صرف فوجی تکنیکی مہارت کی علامت تھیں بلکہ خواتین کی عسکری خدمات میں ایک نئے باب کا آغاز تھیں۔ ان کا اچانک غائب ہونا بھارت کے فوجی سٹیٹس اور خواتین کے لیے سرکاری حفاظت دونوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

  •  بھارت میں میڈیا عموماً دفاعی معاملات پر سخت حساس ہوتا ہے، مگر اس معاملے میں خاموشی نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ کہیں میڈیا کو بھی دباؤ میں تو نہیں رکھا گیا؟

  •  اس معاملے کی غیر یقینی صورتحال بھارتی عوام میں بے چینی پیدا کر چکی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔

  • پاکستان نے اس معاملے میں جو شفافیت اور احتیاط برتی ہے، وہ نہ صرف جنگی ضوابط کی پاسداری کا ثبوت ہے بلکہ انسانی ہمدردی اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کی دلیل بھی ہے۔ دوسری جانب، بھارت کی یہ غیر معمولی خاموشی تشویش ناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ عوام اور عالمی برادری کو حقائق سے آگاہ کرے اور شیوَنگی سنگھ کے بارے میں اپنے موقف کو واضح کرے۔

یہ مسئلہ صرف ایک پائلٹ کی گمشدگی کا نہیں بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات، عالمی قانون، اور انسانی حقوق کی پاسداری کا بھی معاملہ ہے۔ بھارتی حکومت کی خاموشی کو عالمی برادری مسترد کر رہی ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جلد از جلد اس معاملے کی شفاف اور مکمل وضاحت دے گی۔

پاکستان نے شفافیت کے ذریعے ایک مثالی رویہ اپنایا ہے، جبکہ بھارت کی خاموشی سوالات اور شبہات کو جنم  دے رہی ہے۔ عالمی برادری اور بھارتی عوام دونوں کو حقائق جاننے کا پورا حق ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارت اس صورتحال سے پردہ اٹھائے اور سچ کو سامنے لائے۔


چالیس بلائیں جن سے نبی کریم ﷺ نے اللہ کی پناہ مانگی


چالیس بلائیں جن سے نبی کریم ﷺ نے اللہ کی پناہ مانگی

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ…
اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں:


عجز (کمزوری)
کاہلی
بزدلی
بخل
بڑھاپے سے
دل کی سختی سے
غفلت سے
تنگدستی سے
ذلت سے
محتاجی سے
فقر (غربت) سے
کفر سے
شرک سے
فسق (نافرمانی) سے
شقاق (اختلاف و تفرقہ) سے
نفاق (منافقت) سے
سُمعہ (نام کمانے کی طلب) سے
ریا (دکھاوا) سے
بہرا پن
گونگا پن
دیوانگی (پاگل پن)
کوڑھ
برص (سفید داغ)
بری بیماریوں سے
قرض کے غلبے سے
لوگوں کے ظلم و قہر سے
گناہوں میں مبتلا ہونے سے
دھوکے اور مالی بوجھ سے
تیری نعمتوں کے زوال سے
تیری عطا کردہ عافیت کے چھن جانے سے
اچانک تیری گرفت یا سزا سے
تیری ہر طرح کی ناراضی سے
سخت آزمائش سے
بدبختی کے لاحق ہونے سے
بُرے فیصلے سے
دشمنوں کی خوشی سے (میرے مصائب پر)
ڈوبنے سے
جلنے سے
برے اخلاق سے
ایسی عورت سے جو مجھے بڑھاپے سے پہلے ہی بوڑھا کر دے

زنجیر سے بندھا گلاس






زنجیر سے بندھا گلاس

واٹر کولر کے ساتھ زنجیر سے بندھا اسٹیل کا گلاس ہمارے معاشرے میں کئی برسوں سے بحث کا موضوع ہے۔ یہ ایک معمولی سی چیز ہے، مگر کچھ افراد نے اسے اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی زوال کی علامت بنا رکھا ہے۔ آئے دن بیرونِ ملک مقیم ’’باشعور‘‘ پاکستانیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس گلاس کے سہارے پورے معاشرے پر تنقید کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ تازہ ترین تنقید ایک صاحب نے فرمائی، جنہوں نے صرف پاکستانیوں کو نہیں، مسلمانوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور معاشرتی زوال پر خوب دل کا غبار نکالا۔

