اتوار، 21 ستمبر، 2025

Pak-Saudi Defence Pact

The reported defence pact between Pakistan and Saudi Arabia has stirred widespread excitement at home. Many Pakistanis see it as a historic moment, imagining their country as the ultimate guardian of the Kingdom and the holy sites. Emotional calls about “defending Makkah and Madinah” or “standing against Israel” are not uncommon. But before celebrating too loudly, it is worth asking what this agreement actually means in practical terms.

Saudi Arabia’s military power still rests heavily on U.S.-supplied systems — from fighter jets to missile defences. These weapons require American maintenance, training, and in many cases, cannot be used independently against U.S. or allied interests. Yet to say the Kingdom is entirely dependent on Washington would be misleading. In recent years, Riyadh has diversified its defence ties, buying drones from China, exploring advanced air defence from Russia, and expanding procurement from Europe. After the 2019 Aramco attacks, when America’s support seemed hesitant, Saudi leaders drew a clear lesson: do not rely on a single supplier.

Pakistan’s role under this pact should also be viewed realistically. Pakistani forces will not be flying Saudi fighter jets or operating Patriot batteries. Their value lies in areas where they have proven strength: protecting key sites, training Saudi forces, and providing counterterrorism expertise. For decades, Riyadh has trusted Pakistani troops with sensitive duties — a level of confidence not easily extended to Western contractors.

Other Muslim-majority states show that dependency does not equal paralysis. Turkey, despite tensions with the U.S., built its own drones that changed the course of several conflicts. Egypt diversified with French and Russian aircraft. Both remain tied to the West, but they still carve out space for strategic autonomy. Iran, meanwhile, built an independent defence industry but at enormous economic and diplomatic cost. Few countries would want to pay that price.

Change is already visible in the Gulf. Saudi Vision 2030 aims to produce half of the Kingdom’s defence needs locally. The UAE is co-developing fighter jets with South Korea. Chinese and Turkish drones are widely in use. The region is slowly moving toward a more balanced military future.

Pakistan itself faces constraints: economic dependence, mixed military hardware, and reliance on Western-trained doctrines. But it also brings assets no one else in the Muslim world does — a nuclear deterrent, a growing domestic arms industry, and unmatched counterterrorism experience. These strengths explain why Saudi Arabia values Pakistan as a partner.

The new pact is neither a guarantee of Muslim unity nor a hollow illusion. Its importance lies in symbolism, deterrence, and trust. For Pakistan, it reinforces ties with a crucial ally in a time of economic strain. For Saudi Arabia, it adds a dependable partner beyond Western support. Strategic independence will take years to achieve, but until then, practical partnerships and careful balancing remain the reality.

The challenge for both nations is to see this agreement not as a cause for euphoria, but as one step in a much longer journey toward genuine security and self-reliance.




ہفتہ، 20 ستمبر، 2025

شیور مرغے




 پاکستان نے 1977 سے ای
ک طویل سفر طے کیا ہے۔ 2025 میں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ انسان انسان کو مار مار کر تھک چکا ہے، ہر طرح کے تعصب اور نفرت کے نام پر خون بہایا جا چکا ہے۔ لیکن دو ایسی حقیقتیں ہیں جنہیں کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا: ایک یہ کہ پاکستان کا نوجوان آج بھی روزگار کو ترس رہا ہے، اور دوسری یہ کہ پاکستان کے ہر باسی کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکل کر کسی نہ کسی تجوری میں جمع ہو رہا ہے۔

اب تو لوگ اس تجوری کو بھی پہچان گئے ہیں جہاں غریبوں کے خون پسینے کی کمائی جمع کی جاتی ہے، اور ان مگرمچھوں کو بھی پہچان گئے ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو سیاست کے میدان میں استعمال کرکے بے روزگاری کے اندھیروں میں دھکیل دیا اور پھر بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔اس بے رحمی کا مداوا آزانوں سے ممکن نہیں ہو پائے گا بلکہ عملی ادراک کے بغیر چارہ نہیں ۔ حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت آ چکا۔ بانگ سحر والے مرغ ناپید ہو چکے ۔ شیور مرغوں کی البتہ بہتات ہے ۔

