اسرائیل کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" حکمتِ عملی
"تقسیم کرو اور حکومت کرو" (Divide and Rule) کی پالیسی انسانی تاریخ میں نوآبادیاتی طاقتوں کا پرانا ہتھیار رہا ہے۔ برطانوی سامراج نے برصغیر میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے کر طویل حکومت کی، جبکہ روم کے حکمرانوں نے یونانی ریاستوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر انہیں محکوم بنایا۔ تاہم، جدید دور میں اگر کسی ریاست نے اس پالیسی کو بڑی چالاکی اور تسلسل سے استعمال کیا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔
اسرائیل نے اپنے وجود کے بعد جس انداز میں مسلم دنیا میں قومیت، مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے بیج بوئے، وہ خالصتاً ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کا حصہ تھا تاکہ مسلم دنیا متحد نہ ہو سکے۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے اُن اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے مسلم دنیا کو تقسیم کیے رکھا:
1۔ عرب و عجم اختلافات کو ہوا دینا
عرب و عجم اختلاف کا تاریخی پس منظر قدیم دور سے موجود رہا ہے، لیکن اسلام نے ان امتیازات کو مٹا دیا تھا۔ بدقسمتی سے جدید دور میں ان اختلافات کو ایک بار پھر اجاگر کیا گیا، خصوصاً سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی کشیدگی کے ذریعے۔
اسرائیل نے ان اختلافات کو اپنی بقا کا ذریعہ بنایا۔ ایران کے انقلابِ اسلامی کے بعد مغربی میڈیا نے اسے "شیعہ خطرہ" بنا کر پیش کیا، جس سے سنی عرب ریاستیں خوف زدہ ہوئیں۔ اسرائیل نے اس فرقہ وارانہ بیانیے کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر تقویت دی، تاکہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہیں۔
2۔ کرد ریاست کا تصور
کرد، مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جن کی اپنی کوئی باقاعدہ ریاست نہیں۔ اسرائیل نے کردوں کی آزادی کی تحریک کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسے خفیہ طور پر عسکری امداد بھی فراہم کی۔ 1960 کی دہائی میں عراق کے کردوں کو موساد نے ٹریننگ دی اور ہتھیار فراہم کیے۔
2017 میں جب عراق کے کردوں نے آزادی کے لیے ریفرنڈم کروایا تو اسرائیل وہ واحد ملک تھا جس نے اس کا کھل کر خیرمقدم کیا۔ اس کا مقصد واضح تھا: عراق جیسے مضبوط مسلم ملک کو کمزور کر کے اسے اندرونی طور پر تقسیم کرنا۔
3۔ سعودی-ایرانی اختلافات کو شدت دینا
اسرائیل کا سب سے بڑا فائدہ سعودی عرب اور ایران کے باہمی تناؤ سے ہوا۔ جب بھی دونوں ممالک کے بیچ تعلقات میں بہتری کا امکان پیدا ہوتا، اسرائیل یا اس کے حلیف کوئی ایسا واقعہ ترتیب دیتے جس سے کشیدگی دوبارہ بھڑک اٹھے۔
مثلاً 2016 میں ایرانی مظاہرین کی جانب سے سعودی سفارتخانے پر حملہ ہو یا یمن جنگ، ان تمام واقعات میں اسرائیلی تھنک ٹینکس نے دونوں فریقوں کی سوچ کو مزید سخت بنانے میں کردار ادا کیا۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ سعودی عرب اور ایران کا اتحاد خطے میں اسرائیلی مفادات کے لیے تباہ کن ہو گا۔
4۔ دروز کمیونٹی کی اسرائیل نوازی
دروز ایک منفرد مذہبی کمیونٹی ہے جو لبنان، شام، اردن اور اسرائیل میں موجود ہے۔ اسرائیل نے دروز کو اپنے معاشرے میں ضم کر کے انہیں دیگر عرب اقلیتوں سے الگ رکھا، حتیٰ کہ اسرائیلی فوج میں بھی دروز نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔
اس حکمت عملی سے اسرائیل نے عرب اتحاد کے ایک اور ممکنہ دھارے کو الگ کر دیا، اور دروز کمیونٹی کو ایک مخصوص شناخت دے کر عرب مسلم قوم پرستی سے کاٹ دیا۔ دروز اسرائیلی دفاعی اسٹیبلشمنٹ میں بطور انٹیلی جنس ایجنٹس اور افسران بھی موجود ہیں۔
5۔ عرب دنیا میں چھوٹے چھوٹے تنازعات کو بڑھاوا دینا
اسرائیل نے نہ صرف سعودی-ایرانی یا کرد-عرب اختلافات کو بڑھایا بلکہ مصر-ترکی، شام-اردن اور لبنان-خلیجی ممالک کے درمیان بھی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ اسرائیلی میڈیا اور تھنک ٹینکس ان تمام تنازعات میں بطور پروپیگنڈہ مشینری کام کرتے رہے۔
نتیجہ: امت کی وحدت کے خلاف ایک منظم مہم
اسرائیل کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" پالیسی نے صرف فلسطین پر قبضے کو قائم نہیں رکھا، بلکہ پورے خطے میں مسلم اتحاد کو ممکن نہ بننے دیا۔ قومیت، فرقہ، نسل اور زبان کے نام پر تقسیم شدہ مسلمان آج بھی اسرائیل کو ایک مشترکہ دشمن تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔
جب تک مسلم دنیا تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی اور اتحاد و شعور کی راہ اختیار نہیں کرتی، اسرائیل جیسی ریاستیں اپنے مفادات کے لیے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالتی رہیں گی۔