یہ رویہ نیا نہیں۔ ہمارے ہاں ایک مکتبہ فکر ہمیشہ سے موجود رہا ہے جسے میں ’’ملامتی پاکستانی‘‘ کہوں گا۔ یہ لوگ اپنی شناخت پر شرمندہ ہوتے ہیں، پاکستانی ہونے پر خود کو ملامت کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس احساسِ جرم میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ہم میں کوئی خوبی نہیں، ہم بحیثیت قوم ناقابلِ اصلاح ہیں، اور جو کچھ بھی ہمیں میسر ہے، وہ کسی ’’اتفاقی حادثے‘‘ کا نتیجہ ہے، ہماری محنت کا نہیں۔

ایسا نہیں کہ پاکستان خامیوں سے پاک ملک ہے۔ ہر باشعور شہری اصلاحِ احوال کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب تنقید کا انداز تعمیری نہیں، محض تحقیر آمیز ہو۔ ایسے ناقدین کی سوچ یہیں ختم نہیں ہوتی؛ یہ کسی فلاحی عمل کو بھی طنز کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔


میرے علاقے کا ایک واقعہ اس رویے کی واضح مثال ہے۔ ایک صاحب نے اپنے گھر کے باہر واٹر کولر نصب کیا۔ ساتھ ایک اسٹیل کا گلاس زنجیر سے باندھ دیا تاکہ وہ گم نہ ہو۔ دوسرے با شعور ہمسائے نے گلاس کی زنجیر کو دیکھ کر تبصرہ فرمایا:
"یہ ہے ہمارا پاکستان جہاں گلاس کو بھی زنجیر سے باندھ کر رکھنا پرتا ہے ۔ دنیا کے کسی اور ملک میں تو ایسا
نہیں ہوتا"
مجھے معلوم تھا اس نے دنیا تو کیا کراچی بھی نہیں دیکھا ہوا

کولر لگانے والے نے بڑی نرمی سے کہا دن کے وقت کولر کے اوپر دھوپ آ جاتی ہے ، کوئی خدا کا بندہ اس پر سایہ ہی کر دے
تنقید کرنے والے کے چہرے پر خاموشی چھا گئی، مگر اگلے ہفتے کولر والے صاحب نے خود ہی ایک سایہ دار درخت لا کر لگا دیا۔ واٹر کولر اب دھوپ سے محفوظ ہے، گلاس محفوظ ہے، اور پیاسوں کی دعائیں اُس نیک دل کو نصیب ہو رہی ہیں۔

یہ وہ فرق ہے جو تنقید اور عمل کے درمیان ہوتا ہے۔ ملامتی پاکستانی صرف زبان سے ملامت کرتے ہیں، مگر جو واقعی بہتری چاہتے ہیں وہ خاموشی سے عمل کرتے ہیں۔ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوں گے، لیکن اثر میں بہت بڑے ہیں۔

ایسا نہیں کہ پاکستان صرف تنقید کا مستحق ہے۔ یہاں بے شمار لوگ ہیں جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔

کہیں لنگر بانٹنے والے ہاتھ ہیں
کہیں خون عطیہ کرنے والے
کہیں تعلیم دینے والی انجمنیں
اور کہیں چھوٹے چھوٹے فلاحی پروجیکٹس
ہمیں اپنی توجہ ان لوگوں پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ جو روز کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں—بنا شور، بنا شہرت۔


 آخر میں، میں بس یہی عرض کروں گا کہ
زنجیر سے بندھا گلاس اگر آپ کو پریشان کرتا ہے تو زنجیر کھولنے کا عملی حل بھی پیش کیجیے۔ تنقید کیجیے مگر تعمیری، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے اندر سے یہ ملامت کا زہر نکالیے۔
یہ ملک ایک نعمت ہے، اور یہاں کے لوگ—جی ہاں، یہی پاکستانی—اصل میں بڑے رحمدل اور جفاکش ہیں۔ ضرورت صرف مثبت سوچ اور مسلسل عمل کی ہے، نہ کہ مسلسل شکایت کی۔