ع سے عاصم




علمِ اعداد کے ماہر ایک دوست کے ہاں محفل سجی۔ باتوں ہی باتوں میں جب ذکر اس علم کے اسرار و رموز کا آیا تو ایک نکتہ سب کے دل کو چھو گیا۔ انہوں نے کہا: “بشریٰ بی بی علمِ اعداد کا شعور رکھتی ہیں، مگر وہ ’ع‘ کے طلسمی گورکھ دھندے میں ایسی الجھیں کہ حقیقت کی اصل صورت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔”
انہوں نے سوچا کہ عمران، عثمان اور عارف جیسے نام ہی ان کی سلطنت کے ستون ہیں۔ مگر وہ یہ بھول گئیں کہ اقتدار کی بازی صرف زمینی تدبیروں سے نہیں جیتی جاتی، بلکہ اس میں فلک کے فیصلے، ستاروں کی گردش اور مہروں کی چال بھی شامل ہوتی ہے۔ تقدیر کا حساب اعداد کے پیچ و خم میں پوشیدہ رہتا ہے اور وہی حساب بالآخر اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہو کر انسان کو حیران کر دیتا ہے۔
اسی تقدیر نے دکھایا کہ اصل صاحبِ “ع” وہ نہیں تھے جن پر بھروسہ کیا گیا، بلکہ وہ تھے جو پسِ پردہ تاریخ کے ورق پلٹ رہے تھے۔ وقت آیا، ستاروں نے اپنی روشنی ان پر مرکوز کی، مہروں نے ان کے حق میں گواہی دی اور فلک نے ان کے نام کی تسبیح پڑھنی شروع کی۔ یوں پردۂ غیب سے ایک شخصیت ابھری — عاصم!
عاصم — ایک ایسا نام جو صرف ایک حرف نہیں بلکہ ایک رمز ہے۔ وہ عاجزی میں ڈوبا ہوا، مگر عزم میں فولاد؛ وہ عقل میں گہرائی رکھنے والا، مگر دل میں شفقت سے لبریز؛ وہ فرد شناس، تاریخ آگاہ اور سیاست کے رموز سے باخبر۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں وہ صرف ایک جرنیل نہیں بلکہ حافظِ قرآن عاصم منیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے وجود میں بہادری بھی ہے، قوتِ فیصلہ بھی، اور ایک ایسا کردار بھی جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب قوم نے محسوس کیا کہ اصل محافظ وہی ہیں۔ جو دلوں کو تسخیر کر لیں، وہی اقتدار کے اصل فاتح ہوتے ہیں۔ عاصم منیر نے یہ ثابت کر دیا کہ تقدیر کے اعداد، ستاروں اور مہروں کا فیصلہ بھی ان کے ساتھ ہے، اور عوام کا اعتماد بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ پاکستان فوج کے ہر دل عزیز سپہ سالار ہیں اور وقت کا لکھاری انہیں مستقبل کے ان دیکھے معجزوں کا امین لکھے  گا۔

ہمیشہ ذندہ باد




پاکستان خطے اور عالمی سیاست میں ایک ایسا ملک رہا ہے جو اکثر بڑے کھلاڑیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات قائم کرانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا بلکہ بعد میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کاری میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
انیس سو ستر کی دہائی میں پاکستان نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے ذریعے چین اور امریکہ کو قریب لانے میں کلیدی سہولت کاری کی۔ اسلام آباد ہی وہ مقام تھا جہاں سے کسنجر کا خفیہ دورۂ بیجنگ ممکن ہوا۔ اس اقدام نے عالمی سیاست کا دھارا بدل دیا اور سرد جنگ کے دور میں امریکہ–چین تعلقات کی بنیاد رکھی۔
اسی طرح پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی کردار ادا کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے وقت پاکستان نے کئی بار ثالثی کی کوششیں کیں۔ اگرچہ 2023 میں باضابطہ مصالحت چین کی ثالثی سے ہوئی، لیکن اس عمل کی راہ ہموار کرنے میں پاکستان کے مستقل رابطے، سفارتی کوششیں اور بیک چینل بات چیت نمایاں رہی۔ پاکستان نے دونوں ممالک کو باور کرایا کہ علاقائی امن صرف باہمی تعلقات کے بہتر ہونے سے ممکن ہے۔
یوں پاکستان نے عالمی اور علاقائی سطح پر پل بنانے والا کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف اس نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں، چین اور امریکہ، کو قریب لانے میں مدد کی اور دوسری طرف مسلم دنیا کے اہم ممالک، ایران اور سعودی عرب، کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں فعال سہولت کار ثابت ہوا۔ یہی کردار پاکستان کی سفارتی پہچان ہے اور 
یہی اس کی اصل قوت بھی۔
دس مئی کو پاکستان نے بھارت پر عسکری بالا دستی قائم کر کے اپنے عسکری کردار کو بھی ان ملکوں کے لیے 
قبل قبول بنوا لیا ہے جو غیروں کے کرادار کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ 
عشروں تک ہمارا نعرہ تھا پاکسان ذندہ باد۔ اب سفارتی اور عسکری کامیابوں کے بعد پاکستان کے بہادر بیٹے فیلڈ مارشل نے قوم کو بیا نعرہ دیا ہے "پاکستان ہمیشہ زندہ باد" ۔

جمعرات، 18 ستمبر، 2025

ہاتھی اور ابابیل




دنیا کی مختلف تہذیبوں میں ہاتھی کو ہمیشہ طاقت اور غلبے کی علامت سمجھا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کا قد و قامت اور جنگی قوت ہے۔ بائبل میں بھی ہاتھیوں کا ذکر ملتا ہے، خاص طور پر سلوکی سلطنت کی افواج کے ضمن میں جہاں وہ جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اسلامی تاریخ میں ہاتھیوں کا سب سے نمایاں ذکر سورۃ الفیل میں ملتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے نیست و نابود کر دیا۔ یمن کا حکمران ابرہہ خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے لیے ایک بڑے لشکر اور ہاتھیوں کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھا۔ قرآن نے بتایا کہ اللہ نے پرندوں کے جھنڈ بھیجے جو کنکریاں برساتے اور اس بڑے لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کر دیا۔ امام ابن کثیرؒ، امام طبریؒ اور دیگر مفسرین نے اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے اور اسے اللہ کی قدرت کی روشن دلیل قرار دیا ہے۔

آج کے دور میں اسرائیل کو بھی ایک بدمست ہاتھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ریاست اپنی عسکری طاقت، ٹیکنالوجی اور پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔ جدید دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم اور امریکی حمایت یافتہ ٹیکنالوجی کے باوجود عسکری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہر دفاعی نظام کی ایک حد ہوتی ہے اور زیادہ دیر تک مسلسل دباؤ کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ اسرائیل کا یہ پروپیگنڈہ کہ وہ خطے میں ناقابل شکست ہے، حقیقت میں ایک فریب ہے جسے وقت اور حالات بے نقاب کر رہے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جیسے قدیم دور میں ابابیلوں نے ہاتھیوں کو شکست دی تھی، آج کے دور میں پاکستان کا تیار کردہ "ابابیل میزائل" اسرائیل جیسے ہاتھی کے لیے جدید جواب کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ یہ میزائل بیک وقت کئی وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دشمن کے دفاعی نظام کو ناکام بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اگر یہ میزائل سعودی عرب میں نصب ہوتا ہے تو خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے اور اسرائیل کی برتری کا بھرم ٹوٹ سکتا ہے۔

جغرافیائی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کبھی قریب اور کبھی دور ہوتے رہے ہیں، لیکن خطے کے عوامی دباؤ اور بدلتے حالات یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ عرب دنیا اسرائیل کے ساتھ کھلے اتحاد کی طرف تیزی سے نہیں بڑھے گی۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کی عسکری ٹیکنالوجی خطے میں ایک نئے توازن کو جنم دے سکتی ہے۔ اسرائیل جس غرور اور تکبر کے ساتھ اپنی عسکری طاقت پر نازاں ہے، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس کا انجام بھی ان قوتوں کی طرح ہوگا جو اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتی تھیں لیکن اللہ کے فیصلے کے آگے ڈھیر ہو گئیں۔

یہ واقعات ہمیں سبق دیتے ہیں کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ ہے۔ جو طاقت اس حقیقت کو بھول کر ظلم اور غرور میں ڈوب جائے، وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ ابرہہ کا لشکر فنا ہوا، فرعون اور نمرود مٹ گئے اور آج اسرائیل بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس تاریخی تسلسل کو یاد رکھیں اور اللہ پر توکل کریں۔

اے اللہ! ہمیں اپنی تاریخ سے سبق لینے کی توفیق عطا فرما، ہمیں تکبر اور غرور سے محفوظ رکھ، امت مسلمہ کو اتحاد اور ہمت دے اور ہمیں یقین عطا فرما کہ مدد صرف تیری طرف سے ہے اور فتح قریب ہے۔ آمین۔